آج جب دنیا کی قومیں ’’مسلمان‘‘ کو __
ایک اجتماعی واقعے کے طور پر __ صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں... ہمیں کچھ ایسے بےطرح unprecedented ’اسلامی‘ افکار کا سامنا ہے جو ہماری ’’مسلم
اجتماعیت‘‘ پر اندرون سے حملہ آور ہیں۔ اس نئے ڈسکورس کی رُو سے: شریعت نہ کسی
’’مسلم ملک‘‘ کی متقاضی ہے اور نہ کسی ’’مسلم امت‘‘ کی۔ نہ مسلمانوں
کی ’’مقامی وحدت‘‘ ہرگز ہرگز دین کا کوئی تقاضا؛ اور نہ ’’عالمی وحدت‘‘!
صرف اتنا نہیں کہ یہ ٹولہ ’’خلافت‘‘ ایسی
کسی غیرموجود چیز کے قیام پر ہی معترض ہے۔ نہیں۔ اسلام کے نام پر اگر آپ
کوئی ’’ملک‘‘ ہی بنا بیٹھے ہیں اور اپنی اس حرکت کو آپ نے اسلامی زندگیگزارنے
کا کوئی تقاضا سمجھ لیا تھا تو بھی اسلام کے اِن نئے مبلغین کے نزدیک آپ ایک صریح
جہالت کے مرتکب ہوئے۔ یہ خیال کہ اسلامی زندگی گزارنے کےلیے آپ
کو کافروں سے آزاد ایک جداگانہ ملک کی
ضرورت ہے جہاں ریاستی عمل خدا کی عبادت کرنے اور کروانے کا پابند ہو،
یہ تصور ہی اِن حضرات کے نزدیک شریعت کے خلاف ہے۔ بلکہ فساد کا پیش خیمہ۔ مسلمان
نام کی دنیا میں کوئی قوم بھی ہوتی ہے، انسانوں کی کسی اجتماعی وحدت کی بنیاد ’’دین‘‘ بھی ہو سکتا ہے، یہ بات ہی اِن کے نزدیک
فرسودہ ہے۔ چینلوں پر حاوی یہ طبقہ، جس کی بات عام آدمی کو ذرا مشکل
سے سمجھ آتی ہے، تکلف سے کام نہ لے، تو ’’نظریۂ پاکستان‘‘ پورے کا پورا اِس کے
ڈسکورس کی رُو سے باطل اور لغو ہے؛ کیونکہ نظریۂ پاکستان کے تحت اسلامیانِ
ہند نے:
ü اپنی اجتماعی پہچان
دنیا میں ’’مسلمان‘‘ کے طور پر کروائی تھی؛ اور اس کے علاوہ ہر پہچان مسترد کر دی
تھی۔
ü ’’قوم‘‘ (یعنی اپنی
اجتماعیت) کی بنیاد ’’دین‘‘ کو مانا تھا۔
ü پھر اس بنیاد پر؛ یہ
’’مسلمان قوم‘‘ ہندو سے علیحدگی اختیار کرنے چل دی تھی۔ (دورِتہذیب میں ایسی
پسماندہ حرکت!)
ü نیز اپنی اجتماعی
زندگی اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کےلیے؛ اس نے ایک علیحدہ خودمختار ’’ملک‘‘
کا تقاضا کر ڈالا تھا۔
یہ سب باتیں اِس نئی
’اسلامی تحقیق‘ کی رُو سے بےبنیاد ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ نہ کوئی امت ہوتی ہے۔ نہ کوئی ملک
ہوتا ہے۔ اور نہ کوئی قوم ہوتی ہے۔ ’’مسلمان‘‘ کی یہ سب حیثیتیں اس کے نزدیک شریعت
کی غلط تفسیرات کا نتیجہ ہے! اسلام کا کل تعلق ’’فرد‘‘ سے ہے... اور بس!
