بچوں کو ڈرانے والا ’اسلام‘... حسبی اللہ ونعم
الوکیل
حضرات گرامی! کسی کی
مخالفت یا کسی کی حمایت کبھی ہمارے مضامین کا مقصود نہیں ہوتا۔ ہماری کُل غرض
اسلام کا اِمیج image درست
رکھنے سے ہے؛ اور یہ بلاشبہ اِس وقت ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ ’’اسلام‘‘ کا اِمیج
اور ’’اقامتِ دین‘‘ کا ایجنڈا اِس ملک میں جس برے گرداب کے اندر آ چکا، اس
کیلئے ہر دردمند آج یہاں پریشان ہے... اور ہم بھی کوئی استثناء نہیں۔
جن لوگوں کا اِس ملک
میں سکول اور تعلیمی ادارے چلانے سے کچھ بھی تعلق ہے... ذرا ان سے پوچھ کر دیکھئے وسط دسمبر
سے وسط جنوری تک انہیں کس مشکل وقت سے گزرنا پڑا ہے۔ بچوں کو حملوں سے
محفوظ بنانے کےانتظامات یقینی بنانے اور سرکاری انتظامیہ کو اس پر مطمئن کرنے
میں انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔
جن لوگوں کے بچے
سرکاری یا پرائیویٹ کسی بھی قسم کے سکولوں میں زیرتعلیم ہیں، ان کو اندازہ ہوگا،
ان کے بچوں نے یہ پورا مہینہ گھروں میں بیٹھ کر کس خوف اور دہشت کی حالت میں گزارا
ہے۔ نرسری کے بچے اپنی توتلی زبان میں آپ کو بتاتے ہیں کہ ان کے سکول اس وقت کیوں
بند ہیں اور ان کو سکولوں کے اندر کیا خطرہ ہے۔
معصوم بچے کا یہ ایک
ایک جملہ بخدا ایک ہوشمند کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح پڑتا رہا ہے۔ بچے کو ڈر
ہے شریعت کے نام لیوا اس کا خون کر دیں گے۔ اف خدایا! شریعت ان چھوٹے معصوم بچوں
کا خون کر ڈالے گی؟! ان کو بارود سے اڑا دے گی؟! گولیوں سے بھون ڈالے گی؟! وہ کیسی
خوفناک شریعت ہے جس سے ڈر ڈر کر بچے رات کو اٹھتے ہیں؟!
بخدا یہ شریعت ہمیں
اپنی جان سے عزیز نہ ہوتی تو ہم بھی اس پر خاموش ہی رہتے۔ لیکن شریعت کی یہ جو
تصویر بن رہی ہے (مسلم ملکوں میں جاری عسکریت پسندی کے ہاتھوں) اس پر کون چپ سادھ کر رہ سکتا ہے۔ دینِ محمدﷺ کے خلاف لبرل سینوں
میں عشروں سے جو بغض دفن رہا اور اُسے باہر آنے کا کوئی راستہ نہ ملتا تھا
اور وہ گھٹ گھٹ کر اس کے ہاتھوں پیچ و تاب کھاتے رہے، اُس عشروں سے دفن بغض کو
یکلخت نکل آنے اور ’قوم‘ کو بڑی بڑی ہمدردی اور معقولیت کی زبان میں قائل کرنے اور
اِس پر اپنا ہمنوا بنانے کے جو ڈھیروں مواقع ہاتھ آئے ہیں، نبی رحمۃ للعالمینﷺ کی
شریعت کو خوف اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کرنے کی یہ جو وافر صورتیں ان ظالموں
کو میسر آئیں، نئی پود کے دماغوں میں اس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ’’نفاذِ
اسلام‘‘ کی بابت ایک بھیانک تاثر ثبت کر دینے کا یہ جو ایک نایاب موقع شیاطینِ
عالم کے ہاتھ آیا ہے اور اسے استعمال کرنے میں وہ اپنی صلاحتیوں کے جیسےجیسے اعلیٰ
جوہر دکھا رہے ہیں... یہ سب دیکھ کر اس ملک میں اسلام کے مستقبل کےلیے پریشان ایک
شخص کے ہوش ہی تو اڑ جاتے ہیں۔ اور وہ کسی بھی خطرے کی پروا نہ کرتے ہوئے اِس پر
بولنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
ہم کسی سازشی نظریہ (conspiracy theory) کے
فروخت کنندہ نہیں۔ لیکن ’’شریعت‘‘ کے خلاف شیاطینِ
عالم کی حالیہ دوڑدھوپ جس بھی شخص کی نظر میں ہے، وہ اِس صورتحال کے پیچھے متحرک عوامل
کو کبھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ خصوصاً جس شخص کی نظر میں حالیہ برسوں کے اندر
دینِ اسلام کی عالمی مقبولیت، تمام
اقوامِ عالم کے پڑھے لکھے دماغوں کا ’’اسلام‘‘ کی طرف متوجہ ہونا، ’’اسلام‘‘ کو حالیہ عالمی بحرانوں کے حل کے طور پر
دیکھنا، ’’اسلام‘‘ میں عقول کا سب سے بڑھ کر تسکین پانا اور اِس آخری
آسمانی شریعت کو عالم انسان کے نجات دہندہ کے طور پر دیکھنا... جس شخص کی نظر میں اسلام کی یہ عالمی تصویر موجود ہے، اور اسے اس
بات کا بھی ادراک ہے کہ عقول کی
دنیا میں ’’اسلام‘‘ کی اِس فاتحانہ تصویر سے یہودی آج کتنا پریشان ہے اور مغرب کے
ملحد صلیبی منصوبہ ساز کی نیندیں اس سے کیونکر حرام ہوئی پڑی ہیں...
