ہندستان میں مذہب اور سیکولرزم کی کشمکش
پروفیسر عاصم حفیظ
بھارت میں نامور بالی وڈ سٹار عامر خان
کی ایک فلم’’ پی کے ‘‘ ریلیز ہونے کے بعد خوب ہنگامہ بپا ہے ۔ ہندوانتہاپسند
تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں ہنگاموں کے ساتھ ساتھ فلم کی ہیرو اور پروڈیوسر پر
مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں ۔آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشدجیسی تنظیموں کا
خیال ہے کہ اس فلم میں دیوتاؤں کی توہین کی گئی ہے جبکہ ہندو مذہب کے بنیادی
نظریات کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔جہاں ایک طرف انتہاپسندوں کی جانب سے تنقید
اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے یہ فلم مقبولیت کے نئے
ریکارڈز بنا رہی ہے ، اس فلم نے کمائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور یہ
بھارت کی اب تک سب سے زیادہ پیسہ کمانے والی فلم بن چکی ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے
اس فلم پر پابندی کی اپیل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ ’’جسے فلم
دیکھنی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا اور جس کے نظریات مجروح ہوتے ہیں وہ نہ دیکھے ‘‘۔
اس واقعے نے بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور سیکولرازم کے درمیان تفریق اور کشمکش
کو مزید واضح کیا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا واقعہ بھارت میں فلم
’’ میسنجر آف گاڈ ‘‘ کی ریلیز کے حوالے سے پیش آیا۔ یہ فلم ایک سکھ مذہب سے تعلق
رکھنے والے ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ ’’ گرومیت رام رحیم سنگھ ‘‘ نے بنائی ہے ۔
گروجی نے اس فلم میں بطور ہیروخود اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ آپ ان گرو صاحب
کے نام سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کیسی شخصیت ہوں گے یعنی رام (ہندو دیوتا )
، رحیم ( اللہ تعالی کے نام کا استعمال) اور سنگھ یعنی سکھ مذہب سے تعلق۔ یہ گرو
فلم کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی خود کو ایک سپر ہیرو کے طور پرپیش کرتے ہیں ۔
مسئلہ یہ ہوا کہ ان کی فلم کو سنسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔
سنسر بورڈ کے تمام ارکان فیصلہ تھا کہ یہ فلم معاشرے میں توہم پرستی اور مافوق
الفطرت نظریات کو فروغ دے گی ۔اس میں گرو جی کو معجزے کرتے دیکھایا گیا ہے ۔ سنسر
بورڈ کی جانب انکار کے بعد گرو جی نے عدالت سے رجوع کیا جس نے فلم کی نمائش کی
اجازت دے دیدی۔ اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارتی مرکزی سنسر بورڈ کی
سربراہ لیلا سیمسن اور کئی ارکان نے استعفی دے دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فرسودہ
مذہبی توہمات پر مشتمل اس فلم کو سینماؤں میں دکھانے کے فیصلے کے بعد اپنے عہدے پر
نہیں رہنا چاہتیں۔
اس واقعے کا ذکر کرنے کا واحد مقصد
بھارتی معاشرے میں جاری ایک کشمکش کی تصویر دیکھانا ہے کہ کس طرح وہاں سیکولر اور
کٹر مذہبی نظریات آپس میں پوری شدت سے ٹکرا رہے ہیں ۔ ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں
، مغرب سے پڑھے نوجوان ،مشنری اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں سے نکلے افراد ، صنعت
کار و تاجر ، کاسمیٹکس انڈسٹری ، بالی وڈ کی فلم نگری ہے جبکہ دوسری جانب گرو،
سادھو ، مذہبی اوران کے حواری، ان کے پاس دلیل نہیں ، مذہبی کتب کے حوالے ہیں ،
فرسودہ روایات، مذہبی تہواروں کی بندش ہے ۔ اس مضمون کا مقصد بھی بھارتی معاشرے
