انسان
فہمی کے بغیر دین فہمی؟!
عَن أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ
أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي
صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ» (صحیح
البخاری رقم 707)
حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے:
بےشک میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں، اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز پڑھاؤں، پھر مجھے بچے کے رونے کی آواز
سنتی ہے، تو میں نماز مختصر کردیتا ہوں، اس ناپسندیدگی سے کہ میں اس کی ماں کےلیے
مشقت پیدا کردوں۔
امام بخاری اس پر باقاعدہ
باب باندھتے ہیں:
بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
اس بات
کا بیان: جو آدمی بچے کے رونے پر نماز مختصر کر لے
نماز سے بڑھ کر ظاہر ہے
کوئی چیز اعمال میں اہم نہیں۔ نماز با جماعت، مسجد نبوی کے اندر، نبیﷺ کی امامت
میں... اتنی بڑی جماعت محض ایک بچے کے رونے کی آواز پر مختصر کر دی جاتی ہے!
دین کی فطرت اور مزاج کو
سمجھانے میں نبی کا یہ ایک سادہ اور بےساختہ بیان ہزار نصوص پر بھاری ہے۔ مسئلہ ’نماز‘
تک محدود نہیں؛ یہ دراصل اِس ’’دین‘‘ ہی کا ایک تعارف
ہے۔ انسان کو سمجھنا، اس کی سرشت سے واقف اور اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہونا اِس دین
کے ساتھ خاص ہے۔ نفوس کو آسودگی دینا، ’’خدا سے تعلق‘‘ کو کبھی بوجھ نہ بننے دینا، ’’خدا کی پرستش‘‘ کو ہمیشہ ایک خوشگوار عمل ہی
بنا کر رکھنا... غرض نرمی، آسانی اور رحمت بذاتِ خود دین ہیں؛ اور دین کی
تشریعات میں گوندھ دی گئی اشیاء ہیں۔ لوگوں کی زندگی اجیرن کرنا کبھی ’’دین‘‘ نہ
ہو گا؛ بلکہ دین کی ایک غلط ترجمانی کہلائےگا۔ دین ہو اور لوگوں کےلیے الجھنیں پیدا کرے!!! تو پھر الجھنیں دور کون کرے گا؟ ’’دین‘‘
لوگوں کو مسائل سے نکالنے کا نام ہے نہ کہ مسائل پیدا کر کے دینے کا! ایسی دینداری ’’انسان‘‘ سے پہلے خود ’’دین‘‘ کے
ساتھ زیادتی ہے۔ زندگی کو کسی تنگ یا بند گلی میں دھکیل آنا، انسانی جذبوں کو
بےاعتنائی اور سردمہری سے لینا اور بھاری بھاری
مسئلے بتا کر لوگوں کو خدا سے بدظن کرنا ’دینداری‘ کی ایک خوفناک تعبیر ہے...
گو آج اِسی کا دور دورہ ہے۔
سبحان اللہ! صرف بچے کا
خیال رکھنے کی بات نہیں ہوئی... مامتا کا ذکر ہوا ہے!
ماں جس کا بچہ رو رہا ہے،
اور وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنے آئی ہوئی ہے، رسول اللہﷺ
اُس ماں پر نماز کی ساعتیں طویل نہیں ہونے دینا چاہ رہے؛ نماز کو وہیں پر مختصر کر
دیتے ہیں!
بخاری شریف میں، اس سے
اگلی ہی حدیث کے اندر، یہی بات انس کے بیان کے طور پر آئی ہے۔ اس میں؛ مامتا کا
ذکر ایک اور انداز سے ہے:
«مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً،
وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ
لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ»
میں نے
کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو نماز کو (بیک وقت) مختصر اور کامل رکھنے میں
نبی سے بڑھ کر ہو۔ آپ تو بچے کا رونا سن کر نماز مختصر کر دیتے تھے، اس اندیشے
سے کہ اس کی ماں فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔
یعنی ’’مشقت‘‘ کی بجائے
یہاں ’’فتنہ‘‘ کا لفظ آیا، جس میں انسان فہمی اور انسان رحمی کے موضوع پر معانی کا
ایک سمندر پنہاں ہے۔ انسانی جذبات اور احساسات کو اِس دین سے بہتر کوئی نہیں سمجھ
سکتا!
