سیاسہ شرعیہ... اور قصۂ موسیٰ
و خضر
قَالَ
إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا
کہا: بے
شک تو نہ قدرت پائے گا میرے ساتھ صبر کرتے جانے کی
سیاستِ شرعیہ میں بہت سے مسئلے ایسے ہو سکتے ہیں جو
بظاہر بڑےبڑے ’غلط‘ نظر آنے والے ہوں۔
موقع پر ان کی وضاحت بھی نہیں کرنا ہوتی! البتہ ان پر
عملدرآمد موقع پر ہی ضروری ہوتا ہے! یعنی سمع و طاعت۔
چنانچہ سوال موقع پر پیدا ہوتے ہیں... مگر ان کے جواب
تاخیر کے ساتھ دیے جاتے ہیں؛ اور تب ایک بڑی فہم و فقہ سامنے آتی ہے!
*****
موسیٰ و خضر (علیھما السلام) کے قصے میں علماء نے صراحت
کی ہے:
صرف ایک بچے کے قتل والا واقعہ ہی مخصوص طور پر
الٰہی امر تھا (آدمی کےلیے ازخود ایسا تصرف کرنا جائز ہی نہیں)۔ رہے باقی دونوں
واقعے (کشتی میں نقص ڈالنا اور دیوار کی تعمیر) تو یہ دونوں سیاستِ شرعیۃ کے شواہد
میں سے ہیں؛ اور ایسے معاملات کا حکم دیگر لوگوں کے حق میں باقی ہے۔
(شیخ سعد بن مطر العتیبی) http://goo.gl/MzKHAL، http://goo.gl/VuTPNw
*****
پس اصل بات عالم کے علم
اور حاکم (شرعی) کی تدبیر پر اعتماد ہے۔
اگر ایک عالم کا علم قابل
اعتماد ہے، اور منہج اہل سنت پر اس کی دسترس ہے، خوارج یا دیگر انحرافات سے دامن
بچا رکھا ہے... تو ’’حکمتِ عملی‘‘ سے متعلق سب سوالوں کے جوابات اُس سے موقع پر
پانا ضروری نہیں ہے۔