میں سیکولر ازم کے اظہار ، مذہب پر تنقید ، الحاد کی لہر ، معاشرتی روایات کی
تبدیلی کی روش کو زیر بحث لانا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زبان یکساں ہونے کی وجہ
سے اس کے پاکستانی اور اور دنیا بھر میں اردو سمجھنے والے طبقے پر اثرات کا جائزہ
لینا ہے ۔ بھارتی فلموں اور معاشرے میں مذہب بیزاری کے اظہار اور مذہبی روایات کا
مذاق اڑانے کے اثرات غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری دینی طبقہ اس پہلو پر غور ہی نہیں کر رہا ۔ اگر ہم تاریخی
حوالے سے جائزہ لیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو من پسند طریقے سے
ماڈرن بنانے اور مذہبی روایات سے دور کرنے کا عمل ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی کیا
جاتا ہے ۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ایسا لڑیچر ، فلم ، ڈرامے ، اسٹیج ۔ ناول
، کتب حتی کہ روزمرہ کے محاورے اور لطائف سامنے آئے جن کا مقصد معاشرے کو ماڈرن طرز
زندگی اپنانے کی طرف مائل کرنا تھا ۔ سامراجی قوتیں اس سے بے پناہ مقاصد استعمال
کرتی ہیں ، کمپنیاں اشیاء بیچ کر منافع کماتی ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر اور سرمایہ دار
معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی اور معاشرتی روایات کو کمزور کیا جائے۔ اس کی بڑی
مثال مغرب میں عیسائیت کی شکست ہے ۔ ایسا صرف اور صرف اس لئے ممکن ہوا کہ عیسائیت
کے پاس کوئی ٹھوس عقائد و نظریات نہیں تھے جو کہ سائنس کی دلیلوں کے سامنے ٹھہر
سکتے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں مذہب کو دیوار سے لگا کر کارپوریٹ کلچر اور
ماڈرن طرز زندگی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ہندوستان جیسے
مغربی سرمایہ کار ایک ’’ منافع بخش مارکیٹ ‘‘ سمجھتے ہیں وہاں شاید اب یہی ہونے والا
ہے ۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی اس کشمکش کے بارے میں تجزئیہ کرتا ہے کہ ’’
بھارت کی سیاست، معاشرہ اور اقتصادی نظام اس وقت ایک ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں جس
کے مستقبل کے بارے میں کوئی واضح پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔موجودہ دور میں ہر
تبدیلی اقتصادی پہلوؤں پر مرکوز ہوتی ہے اور کوئی بھی پہلو جو اقتصادی ترقی کی راہ
میں حائل ہوگا وہ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ اقتصادی ترقی اور انفرادی آزادی تنگ
نظری کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ دنیا کے درجنوں ممالک اپنی تنگ نظری اور غیر جمہوری
نظام کے سبب اس وقت انتشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔ اس لیے وہ تمام عناصر، نظریے
اور تصورات جو جمہوری اصولوں اور انفرادی حقوق سے متصادم ہوں گے ان کی شکست لازمی
ہے ‘‘۔ بھارتی معاشرے میں تبدیلی کا اہم ترین ہتھیار بالی وڈ ہی ہے کیونکہ اس کے
ذریعے ہی معاشرے میں ایسی بحثیں شروع کرائی جا رہی ہیں جن میں مذہبی رسوم و رواج
اور فرسودہ روایات کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے ۔ اس سے قبل ایک بھارتی فلم ’’ او
مائی گاڈ ‘‘ کا موضوع بھی ایسا ہی تھا جس میں دیوتاوں اور خصوصا گرو اور سادھوں کے
کردار کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت
مذہبی رہنماوں کے کردار کو لیکر مذہب کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔ ہمارے
ہاں بہت سے حلقے خوش دیکھائی دیتے ہیں کہ انڈین فلمیں اپنے ہی مذہبی نظریات کے
کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہی ہیں ۔ ان فلموں کا ظاہری تاثر تو ہندو مت کے حوالے
