قانون ناموسِ رسالت کے خلاف
سرگرم طبقے اور
’’عشقِ ابو حنیفہؒ‘‘...!
ٹھیک ہے یہ ہم مانتے ہیں )گو یہ گفتگو صرف طلبۂ علم کے
سامنے کرنے کے روادار ہیں( کہ: ایک ذمی شاتم رسول کے قتل پر سب فقہاء متفق نہیں ہیں۔
اگرچہ متاخرہ ادوار کے جماھیر فقہاء کی رائے یہ ضرور ہے؛ اور ہمارے اِس خطہ میں تو
یہ تمام مسالک کا متفقہ طور پر اختیار کردہ موقف ہے، جس کو محض کچھ مٹھی بھر جدت
پسندوں کی فرمائش پر کباڑ میں پھینک آنا کسی بھی اصول سے درست نہیں ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ کے قول پر
ہی چلنے کی ضد ہے... تو کیا امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول جس پر آپ ہمیں چلانا چاہتے ہیں، متفق
علیہ اور مُجمَع علیہ ہے؟؟؟ بھئی جب اختلاف ہے، تو فقہاء کی آراء میں سے کوئی ایک
رائے ہی تو اختیار کی جائے گی، وہ ہم نے کر لی، مسئلہ کہاں ہے؟
اور کیا امام ابو حنیفہؒ کی ’’اِس‘‘ رائے پر اصرار کرنے والوں
کا موقف یہ ہے کہ ’ہم تو سختی کے ساتھ فقہ حنفی پر کاربند بلکہ خاص قولِ ابوحنیفہؒ
کے پابند ہیں، لہٰذا کسی مسئلہ پر ہمارے لیے امام ابو حنیفہؒ کے قول سے خروج کرنا
جائز ہی نہیں ہے‘!!!؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ تو بھئی ہم نے فقہاء کی آراء میں سے
ایک رائے کو، اور نصوص کے اَفہام میں سے ایک فہم کو لےلیا۔ ایک مختلف فیہ
مسئلہ میں آخر ایسے ہی تو کیا جاتا ہے کہ آپ اپنی علمی تسلی کر کے کوئی ایک رائے
اختیار کر لیں، نیز ایک اجتماعی مسئلہ میں کسی خطہ کے اندر موجود مسالک کے مابین
اس پر زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرلیں۔ وہ ہم نے کر لی۔ مسئلہ اب ہے کیا؟
کیا
ایسا تو نہیں کہ آپ کی اس ’غیرمعمولی‘ پریشانی کا مصدر کچھ اور ہو؟!
پھر... ’’مرتد کی سزا‘‘ پر یہ سب عشقِ ابو حنیفہ
یکلخت کہاں چلا جاتا ہے؟
جہاں تک ہماری بات ہے... تو اصولاً، اس میں ہمیں
کوئی مسئلہ نہیں اگر کسی ملک میں امام ابو حنیفہ کے قول پر بھی عمل اختیار کر لیا
جاتا ہو؛ اور شاید بعض مسلم ملکوں میں ایسا ہو بھی۔ جب یہ سب ہمارے فقہاء ہیں تو ان میں سے کسی بھی فریق کی رائے اختیار کرنے
میں آخر مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے اِس خطہ کے علماء و فقہاء بھی آخر بچے تو نہیں ہیں۔
البتہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ ہم
اس فقہی اختلاف کی فائل عین اِس وقت کھولنے کیوں نہیں دے رہے؟
اس لیے کہ جو لوگ ہمارے ساتھ فی الوقت اِس
مسئلہ پر اختلاف کر رہے ہیں وہ ہمارے ساتھ محض کسی ’’فقہی اختلاف‘‘ پر نہیں کھڑے
ہوئے۔ وہ تو ان سب معاملات کو لے جانا ہی کسی اور ڈگر پر چاہ رہے ہیں۔ ان کا
تو سورس آف انسپائریشن source of inspiration واضح طور پر کچھ اور ہے، نہ کہ ہمارے فقہاء۔ پھر
ان کے پیچھے، اور اردگرد، ایجنڈا ہی کچھ اور ہے؛ اور جوکہ ایک اندھے کو بھی نظر
آتا ہے۔ کسے معلوم نہیں، ناموسِ رسالت کے مسئلہ میں گلوبل ولیج کے لہجوں کی
تشکیل اِس وقت یہاں کے سب بند توڑ رہی ہے۔ لہٰذا ہم تو اپنے اِس
بند میں ذرہ بھر شگاف ڈالنے کی اجازت اِس موقع پر نہیں دیں گے۔ یہاں کوئی
سوئی کے ناکے برابر شگاف بھی اِس وقت اگر ہماری طرف سے قبول کر لیا گیا، تو یہ
پورا بند چلا جائے گا۔ لہٰذا فی الوقت تو ہم اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانے
دیں گے۔ سیلاب کی جو طغیانی اس وقت ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، اس کے
پیش نظر کوئی ترمیمی اور فنی رد و بدل بھی اس وقت ہم اپنے اس بند کے حق
میں مہلک ہی جانیں گے۔ ہاں اس منحوس ’عالمی فرمائش‘ کو ایک بار مایوس و مردود
کرکے ہم اپنے یہاں سے رخصت کر لیں، اور یہاں کا ماحول اپنے اُسی فقہی ڈھب پر
لے آئیں، جہاں ہمارے سب فیصلے واقعتاً ہمارے ہی فقہاء کرتے ہوں، تب ایسی کسی فقہی
بحث کی فائل کھولنے پر ہمیں ہرگز کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ لہٰذا اِس وقت تو ہم ان
’فقہی‘ نکتوں کو بھی ہرگز خوش آمدید نہیں کہیں گے، نہ اِن بحثوں کی حوصلہ افزائی
کو ہرگز ہرگز کوئی صحت مند عمل جانیں گے۔ ہاں یہ چیز جب کوئی ’گلوبل بستی کی
فرمائش‘ نہیں رہے گی، اور محض ایک ’’فقہی مسئلہ‘‘ رہ جائے گی، تب معاملہ
اور ہے۔
فی الحال تو اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک
صاحب جن کے پہلو میں کھڑی بیگم صاحبہ اپنے پورے
پورے بازو، آدھی کمر اور پنڈلیاں برہنہ کیے ہوئے، اور زلفوں کی بھرپور نمائش کر رہی ہوں، آپ کے ساتھ یہ بحث شروع کریں کہ
چلیں چہرہ اور دونوں ہاتھ کھولنا تو فقہاء کی ایک تعداد کے نزدیک جائز ہے
نا! ہم اس کو ظاہر ہے یہی جواب دیں گے: جس وقت یہ بیگم صاحبہ صرف چہرے اور ہاتھ کے
پردے پر آنے کےلیے تیار ہوں، وہ بحث ہم اُس وقت کرلیں گے، ابھی آپ ہمیں صرف
بےپردگی کی مذمت کرنے دیں؛ فی الوقت مسئلہ ’فقہی بحث‘ سے بڑا ہے!
(ختم شد)