مغرب کا ’آزادیِ اظہار‘
حقیقت یا ڈھکوسلہ؟
ڈاکٹر احمد دغشی/ ابن علی
تیسری دنیا کی دانشوری۔
صبح شام ایک ہی گردان: صاحب! مغرب کو آپ اپنے گز لے کر کیوں ماپنے چل دیے۔ وہ
ہمارے معیاروں کا پابند تھوڑی ہے۔ ’آزادی‘ کےلیے مغرب نے بڑی قیمت دی ہے۔ آپ
اندازہ تو کریں ایک ملک نے اپنی بنیاد ’آزادی‘ پر رکھی ہے؛ بھلا وہ اس پر کیسے
سمجھوتہ کرلے! ’حقِ اظہار‘ پر ہی پابندی
لگا دے! ٹھیک ہے ہمیں اپنے نبیؐ کی ناموس عزیز ہے۔ لیکن مغرب سے ایک تقاضا کرنے سے
پہلے آپ کو چاہئے مغرب کو پوری طرح سمجھیں۔ جو بات اُس سے مانگنے کی ہو وہ مانگیں۔
کسی شخصی آزادی پر قدغن لگانا اُس کے ہاں تصور کرنے کی چیز ہی نہیں؛ بھلا آپ کیسے
اُسے ایک بات پر مجبور کر سکتے ہیں!
کیا واقعی!
مغرب میں ’آزادیِ اظہار‘
کی ایک جھلک تو ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں؛ آپ کو معلوم ہو جائے گا، مسئلہ صرف زور
اور دھونس کا ہے؛ خواہ وہ جس کے پاس بھی ہو۔ ہمارے یہ تھرڈ ورلڈ دانشور اتنا بتا
دیں... مغرب میں جس کے پاس اپنے مقدسات کی ناموس بچانے کےلیے ’یہودی‘ جتنا پیسہ،
اثر و رسوخ یا اداراتی دھونس نہ ہو، وہ کیا کرے؟
یہ آپ کا امریکہ ہے۔ یہاں
کا ایک بہت بڑا ٹی وی نیٹ ورک برطانیہ کے ایک نامور صحافی رابرٹ فِسک کی تیارکردہ ڈاکومنٹری چلانے سے صاف معذرت
کرلیتا ہے۔ بھلا کس لیے؟ رابرٹ فسک کی یہ ڈاکومنٹری امریکہ میں موجود صہیونی لابی کا
غصہ بھڑکا دے گی! یہ صیہونی لابی بھی ٹی
وی نیٹ ورک کو صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ ڈاکومنٹری چلنے کی صورت میں وہ اپنے مہنگے مہنگے اشتہارات واپس لے لی گی! بس پھر
کیا تھا؛ ڈاکومنٹری یہ جا وہ جا! اِس ڈاکومنٹری کا عنوان ہی اتنا دلچسپ تھا کہ آپ
کو باقی کہانی کی سمجھ خودبخود آجاتی ہے: "Why Muslims Have Come to Hate the West."۔ ’’مسلمان مغرب سے اتنی نفرت کیوں کرنے لگے‘‘؟ اس سوال کا سادہ
جواب رابرٹ فسک کی ڈاکومنٹری میں یہ دیا گیا تھا کہ یہود کے ناجائز نخرے اٹھاتے
چلے جانے کے باعث مغرب ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اپنا دشمن بنا بیٹھا ہے۔ بھلا یہ
ڈاکومنٹری امریکہ میں کیسے چل سکتی ہے؟!
