چرچل اور ہرقل.. ایک کردار
کا اعادہ؟
عائشہ
جاوید
چرچل کے بڑوں نے بھی اس سے پہلے اسلام
میں رغبت ظاہر کر لی تھی؛ پر ’’سیاست‘‘ کی قیمت پر نہیں! اسلام قبول کرنے کو جی
چاہتا تھا؛ اگر منصب وبادشاہت کی قربانی نہ دینی پڑے!
بخاری میں آتا ہے: شہنشاہِ روم ہرقل
کو رسول اللہﷺ نے جب اسلام کی دعوت دی، تو ہرقل نے سب دروازے بند کر کے، اپنے
درباریوں کے سامنے نبیﷺ کا حلقہ بگوش ہو جانے کی بات کر ڈالی۔ لیکن جیسے ہی
درباریوں نے ردعمل دکھایا، ہرقل جھٹ سے پینترا بدل گیا۔ بالفاظِ بخاری: ’’جب ہرقل نے
ان کا تنفّر دیکھا اور ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوا تو کہا: انہیں میرے پاس
واپس لاؤ، اور بولا: میں نے ابھی جو بات تم سے کی، اس سے میں تمہاری دینی پختگی
جانچنا چاہتا تھا اور وہ میں نے جانچ لی۔ تب وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدہ ریز
ہوئے اور اس سے خوش ہوگئے‘‘۔ گو یہ وہی
ہرقل ہے جو بعد ازاں رسول اللہﷺ پر چڑھائی کےلیے بھی عازمِ قتال ہوا، اور اسی کے
جواب میں رسول اللہﷺ نے تبوک کی فوجی مہم اختیار کی۔ البتہ عین موقع پر ہرقل رسول
اللہﷺ کا سامنا بھی نہ کر سکا۔
طبقات ابن سعد ودیگر کتب میں آتا ہے:
عیسائی مقوقس، شاہِ مصر نے بھی آپﷺ کے نامہ مبارک پڑھنے کے بعد اظہار کیا کہ وہ
اپنے وقت کے نبی کو پہچان گیا ہے۔ لیکن محض آپ کو کچھ تحفے تحائف بھیجنے پر ہی
اکتفا کر گیا۔ جس پر آپﷺ نے فرمایا: ضَنَّ
الخَبِیۡثُ بِمُلۡکِہٖ ’’خبیث
کو اپنی بادشاہت ہی پیاری ہوئی‘‘۔
کچھ ایسا ہی معاملہ شاید ونسٹن چرچل
کا بھی ہے، جوکہ حال ہی میں بعض دستاویزی انکشافات سے سامنے آیا ہے۔
زیر نظر مضمون برطانوی اخبار ’’انڈیپنڈنٹ‘‘ کی ایک رپورٹ[1] کا بیان اور اس
پر کچھ تبصرہ ہے۔
Winston Churchill and the
Islamic World: Orientalism, Empire and Diplomacy in the Middle East کی
تالیف کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کے شعبہء تاریخ سے وابستہ ریسرچ فیلو –وارن
ڈوکٹر- اور لندن کے مئیر بوریس جانسن کو حال ہی میں ملنے والے ایک خط سے یہ
انکشاف ہوا ہے کہ ونسٹن چرچل کے اہل خانہ کو اس کے قبول اسلام کے رجحان پر شدید
تشویش لاحق تھی اور ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ اپنی اس خواہش کو ترک کر دے۔
دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو فتح سے ہمکنار کرنے والے وزیر اعظم چرچل کو اسلام
اور مشرقی روایات میں اس قدر کشش محسوس ہوئی تھی کہ اس کے خاندان کو منت سماجت کر
نے کی نوبت آگئی تھی کہ وہ دین اسلام کا انتخاب کرنے سے گریز کرے۔
اگست ۱۹۰۷ میں چرچل کی بھابی کا تحریر کردہ خط ملا ہے جس میں
لکھا کہ: 'براہ کرم اسلام قبول کرنے کا فیصلہ نہ کرنا، مجھے تمہارے اندر مشرقی طور
طریقوں کی رغبت حقیقتاً بہت زیادہ محسوس ہوئی
ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ تم اس معاملے میں کوئی جذباتی فیصلہ خود پر غالب نہ آنے دو'۔
The Independent سے گفتگو کرتے ہوئے ڈوکٹر کا کہنا تھا کہ چرچل
بالعموم کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا تھا اور شاید اس نے سنجیدگی سے
قبول اسلام کے بارے میں نہ سوچا ہو مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دیگر
وکٹورینز Victoriansکی طرح وہ اسلامی تہذیب
و تمدن سے شدید متاثر تھا۔
چرچل کو سوڈان میں اسلامی معاشرے کو تفصیل سے دیکھنے کا
موقع ملا جب اس کی تعیناتی برطانوی فوج میں کی گئی تھی۔ ۱۹۰۷ میں لیڈی لیٹن کو لکھے گئے ایک
خط میں اس نے لکھا کہ پاشا کہلانے کی خواہش اکثر اس کے دل میں ابھرتی تھی ،
پاشا خلافت عثمانیہ میں ایک اعزازی خطاب تھا ، اسی طرز پر جس طرح برطانیہ میں 'سر'
کا خطاب امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔
نجی محفلوں میں چرچل کو عربی لباس پہننے کا بھی شوق تھا اور
وہ اکثر اپنے ایک شاعر دوست ولفریڈ بلنٹ کے ہمراہ اس لباس میں نظر بھی آتا
تھا۔چرچل کے اہل خانہ اس دوست کے ساتھ اس کی قربت پر بھی تشویش میں
مبتلا رہتے تھے مبادا اس کی صحبت سے وہ مذہب کی طرف مزید راغب نہ ہو جائے۔
۱۹۴۰ میں جرمنی کے خلاف جاری جنگ کے دوران اس نے مسلمان
ممالک کا دل جیتنے کےلیے ایک لاکھ پاونڈ کی خطیر رقم ریجنٹ پارک میں لندن کی مرکزی
مسجد تعمیر کرنے کےلیے ہدیتاً مختص کی تھی۔ بعد ازاں اس نے House
of Commons میں ذکر
کیا کہ اس عمل کو دوست ممالک کی جانب سے خاصی پذیرائی ملی تھی۔
بعض تحریروں سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ چرچل کے ذہن میں اسلام
سے متعلق سوالات اور شبہات بھی تھے اور وہ اس بارے میں وقتا فوقتا اپنے
اعتراضات کا اظہار بھی کیا کرتا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بیشتر مواقع پر
اسلام کی بطور مذہب اور مسلمانوں کی بطور افر
اد اپنی پسندیدگی بھی ظاہر کی اور اس بات کا تذکرہ کیا کہ اسلام کوئی پژ مردہ مذہب
نہیں بلکہ اس میں فرد کو اپنی طرف مائل کرنے کی فطری صلاحیت
بدرجہء اتم موجود ہے ۔ گویا برطانوی سامراج کے ہرقل کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ دین
محمدﷺ میں ہی عقول کی سب سے بڑی تشفی ہے!
[1]
http://www.independent.co.uk/news/people/news/sir-winston-churchills-family-begged-him-not-to-convert-to-islam-letter-reveals-9946787.html