ایک رکاکت بھری (naïve) عربی کا سہارا لیتے ہوئے اہل مورد کی جانب سے
بار بار ’نکتہ‘ بیان کیا جاتا ہے: قرآن نے کہا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ
إِخْوَةٌ ’’مومن
آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘، یہ تو نہیں کہا: المؤمنون
قومٌ واحد!
گویا لفظِ ’’قوم‘‘ اُس زمانے میں ’’نیشن‘‘ کے معنیٰ میں استعمال
ہوتا بھی تھا!
’’نیشن‘‘ کے معنیٰ میں تو لفظ ’’قوم‘‘ آج بھی عربی میں
مستعمل نہیں! اور نہ اس سے پہلے کبھی رہا ہے! اور قرآنِ مجید ظاہر ہے عرب اور عربی
میں نازل ہوا ہے!
اور ویسے یہ ضروری کیا ہے کہ دورِ حاضر میں بنا لی گئی ایک
چیز، پوری کی پوری، عین اپنے اس ’جدید‘ مفہوم کے ساتھ قرآن میں آئے؟ اور ذرا
کاریگری دیکھیں: چونکہ قرآن میں ’’المؤمنون قومٌ واحدٌ‘‘ کے لفظ نہیں آئے، لہٰذا
شرق تا غرب مسلمانوں کا ایک سیسہ پلائی قوت اور وحدت (الجماعۃ) ہونا دین کا تقاضا
ہی نہیں!
ایک مربوط شناخت کی حامل انسانی وحدت کےلیے شرعی نصوص
میں ’’الجماعۃ‘‘
کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کہیں مختصر طور پر
’’الجماعۃ‘‘ اور کہیں پورا لفظ ’’جماعۃ المسلمین‘‘۔ نصوص کا تتبع کریں تو کہیں یہ ’’قوم‘‘ کے قریب
قریب معنیٰ میں آتا ہے (جو ایک نظریہ پر کھڑی ہو)، کہیں ’’ریاست‘‘ کے قریب قریب
معنیٰ میں، تو کہیں ایک مستحکم مجتمع سیاسی وسماجی قوت کے معنیٰ میں۔
(’’الجماعۃ‘‘ کے
مفہوم پر ہم نے اپنی زیرتالیف کتاب ’’ابن تیمیہ کی خلافت و ملوکیت پر تعلیقات‘‘
میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے؛ یہاں اِس مختصر وضاحت پر ہی اکتفاء کریں گے)۔
سنت اور سلف سے قرآنی آیت وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا کی جو تفسیر ملتی
ہے وہ بھی ’’الجماعۃ‘‘ ہے... جو ہمارے آزاد خیال ’مفسرین‘ کو شاید مشکل سے قبول
ہو۔
دراصل مغرب
میں پروان چڑھنے والے نظریۂ فردیت individualism کا اثر ہمارے جدید تعلیم یافتہ ذہن نے بھی
اچھا خاصا لیا ہے۔ چنانچہ یہ
ذہن آیتِ مذکورہ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے ’’جمیعاً‘‘ کا معنیٰ ’’اکٹھے‘‘ یا ’’جماعت بن کر‘‘ کی بجائے ’’سب لوگ‘‘ کرنے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ تاکہ مراد یہ
ہوجائے کہ: ’’سب لوگ‘‘ اللہ کی رسی
(قرآن) سے چمٹ جاؤ۔ پھر یہ ’’سب
لوگ‘‘دیکھتے ہی دیکھتے ’’ہر آدمی‘‘ سے بدل جاتا ہے۔ یعنی ’’ہر آدمی‘‘ (اپنے
اپنے طور پر!!!) اللہ کی رسی (شرعِ قرآنی) کو مضبوطی سے تھام لے! یوں ’’جماعت‘‘ کا معنیٰ مکمل طور پر گول ہوگیا؛ اور قرآن کے
اُس مقام پر بھی جہاں (از روئے حدیث و
ازروئے تفسیرِ سلف) ’’جماعت‘‘ کا حکم دیا گیا، نظریۂ فردیت individualism ثابت ہوگیا! سلف قرآن کے اِس مقام پر
’’الجماعۃ‘‘ کے مباحث بیان کرتے رہ گئے؛ اور ہمارے ماڈرن مفسرین کا خیال کہ آیت
یہاں ’الگ الگ‘ انسان سے مخاطب ہے!