اس کےلیے یہ یقین کرنا ازحد دشوار ہے کہ ’’اسلام‘‘ کی اِس خوفناک تصویر کا بنایا
جانا ’آپ سے آپ‘ انجام پا رہا ہے۔
ان ظالموں نے خود اپنا تاثر ایسا ’انسان دوست‘ بنا رکھا ہے کہ لوگوں کو یقین
ہی نہیں آتا کہ اِس تخریب میں انکا بھی
کوئی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بھارت خود گوارا نہیں کرے گا کہ وہ ’’بچوں کو ڈرانےوالا بھارت‘‘ نظر آئے۔ ریمنڈ ڈیوس کی ذریت یہ گوارا نہیں
کریگی کہ یہاں کوئی ’’بچوں کو مارنے والا امریکہ‘‘ دکھائی
دے۔ حتیٰ کہ خاد ’افغان انتظامیہ‘ کی بابت یہ قبول نہیں کرے گی! اس کےلیے ہمارے یہ ’دیندار‘ رہ گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس بات کے ان گنت
شواہد موجود ہیں کہ ’انسانیت‘ کے یہ سب ٹھیکیدار اِس ذہین حکمت عملی پر گامزن ہیں
کہ اسلام کو مارو بھی اور اس کو ایسے روپ میں بھی پیش کرو کہ پوری دنیا کہے اسے
اور مارو۔ اسلام کی یہ تصویر پیش کرنے میں عالمی قوتیں بھی دامے درمے سخنے قدمے
شریک ہیں اور مقامی میڈیا کی فروخت شدہ یا کرائے پر اٹھی ہوئی عقول بھی۔ سب
اپنےاپنے طریقے سے، اور اپنےاپنے حصے کا کام کرتے ہوئے۔
اس کے نتیجے میں
’’اقامتِ شریعت‘‘ یا ’’اقامتِ دین‘‘ سے متعلق ہمارے سب شعارات اور ہمارے سب مباحث
خودبخود ایک خاص رنگ میں پینٹ ہونے لگے ہیں۔ خرانٹ میڈیا ایک ہی ہلے میں اس پورے
تحریکی اسلام کا صفایا کیے دے رہا ہے جو اِس ملک میں شریعت کی بالادستی کی بات
کرتا رہا ہے؛ خواہ وہ کتنا ہی پرامن اور روزِاول سے پرامن راستوں کا داعی رہا ہو۔
لبرل فاشزم اپنے امام جارج بش کے اصول پر گامزن، خلقت کو اپنے ’حمایتیوں یا
مخالفوں‘ میں تقسیم کر رہا ہے۔ ایک فرعونی تکبر جو انسانوں کو اپنی مرضی کے
پیمانوں پر جانچتا ہے۔ ’’پرامن داعیانِ شریعت‘‘ گویا آج کوئی کیٹگری ہی نہیں (جوکہ
اس ملک میں قیامِ پاکستان کے وقت سے چلی آئی بلکہ تحریکِ پاکستان کی روح رواں رہی
ہے)۔ اِس ’’شریعت‘‘ کی بات کرنے والوں کا گویا نہ قیامِ پاکستان میں کوئی کردار۔
نہ پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کی کوششوں میں ان کا کوئی حصہ۔ نہ ملک کو درپیش
مشکل حالات میں کبھی ان کی کوئی قربانی۔ نہ کشمیر کےلیے مال اور خون دینے میں ان
کی کوئی رسد دہی۔ نہ پاکستان کے دیندار نوجوان کو انتہاپسندی کی جانب رخ کرنے سے
روکنے میں ان کا کوئی کردار۔ (بس ان سب پر ’بلا تفریق‘ پابندی لگا دو!!!)۔ اور
وہ جو بھارت کے ٹینکوں پر چڑھ کر آنے کے خواب دیکھتے رہے، وہ جو دِلّی میں کیمروں