تھوڑی دیر کےلیے آپ فرض
کرلیں، کچھ مسلمان تنظیمیں عطیات اکٹھے کر کے اس ڈاکومنٹری کی امریکہ میں نمائش کا
پروگرام بنا لیتی ہیں، اگر آپ ’امریکہ‘ سے واقف ہیں، تو بس یہ بات تصور کرنے کی
ہے، ان مسلمان تنظیموں کےلیے وہاں کیسےکیسے مصائب ’تخلیق‘ کیے جاتے ہیں، اور ان
تنظیموں میں کام کرنے والے مسلمانوں کے track
record سے
کیسےکیسے ’دہشتگرد‘ ہونے کے شواہد یکلخت سامنے آ کھڑ ہوتے ہیں۔ عدالتی سے پہلے
میڈیا ٹرائل ہی کے ذریعے کس طرح ان کی جان نکال دی جاتی ہے! ہر مسلمان کو معلوم ہے
اس وقت امریکہ اور یورپ میں دن گزارنے کےلیے اس پر کیا شروط عائد ہیں؟ صاحبو! کہاں
ہے آزادی اور فیئر پلے fair
play؟ ہمارے یہ نام نہاد دانشور مغرب میں رہ کر
مغرب کے نظریات کے خلاف چند روز بول کر دکھائیں، انہیں ایک تو مغرب میں پائی جانے
والی ’آزادی‘ کا معنیٰ سمجھ آجائے گا۔ دوسرا، اِن کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ مغرب
کو ’’جاننے‘‘ کا اِن کا دعویٰ کتنا درست ہے!
واضح رہے رابرٹ فسک 1995
میں برطانیہ کا ’سب سے اچھا صحافی‘ ہونے کا ایوارڈ لے چکا ہے؛ پیشہ ورانہ بنیادوں
پر کوئی ایسا گیا گزرا آدمی نہیں؛ بس بات ذرا کھل کر کر جاتا ہے؛ ’آزادی‘ کے ماحول
میں!
امریکیوں سے کبھی یہی پوچھ
لیں، نعوم چومسکی، جسے مغرب کا سب سے بڑا مفکر تسلیم کیا جاتا ہے، کو وہاں ٹی وی
پر کیوں نہیں آنے دیا جاتا؟ شاذ و نادر ہی کبھی کسی ٹی وی کو جرأت ہوتی ہے کہ اسے
اپنے کسی پروگرام میں لے لے۔ صرف اس لیے کہ چومسکی ایک اسرائیل مخالف یہودی ہے اور
اسرائیل کے خلاف سخت نظریات رکھتا ہے؛ اور بولنے سے بھی نہیں جھجکتا۔ صرف نظریات
رکھتا ہے؛ کوئی گولہ بارود نہیں! مگر یہ طمطراق آزادی نعوم چومسکی کا بوجھ نہیں
اٹھا سکتی! 1972 میں نعوم چومسکی کی کتاب کی ڈسٹری بیوشن کتاب کے چھپ جانے کے بعد روک
دی جاتی ہے؛ یہاں تک کہ مارکیٹ سے اس کی کاپیاں اٹھوا دی جاتی ہیں؛ کیونکہ پبلشنگ
کمپنی پر یکدم ’عیاں‘ ہوتا ہے کہ کتاب میں کچھ ایسا مواد ہے جو کچھ ’بااثر‘ طبقوں
کو ناراض کردینے کا باعث بن سکتا ہے! یعنی کوئی مافیا ملک میں اتنا ’بااثر‘ ہو تو
اس کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی! پیسہ ہو تو جیسی مرضی دھونس کرلیں؛ آپ کے
پاس پیسہ نہیں، آپ کارپوریٹ سیکٹر کی ڈوریاں نہیں ہلا سکتے؛ اور لوگوں کو کچھ
’خطرناک‘ عواقب کا کھٹکا نہیں دلوا سکتے تو البتہ آپ کو ناراض کردینے والے ’آزادیِ
اظہار‘ کا انہیں پوراپورا حق ہے! ورنہ ’آزادیِ اظہار‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتا!
1995 میں امریکی کانگرس کے
سپیکر نیوٹ گنگرچ Newt Gingrich گانگرس کی کارروائی نویس خاتون کرسٹینا جیفری
کو ایک لمحہ میں معزول کر کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ بھلا کس بات پر؟ تاریخ پر ماہر
مانی جانے والی اس خاتون کی بابت انکشاف ہوگیا تھا کہ 1986 میں وہ ہولوکاسٹ پر نشر ہونے والے ایک تعلیمی پروگرام پر
اپنی رائے دیتے ہوئے صرف اتنا جملہ کہہ بیٹھی تھی کہ ’نازی پوائنٹ آف ویو‘
کو بیان ہونے کا جتنا موقع دیا جانا چاہئے تھا پروگرام میں وہ نہیں دیا گیا! صرف
اتنا جملہ سرزد ہوجانے پر، کرسٹینا بی بی نوکری سے فارغ!
