نفس کو سرزنش
اے نفس! تجھے زعم ہے دانائی کا، پر تیری حماقت حد سے بڑھی ہے۔ جانتا ہے آگے دائمی بہشت ہے یا ابدی دوزخ،
دونوں میں سے کسی ایک میں تو گیا کہ گیا؛
پھر بھی تیرے قہقہے نہیں تھمتے۔ ہنس ہنس کر برا حال ہوا جاتا ہے۔ شغل میلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ کیسا بڑا فیصلہ ہے جو
تیرے بارے میں ہوا کہ ہوا؛ اور تو کس بے پروائی سے یہاں کھیل تماشے میں مگن ہے! قیامت دور ہے یا قریب، مگر تو تو
پکڑنے والوں کے نرغے میں آج آیا یا کل!
پتہ ہے... موت اچانک ہی آ
پکڑتی ہے؛ اس نے آج تک کسی کے پاس قاصد نہیں بھیجا۔ کسی کو وقت نہیں
دیا، جگہ نہیں بتائی۔ کیا وہ جوانوں کو چھوڑتی ہے؛
صرف بوڑھوں کو اٹھاتی ہے؟ ایک جگہ سے اس کا گزر ہوتا ہے اور دوسری جگہ سے اُسے کوئی پرہیز ہے! موت تو موت ہے میرے عزیز!
اس نے کبھی گرمی کی پروا کی ہے نہ جاڑے کی۔
دن کا فرق کیا اور نہ رات کا۔ بچپن کا اور نہ بڑھاپے کا۔ اتنا دانا ہے تو کیوں اس موت کےلیے تیاری میں مصروف نظر نہیں آتا؟
اگر تیری یہ دیدہ دلیری اس وجہ سے ہے کہ تجھے لگتا ہے خدا تجھے دیکھ نہیں رہا، تو تیرا کفر کتنا سنگین ہے!؟ اور اگر یہ سب کچھ،
یہ علم رکھتے ہوئے ہوتا ہے کہ وہ
تجھے دیکھ رہا ہے، تو ڈھٹائی کی حد ہے! حیف تجھ پر اے نفس! تیرا کوئی ماتحت تجھے
ناراض کرنے والا کام تیری آنکھ کے سامنے کرے، بلکہ تیرے اپنے مرتبے کا شخص تجھے ناخوش کر دینے والا کام کرے، تو دیکھ تو اس پر
کس قدر برہم ہوتا ہے۔ تو پھر کس جرأت کے ساتھ روز تو خدا کی پکڑ
کے منہ میں سے ہو کر آتا ہے؟ یا تجھے زعم ہوا ہے کہ تجھ میں خدا کا عذاب سہہ
لینے کی ہمت ہے؟؟؟بےوقوف! کہاں!!! یہ محض تیری جہالت اور بے ہودگی ہے جو اُس ذاتِ
بے نیاز کی پکڑ تجھے معمولی نظر آنے لگی ہے۔
تو پھر کبھی تجربہ کرلے: چلچلاتی دھوپ میں گھنٹہ دو گھنٹے کھڑے ہو کر دیکھ لے۔ آگ میں انگلی ڈال کر ذرا روک لے؛
پتہ چل جائے تجھ میں خدا کا عذاب سہنے کی ہمت اور طاقت کتنی ہے!
یا پھر خدا کے فضل اور کرم کی
بابت کسی فریب کا
شکار ہو بیٹھا! یا تجھے کسی نے بہکایا کہ وہ تیری
اس عبادت و ریاضت سے بے نیاز ہے؟! اچھا تو پھر
یہ بتا، خدا کے فضل اور کرم پر تیرا یوں سہارا کرنا ایک آخرت کے معاملہ میں ہی کیوں ہے؟
اپنے دنیا کے مسئلے خدا کے فضل وکرم پر کیوں نہیں چھوڑ لیتا؟ یہاں؛ دنیا کے اندر؛
کسی دشمن یا کسی آفت
سے اپنا تحفظ کرنے کےلیے جہان بھر کا سازوسامان اکٹھا کرتا ہے! اِس مسئلہ کو تو خدا
کے کرم اور رحمت پر کبھی نہیں چھوڑتا! دنیا کی کوئی ضرورت لاحق ہوتی ہے یا کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے، جسے پورا
کرنے کےلیے روپیہ دھیلا
پاس ہونا لازم ہو، تو اس کے حصول میں کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتا اور اس کو پانے کےلیے کیا کیا جتن نہیں کرتا؟
یہاں خدا کا مہربان
ہونا اور اُس کا کرم اور اُس کا فضل تجھے کیوں بھول جاتا ہے؟ یہاں؛ خدا پر بھروسہ کرنے کا کوئی ایسا مفہوم تو کیوں
نہیں گھڑ لیتا کہ وہ تیری اس دنیوی
ضرورت کےلیے خود ہی کہیں سے کوئی خزانہ ٹپکا دے گا یا کسی مخلوق کو لا
کہیں سے مامور کر دے گا جو تیری خدمت میں بھاگتی پھرے اور تجھے ہاتھ پیر مارنے کی