طیبی مشکاۃ المصابیح کی
شرح میں کہتے ہیں: فتنہ: یعنی ماں کا دورانِ نماز مبتلائے تشویش ہونا۔ پریشانی میں
پڑنا۔
ابن رجب اپنی فتح الباری
میں کہتے ہیں: فتنہ یہ ہے کہ ماں کی توجہ
نماز سے ہٹ کر کسی اور طرف کو کھنچ جائے۔
بخاری شریف ہی کی اگلی
حدیث میں، نبی کے الفاظ رحمت اور شفقت کے کچھ مزید معانی لے کر آتے ہیں:
«إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا،
فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ
شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ»
میں
نماز پڑھانے لگتا ہوں۔ میرا ارادہ لمبی نماز پڑھانے کا ہوتا ہے۔ تب میں بچے کا
رونا سن لیتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر لیتا ہوں۔ اس لیے کہ جانتا ہوں بچے کے
رونے کے باعث ماں کے دل پر جو گزرتی ہے وہ کیسی شدید ہے!
سبحان اللہ! بچے کے رونے
کے باعث ماں کے دل پر جو گزرتی ہے اس کی شدت کو ’’میں جانتا ہوں‘‘۔ کیسا حساس دل
ہے جو شریعت کا تقرر کرتے ہوئے انسانی جذبات سے اس حد تک آگاہ ہے اور ان کو اتنا
وزن اور اہمیت دیتا ہے۔ فداہ ابی و امی۔!!!
ابن رجب اپنی شرحِ بخاری
میں براء بن عازب سے حدیث لے کر آتے ہیں:
صلى بنا رَسُول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ - صلاة الصبح، فقرأ بأقصر سورتين فِي القرآن، فلما فرغ أقبل علينا
بوجهه، وَقَالَ: ((إنما عجلت لتفرغ أم الصبي إلى صبيها))
رسول
اللہ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جس میں آپ نے قرآن کی دو سب سے مختصر سورتیں
پڑھیں۔ فارغ ہوئے تو ہماری طرف رخ پھیرا اور فرمایا: ’’میں نے جلدی اس لیے کی کہ
ماں اپنے بچے کےلیے فراغت پا لے‘‘۔
ریاض الصالحین میں نووی
اس حدیث کو جس باب کے تحت لاتے ہیں وہ تو نہایت کمال اور توجہ طلب ہے:
باب تعظيم حُرمات المسلمين وبيان حقوقهم والشفقة عليهم
ورحمتهم
مسلمانوں
کی حرمتوں کا بیان۔ نیز مسلمانوں کے حقوق، ان پر شفقت اور ان پر رحمت کا بیان
ریاض الصالحین کا یہ پورا
باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان احادیث کو پڑھنے والا، یہاں سے ایک ایسا صاف شفاف،
لطیف اور حساس دل لے کر باہر آتا ہے کہ خلقت اس پر رشک ہی کرے۔ ’’مسلمان‘‘ پر تو
یہ دل سو سو بار فدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو اذیت میں ڈالنے کا روادار تو بھلا یہ کیسے
ہو گا، مسلمان کو آنے والی اذیت پر تڑپ اٹھتا اور آخری حد تک بےچین ہو جاتا ہے؛
کیونکہ احادیث کی وساطت اِس نے نبی کی کچھ صحبت پا رکھی ہے!
ریاض الصالحین کے اِس پورے
باب کو ہم کسی اور موقع پر پڑھیں گے۔ یہاں اس کی چند احادیث سے بہرہ یاب ہوتے چلیں
گے:
223-
وعن أبي موسى، قال: قال رسول اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "مَن
مَرَّ فِي شَيْءٍ مِنْ مَسَاجِدِنَا، أَوْ أَسْوَاقِنَا، ومَعَه نَبْلٌ
فَلْيُمْسِكْ، أَوْ لِيَقْبِضْ عَلَى نِصالِهَا بِكفِّهِ أَنْ يُصِيب أَحَداً مِنَ
الْمُسْلِمِينَ مِنْهَا بِشَيْءٍ" مُتَّفَقٌ عليه.