صیہونی لابی اِس ’آزادیِ
اظہار‘ کا گلا کیسے گھونٹتی ہے، یہ ہر شخص پر واضح ہے، سوائے ہمارے تھرڈ ورلڈ کے
دانشور کے؛ جو نجانے کن سہانے تصورات میں رہتا ہے!
1986 میں مشہور مصنف جارج
گلڈر George Gilder کو اپنی کتاب ’’جنسی خودکشی‘‘
کےلیے کوئی پبلشر ڈھونڈے نہیں مل رہا تھا۔ باوجود اس کے کہ اسی دہائی کے اوائل میں
جارج گلڈر کی کتابیں بیسٹ سیلر رہ چکی تھیں! یعنی وہ کوئی ناکارہ مصنف نہیں ہے۔ ہر
پبلشر جارج گلڈر ایسے معروف ہر دلعزیز لکھاری کی اِس کتاب کو چھاپنے کے سوال پر
رونی صورت بنا کر بیٹھ جاتا؛ اس لیے نہیں
کہ اُسے کتاب کے مندرجات سے کوئی خاص اختلاف ہے؛ بلکہ اِس لیے کہ ’آزادیِ نسواں‘
کی ٹھیکیدار لابیاں ملک میں ایسے غیرذمہ دار ناشر کا جینا حرام کردیں گی۔ اِس
حوالہ سے؛ سی این این پر ایک فیمی نسٹ خاتون اپنے انٹرویو میں باقاعدہ ارشاد فرما
چکی ہے کہ: مرد اور عورت کے مابین پائے جانے والے (فطری) فرق کو نمایاں کرنے والی
اشیاء کو پڑھانے پر ہی پابندی ہونی چاہئے!
برطانیہ کی ایک مشہور
اداکارہ ونیسا ریڈگریو Vanessa Redgrave کو امریکہ میں اپنا کامیڈی
پروگرام کرنے کی اجازت نہیں ملتی، کیونکہ اُس نے خلیجی جنگ کے دوران عراق میں
امریکی مداخلت کے خلاف زورشور سے آواز اٹھائی تھی۔َ امریکہ میں اس کے ریکارڈشدہ
پروگرام چلانے میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہی ہیں اس لیے کہ یہ برطانوی
اداکارہ صیہونیت اور اسرائیلی لابیوں کے خلاف کچھ ضرورت سے زیادہ کھل کر بولتی ہے!
امریکی یہی بتادیں احمد
دیدات کو امریکہ میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؛ کیا وہ کوئی بم چلانے والی
شخصیت تھیں؟ یوسف قرضاوی کو امریکہ میں قدم رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟
برطانوی نو مسلم یوسف اسلام کا امریکہ میں داخلہ کیوں بند ہے؟
افغانستان اور عراق کی
خبروں کی حقیقی کوریج امریکہ میں کیوں نہیں ہونے دی جاتی رہی؟ اس ’جرم‘ پر الجزیرہ
کی تنصیبات کو کتنی بار بمباری کا نشانہ بننا پڑا؟ عراق میں رپورٹنگ کرنے والے عرب
صحافیوں کو کیسے چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا گیا؟ الجزیرہ کے ایک رپورٹر تیسیر علّونی اور کیمرہ مین سامی الحاج کو میڈریڈ
میں گرفتار کرکے گوانٹانامو پہنچا دیا جاتا ہے! صرف اتنا نہیں؛ برطانوی
جریدہ ڈیلی مِرر Daily Mirror اپنے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کیوِن میگوائر Kevin Maguire کے قلم سے انکشاف کرتا ہے کہ اس کے پاس اس بات
کا کافی ثبوت ہے کہ امریکہ صدر جارج بش نے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر
کو الجزیرہ چینل پر بمباری کے منصوبے
کی بابت آگاہ کیا تھا۔ پھر جب اس ثبوت کو لانے کےلیے لوگوں کی فرمائش
بڑھی تو پارلیمنٹ کو کہیں سے ’اشارہ‘ ملا کہ ایسی اشیاء کو نشر کرنے پر پابندی
عائد کر دی جائے!
استفادہ http://albayan.co.uk/Article2.aspx?ID=4127