خشتِ اول... ’’مہاجرین و انصار‘‘
(مطالعہ تاریخِ اسلام... دوسری مجلس)
تاریخ پڑھنے کےلیے سب سے
پہلے یہ ضروری ہے کہ آدمی جغرافیہ کی کچھ شدھ بدھ رکھتا ہو۔ کم از کم، دنیا کے
نقشے پر ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے اہم اہم خطوں کی نشاندہی کر سکتا ہو۔ بصورتِ
دیگر، تاریخ کے بہت سے واقعات کی صحیح تصویر آپ پر مخفی رہتی ہے۔ اس کےلیے، ہمارا مشورہ ہوگا، امتحانی مقصد کےلیے
تیارکردہ ایک خالی نقشہ blank map حاصل کرلیا جائے اور اس کے اہم اہم خطوں کو پُر
کرنے کی مشق کر لی جائے۔
*****
ہمارے اس مطالعۂ تاریخ
میں ترکیز زیادہ ان جوانب پر رہے گی جو پڑھنے سننے میں کم آئے ہیں۔ تاریخ کے وہ
واقعات جن سے ہمارا ایک عام نوجوان پہلے سے کسی نہ کسی حد تک واقف ہے، ہمارے اس سلسلۂ
مضامین میں بہت زیادہ موضوعِ توجہ نہیں رہیں گے۔
یہ وجہ ہے کہ ہم نے اپنے
اِس مطالعہ کا آغاز گزشتہ امتوں اور نبیوں کے واقعات سے نہیں کیا۔ کیونکہ؛ ایسا
کرنے کی صورت میں ہماری درجنوں مجالس ازمنۂ قدیم کے مطالعہ میں گزر جاتیں۔ جبکہ
ہمیں اندازہ ہے، ہمارے قاری کی زیادہ بےچینی اپنی تاریخ کے چھپے گوشوں کو جاننے کےلیے ہے۔ خود اِس امت کی تاریخ کا ابتدائی
حصہ، جوکہ سیرت اور مغازی سے شروع ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ سننے پڑھنے میں آتا
ہے۔ بدر و اُحُد، حدیبیہ و فتح مکہ سے متصل واقعات قاری سے بہت زیادہ اوجھل نہیں۔
یہاں تک کہ خلافتِ راشدہ کے اہم اہم واقعات قاری کے حافظے میں موجود ضرور ہیں۔ اس
سے متصل بعد، خلافتِ معاویہؓ، واقعۂ کربلاء، خلافتِ عبد اللہ بن زبیرؓ اور خلافتِ
بنو مروان ایسے واقعات سے بھی قاری کچھ نہ کچھ شناسا ضرور ہے۔ البتہ اس کے بعد ایک
بلیک آؤٹ ہے۔ واقعات کا کچھ سرسری اندازہ بھی، بنو مروان کے استقرار پکڑ جانے کے
بعد ادوار سے متعلق، ہمارے نوجوان کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ الاماشاء اللہ۔
اِس وجہ سے، ہم نے مناسب
جانا کہ دورِ نبوی، خلافتِ راشدہ اور اس کے خاتمہ سے متصل عہد کے واقعات کا تفصیلی
جائزہ فی الحال مؤخر کردیں۔ اس کا کچھ ذکر ہو تو نہایت اختصار کے ساتھ اور کچھ
چیدہ چیدہ واقعات کی صورت ہی۔ البتہ بعد کے واقعات کو ایک گونہ تفصیل سے پڑھا
جائے۔ سیرت، خلافتِ راشدہ اور اس سے متصل ادوار کی طرف آخر میں آیا جائے۔
*****
کچھ ابتدائی گفتگو ہمیں
توسیعِ اسلام میں پائی جانے والی ’’تیزرفتاری‘‘
پر کرنی ہے؛ کیونکہ تاریخ اسلام کے مطالعہ کے دوران جو کچھ بڑےبڑے اشکالات پیدا
ہوتے ہیں، وہ تاریخِ دعوت کے اِس بنیادی مبحث کو نہ سمجھنے کے باعث پیدا ہوتے اور
پھر جابجا ہمارا راستہ روکتے ہیں۔ لہٰذا کچھ حرج نہیں، اِس موضوع پر ابتدا میں ہی
کچھ روشنی ڈال دی جائے۔
رسول اللہﷺ کے دنیا سے
رحلت فرماتے ہی جزیرۂ عرب میں ارتداد کا ایک بہت بڑا سلسلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ کسی
ایک آدھ علاقے یا ایک آدھ قبیلے تک محدود نہ تھا بلکہ پورا جزیرہ اس کی لپیٹ میں
آگیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے، مدینہ، مکہ، طائف اور بحرین کی ایک بستی جواثا کو چھوڑ کر؛ کوئی علاقہ جزیرۂ عرب میں ایسا نہ
رہا جو فتنۂ ارتداد کی زد میں آنے سے بچا رہا ہو۔ سمجھو حضرت ابو بکر نے ایک نئے
سرے سے جزیرۂ عرب اسلام کو فتح کر کے دیا؛ اور اس مقصد کےلیے پورے جزیرۂ عرب میں ازسرنو
ایک جہاد ہوا... باوجودیکہ نبیﷺ کی زندگی زندگی سارا جزیرۂ عرب اسلام کے زیرنگیں
آگیا ہوا تھا۔
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے
کہ نبیﷺ کی رحلت کے وقت جزیرۂ عرب کس مقام پر کھڑا تھا۔ عربوں کی ایک بڑی تعداد
اُس حالت پر تھی جس کا سورۃ الحجرات میں ذکر ہوا: قُلْ
لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ۔
چنانچہ رسول اللہﷺ کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی بہت سے لوگ اسلام چھوڑ گئے۔ بہت سے
اسلام پر رہے تو بھی اسلام کی اُس حالت پر نہیں جو اسلام کا مقصود تھا؛ اور جس پر
صحابہؓ نے ابوبکر کی سرکردگی میں ایک بڑی محنت اور جانفشانی کے بعد عرب زندگی کو
از سر نو بحال کرایا۔
یہاں ہم اس سوال پر غور
کرتے چلیں گے کہ جزیرۂ عرب میں اتنی تعداد کا اسلام سے پلٹ جانا، یا کم از کم اصل
اسلام سے پلٹ جانا، اسلامی توسیع میں پائی جانے والی ایک غیرمعمولی ’’تیزرفتاری‘‘ کے
حوالے سے ہمارے لیے کیا دلالت رکھتا ہے؟ نبیﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری سالوں میں
جو عمل ایک غیر معمولی تیزی کے ساتھ انجام پایا، اُسے ہم اِس واقعہ ارتداد کی
روشنی میں کیونکر سمجھیں گے؟
ظاہر ہے، ایک یوٹوپیا
ذہنیت یہاں یہ سوال اٹھا سکتی ہے کہ یہ توسیعِ اسلام اگر اِس تیزترین صورت میں نہ
ہوتی؛ یعنی اِس ’’توسیعی عمل‘‘ کو ’’تربیتی عمل‘‘ کے پیچھےپیچھے رکھا جاتا؛ جب تک
ایک علاقے میں لوگوں کی خوب تربیت نہ کر لی جاتی تب تک کوئی نیا علاقہ فتح کرنے
کےلیے آگے نہ بڑھا جاتا، تو ایسی خطرناک صورتحال کے یکلخت سامنے آجانے کی نوبت ہی
نہ آتی! جبکہ یہاں تو معاملہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا تھا! ایسا خطرناک رِسک risk!
ادھر توسیع اسلام کی یہ
تیزرفتاری ملاحظہ فرمائیے: ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کرنے کےلیے یہ شرط رکھی کہ
ان کو جہاد اور زکات سے چھوٹ دے دی جائے، تو نبیﷺ کی طرف سے ان کی یہ شرط قبول کر
لی گئی، البتہ فرمایا: یہ اسلام قبول کرلیں، تو زکات بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں
گے۔ (سنن ابو داود 3025، صححہ الالبانی)۔ چھوٹ
دینے کے ایسے ہی کچھ مزید واقعات بھی ہمیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں۔
اِس توسیعِ اسلام میں پس ایک
’’برق رفتاری‘‘ تو یقیناً نظر آتی ہے۔
یوٹوپیا ذہن میں یہاں یہ
سوال اٹھ سکتا ہے کہ شروع سالوں میں کوالٹی quality پر جو زور رہا وہ آخری
سالوں میں کوانٹٹی quantity پر کیوں چلا گیا؟!