ابو موسی اشعری سے مروی
ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے:
جس شخص
کا ہماری مسجدوں اور بازاروں سے گزر ہو، اس حال میں کہ اُس کے ہاتھ میں تیر ہوں،
تو اُسے چاہئے وہ ان پر ہاتھ دھر لے، یا یہ کہ تیروں کی انیوں کو اپنی ہتھیلی سے
اچھی طرح پکڑ لے، اس اندیشے سے کہ اس کی کوئی چیز مسلمانوں میں سے کسی کو مجروح نہ کر بیٹھے‘‘۔
225-
وعن أَبي هُريْرَةَ رضي اللَّه عنه قَالَ: قبَّل النَّبِيُّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ
وسَلَّم الْحسنَ ابن عَليٍّ رضي اللَّه عنهما، وَعِنْدَهُ الأَقْرعُ بْنُ حَابِسٍ،
فَقَالَ الأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشرةً مِنَ الْولَدِ مَا قَبَّلتُ مِنْهُمْ أَحداً
فنَظَر إِلَيْهِ رسولُ اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم فقَالَ: "مَن لا
يَرْحمْ لاَ يُرْحَمْ" متفقٌ عَلَيهِ.
ابوہریرہ سے مروی ہے، کہا: رسول اللہ نے حسن بن علی کا
بوسہ لیا، جبکہ آپؐ کی مجلس میں اقرع بن حابس بھی تھا۔ اقرع
بولا: میرے دس بچے ہیں، میں نے ان میں سے کسی ایک کا بھی کبھی بوسہ نہیں لیا۔ تب
رسول اللہﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: جو بےرحم ہو اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
226- وعن عائشةَ رضي اللَّه عنها قَالَتْ: قدِم ناسٌ مِن
الأَعْرابِ عَلَى رسولِ اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم، فقالوا:
أَتُقبِّلونَ صِبيْانَكُمْ؟ فَقَالَ:"نَعَمْ"قالوا: لَكِنَّا واللَّه
مَا نُقَبِّلُ، فَقَالَ رسولُ اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "أَوَ
أَمْلِكُ إِنْ كَانَ اللَّه نَزعَ مِنْ قُلُوبِكُمْ الرَّحمَةَ" متفقٌ عَلَيْهِ.
عائشہ سے مروی ہے، کہا: اعراب کے کچھ لوگ رسول اللہ کے
پاس حاضر ہوئے، کہنے لگے: کیا تم اپنے بچوں کو چوم بھی لیتے ہو؟
آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ وہ بولے: مگر ہم تو بھئی کبھی نہیں چومتے۔ تب آپ نے فرمایا:
اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحمت محو کردی ہے تو میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں!
227- وعن جريرِ بنِ عبدِ اللَّه رضي اللَّه عنه قال: قال
رسول اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "مَنْ لاَ يرْحَم النَّاس لاَ
يرْحمْهُ اللَّه" متفقٌ عَلَيهِ.
جریر بن
عبد اللہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے:
جو
لوگوں پر رحم نہ کرے اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔
228- وعن أَبي هُريرةَ رضي اللَّه عنه، أَنَّ رسولَ اللَّه
صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم قَالَ: "إِذا صَلَّى أَحدُكُمْ للنَّاسِ
فلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمْ الضَّعِيفَ وَالسقيمَ والْكَبِيرَ. وإِذَا صَلَّى
أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيطَوِّل مَا شَاءَ"
متفقٌ عَلَيهِ.
وفي روايةٍ:"وذَا الْحاجَةِ".
ابو
ہریرہ سےمروی ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے:
جب تم
میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، تو اسے چاہیے کہ ہلکی رکھے؛ کیونکہ ان میں کوئی
ناتواں ہوتا ہے، کوئی بیمار، تو کوئی بوڑھا تو کوئی حاجتمند۔ ہاں اپنی پڑھنی ہو تو
جتنی چاہے لمبی کر لے۔
229- وعن عائشة رضي اللَّه عنها قَالَتْ: إِنْ كَان رسولُ
اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم لَيدعُ الْعَمَلَ، وهُوَ يحِبُّ أَنَ يَعْملَ
بِهِ، خَشْيةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ" متفقٌ عَلَيهِ.