آیت کی تفسیر از روئےحدیث: الجماعۃ
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں ایک ہی
مضمون پر دو حدیثیں ایک ساتھ لے کر آئے ہیں:
عَنْ أَبِي
هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:
إنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا: أَنْ
تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ
اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا، وَأَنْ تناصحوا مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ
أَمْرَكُمْ (صحیح مسلم 1715)
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اللہ کو تمہارے لیے تین باتیں پسند ہیں: یہ کہ تم اس کی عبادت کرو بغیر اس کے کہ
اُس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک کرو۔ اور یہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی
سے چمٹ جاؤ اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔ اور یہ کہ جن لوگوں کو اللہ نے تمہارا
حکمران بنایا ہے ان کا وفادار و خیرخواہ
رہو۔
عَن ابْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ:
إخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاصَحَةُ وُلَاةِ الْأُمُورِ وَلُزُومُ
جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ. (أحمد 13350، ابن ماجۃ
3056، صححہ الالبانی عن زید بن ثابت)
عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت سے
روایت ہے، کہ نبیﷺ نے فرمایا:
تین باتیں ایسی ہیں کہ ان کا پابند مسلمان
دل کا پاپی نہیں ہوتا: عمل کو خالص اللہ کےلیے کرنا۔ اولیاء الامور کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی۔
آپ دیکھتے ہیں، دونوں حدیثوں میں من و عن ایک سا مضمون ہے:
ý
ابوہریرہ
والی حدیث میں فرمایا: اَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا۔ عین یہ
چیز ابن مسعود والی حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آگئی: إخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ۔
ý
ابوہریرہ
والی حدیث میں فرمایا: وَأَنْ تناصحوا مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ أَمْرَكُمْ۔ عین
یہی بات ابن مسعود والی حدیث میں یوں آگئی: وَمُنَاصَحَةُ وُلَاةِ الْأُمُورِ۔
ý
ابوہریرہ والی حدیث میں جو بات ان
الفاظ میں آئی: وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا
وَلَا تَفَرَّقُوا۔ عین وہی بات عبد اللہ بن مسعود والی
حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آگئی: وَلُزُومُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِينَ۔
اب لامحالہ کسی امتی سے نہیں بلکہ خود
نبیﷺ سے ثابت ہوگیا کہ آیت ’’وَاعۡتَصِمُوا
بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعاً‘‘ کی
تفسیر ’’لُزُومُ جَمَاعَةِ
الْمُسْلِمِينَ‘‘ ہے }نہ کہ
’اپنے اپنے طور پر قرآن مجید سے تعلق قائم کرنا‘ (جس پر آلِ وحید الدین خان کا پورا تصورِ دین
کھڑا ہے){۔
آیت کی تفسیر از سلف وائمہ متقدمین: الجماعۃ
مفسر
طبری ’’حبل
اللہ‘‘ کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن مسعود سے بیان کرتے
ہیں: الجماعۃ۔ (دیکھئے
آل عمران کی اس آیت کے تحت طبری کی تفسیر)۔ ابن عبدالبر اس پر اپنی تقریر دیتے ہوئے کہتے
ہیں:
وَحَبْلُ اللَّهِ فِي هَذَا
الْمَوْضِعِ فِيهِ قَوْلَانِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ وَالْآخَرُ الْجَمَاعَةُ
وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَامٍ وَهُوَ عِنْدِي مَعْنَى مُتَدَاخِلٌ مُتَقَارِبٌ
لِأَنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالْأُلْفَةِ وَيَنْهَى عَنِ الْفُرْقَةِ
اس مقام
پر ’’حبل اللہ‘‘ کی تفسیر میں (سلف سے) دو قول آتے ہیں: ایک یہ کہ اس سے مراد ہے
کتاب اللہ۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد ہے جماعت (مسلمانوں کا ایکا کر کے رہنا)۔ جبکہ
جماعت بغیر امام کے ممکن نہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں معنے ایک دوسرے کے اندر داخل
ہیں اور باہم قریب ہیں؛ کیونکہ کتاب اللہ
کا اپنا حکم یہ ہے کہ (مومن) ایک ہوں اور ٹولہ ٹولہ ہونے سے ممانعت ہے۔
ابن
عبدالبرؒ اپنی اِس تقریر پر (کہ یہ دونوں معنے ایک دوسرے میں داخل ہیں) دلیل دیتے
ہیں کہ خود عبداللہ بن مسعودؓ دو الگ الگ مواقع پر ’’حبل اللہ‘‘ کی تفسیر میں
یہ دو قول بیان کرتے ہیں۔ (التمھید مؤلفہ ابن عبد
البر: 21: 269)
اوپر
شروع میں مذکور عبد اللہ بن مسعود والی حدیثِ مسلم کی شرح میں، امام نووی لکھتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَفَرَّقُوا فَهُوَ أَمْرٌ بِلُزُومِ جَمَاعَةِ
الْمُسْلِمِينَ وَتَأَلُّفِ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَهَذِهِ إِحْدَى
قَوَاعِدِ الْإِسْلَامِ (شرح النووی لصحیح مسلم حدیث 1715)
(حدیثِ
مذکورہ میں) نبیﷺ کا یہ فرمان کہ ’’ٹولے مت بنو‘‘: دراصل یہ جماعۃ المسلمین کو
لازم پکڑنے کا حکم ہے اور یہ کہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ مل اپنی شیرازہ بندی
کریں۔ اور یہ اسلام
کے بنیادی پایوں میں سے ایک پایہ ہے۔
*****
ویسے بھی آپ دیکھ لیں،
قرآن وہ شریعت ہی نہیں ہے جسے ہر شخص
’اپنے اپنے طور پر‘ تھام لے تو وہ تھامی جائے؛ قرآنی شریعت (حبلُ اللہ) کو
’’تھامنے‘‘ کیلئے کرۂ ارض پر پھیلی ایک مربوط انسانی وحدت درکار ہے۔ (زیرِ تالیف کتاب، فصل
’’واعتصموا بحبل اللہ کی تفسیر‘‘، شائع ایقاظ اپریل 2014)