سے ہی ہوتا ہے لیکن دراصل ان میں تمام مذاہب کو ہی کسی انسان کے لئے بے فائدہ اور
انسانیت کو درپیش مسائل کی جڑ قراردیا جاتا ہے ۔ان کا مقصد ناظرین کو مذہب سے دور
کرنا ہے تاکہ ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جس میں صرف اور صرف سیکولر نظریات اور
کارپوریٹ کلچر کو پھلنے پھولنے کا موقعہ فراہم کیا جا سکے ۔ اس صورتحال میں ہماری
دلچسپی یہ ہے کہ ان فلموں ، ڈراموں ، ناول وغیرہ میں ہندومت اور دیگر مذاہب کے
ساتھ ساتھ اسلام کو بھی اسی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوتا ، سکھوں کے
بابا گرونانک ، عیسائیوں کے تصور خدا اور مسلمانوں کے اللہ تعالی پر ایمان کو ایک
ہی طرز کی عقیدت کا اظہار قرار دیا جاتا ہے۔ ہندو گرو اور سادھوں کے کردار کو زیر بحث لاتے
ہوئے مسلمانوں کے علمائے کرام اور مذہبی رہنماوں کو بھی اسی طرز پر پیش کیا جاتا
ہے۔ دراصل یہی وہ صورتحال ہے کہ جس کا ٹھیک سے ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ ان فلموں
میں مذہبی رہنماوں کو ’’ مینیجرز ‘‘ کہا گیا یعنی جو خدا کے نام پر اپنا ’’ بزنس
‘‘ چمکاتے ہیں ۔ گرو یا سادھوں کی بے پناہ دولت کا تذکرہ کرتے کرتے مساجد و مدارس
کو دئیے جانیوالے چندے کو بھی اسی طرح کی ایک روایت قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں
اسلامی روایات کی تعلیم کو بھی سادھوں اور ہندو پیشواوں کی فرسودہ روایات کی
پاسداری کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستانی
دینی حلقوں اور دنیا بھر میں اردو دان طبقے میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو
چاہیے کہ وہ نہ صرف اس صورتحال کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں کیونکہ بہت جلد
ان کو بھی نوجوان نسل کی جانب سے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جو ان فلموں
میں اٹھائے جاتے ہیں ۔ بھارت میں مذہب کو بے توقیر کرنے کی مہم بہت جلد مسلم
معاشروں سے بھی ٹکرائے گی بلکہ کسی حد تک اسلامی مقدس الفاظ اور عقائد اس کا نشانہ
بن بھی چکے ہیں۔
بھارت میں سیکولرازم کے ابھرنے کی کئی
وجوہات ہیں ۔ ایسا بالکل نہیں کہ مذہبی حلقے کچھ کم اہمیت کے حامل ہیں ۔ نریندر
مودی کی سرکار آنے کے بعد کٹر مذہبی نظریات رکھنے والے حلقوں کی بے پناہ حوصلہ
افزائی ہوئی ہے ۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ کلچر کے فروغ اور
اسے ایک مکمل آزاد مارکیٹ بنانے کے لئے بھی بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ۔
انتہائی غیر محسوس انداز میں بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ مذہب بیزار اور جدید طرز
معاشرت کے نام پر سیکولرنظریات کا پیروکار بنتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داربھارت
کو ایک منافع بخش خطہ بنانا چاہتے ہیں ۔ معاشرے میں ملٹی نیشنل کے کاروبار کو
پھلنے پھولنے کے لئے ایک خاص ماحول درکار ہوتا ہے جس کے لئے مذہبی روایات اور رسوم
و رواج کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ کاسمیٹکس انڈسٹری ، نت نئے برانڈز ، فیشن انڈسٹری ،
فوڈ چینز ، ٹیکنالوجی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ ایسا ماحول بھی موجود ہو کہ جس
میں یہ سب فروخت ہو سکے۔اسی مقصد کے لئے فلم اور ٹی وی پر ماڈرن طرز زندگی دیکھایا
جاتا ہے اور سیکولر نظریات کے فروغ کے لئے ہونیوالی فلم سازی کے بھی یہی مقاصد
ہیں۔ بھارتی فلموں اور ڈراموں میں خاندانی نظام کو بھیانک روپ میں دیکھایا جاتا ہے جبکہ بغیر شادی کے جوڑوں کے رہنے کو جدت کی
علامت اور قابل قبول بنانے کی کوشش جاری ہے۔ آج ہم بھارتی معاشرے کے مناظر جگہ جگہ
