(قانون
ناموسِ رسالت... مسئلہ ’فقہی بحث‘ سے بڑا ہے ) 3/4
شاتمِ رسول کو سزائے موت، کس سطح پر!
البتہ شاتم رسول کو سزائے موت دینا اصلاً ریاست اسلامی (امام) کے
فرائض میں آتا ہے۔ افراد کو اگر امام حکم دے تو وہ اس کے پابند ہوں گے۔
بغیر حکم کے بھی؛ افراد کا شاتم رسول کو قتل کرنا
نصوص سے ثابت ضرور ہے۔ لہٰذا علماء کی ایک تعداد کے نزدیک مخصوص حالات میں؛ افراد
کے حق میں بھی، اس کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھیں۔ یا زیادہ سے
زیادہ ؛ ایک فرد کو اس بات کی سزا دی جائے گی کہ اُس نے امام (ریاست) کا حق کیوں
مارا؛ جبکہ امام اُسے اپنا
وہ حق معاف بھی کر سکتا ہے یا اس
پر کوئی ہلکی پھلکی سزا بھی دے سکتا ہے۔
یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی، اور اس پر جذبات میں آنا غیرضروری
ہے، کہ وہ علماء بھی، جو شاتم رسول کو سزائے موت دینے پر یک آواز ہیں، افراد کے اِس مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں
لے لینے کے موضوع پر... یہ علماء بھی مختلف الآراء ہیں۔ ان میں سے علماء کی
ایک بڑی تعداد اِس مسئلہ کو ’’امام‘‘ کی سطح پر ہی رکھتی ہے۔ ’’فرد‘‘ کو یہ حق
نہیں دیتی۔ غرض یہ مسئلہ ان سب کے ہاں متفق علیہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر اگر کوئی
عالم ’’افراد‘‘ کو یہ حق دینے کا روادار نہیں ہے، تو یہ چیز باعثِ تعجب یا باعث
طیش نہیں ہونی چاہئے۔
پھر اِس ’’استطاعت یا عدم استطاعت‘‘ کا اعتبار بھی بہت پہلوؤں سے
ہوتا ہے، کیونکہ ’استطاعت‘ میں ایک فعل کے مضمرات بھی دیکھے جاتے ہیں کہ آیا
آپ ان سے نمٹ سکتے ہیں یا نہیں۔ اس وجہ سے مغرب میں رہنے والے اہل علم کی آراء اِس
مسئلہ پر شدید حد تک مختلف ہو سکتی ہیں۔ جہاں ایسے فعل کے مضمرات اسلام کے حق میں
شدید حد تک نقصان دہ نظر آتے ہوں وہاں ایک عالم کی نظر میں یہ فعل دین کا
تقاضا نہ ہوگا؛ لہٰذا وہ افراد کو اس سے روک بھی سکتا ہے؛ جیساکہ رسول اللہﷺ کئی
ایک اصحاب کو ایسے کسی اقدام سے روک دیتے رہے تھے؛ باوجودیکہ اصولاً اس کی گنجائش
تھی۔
البتہ اگر ہم یہ کہیں کہ سبھی علماء ’’افراد‘‘
کو یہ حق دینے کے خلاف ہیں، خواہ ایک فرد کو کیسے ہی حالات میں نبیﷺ کی ناموس کیلئے کوئی
کارروائی کر جانا پڑے.. تو یہ بات بھی غلط ہوگی۔
غازی علم الدین شہید وغیرہ ایسے ایشو بھی اسی بنیاد پر سمجھے جا سکتے ہیں؛ یعنی بعض کےنزدیک اس کی گنجائش کسی غیرمعمولی صورتحال میں ہوگی اور بعض کے نزدیک نہیں۔ اگرچہ ہردو، شاتم رسول کےلیے سزائے موت ہی کا
مسلک رکھتے ہیں۔
الصارم المسلول کی ایک تقریر:
فمن كان من المؤمنين بأرض هو فيها مستضعف، أو في وقت هو فيه مستضعف،
فليعمل بآية الصبر والصفح عمن يؤذي الله ورسوله من الذين أوتوا الكتاب والمشركين۔
وأما أهل القوة، فإنما يعملون بآية قتال أئمة الكفر الذين يطعنون في الدين، وبآية
قتال الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون.