عائشہ
سے مروی ہے، کہا: رسول اللہ ایسا عمل ترک کر لیتے، جو خود آپؐ کو بہت پسند ہوتا،
لیکن اندیشہ ہوتا کہ لوگ وہ عمل کرنے لگے تو وہ ان پر فرض ٹھہر جائے۔
230- وعنْهَا رضي اللَّه عنها قالَتْ: نَهَاهُمْ النَّبِيُّ
صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم عَن الْوِصال رَحْمةً لهُمْ، فَقَالُوا: إِنَّكَ
تُواصلُ؟ قَالَ: "إِنِّي لَسْتُ كَهَيئَتِكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُني رَبِّي
ويَسْقِيني" متفقٌ
عَلَيهِ
عائشہ
سے ہی مروی ہے، کہا: نبی نے صحابہ کو روزہ روزے کے ساتھ ملانے سے منع فرمایا، از
راہِ رحمت و شفقت۔ انہوں نے عرض کی: آپ تو ملاتے ہیں؟ فرمایا: میرا معاملہ تم جیسا
نہیں۔ میری شب بسری یوں ہوتی ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
231- وعن أَبي قَتادَةَ الْحارِثِ بنِ ربْعي رضي اللَّه عنه
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "إِنِّي لأَقُومُ
إِلَى الصَّلاةِ، وَأُرِيدُ أَنْ أُطَوِّل فِيها، فَأَسْمعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ،
فَأَتَجوَّزَ فِي صلاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ" رواه
البخاري.
حضرت ابو قتادہ حارث بن ربعی سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ نے:
بےشک میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں، اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز پڑھاؤں، پھر مجھے بچے کے رونے کی آواز
سنتی ہے، تو میں نماز مختصر کردیتا ہوں، اس ناپسندیدگی سے کہ میں اس کی ماں کےلیے
مشقت پیدا کردوں۔
ابن حجر عسقلانی اپنی شرح
بخاری میں لکھتے ہیں: اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بچوں کو مسجد میں لایا جا
سکتا ہے، گو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی قریب
کے گھر سے بچے کی آواز آتی ہو (جس کی ماں نبی کے ساتھ نماز میں شامل ہو)۔ عورتیں،
مردوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہو کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔ نیز نبیﷺ کا اپنے اصحاب
پر شفقت فرمانا۔ (امام کا) چھوٹے بڑے ایک ایک کا خیال رکھنا۔ نیز بعض اہل علم نے اس سے یہ مسئلہ بھی لیا کہ:
اگر امام رکوع میں ہو اور اسے اندازہ ہو کہ کوئی شخص نماز میں ابھی ابھی شامل ہونے
جا رہا ہے تو وہ رکوع کو ذرا لمبا کرلے۔ گو کئی ایک اہل علم نے اس سے اتفاق نہیں
بھی کیا، کیونکہ باقی مقتدیوں کےلیے یہ چیز باعث مشقت ہو سکتی ہے۔
ابن حجر کے بقول: اس حدیث
سے یہ مسئلہ بھی نکلا کہ نماز میں آدمی نے اگر کسی مستحب امر کا ارادہ کیا تو وہ
اس پر لازم نہیں ہو گیا اور اس کو پورا کرنا اس پر ضروری نہیں۔ (کوئی سبب پیش
آجائے تو اسے ترک کیا جا سکتا ہے)۔
ابن حجرؒ مزید کہتے ہیں:
ماں کا ذکر غالب احوال کے باعث ہوا۔ ورنہ جو بھی ایسی کسی صورتحال میں گرفتار ہو،
اس کے ساتھ (شریعت میں) یہی معاملہ ہوگا۔
قاضی عیاض اپنی مسلم شریف
کی شرح إکمال المعلم بفوائد مسلم میں فرماتے ہیں: اغلباً یہ ان بچوں کی بابت ہو
گا جن کی بابت یہ ڈر نہ ہو کہ وہ مسجد میں پیشاب پاخانہ کر بیٹھیں۔ (جس کی صورت یہ
ہو سکتی ہے کہ بچے کو زیرجامہ اس انداز سے پہنایا گیا ہو کہ مسجد میں غلاظت پڑنے
کا کوئی امکان نہ رہ گیا ہو)۔
بعض شارحین نے کہا:
نونہالوں کو صالحین کی صحبت میں لے جانے کی طرف بھی حدیث میں اشارہ ملتا ہے۔
صحابہؓ کا بچوں کو لے کر رسول اللہ کی
خدمت میں حاضر ہونا، بعد ازاں سلف کا بچوں کو علماء و بزرگ حضرات کی زیارت کروانا
ایک معلوم سنت ہے۔