دیکھتے ہیں ۔ وہ بھارت کہ جہاں سرکاری سطح پر بھی صرف مقامی تیار ہونیوالی
گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں اب ایسا نہیں ہے ۔
وہاں کھیلوں میں اربوں کی سرمایہ کاری اس طرح ہو رہی ہے کہ فلمی اداکار
ٹیموں کے مالک ہیں ۔ بظاہر کھیلوں کے یہ میلے معاشرے کو آزادانہ بنانے کی ہی ایک کوشش
ہیں ۔ آئی پی ایل کرکٹ مقابلوں کو دنیا کے بڑے سپورٹس ایونٹس کا درجہ مل چکا ہے جس
میں کھلاڑیوں کی بولی لگا کر نہ صرف ان کو کھلایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ جوئے ،
تشہیری مہم اوررقص و سرور کے مظاہرے بھی ہوتے ہیں ۔بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں کی
مقبولیت کو بھی ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ یہ شاید پہلا موقع ہو
گا کہ بھارتی کے معروف ترین کرکٹر ویرت کوہلی آسٹریلیا میں سیریز کھیلنے اپنی دوست
اداکارہ انوشکا شرما کے ساتھ گئے ۔ میڈیا نے اس واقعے کو اس قدر مشہور کیا کہ یہ
زبان زد عام ہو گیا ۔ مغرب میں تو یہ بات معمول کا حصہ ہے لیکن بھارت کے روایتی
معاشرے میں یہ واقعہ واقعی معنی خیز حیثیت رکھتا ہے ۔
بھارتی معاشرے کی اس تبدیلی نے ہر طبقے
کو بھرپور طریقے سے متاثر کیا ہے ۔ ملک میں جنسی تشدد کے حوالے سے ہونیوالی بحثیں
اور اس قسم کے واقعات کی بے پناہ کوریج کو بھی ایسی ہی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے
کہ بہت سی قوتیں بھارت میں سوچ کی تبدیلی اور ایسی بحثیں پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ
جو معاشرے کو مروجہ مذہبی اور ثقافتی روایات سے دور کر دیں۔ بھارت میں جنسی تشدد
کے مسئلے کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک نئی تصویری کہانی
شائع کی گئی ہے جس کی مرکزی کردار یا ’سْپر ہیرو‘ ایک ایسی لڑکی ہے جو ریپ کے تلخ
تجربے سے گزر چکی ہے۔
کچھ سال پہلے تک ہندو انتہا پسند
تنظیمیں ویلنٹائن ڈے جیسے مغربی تہواروں کے خلاف احتجاج کرتی اور منانے والوں کے
ساتھ سختی سے نمٹتی تھیں ۔ لیکن اب حالات نے خود بھارتی قانون ، عدلیہ اور اداروں
کو بعض ایسی روایات کے تحفظ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جو اس خطے کی ثقافت او خود
ہندو مذہبی نظریات کی عکاس نہیں۔بھارت میں بہت سے نوجوان جوڑے جن کے خاندان والے
اور والدین ان کے جیون ساتھی کے چناؤ سے خوش نہیں ہیں، پولیس کے زیرِ انتظام خصوصی
پناہ گاہوں میں آ رہے ہیں۔عدالت نے پولیس کو اس جوڑے کو تحفظ دینے اور اسی مقصد کے
لیے بنائی گئی پناہ گاہوں میں رہائش مہیا کرنے کا حکم دیا۔ پچھلے سال ہریانہ میں
ایسے دو سو جوڑے تھے جنہوں نے ان پناہ گاہوں کا دروازہ کھٹکٹایا۔ بھارتی ذرائع
ابلاغ میں ایک جوڑے کی کہانی بہت مشہور ہوئی جنہیں بمبئی کے ’’ لو کمانڈوز ‘‘ نے
ان کے والدین سے بازیاب کروا کر ایک کر دیا ۔ یہ لو کمانڈوز بوڑھے تاجروں اور
صحافیوں کا یہ گروہ دس سال پہلے نوجوانوں کو قدامت پسند ہندؤں اور مسلمانوں سے
بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ہے جدید بھارت کی بدلتی ہوئی روایات کی ایک تصویر۔
بھارتی سپریم کورٹ کی ’’ پی کے ‘‘ کے بارے میں فیصلہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ جب
کسی عدالت نے کڑ مذہبی نظریات کی بجائے ایسا فیصلہ سنایا جو کہ ہندو قدامت پرستوں
کے لئے غیر یقینی تھا ۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ
حکومت کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی فرد کو اپنے مذہب کے بارے میں بتانے کے لیے مجبور
نہیں کر سکتا۔ عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ مذہب اور ضمیر کی آزادی کے ضمن میں
