خلافت بہ علم
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ
فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ
وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ
آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ
أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (31) قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا
مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (32) قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ
فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي
أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا
كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا
لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى
وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (34) البقرۃ
یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں ایک جانشین پیدا
کرنے والا ہوں۔ وہ بولے: کیا تو ایسے کو یہاں جانشین بنائے گا جو اس میں فساد اور خون ریزیاں کرے گا؟ جبکہ
ہم تسبیح کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ، اور خاص تیری پاکی کرتے ہیں۔ فرمایا: میں وہ
جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
اور سکھلا دیے آدم کو اُس نے سب نام۔ پھر وہ پیش کر دیے ملائکہ کے آگے، اور فرمایا: بتلاؤ مجھے ان
کے نام، اگر تمہاری بات سچ تھی۔ فرشتے بولے: پاکی تیری۔ ہمیں کچھ علم نہیں، مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔
بس تو ہی ہے علم والا، حکمت والا۔ فرمایا: اے آدم! اب تُو بتلا ان کو ان (اشیاء)
کے نام۔ پھر جب آدم نے بتلا دیے انہیں وہ (سب اشیاء) کے نام، تو فرمایا: کیا میں
نے تم کونہ کہا تھا: میں ہی ہوں جاننے والا بھید آسمانوں کے اور زمین کے، اور مجھے
ہے معلوم جو تم افشاء کرتے ہو اور جو تم دل میں رکھتے رہے۔ پھر وہ وقت، جب ہم نے
فرمایا فرشتوں سے، کہ جھک جاؤ آدم کے آگے، تو سب جھک گئے، سوائے ابلیس کے، جو
انکاری ہوا، تکبر کیا، اور کافروں میں ٹھہرا۔
قصہ آدم کی فضلیت اور
جانشینی کا۔
زمین کی اِس رونق و آرائش
کا، جس میں آدم کی اولاد کھو کر رہ گئی!
ملائکہ کو کائنات میں جو کچھ کارہائے منصبی سونپ رکھے گئے تھے، اور آج تک
ہیں، وہ بےشک اپنی جگہ غیر معمولی ہیں۔ پھر بھی؛ ایک ’’نئی مخلوق‘‘ ملائکہ کے تجسس
کو مہمیز دیتی ہے! تو کیا خود یہ مخلوق اس پر ڈھیروں غوروفکر کی ضرورتمند نہیں؟!
اس کی پیدائش سے پہلے
فرشتوں کو خبر ملتی ہے کہ زمین کی جانشینی کےلیے ایک مخلوق لائی جاتی ہے۔ فرشتوں
کو جو علم تھا وہ عرض کردیا: خدایا یہ مخلوق جو زمین میں فساد اور خونریزی کرتی
پھرے گی؟!
خود اِس مخلوق کو متنبہ
کردینے والی پہلی بات!
پیچھے بیان ہو چکا، قرآنی
اصطلاح میں فساد کا مطلب: زمین کو خدا کی معصیت سے بھرنا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں:
فرشتوں کے کلام میں پہلے ’’فساد‘‘ کا ذکر ہوا، اور اس پر ’’خونریزی‘‘ معطوف آئی:
یہ دراصل خاص کا عام پر عطف ہے۔ یعنی خونریزی اس فساد کی ایک خصوصی صورت ہوئی۔
’’فساد‘‘ فی ذاتہٖ یہ ہے کہ زمین میں خدا کی معصیت کا چلن ہو؛ اور جس کی آخری صورت
یہ ہے کہ خدا اور اُس کے احکام کو زمینی عمل سے باہر کر دیا جائے۔
فساد جوکہ زمین کی جانشینی
کے منافی ہے۔
اس کے مقابلے پر فرشتوں کی
عبادت۔ صبح شام تسبیح اور حمد۔ ہردم خدا کی پاکی۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں: نُقَدّسُكَ کا لفظ نہیں آیا بلکہ نُقَدّسُ لَكَ آیا ہے۔ لام کے آنے سے یا تو معنیٰ یہ بنا کہ وہ
اپنی حمد و تسبیح میں خدا کےلیے خاص چاہت اور اخلاص رکھتے ہیں، جس کا وہ اِس مقام
پر ذکر کر دینے تک چلے گئے۔ یا یہ معنیٰ بنا کہ وہ خود اپنے آپ کو خدا کی عبادت
کےلیے پاک رکھتے ہیں ہر قسم کے رذائل اور گھٹیاپن سے سے۔ اور مزین رہتے ہیں ہر قسم
کی خوبی سے: مانند خدا کی چاہت، خشیت، تعظیم اور اخلاقِ حسنہ۔ ہے یہ بھی لائقِ
ذکر!