اُن تمام اسلامی تحریکوں اور
کوششوں کو فساد کی جڑ ٹھہراتے ہوئے جو اسلام کےلیے کسی ملک یا
ریاست کی بات کرتی رہی ہیں، اور جن میں بلاشبہ تحریک پاکستان بھی آتی
ہے... اِن کے ایک ٹولے نے روزنامہ جنگ کے اسٹیج سے اپنا ایک نیریٹو narrative بھی جاری کر ڈالا۔ جس
پر پوری قوم چیخ کر رہ گئی۔ قریب قریب ہر دینی طبقے کی جانب سے اس پر شدید ترین
ردعمل آ چکا۔ یہ نیریٹو narrative ان گنت موضوعات پر جماعۃ المسلمین کی راہ سے انحراف کےلیے
سنگ بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تاہمزیرِنظر کتابچہ اِس فتنے کی صرف ایک جہت سے بحث
کرتا ہے اور وہ ہے اس کا ’’مسلم اجتماعیت‘‘ کے خلاف اٹھایا
ہوا کہرام۔
ہماری یہ گفتگو ’’اسلام میں فردپرست نظریات کے پھیلاؤ‘‘ پر عمومی جہت سے ہے۔
وحیدالدین&المورد چونکہ اس تحریک کے روح رواں ہیں لہٰذا
کہیں کہیں اس کا خصوصی ذکر آگیا ہے۔ ورنہ یہ گفتگو ’’فردپرست نظریات کے فروغ‘‘ پر
ایک عمومی سیاق ہی میں کی گئی ہے۔
*****
یہ درست ہے کہ شریعت کی دعوت دینے
والا سیکٹر اس وقت اپنی تاریخ کی مشکل ترین صورتحال سے گزر رہا ہے: ایک طرف شدت
پسندوں کا افراط اور غلو؛ تو دوسری طرف جدت پسندوں کی تفریط اور جفا۔شدت پسندوں کی جانب سے فراہم کرائے گئے اس
’نادر موقع‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے؛ جدت پسند بلاشبہ شیر ہوگئے
اور اپنا مدعا کھل کر کہنے لگے ہیں۔ نیز لبرلزم دندنانے لگا۔ لیکن ہر واقعہ
کوئی نہ کوئی خیر بھی لاتا ہے۔ ہماری نظر میں لبرلوں اور جدت پسندوں کی چھیڑی ہوئی
ان بحثوں سے شریعت کے داعیوں کے ہاں یہ موضوعات ان شاءاللہ کچھ مزید نکھر آئیں گے }خصوصاً احکامِ اضطرار
اور احکامِ اصلیہ کے مابین فرق کرنے کی بابت (اس کا کچھ بیان فصل ’’جماعت و
امارت... فقہاء کا پیراڈائم‘‘ میں ہوا ہے){۔
پس کیا بعید اہل غلو
کی اٹھائی ہوئی اس گرد کے بیٹھ جانے کے ساتھ ہی جب یہ لبرل بھی منظرنامے سے غائب ہو جائیں گے (ان شاءاللہ)، تب
شریعت کے داعی طبقے کسی روشن شاہراہ پر کھڑے ہوں؛ اور کیا بعید نہایت
تھوڑے وقت میں ہم یہاں ایک نیا زوردار قافلہ اسلامیانِ ہند کو پار لگانے کے عزم کے
ساتھ رواں دواں دیکھنے لگیں۔ وما ذلك على الله بعزيز
*****
زیادہ تر، یہ ہماری
گزشتہ تحریروں کے منتخب حصے ہیں، جو کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ یہاں دیے جا رہے
ہیں۔ چند اقتباسات ہماری ان تحریروں سے بھی ہیں جو اپنی ترتیب سے مستقبل کی کسی
اشاعت میں آنا تھیں۔ افادۂ عام کی خاطر؛ یہ مختصر مضامین ہیں۔ تفصیل میں جانے کی
گنجائش اغلباً کسی بھی فریق کے پاس نہیں ہے!
*****