یقیناً اللہ کے رسولﷺ نے
جو کیا وہ وحی کی راہنمائی میں کیا۔ لہٰذا اس پر ہمیں معاذاللہ کوئی سوال نہیں
اٹھانا؛ صرف اِس واقعہ کے پیچھے کارفرما حکمتیں تلاش کرنی ہیں۔
حدیبیہ، جسے قرآن مجید میں
’’فتحِ مبین‘‘ کہا گیا ہے، رسول اللہﷺ کی تحریکی مساعی اور توسیع اسلام میں ایک
یکسر نیا موڑturning point
گنا
جاتا ہے۔اس واقعہ کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ کی نظر جزیرۂ عرب سے گزر کر روم اور فارس
پر جا ٹکی تھی؛ اور وہ بھی اِس پہلو سے کہ یہ وقت کی سپر طاقتیں تھیں۔ بےشک پورا
جزیرۂ عرب ابھی مفتوح ہونے سے پڑا تھا؛ مگر اسلامی قلمرو کو ایک عظیم ایمپائر میں
ڈھال دینے کے خدوخال رسول اللہﷺ کی اپنی پیش قدمی میں دن بدن نمایاں ہونے لگے تھے۔
پچھلی تمام رسالتوں کے برعکس؛ یہ ایک عالمی رسالت ہے اور اس کو بوجوہ پچھلی امتوں
سے مختلف ہونا؛ اور جلد از جلد ایک عالمی فنامنا global
phenomenon کے
طور پر سامنے آنا تھا۔ لہٰذا؛ اسے کم از کم بھی روم اور فارس کی ٹکر کی ایک قوت کے
طور پر پیش کر جانا ہمیں رسول اللہﷺ کے آخری سالوں کی حکمت عملی میں خاصا نمایاں
نظر آتا ہے۔
یوں بھی؛ اگر ہم پر وہ
’’سطح‘‘ واضح ہے جو اسلام کو انسانی زندگی میں روپزیر کرانے کےلیے مطلوب ہے... تو یہ
’’کوالٹی‘‘ ایک مخصوص ’’کوانٹٹی‘‘ کو پہنچے بغیر روپزیر ہی نہیں ہوتی۔ یہ
اسلام اگر محض کچھ ’انفرادی اعمال‘ کا نام ہے پھر تو یوٹوپیا حضرات کی بات میں
ضرور کچھ وزن ہے کہ کیوں نہ ایک علاقے کے لوگوں پر پوری محنت کر لینے کےبعد ہی ایک
نئے علاقے کو ہاتھ لگایا جائے؛ اگرچہ یہ محنت کتنا ہی وقت لے؛ آخر جلدی کس بات کی!
لیکن اگر اسلام کچھ ’انفرادی اعمال‘ سے بڑی ایک حقیقت ہے... تو جب تک وہ اپنے
اردگرد شرک کی بعض بڑی بڑی ایمپائرز کو تہ خاک نہ کردے اور زندگی کا دھارا ایک بہت
بڑی سطح پر خدائے واحد کی اطاعت کے رخ پر نہ پھیر دے تب تک ’افراد‘ کا خدا کی
اطاعت کر لینا بھی وہ معنیٰ اور تاثیر نہیں رکھتا جو اِس دین اور اِس رسالت کو ان
کی ’’عبادت‘‘ سے مطلوب ہے۔ تب تلک ’افراد‘ کا خدا کی عبادت کرنا بھی ایک بہت
ہی نحیف و لاغر مفہوم رکھے گا۔ اور یہ تو
معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ اِس دین کو جس مفہوم اور جس مزاج پر چھوڑ جائیں
گے وہی قیامت تک اِس دین کا صحیح مفہوم اور صحیح مزاج باور ہوتا رہے گا۔
لہٰذا ایک عزت اور تمکنت
رکھنے والا اسلام جو اپنے آس پاس شرک کی کسی ایمپائر کو برداشت نہیں کرتا، جو
زندگی کے پورے دھارے کو خدا کی عبادت اور اطاعت میں دینے پر یقین رکھتا ہے، اور جو
خدا کی عبادت اور اطاعت پر قائم خود ایک بہت بڑی ایمپائر ہے، جس کی نظر مشرق تا مغرب
زمین کے ہر افق پر ہے... ایک ایسا عزت اور تمکنت رکھنے والا اسلام اپنے پیچھے چھوڑ
کر جانابجائےخود ایک ’’کوالٹی‘‘ کا مسئلہ تھا نہ کہ ’کوانٹٹی‘ کا۔
اس
مسئلہ پر تفصیلی بات ہم کسی اور مقام پر کریں گے.. رسول اللہﷺ کے دعوتی عمل میں ہمیں
ایک نُخبہ (ایلیٹ elite) اور عوام (public) کے مابین فرق کرنا بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ مہاجرین و انصار ایک چنیدہ جمعیت تھی، یعنی ایلیٹ۔ یہ جزیرۂ عرب میں
اسلام کا پرچم اٹھا کر کھڑی ہوئی جماعت تھی۔ اِن کی تربیت میں البتہ کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا گیا تھا۔ اِن کےلیے