کسی مذہب میں یقین نہ کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کو ماہرین بھارت میں
سیکولر حلقوں کے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
بھارت میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت
مذہب ، مذہبی پیشواوں ، روایات اور عقائد پر تنقید کی جو مہم جاری ہے اس کا ایک
پہلو یہ بھی ہے کہ خالص اسلامی الفاظ ، اللہ تعالی کے ناموں اور دیگر عقائد کو گانوں
میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اسلامی عقائد اور روایات کو بھی اسی ترازو میں تولا جاتا ہے
کہ جس میں ہندومت کی قدامت پرستی ، دقیانوسیت اور فرسودہ رسوم و رواج کو رکھا جاتا
ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر اسلامی عقائد و نظریات کو بھی انتہائی گھٹیا انداز میں
پیش کیا جائے گا تو دیکھنے والوں کے دل سے ان کے بارے میں عقیدت و احترام کے جذبات
کم کئے جا سکیں گے۔ جی ہاں یہی وہ مقصد ہوتا ہے کہ جو ان عناصر نے ایسے فلموں کے
ذریعے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عقیدت ختم ہو جائے ، ذات باری تعالی پر ایمان اور مقدس
ہستیوں کے احترام کو موضوع بحث بنا دیا جائے تو یقیناًاس سے مذہب سے دوری اور مکمل
بیزاری کی منزل حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی فلموں میں مقدس
اسلامی الفاظ کے استعمال کے بڑے ذمہ دار بھی وہ مسلمان رائٹر اور فنکار ہیں کہ جو
بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں ۔ یہ ہی ایسے گانے اور جملے لکھتے
ہیں کہ جن سے مقدس الفاظ کی بے حرمتی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ
سب کچھ ایسے فلمی مناظر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ جو اسلام کے طرز معاشرت کی
کھلی مخالفت ہے۔ کسی فلم کی لو سٹوری بیان کرتے کرتے اس محبت کے کرداروں کو خدا ،
قرآنی آیات اور اسلامی القابات کے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی سلوگنز
اور سمبلز کو گانوں میں ملاکر ان کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور
تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم
کے ماننے والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں، بلکہ کچھ ان حقائق سے لاعلم ہیں تو کچھ
جانتے بوجھتے ان ہی گانوں سے تفریح حاصل کررہے ہیں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ چند
مثالیں صرف اس لئے پیش کی جا رہی ہیں کہ شاید ان کو دیکھ کر ہمارے دینی جذبہ رکھنے
والے حلقوں میں کوئی بیداری پیدا ہوا ۔ وہ اس کو بھی ایک معاشرتی مسئلہ سمجھیں اور
کبھی کسی فورم پر یہ بھی بات ہو کہ کس طرح انتہائی خاموشی سے ہمارے دل سے ذات باری
تعالی ، قرآنی اور مقدس الفاظ کی عقیدت نکالی جا رہی ہے ۔ ان کو فحش و عریاں مناظر
کے ساتھ پیش کرکے کتنا بے قدر کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان الفاظ کے چناؤ سے بھی آپ
کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح محبوب و محبت کے تقابل کے لئے اور کتنے غلیظ خیالات کے
اظہار کے لئے مقدس اسلامی الفاظ کو استعمال کر لیا جاتا ہے۔
* اگست 1998ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم ’’دل سے‘‘ کا گانا چھیّاں چھیّاں میں جنت اور آیات کے لفظوں کو کچھ یوں
استعمال کیا گیا ہے: جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں ، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی ...چل
چھیّاں چھیّاں ...تعویذ بنا کے پہنو ...اسے آیت کی طرح مل جائے کہیں... وہ یار ہے
جو ایماں کی طرح میرا نغمہ وہی میرا کلمہ وہی...