غرض ایسی اطاعت جس میں
خرابی اور مفسدت نام کو نہیں!
فرمایا: میں وہ جانتا ہوں
جو تم سے اوجھل ہے۔ تم ظاہر کو دیکھ سکتے ہو؛ باطن کو جان رکھنا البتہ میری صفت
ہے۔
یعنی فساد تو یہ مخلوق
بےشک کرے گی۔ لیکن جو خیر اِس جانشین کے ذریعے آئے گی وہ لاجواب ہے۔ اس مخلوق میں،
اس کے سوا اگر کوئی بھی خیر نہ ہو کہ ان میں انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور
صالحین برپا ہوں گے... اس مخلوق کی وساطت، نیز اس کی خاطر، کائنات کے اِس گوشے میں
خدا کی آیات اور نشانیاں جلوہ گر ہوں گی...
خواہشات کے پتلوں سے ایسی ایسی عبدیت ظہور کرے گی جو ملائکہ کو دنگ کردے...
اخلاص اور وفا کے ایسے ایسے پیکر جو زمین آسمان کو حیران کردیں... ذرا تصور تو کرو
کوئی مخلوق خدا کےلیے مرنے مرانے تک چلی جائے یعنی جہاد؛ خدا کی عظمت پر مر مٹنے
کےلیے اپنا خون پیش کرے، اپنا وجود ختم کر لے، اپنا گھربار لٹا دے، اپنا درودیوار
اور اپنا وطن قربان کرلے! اپنے رشتوں پر چھری چلا دے۔ خدا کی یہ محبت اس سے پہلے
بھلا کہاں دیکھی گئی تھی؟! اِس کے ہاں سے وہ خیر نکل نکل آئے جو نفس میں بیٹھے ہوئے شر کو قدم قدم پر مات دے تو ہی
ظہور کرسکتی ہے۔ یہاں خدا کے دشمنوں سے اُس کے دوست چھٹ کر سامنے آجائیں،
کوئی خدا سے جنگ کرے تو کوئی خوش نصیب خدا کی طرف سے جنگ کرنے کو میدان میں
اترے... نیز اِس مخلوق کے ذریعے ابلیس کا شر بےنقاب ہو جائے جس پر آج تک نجانے اُس
نے پارسائی کے کیسےکیسے پردے ڈال رکھے تھے... تو اِس مخلوق میں پائی جانے والی خیر
کی اِن باتوں میں سے چند بھی بہت ہیں۔
’’میں وہ جانتا ہوں جو تم
نہیں جانتے‘‘!
فرشتوں نے جو عرض کی اُس میں اپنی خصوصیت کی جانب ایک
اشارہ بھی تھا: اُن کا خدا کی وہ تسبیح اور حمد کرنا جو انسان کے بس میں نہیں۔ تو
پھر وہ کونسی چیز ہے جو اِس گناہوں کے پتلے کو پھر بھی زمین کی جانشینی دلوانے جا
رہی ہے؟
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا..!!!
سعدیؒ فرماتے ہیں: نام کسی
شےء کو دیا جانے والا لفظ ہوتا ہے۔ نام سکھا دینے میں خود اُس شےء کا علم بھی آ
جائے گا۔ پس یہ اشیاء اور ان کو پہنائے جانے والے الفاظ کا علم ہوا۔ حقائق کا
ادراک اور ان کو تعبیر دینے پر قدرت۔
پھر وہ اشیاء فرشتوں کے
سامنے رکھ دیں: بتاؤ ان کے نام اگر تمہاری بات میں سچ تھا! زمین کی جانشینی کا
فیصلہ ہوتا ہے!