(الصارم المسلول ص 221، ط الحرس الوطنی السعودی)
پس مسلمانوں میں سے جو لوگ ایسی سرزمین میں ہوں جہاں وہ حالتِ ضعیفی
سے گزر رہے ہوں، یا کسی ایسے وقت سے گزر رہے ہوں جب ان پر حالتِ ضعیفی طاری ہو، تو
انہیں چاہئے وہ ان آیات پر عمل کرلیں جن میں اللہ و رسول کو اذیت دینے والے اہل
کتاب اور مشرکین کے ساتھ صبر و درگزر کرنے کا کہا گیا ہے۔ رہے اہل قوت، تو وہ صرف
اُس آیت پر عمل کریں گے جو دین پر طعن کرنے والے ائمۂ کفر کے خلاف قتال کا حکم
دیتی ہے، نیز وہ آیت جو اہل کتاب کے ساتھ قتال کا حکم دیتی ہے جب تک کہ زیرنگیں ہو
کر جزیہ دینا قبول نہ کرلیں۔
حالتِ مکہ سے استدلال
جہاں تک مکہ کے واقعات کا تعلق ہے، تو ایسے سوالات مسئلۂ جہاد
پر بھی اسی طرح وارد ہو سکتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک چیز ابھی دین میں آئی ہی
نہیں تھی (مکہ کے اندر)۔ البتہ ہم بات کر رہے ہیں اس وقت کی جب ایک چیز دین میں آ
چکی ہے۔ یہاں ’’مکہ‘‘ کو دلیل بنانا وہ روٹ ہوگا جو بہت سے فرائض کے اسقاط پر
پہنچا کر دم لے گا، کچھ لوگوں کا ’’حالتِ مکہ‘‘ کی سحرانگیزی طاری کرکے ہمیں عین
وہاں پہنچا آنا باقاعدہ مقصود بھی نظر آتا ہے۔ واضح رہے: ہمارے ائمہ و فقہاء
’’حالتِ مکہ‘‘ کو کئی ایک معاملہ میں دلیل کے طور پر لیتے ضرور ہیں مگر
’’استطاعت و عدم استطاعت‘‘ کا تعین کرنے کے باب سے نہ کہ ’’تشریع‘‘ کے باب
سے۔ ’’تشریع‘‘ کے باب میں، ’’حالتِ مکہ‘‘ پر ضد کرنا، البتہ اِسقاطِ فرائض،
تعطیلِ شریعت اور الحاد تک جا سکتا ہے۔ یہ ایک معلوم امر ہے کہ ’’تشریعات‘‘ کا ایک
بڑا حصہ اترا ہی مدینہ میں ہے۔ اِس ’’تشریع‘‘ کی سوئی کو ’’مکہ‘‘ پر روک دینا اور ’’مدینہ‘‘ پر اس کو
صرف وہاں جانے دینا جہاں آپ کی فکری اھواء اجازت دیں، اسقاطِ شریعت کی
شاہراہ ہے۔
اب ’ذمی‘ ہی نہیں تو تحفظِ ناموسِ رسالت بھی نہیں!
کتبِ فقہ میں یہ چیز ذمی کے ساتھ ہے؛ بہت خوب! اس کا مطلب ہے کہ
کتبِ فقہ کی تقسیماتِ کافر (یا تقسیماتِ انسان) کو آپ تسلیم کرتے ہیں۔ اس
صورت میں آپ پر ضروری ہو جائے گا کہ ایک زیربحث انسان کو کتبِ فقہ میں بیان شدہ
اقسامِ انسان میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق کریں اور اُسی کا حکم اُسے دیں۔ ہم تو
اسے ذمی ہی کے ساتھ ملحق کرتے ہیں۔ آپ بتائیے آپ کتبِ فقہ کی تقسیمات میں سے کس کے
ساتھ اُسے ملحق کرتے ہیں؟ آخر کسی کے ساتھ تو ملحق کریں گے نا۔ ورنہ ان کتب کا
حوالہ ہی نہ دیں۔
حیرت کی بات ہے کہ جب کسی عیسائی یا ہندو کے ساتھ ہمارے ان ممالک میں
کبھی کبھار کوئی زیادتی ہو جاتی ہے (اور جوکہ یقیناً منع ہے؛ شریعت میں بلاشبہ اس
پر سخت وعیدیں آئی ہیں) تو ہمارے یہی حضرات ہمیں وہ احادیث اور ان میں وارد وہ
عیدیں سنانے لگتے ہیں جو ذمی کے ساتھ حسنِ سلوک کو فرض ٹھہراتی اور ان کے حقوق کو
پامال کردینے کو کبیرہ گناہ قرار دلواتی ہیں۔ کیا وہاں یہ لوگ اپنی ’نیشن‘ کے
عیسائی یا ہندو اجزائے ترکیبی کو احادیث میں وارد ’’ذمی‘‘ کے ساتھ ملحق نہیں
کرتے؟ (گو اصل حقیقت یہی ہے کہ ’’ابو حنیفہ‘‘ اور ’’احادیث‘‘ کی ضرورت
ان کے وہاں پڑتی ہے جب ایک بات ان کی اپنی اھواء کو قبول ہو؛ ورنہ دین ان کے نزدیک
نہ ’’ابوحنیفہؒ‘‘ سے ملتا ہے اور نہ
’’احادیث‘‘ سے ثابت ہوتا ہے! جوکہ اِن لوگوں کی بابت ایک معلوم حقیقت ہے)۔
(مضمون
کا اگلا حصہ: ’’قانون ناموس رسالت کے خلاف سرگرم طبقے اور عشقِ ابو حنیفہ‘‘)