معیار بھی بےحد سخت تھے۔ اِن پر آپﷺ کا مان بھی بہت تھا۔ آخری سالوں میں جو برق
رفتار توسیع ہونے لگی تھی وہ بھی یوں بےقاعدہ نہ ہو رہی تھی۔ وہ توسیع بھی بہت
حساب رکھ کر ہو رہی تھی۔ یہ برق رفتار توسیع اس نسبت تناسب سے تھی کہ اس
کے بگڑے سے بگڑے حالات کو بھی ’’مہاجرین و انصار‘‘ کی وہ ایلیٹ ان شاءاللہ سنبھال
ضرور لے گی۔
ایک حدیث میں تو عامۃ
الناس کو ’’اعراب المسلمین‘‘ کی ایک کیٹگری کے طور پر لینے کی طرف واضح اشارہ کیا
گیا ہے:
وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ،
فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ – أَوْ خِلَالٍ – فَأَيَّتُهُنَّ مَا
أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى
الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، سفَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ
ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ،
وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ،
وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا
مِنْهَا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ،
يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا
يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ
الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ
أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا
فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَقَاتِلْهُمْ (صحيح مسلم، عن بريدة رضي الله عنه، رقم الحديث
1731)
اور جب
مشرک دشمنوں سے تمہارا آمناسامنا ہو، تو ان کے سامنے تین باتیں رکھو، ان میں سے وہ
جس کو بھی مان لیں تم ان سے وہی قبول کر لو، اور ان پر ہاتھ اٹھانے سے باز رہو۔ تم
ان کو اسلام کی طرف بلاؤ۔ اگر وہ اسے قبول کرنا مان لیں، تو تم ان سے یہ قبول کرلو
اور ان پر ہاتھ اٹھانے سے گریز کرو۔ پھر ان کو اس بات کی طرف بلاؤ کہ وہ اپنی
سرزمین چھوڑ کر سرزمینِ ہجرت کی طرف نقل مکانی کر آئیں۔ اور ان کو بتاؤ کہ اگر وہ
ایسا کر لیں تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہوتے ہیں اور ان پر وہی ذمہ
داریاں عائد ہوں گی جو مہاجرین پر عائد ہوتی ہیں۔ اگر وہ اپنی سرزمین سے نقل مکان
ہوجانے سے انکاری ہوں تو ان کو بتاؤ کہ تب ان کا معاملہ اَعراب المسلمین والا ہو
گا، ان پر اللہ کا وہی حکم لاگو ہو گا جو (عام) مومنوں پر لاگو ہوتا ہے، ان کو
غنیمت اور فےء میں سے کچھ نہ ملے گا الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد
کرنے والے ہوں۔ اگر وہ اس (پہلی بات) کو قبول نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کرو۔
اگر وہ تمہاری یہ بات قبول کرلیں تو تم ان سے یہ قبول کر لو اور ان سے ہاتھ روک
رکھو۔ ہاں اگر وہ اس سے بھی انکاری ہوں تو اللہ سے مدد مانگتے ہوئے ان کے ساتھ
عازمِ قتال ہو جاؤ۔
پس یہاں ’’مہاجرین‘‘ ایک
کیٹگری ہے جو جہاد کرتی اور باطل کے قلعے لرزاتی ہے۔ غنیمت اور فےء
کے اموال پر صرف انہی کا حق ہے۔ معاشرے کی قیادت اِسی کے ہاتھ میں ہے۔ اور دوسری
’’اعراب المسلمین‘‘ کی کیٹگری ہے جن پر اسلام کے عمومی احکام لاگو ہوتے ہیں۔ یہ وہ کیٹگری ہے جو ’’ہجرت‘‘ اور ’’جہاد‘‘ تک نہیں جاتی
مگر ہے مسلمان۔ ایک بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی تھی۔ یہی