* جولائی 2002ء4 میں
ریلیز کی گئی فلم ’’مجھ سے دوستی کروگی‘‘ کے گانے کے الفاظ ہیں: ’’جانے دل میں کب
سے ہے تو ...مجھ کو میرے رب کی قسم، یارا رب
سے پہلے ہے تو‘‘۔
* 2006ء4 میں کشمیر کے موضوع پر
بننے والی فلم ’’فنا‘‘ میں ایک پہلو یہ تھا کہ تحریکِ آزادی کشمیر کو مسخ کرنے کی
کوشش کی گئی تو اسی فلم کے ایک گانے میں کہا گیا کہ چاند سفارش جو کرتا ہماری...دیتا
وہ تم کو بتا ...شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا ...سبحان اللہ سبحان
اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ ...(اللہ سبحانہ تعالیٰ کی صفاتِ مبارکہ اور اسمائے
حسنیٰ کے ساتھ بے ہودہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے پس منظر میں نازبیا
حرکتوں کی عکس بندی ہوتی ہے اور پس منظر میں رقص و سرود کے منظر فلمائے جاتے ہیں)۔
* نومبر 2007ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم ’’سانوریا‘‘ کے گانے کے الفاظ ہیں: جب سے تیرے نینا میرے نینوں سے لاگے
ری ...تب سے دیوانہ ہوا ...سب سے بیگانہ ہوا ...رب بھی دیوانہ لاگے رے (نعوذباللہ)
اسی فلم کے ایک اور گانے میں ماشااللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ...دل نشیں
دلکشی ہو یا جنت کا نور ہو ماشااللہ ماشااللہ ماشااللہ ماشااللہ...
* اکتوبر2007ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم بھول بھلیاں کا گانا: معاف کریں ، انصاف کریں ، رب ہو نہ خفا ، جان
جہاں سے بیگانے ، جہاں سے اب میں ہوں ، جدا جان لیا ہے میں نے ، مان لیا ہے میں نے
، پیار کو اپنا خدا سجدہ کروں میں، پیار کا سجدہ سجدہ کروں میں ، یار کا سجدہ سجدہ
کروں دیدار کا سجدہ۔
* جولائی2008ء4 میں ریلیز کی گئی فلم ’’گجنی‘‘
کے گانے کے الفاظ ہیں ...کیسے مجھے تم مل گئیں ...قسمت پہ آئے نہ یقین ...میں تو
یہ سوچتا تھا ...کہ آج کل اوپر والے کو فرصت نہیں ...پھر بھی تمہیں بنا کے ...وہ
میری نظر میں چڑھ گیا ...رتبے میں وہ اور بڑھ گیا ...
* اگست2008ء4 میں ریلیز کی
گئی فلم بچنا اے حسینو کا گانا: سجدے میں یوں ہی جھکتا ہوں ...تم پہ ہی آکے رکتا
ہوں ...کیا یہ سب کو ہوتا ہے... ہم کو کیا لینا ہے سب سے... تم سے ہی سب باتیں اب
سے ...بن گئے ہو تم میری دعا ...خدا جانے میں فدا ہوں ...خدا جانے میں مٹ گیا ہوں ...خدا
جانے یہ کیوں ہوا کہ بن گئے ہو تم میرے خدا۔
* دسمبر 2008ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم ’’رب نے بنا دی جوڑی‘‘ کا گانا ...تجھ میں رب دکھتا ہے کے الفاظ ہیں ...تجھ
میں رب دکھتا ہے ...یارا میں کیا کروں ...سجدے میں دل جھکتا ہے... یارا میں کیا
کروں ...