’’خدایا! تو پاک ہے‘‘! ہماری
کیا مجال جو تیرے فیصلوں میں کچھ رائے دیں۔ علم وہی جو تو نے ہم کو سکھایا؛ ورنہ
ہمیں علم کہاں۔ اور علم والی ذات اصل میں تو ہے۔ پھر علم کے ساتھ، حکمت تیری ہی
شان!
فرشتے یہاں خدا کو اُس کی
دو خصوصی صفات سے پہچانتے ہیں: ایک خدا کا علم جس کی کوئی حد نہیں۔ دوسرا، خدا کی
حکمت جس کا کوئی اندازہ نہیں۔ علم جو ہر ہر شےء کو محیط ہے، جس سے زمین آسمان کی
کوئی ایک چیز روپوش نہیں۔ کوئی ذرہ اوجھل نہیں۔ سب کچھ اُس کےلیے کھلی کتاب؛ کسی
کو اُس تک رسائی نہیں۔ اور حکمت کا مطلب: ہر شےء کو اُس کی جگہ پر رکھنا۔ اُس کے
فیصلوں میں کسی چیز کا بےمحل نہ ہونا۔
عُلوی صفات مانند ’’علم‘‘
اور ’’حکمت‘‘ کو خدا کی شان ماننا؛ اور اپنے آپ کو اس سے کورا جاننا۔ اگر کوئی علم
ملا تو اُس کو محض خدا کی دین اور اُس کی مہربانی جاننا اور اس کو اپنی چیز نہ
سمجھ بیٹھنا... فرشتے جو خدا کی تسبیح کرنا جانتے ہیں، ان کی زبان پر اپنی بےوقعتی
اور خدا کی خوبیوں کا بیان یوں آتا ہے! خدا کو
اُس کی صفات سے جاننا اور اپنی سب خوبی کو اُس کا کمال جاننا ’’تسبیح‘‘ کا ایک
نہایت خوبصورت مضمون ہے!
’’اے آدم! اب تو بتا انہیں
ان اشیاء کے نام‘‘۔
یہاں زمین کی جانشینی کا
فیصلہ ہو جاتا ہے! اور سب مخلوقات کو آدم کے آگے آداب بجا لانے کا حکم ہوتا ہے۔ سب
حکم پر عمل کرتے ہیں اور ابلیس تکبر سے انکار کر جاتا ہے!!!
خصوصی اسباق:
¯
خدا
کےلیے کلام کی صفت۔ یعنی اس کائنات کا مالک اپنی مخلوقات سے کلام فرماتا ہے۔ اپنی
شان یا اُن کی بھلائی کی جو بات چاہے جس انداز میں چاہے ان کو بتلاتا ہے۔ یاد
رکھو ایک بےکلام خدا کو ماننا ملاحدہ کی صفت ہے۔ خدا کے بندے ہر دم متوجہ رہتے
ہیں کہ ان کا مالک ان سے کیا فرماتا ہے۔ ان کےلیے اس سے بڑھ کر خوشی کی کوئی بات
نہیں کہ ان کا مالک ان سے بات کرتا اور ان سے اپنی منشا کا اظہار فرماتا ہے۔ زہے
نصیب کہ کسی مخلوق کو خدا کا یہ التفات ملے کہ وہ کائنات کا مالک اس سے ہم کلام
ہو!!! یہ اُس کے کلام کو سر آنکھوں پر رکھتے اور اس کے ایک ایک لفظ کو دنیا و ما
فیہا سے بڑھ کر نعمت جانتے ہیں۔ خالق کے کلام پر غوروفکر سے بڑھ کر ’’علم‘‘ اور
’’آگہی‘‘ کا کوئی ذریعہ نہیں۔
¯
خدا
کےلیے ’’علیم‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کی صفت۔ جس کا کچھ بیان اوپر ہو چکا۔
¯
اسی
واقعہ سے یہ بات نکلی کہ: آدمی پر اگر کسی معاملہ میں خدا کی حکمت اوجھل ہو، خواہ
’’مخلوقات‘‘ کے معاملہ میں ہو یا ’’مامورات‘‘ (احکام) کے معاملہ میں، وہاں وہ خدا