وجہ ہے کہ سورۃ الحجرات میں ’’اعراب المسلمین‘‘ کو ’’اپ گریڈ‘‘ ہونے یعنی حقیقی
ایمان کی راہ بھی دکھائی گئی؛ کہ اسلام کا اصل معیار بس یہی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ
آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا
بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
حقیقی
مومن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، پھر کسی شک شبہے میں نہ
پڑے، اور جہاد کرنے لگے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔ یہ
ہیں (ایمان کے) سچے۔
ہاں ان اعراب میں سے جو
چنیدہ لوگ مہاجرین و انصار میں جا ملنا قبول کرلیتے، وہ اس فکری، نظریاتی، تہذیبی،
ایمانی ایلیٹ میں شامل ہو جاتے جو عام معاشرے کےلیے ائمہ کی حیثیت رکھتی۔ ایک شدید
محنت کے نتیجے میں، ہر مفتوحہ علاقے سے اعلیٰ ترین دانے اس ایلیٹ میں شامل کر لیے
جاتے جو پھر ہمہ وقت رسول اللہﷺ کے ہم رکاب رہتے؛ جہاں ایک مسلسل عمل کی صورت یہ
ہیرے تراشے جاتے؛ اور آخر یہ اپنی اپنی قوم کےلیے تعلیم اور اسوہ کا ذریعہ بنتے؛
اور گھپ اندھیرے میں مشعل کا کام دینے لگتے:
فَلَوْلَا نَفَرَ
مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ
وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبۃ: 122)
کیوں نہ
ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، جو دین کی سمجھ حاصل کریں، اور واپس
آکر اپنی قوم کو خبردار کریں تاکہ وہ بھی ڈرنے لگیں۔
یوں ہم دیکھتے ہیں رسول
اللہﷺ اور خلفاء کے ہاتھوں انجام پانے والا اسلامی عمل:
ý
ایک
جانب تیزرفتار بھی اتنا ہے کہ بادئ النظر اس میں بہت بڑےبڑے رِسک risk لیے گئے معلوم ہوتے
ہیں۔بظاہر یہاں تک دکھائی دیتا ہے گویا ہر حال میں ’’توسیع‘‘ کرنا مطلوب ہے! مگر
جیساکہ ہم نے پیچھے کہا، یہ بھی باقاعدہ مطلوب ہے اگرچہ یوٹوپیا ذہن کو یہ کچھ
اوپرا ہی لگے۔ اسلام کے اپنی حقیقت اور مزاج کو برقرار رکھنے کے حق میں یہ چیز
بھی مطلوب ہے۔ جس کےلیے ضروری ہے، ’’عوام الناس‘‘ کے آگے ابتداءً اسلام کے کچھ موٹےموٹے ہی تقاضے رکھے جائیں؛
تاکہ معاشرے کی زیادہ سے زیادہ زمین ایک بار اسلام کے ہاتھ میں آجائے اور اسلام
خاصی مستحکم پوزیشن میں آکر، پوری تمکنت اور مقدرت کے ساتھ ان کے ذہنی سانچوں اور
ان کی زندگی کے معیارات کی تشکیل کرے؛ اور ان کےلیے سماجی رجحانات کی تخلیق کرے۔
ý
دوسری
جانب یہ نہایت گہرا اور بلندوبالا چوٹیاں سر کرنے والا ایک عمل ہے۔ ایک ایسی جمعیت
جس کی سیرت اور کردار رشکِ خلائق ہوتی ہے اور جوکہ وسیع تر معاشرے کے حق میں ایک
ایسے اسوہ اور نمونہ کی صورت پیش کرتی ہے؛
کہ تھوڑے ہی وقت کے اندر یہ ان معاشروں کی بھی کایا پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔
ý
تیسری
جانب، یہ تقسیم فطری اس قدر ہے کہ:
Ü نہ انسانی کمزوریوں کو یہاں ایک لحظہ نظرانداز
کیا گیا ہوتا ہے۔ اور
Ü نہ انسانی صلاحیتوں کو ایک ذرہ ضائع ہونے دیا
گیا ہوتا ہے۔
Ü معاشروں کو سر تا پیر بدل جانے کےلیے طبعی انداز میں
جو ایک وقت درکار ہوتا ہے وہ بھی یہاں دے دیا جاتا ہے، اور
Ü معاشرے کو لے کر چلنے اور اس میں تبدیلی برپا کرنے
والوں کی تولید reproduction میں بھی کوئی ڈھیل نہیں برتی
جاتی۔
یہ دونوں کام بیک وقت انجام پاتے ہیں۔ ان میں سے ایک
کو پہلے اور دوسرے کو بعد میں انجام دینے سے؛ کوئی ایک بھی انجام نہیں پاتا!