* جولائی 2009ء4 میں فلمLove Aaj Kal کے لیے بھی کچھ
اسی قسم کا گانا ’آج دن چڑھیا‘ گایا ہے۔جس کے الفاظ ہیں: مانگا جو میرا ہے ...جاتا
کیا تیرا ہے... میں نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی ...کیسا خدا ہے تو بس نام کا ہے ...تو
ربا جو تیری اتنی سی بھی نہ چلی ...چاہے جو کردے تو مجھ کو عطا جیتی رہے سلطنت
تیری ...جیتی رہے عاشقی میری ...
* فروری 2010ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم My Name is Khan کے گانے کو بھی
پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے: اب جان لوٹ جائے ، یہ جہاں چھوٹ
جائے ، سنگ پیار رہے ، میں رہوں نہ رہوں ، سجدہ تیرا سجدہ کروں ، میں تیرا سجدہ ،
* مارچ 2010ء4 میں ریلیز کی
گئی فلم ’’پرنس‘‘ میں عاطف اسلم نے ایک گانا گایا ہے ’’تیرے لیے‘‘۔ اس میں کہا گیا
ہے: جنتیں سجائیں میں نے تیرے لیے چھوڑ دی میں نے خدائی تیرے لیے...
* جولائی 2010ء4 میں ریلیز
کی گئی فلم Once Upon Time in Mumbai کے گانے کے الفاظ
ہیں ... تم جو آئے زندگی میں بات بن
گئی... عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی... یہ گانا پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان
نے گایا ہے۔
* اس کے علاوراحت
فتح علی خان نے جولائی 2010ء میں ریلیز کی
گئی فلم I Hate Love Storyکا گانا بھی
ملاحظہ کریں... صدقہ کیا یوں عشق کا کہ سر جھکا جہاں دیدار ہوا ، وہ ٹھیری تیری
ادا کہ رک بھی گیا میرا خدا۔
حاصل کلام یہ کہ پاکستان کے دینی حلقوں
کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بھارت میں جاری مذہب اور سیکولرازم کے درمیان کشمکش پر
بھرپور نظر رکھیں بلکہ بھارتی فلموں اور دیگر مواقع پر اسلامی نظریات و عقائد کو
انتہائی غلط انداز میں پیش کرنے کی کوششوں سے بھی بھرپور آگاہ ہوں۔ زبان کی
یکسانیت کے باعث یہ سارا مواد پاکستانی اور دنیا بھر میں موجود اردو دان طبقے کو
پوری قوت سے متاثر کر رہا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل اور معاشرے کے ہر طبقے کو وہ
فرق سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جو اسلام کی لازوال الہامی تعلیمات اور ہندو مت کے
عقائد میں ہے ۔ انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہندو مت کی قدامت پرستی اور
مذہبی جنونیت اور اسلامی تعلیمات کو ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اگر آج
ہندوستانی معاشرے میں مذہب بیزاری کے آثار نظر آ رہے ہیں تو ہرگز ضروری نہیں کہ
اسلام کے ماننے والے بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائیں یا کم از کم ان نظریات سے
متاثر نظر آئیں ۔ اس تحریر کا واحد مقصد ایک اہم مسئلے کی طرف اہل علم و دانش کی
توجہ مبذول کرانا تھا ۔ اگر ہمارے سماجی ماہرین ، علمائے کرام ، سکالرز اور دیگر اصحابِ
دانش اس حوالے سے توجہ دیں تو یقیناًاپنے معاشرے کو بھارتی ثقافتی اثرات سے محفوظ
بنایا جاسکتا ہے۔