بندوں پر سب سے پہلا فرض
’’عقیدہ‘‘
پر حافظ حکمی کا متن ’’اعلام السنۃ المنشورۃ‘‘
عقیدہ کا مشہور متن ’’اَعلام السنۃ المنشورۃ لاعتقاد
الطائفۃ الناجیۃ المنصورۃ‘‘ مؤلفہ حافظ بن احمد بن علی الحِکَمی۔ یہی کتاب ’’عقیدہ
کے 200 مسئلے‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ عوام الناس کی سطح پر تلقینِ عقیدہ کےلیے
نہایت موثر وموزوں کتاب۔ یہاں ’’اعتقاد‘‘
کی سیریز میں ہم وقتاً فوقتاً اِس متن سے خوشہ چینی کرتے رہیں گے۔ ’’ایمان مفصل‘‘
کی تعلیم میں بچوں اور نوجوانوں کےلیے یہ مختصر کتاب شامل نصاب ہونے کے لائق ہے۔
بندوں
پر سب سے پہلا فرض کیا ہے؟
بندوں
پر سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اُس خاص بات کو معلوم کریں
ý
جس
کےلیے اِن کو پیدا کرنے والے نے اِنہیں پیدا کیا ہے۔
ý
جس
کےلیے اُس نے اِنہیں دنیا میں بھیجنے سے پہلے اِن سے باقاعدہ ایک میثاق لیا تھا۔
ý
جس کی
خاطر وہ مسلسل اِن کی طرف اپنے رسول بھیجتا اور اِن پر اپنی کتابیں اتارتا رہا۔
ý
جس
کےلیے خود یہ ساری دنیا بنی؛ اور آخرت
وجود میں آئی؟
ý
جس کی
خاطر جنت اور دوزخ تخلیق ہوئی؟
ý
اور جس
کو بنیاد بنا کر وہ قیامت برپا کرے گا، حشر
اٹھائے گا، ترازؤوں کو نصب فرمائے گا، اور اعمال نامے پھیلا پھیلا کر ان کے سامنے رکھوائے گا۔
ý
جس کی
بنیاد پر بدبختی اور خوش نصیبی کے اصل فیصلے ہوں گے۔
ý
جس کی
مقدار کے بقدر خوش بختوں کو قیامت کے روز نور اور راحت ملے گی، اور بدبختوں کو
تاریکی اور ذلت۔
*****
تو پھر
وہ کیا چیز ہے جس کی خاطر مخلوق بنائی گئی؟
اُس کا
فرمان سنو:
’’ہم
نے ہرگز ان آسمانوں اور اس زمین کو کسی دل لگی کےلیے پیدا نہیں کیا۔ ہم نے نہیں پیدا
کیا ان کو مگر حق کے ساتھ، مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (44: 38، 39)
’’اور اللہ نے تو پیدا کیا
ہےان آسمانوں اور اس زمین کو حق کے ساتھ، اور اس لیے ہر نفس کو اس کی کمائی کا
بدلہ دیا جائے جہاں ان کی کچھ حق تلفی نہ ہو‘‘۔ (ا45: 22)
’’اور
نہیں پیدا فرمایا میں نے سب جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ یہ میری عبادت کریں‘‘۔ (51: 56)
*****
’’عبد‘‘
کا مطلب کیا ہوا؟
اگر یہ
مُعَبَّد کے معنیٰ میں ہو، تو اس کا مطلب ہے : بےاختیار، مسخر کرکے رکھا گیا، تابع
اور ماتحت رکھا گیا۔ اس معنیٰ میں یہ لفظ
سب علوی و سفلی مخلوقات کو شامل ہے، خواہ وہ عاقل ہوں یا غیرعاقل۔ خشک وتر، ساکن و
متحرک، ظاہر و پوشیدہ، مومن و کافر، نیکوکار و بدکار، وغیرہ سب اس میں آئیں گی۔ سب
اللہ کی مخلوق ہیں۔ سب اس کی ربوبیت کے سہارے جیتی ہیں۔ سب اس کے حکم کے آگے مسخّر
ہیں۔ اس کی تدبیر سے چلتی ہیں۔ سب کےلیے اس کا ایک منصوبہ طے ہے اور انہیں اسی پر
چلنا ہے۔ ہر چیز اپنے ایک مقررہ انجام کی طرف بھاگی جا رہی ہے؛ جس سے وہ ایک ذرہ
بھر ٹلنے والی نہیں۔ {ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ} [الأنعام: 96]۔ اور
اُس کی یہ تدبیر عدل اور حکمت پر قائم ہے۔
اور اگر
یہ ’’عابد‘‘ کے معنیٰ میں ہو تو اس کا مطلب ہوگا: کسی ہستی کی محبت اور گرویدگی کا
اسیر ہو جانے والا۔ اس کے آگے ذلت اور عاجزی اختیار کر لینے والا۔ یہ ظاہر ہے صرف
مومنین ہی ہوسکتے ہیں، جوکہ اُس کے برگزیدہ بندے اور اُس کا تقویٰ اختیار کر رکھنے
والے اولیاء ہوں گے، جن کو (اُس کے پاس جاتےوقت) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔
*****
’’عبادت‘‘
کیا چیز ہے؟
’’عبادت‘‘
ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں وہ سب کچھ آجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی کا موجب ہو، خواہ وہ اقوال ہوں یا اعمال، ان
کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے۔ ’’عبادت‘‘
یہ ہوگی کہ آدمی ایسی سب اشیاء کا پابند اور اس سے منافی اشیاء سے بیزار ہو
کر رہے۔
*****
ایک عمل
’’عبادت‘‘ کب بنتا ہے؟
جب اس
میں دو چیزیں پوری کر دی جائیں:
ý
کمال
درجے کی محبت۔ اور
ý
کمال
درجے کی ذلت۔
{وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ
حُبًّا لِلَّهِ} [البقرة: 165] ’’اور
ایمان والے اللہ کی محبت میں کہیں بڑھ کر ہیں‘‘۔ {إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ
خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ} [المؤمنون: 57] ’’بےشک
وہ لوگ جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں
کو ایک ہی مقام پر اکٹھا کر دیا: {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي
الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ} [الأنبياء: 90] ’’بے شک یہ ایک دوسرے سے
بڑھ چڑھ کر اعمال خیر میں لگے رہتے اور ہمیں پکارتے رغبت اور خوف سے، اور تھے وہ
ہم سے ڈر کر رہنے والے‘‘۔
پس
’’عبادت‘‘ ہوئی: معبود کا گرویدہ اور اس کی ہیبت کے آگے پست ہوا رہنا۔