دو کروڑ یہودی ارب ارب کی امتوں کو کیسے نگلے؟
|
:عنوان |
|
|
دو کروڑ کی ایک قوم اربوں افراد پر مشتمل قوموں اور امتوں کو ہڑپ کرنا چاہے تو اسکی کیا صورت ہو؟ (وہی لکڑہارےکی کہانی!) اسکی "گٹھے" والی حیثیت ختم کردو؛ پھر جب اسکی ’تیلیاں‘ ہوجائیں تو جیسےمرضی ان پر شوق پورا کرو! |
|
|
اس مسئلے کی ایک اور جہت بھی تھی..
یہودی جوکہ حالیہ ’گلوبلائزیشن‘ کا روحِ
رواں ہے، دنیا کی سب سے چھوٹی اور سب سے ذلیل قوم ہے؛ یعنی کل دو کروڑ کی ایک امت
جو ہمارے کراچی یا قاہرہ جیسے ایک شہر میں آجائے۔ اب سوال یہ تھا کہ دو کروڑ کی
ایک قوم اربوں افراد پر مشتمل قوموں اور امتوں کو ہڑپ کرنا چاہے تو اس کی کیا صورت
ہو؟ (وہی لکڑہارے کی کہانی!) اس کی ’’گٹھے‘‘ والی حیثیت ختم کردی جائے؛ پھر جب اس
کی ’تیلیاں‘ ہوجائیں تو جیسے مرضی ان پر اپنا شوق پورا کرو! چنانچہ یہود کو موجودہ عالمی سیناریو میں
اس بات کی بطورِ خاص ضرورت تھی کہ عالمی ذہن سازی عمل میں وہ دنیا کے اندر individualism کو فروغ دیں البتہ
خود ایک وحدت کے طور پر قائم رہیں۔ صرف اسی طریقے سے دو کروڑ کی ایک ’وحدت‘ اربوں
’پتنگوں‘ پر مشتمل اقوام کو بڑے آرام سے ہضم کر سکتی تھی۔ یہاں سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں، برصغیر پاک
و ہند کا یہ ’دبستان‘ یہاں کیسی بروقت پیش رفت تھی! (ہمارے مضمون
’’اصلاحِ فرد کیلئے پریشان طبقوں کی خدمت میں‘‘ سے اقتباس) ہمارے خصوصی شمارہ
’’مسلم اجتماعیت..
جدت پسند حملوں کی زد میں‘‘ کا حصہ دوم : الجماعۃ سے متعلقہ
چند مباحث
|
|
|
|
|
|