حاجت ہی نہ رہنے دے! یا پھر تیرا خیال ہے اللہ رب العزت آخرت میں کریم ہے دنیا میں نہیں؟ حالانکہ تجھے معلوم ہے وہی آخرت
کا رب اور وہی
دنیا کا۔ اور تو نے اس کا فرمان بھی سن رکھا ہے: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى”یہ
کہ نہیں ہے
واسطے انسان کے مگر وہی جس کی اس نے سعی کی ہو“۔
حیف تجھ پر اے نفس! تیرا نفاق
کس قدر عجیب اور تیرے دعوے کس قدر کھوکھلے؟ زبان سے دعویٰ کہ تو ان باتوں پر ایمان رکھنےوالا ہے مگر نفاق کی علامات تیرے
انگ انگ سے ظاہر۔ تو نے کبھی دیکھا کہ تو
نے معاملے کو کس طرح الٹ دیا؟ کیا پروردگار نے دنیا کے معاملے میں یہ نہیں فرما رکھا: وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ
رِزْقُهَا ”نہیں کوئی جاندار سطح زمین پر مگر اس کا رزق اللہ
پر ہے“؟ اور آخرت کے معاملے
میں یہ نہیں فرما رکھا: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ” نہیں ہے واسطے انسان کے مگر وہی جس کی اس نے سعی
کی“؟ چنانچہ دنیا میں تیرے رزق کا
اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔ مگر تو نے اپنے رویے سے اس بات کو جھٹلایا اور دنیا کو پانے کےلیے ہر ہر حد سے گزر
جانا روا کرلیا۔ جبکہ تیرے
آخرت کے رزق کا اس نے ہرگز کوئی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کو تجھی پر اور تیری ہی کمائی پر چھوڑ دیا۔ مگر تونے طلب
آخرت سے یوں بے پروائی اور حقارت کے
ساتھ منہ موڑ رکھا ہے گویا یہ تیری ضرورت ہی نہیں۔ یہ ایمان کی علامت تو نہیں!
حیف تجھ پر اے نفس! کوئی
یہودی طبیب اگر تجھے یقین دلائے کہ کوئی ایسا
کھانا جو تجھے دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر مرغوب ہے کسی خاص مرض کی وجہ سے اب تیرے لئے زہر قاتل ہے تو اسے چھوڑ
دینے میں تو ہرگز کوئی بحث نہ کرے
گا۔ تجھے اپنی خواہش سے کتنی بھی جنگ کرنی پڑے، تو ضرور کرے گا۔ تو کیا پھر اے ظالم نفس! وہ باتیں جو انبیاءتجھے بتا کر گئے اور اپنی صداقت پر لاتعداد معجزات کو تیری خرد کیلئے دلیل بنا کر گئے، کیا اس یہودی طبیب کے قول برابر بھی نہیں جو محض اپنے ظن اور تخمین سے تجھے ایک خبر
دیتا ہے؟!!
عجیب تو یہ ہے کہ ایک چھوٹا
بچہ بھی اگر تجھے بتائے
کہ تیرے کپڑوں میں کوئی بچھو چلا جارہا ہے، تو کبھی دیکھا ہے وہ کپڑا تو کس تیزی کے ساتھ دور پھینکتا ہے؟ کبھی
اس بچے سے تو نے بچھو کے چلنے کی
’دلیل‘ پوچھی؟ کبھی کوئی ’تاویل‘ کی؟ کبھی کوئی ’خیال‘ ظاہر کیا؟
تو کیا پھر سب کے سب انبیاء،
سب کے سب علماء، سب
کے سب حکماءاور سب کے سب اولیاءکا ایک بات کہنا تیرے نزدیک اس چھوٹے بچے کی بات جتنا بھی وزن نہیں رکھتا جو
خرد مندوں کی صنف میں بھی مشکل سے
شمار ہو؟ یا پھر خدا کی دہکائی ہوئی وہ دوزخ اپنی تمام تر ہولناکیوں، اپنی ستر ستر ہاتھ لمبی زنجیروں، سر پھوڑنے والی
گرزوں، اپنے تھور، اپنی
پیپ اور کچ لہو، اپنی راکھ کردینے والی لو، اپنے ناگوں اور بچھوؤں سمیت تیری نظر میں دنیا کے اس بچھو جتنی بھی توجہ کے
لائق نہیں.... جو اگر تجھے لڑ بھی گیا تو اس کا درد تجھے دو دن
محسوس ہوگا یا بڑی حد چار دن؟؟؟!!!
کیا خرد مندی کی یہی باتیں
ہیں؟ تجھ خرد مند کی یہ حالت
تو چوپایوں سے کہی جائے تو اے نفس، وہ ہنس ہنس کر بےحال ہوں!
(امام غزالی/ ایمان کا سبق)