کی حکمت اور دانائی کو تسلیم ہی کرے۔ ’نہ سمجھ آنے‘ کو اپنا ہی نقص مانے۔ خدا کو
ایک بےمحل بات سے منزہ اور مبرا ہی جانے۔
¯
اس بات
کا بیان کہ خدا نے ملائکہ کو بھی بہت کچھ سکھا رکھا ہے؛ جوکہ ملائکہ کے ساتھ خدا
کا احسان ہے۔ اِسی ’’علم‘‘ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بندہ خوب جانتا ہو کہ وہ کیا
کچھ نہیں جانتا! خود یہی، ’’علم‘‘ کا ایک اتھاہ سمندر ہے اور ’’خدا کو جاننے‘‘ کی
ایک نہایت حقیقی جہت۔ خدا کی معرفت کا یہ ایک بہت بڑا زینہ ہے؛ قسمت والے اس کے
ذریعے آسمانِ معرفت پر جا پہنچتے ہیں۔
¯
نیز یہ
کہ خدا نے ملائکہ کو اپنا جو تعارف کرا رکھا ہے اُس میں خدا کا ’’علیم‘‘
اور’’حکیم‘‘ ہونا خصوصی شان رکھتا ہے۔ پس خدا کو جاننے کا یہ ایک نہایت اہم میدان
ہوا۔ حق یہ ہے کہ جتنا جتنا کسی نے خدا کو اِن دو صفات سے پہچانا، جتنا جتنا کسی
نے خدا کو اِن دو پہلوؤں سے سراہنے کی قابلیت پائی، اتنے اتنے اُس پر ’’علم‘‘ اور
’’حکمت‘‘ کے در وا ہوتے چلے گئے... اور ویسی ویسی تسبیح خدا کےلیے اس کے وجود سے
نشر ہونے لگی۔
¯
پھر یہ
کہ آدم کو فضیلت دلوانے والی چیز بھی ’’علم‘‘ ہی ٹھہری۔ پس عبد میں سب سے برگزیدہ
صفت یہ ’’علم‘‘ ہی ہے۔ انسانوں میں فضیلت کی درجہ بندی ’’علم‘‘ سے ہوگی۔ انبیاء کا
سب سے اونچا مقام ’’علم‘‘ کے دم سے ہے۔ خدا کی سب سے بڑی عبادت ’’علم‘‘ ہے۔ اِس
’’خلافتِ ارضی‘‘ کی سب کہانی ’’علم‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ ’’جہالت‘‘ کے سر پر یہ
دستار کبھی نہیں آتی! سلف کہا کرتے تھے: علم خدا کا نور ہے جو خدا کے نافرمان دل
میں القاء نہیں ہوتا۔ مسائلِ جہان کو خدا کی بخشی ہوئی اس روشنی سے دیکھ پانا اصل
علم ہے... اور خلافتِ ارضی کی بنیادی ترین شرط۔
سوشل سائنسز کے طلبہ کےلیے خصوصی توجہ طلب..! دو
عالَم کے قضایا کو شمعِ وحی کی روشنی میں دیکھ پانے کی صلاحیت: زمین کی جانشینی کا
اصل استحقاق۔ طفیلیوں parasites کو زمین کی جانشینی سے کیا علاقہ! ’’نظر‘‘ اپنی
نہیں تو ’’جہان‘‘ اپنا نہیں! یہ طوطوں کا جہان نہیں؛ اُس مخلوق کا جہان ہے جس نے
نورِخداوندی سے اشیاء کی حقیقتیں اور قدریں متعین کیں، اور اس پر فرشتوں سے داد
پائی! یہ مخلوق اشیاء کی قدروں کےلیے جس دن کافروں کا منہ دیکھنے لگے.. اُس دن
’’زمین‘‘ کے حقوق اِس کے پاس سے چلے جاتے ہیں!
(نوٹ: ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر
سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے ہیں)