ہاں ’’بنیادی جمعیت‘‘ کی
تیاری البتہ ابتداء میں کچھ وقت لگا کر، پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ کرنا ہوتی
ہے۔ یہ کام ہم دیکھتے ہیں، رسول اللہﷺ نے نبوت کے ابتدائی سالوں میں پوری محنت،
توجہ اور وقت صرف کرکے انجام دیا۔ جن لوگوں کو ابتدائی سالوں اور اختتامی سالوں کے
مابین یہ فرق اس طرح نظر آتا ہے گویا توجہ کا محور ’’کوالٹی‘‘ سے ’’کوانٹٹی‘‘ پر
شفٹ کر گیا... ان کی نظر سے اقامتِ دین کی یہ بنیادی حقیقت ہی دراصل اوجھل ہے۔
ابتدائی سالوں میں ’’بنیادی جمعیت‘‘ کی تیاری عمل میں لائی جا رہی تھی۔ بعد کے
سالوں میں یہ بنیادی جمعیت میدان میں اتر آئی اور اس کے ذریعے معاشرے کو ہاتھ
میں لینے کا عمل شروع ہو گیا تھا؛ لہٰذا وہ خدشے اب غیرضروری ٹھہرے جو ابتداء
میں لازماً مدنظر ہوتے ہیں؛ اور جوکہ بعد میں بھی ’’عَلم تھام رکھنے والوں‘‘ کے حق
میں مدنظر ہی رکھے جاتے ہیں۔ اِس ’’بنیادی جمعیت‘‘ نے بعدازاں کیسےکیسے کارنامے
سرانجام دیے، یہاں تک کہ کچھ غیرمعمولی بحرانوں کے وقت کیسی کیسی قربانیاں اور
کیسے کیسے ’’کومپرومائز‘‘ compromise کر کے اسلامی عمل کی حفاظت
کی اور انسانی بستیوں کو خدائے واحد کی عبادت کے بندھن میں باندھ کر رکھا، یہ چیز
جاننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
*****
موحدین کے ’’عامۃ الناس‘‘
اور ’’ایمانی ایلیٹ‘‘ کے مابین یہ جو فرق ہوا... یہی، بعدازاں ’’فرقہ ناجیہ‘‘ اور
’’طائفہ منصورہ‘‘ کے مابین فارِق divider بنا۔ یعنی
Ü اول الذکر معاشرے کا وہ عام عنصر جو اپنے عقیدہ و عمل
میں گمراہیوں اور ضلالتوں سے بچا ہوا اور باطل کی اتباع سے بریء و بیزار کرا رکھا
گیا ہے۔
Ü جبکہ ثانی الذکر وہ خاص باصلاحیت عنصر جو باطل سے
الجھتا، شرک پر جھپٹتا، بدعات کی سرکوبی کرتا، دین کےلیے قربانیاں پیش کرتا،
منصوبے تشکیل دیتا اور اقامتِ حق کا علم تھام کر رکھتا ہے۔ ہجرت و نصرت اور جہاد
کرتا ہے۔
’’مہاجرین و انصار‘‘ اس دوسری صنف کے سرخیل
تھے۔ اسلام کی سب ترقی و سرفرازی اِس مٹھی بھر جمعیت کے ہاتھوں ہوئی۔ اِس خصوصی
جمعیت کا تسلسل بعدازاں طائفہ منصورہ کی صورت برسر عمل رہا۔ اس طائفہ کے دو
خصوصی وصف ہوئے: علم اور جہاد۔ علم یعنی حق کا اِحقاق اور جہاد یعنی حق کی نصرت و
تمکین۔ ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو علم اور جہاد ہردو معاملہ میں مردِ میدان ہوئی۔
پھر ایک تعداد ایسی تھی جو علم کی امامت کرتی رہی اور ایک تعداد وہ جو جہاد کے
معرکے لڑتی رہی۔ برے سے برے بادشاہوں کے وقت بھی یہ طائفہ بڑی بڑی اچھی سطح پر
اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ ہمارا مطالعۂ تاریخ، مختلف ادوار میں مسلم معاشرے کے
عروج و زوال کے ذمہ دار اِس خصوصی ’’کردار‘‘ کو تلاش کرتا رہے گا۔