کے آگے کھڑے ہو کر پاکستان کے خلاف منہ سے جھاگ اڑاتے رہے، اور وہ جو بڑی دیر روسی
ٹینکوں کی سواری جھولتے رہے آخر روس کی جانب سے یتیم ہوجانے کے بعد ’سرمایہ دار‘
امریکہ کو سرعام باپ بنا لیا اور آج وہ دریدہ دہن ہو کر اسی ’امپریل اسٹ‘ امریکہ
کی سیاسی و ابلاغی جنگ لڑ رہے ہیں، اور جن کا رزق سب جانتے ہیں آج بھی کہیں
’اِدھراُدھر‘ سے ہی آتا ہے، اور جن کی نہ صرف اسلام بلکہ پاکستان سے دشمنی ایک
’کھلا راز‘ ہے... وہ بغض کے چھینٹے اڑانے والے آج اِس ملک اور قوم کے غم گسار ہو
گئے! یہ ’پاکستان‘ کے غم میں گھلنے لگے! مینوورنگmaneuvering کے ایسے شاندار مواقع!
یہ سب لوگ جو کبھی
روس کے کاندھوں پر سوار تھے... یا جو بھارت ماتا کے پاس پاکستان کی شکایتیں لیے بھاگے چلے جاتے رہے تھے... ان کا
پاکستان کا غم گسار بن کر یہاں کے سب دینی تحریکی طبقوں کو ’بلا تفریق‘ لتاڑنا... پھر خصوصاً کشمیری مسلمانوں کی
مدد کرنے والی تنظیموں پر پابندیاں لگوانے کےلیے فضا ہموار کرنا... اب
بھی دراصل یہ بھارت ماتا ہی کی خدمت ہے۔ ہم قرآن پڑھنے والی قوم ہیں۔ ہمدردی اور
غم گساری کا ’روپ‘ پہچاننا ہمارے لیے مشکل نہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے، ابلیس اس
کےلیے آدمؑ کے آگے قسمیں اٹھانے تک چلا گیا تھا! وَقَاسَمَهُمَا
إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ (الاعراف: 21، 22)
اس صورتحال کا سب سے بڑھ کر متاثر victim ’’تحریکی اسلام‘‘ ہوا ہے، جسے مغرب کی اصطلاح میں Political Islam کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ اسلام جو عبادت خانوں میں قید رہنے کی
بجائے معاشروں پر بالادستی چاہتا ہے۔ اسی کو ہمارے کئی مخلص طبقوں کی اصطلاح میں ’’اقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد
سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہماری نظر میں یہ ’’تحریکی اسلام‘‘ یا ’’اقامتِ دین‘‘ کی
جدوجہد اِس صورتحال سے سب سے بڑھ کر نقصان اٹھا رہی ہے۔ اِس کا
ایجنڈااِس صورتحال کے ہاتھوں عشروں پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کا اندازہ تو یہ ہے کہ فی الوقت کےلیے ختم ہی کر کے
رکھ دیا گیا ہے۔ یہاں ہم بہت صراحت کے ساتھ ایک بات کہنا چاہیں گے۔ ایک بڑے طبقے
کی پریشانی دینی مدرسوں کےلیے کاش اِس ملک میں کسی اسلامی ایجنڈا کے
حصے کے طور پر ہوتی، مگر وہ اس لیے ہے کہ مدرسوں کے ساتھ ایک بڑے طبقے کا رزق
وابستہ ہے۔ ورنہ پورے اسلامی ایجنڈا کےلیے بھی ہم ان کی پریشانی دیکھتے۔ اس کے
باوجود تحفظِ مدارس کےلیے ہم ان کی کامیابی کےلیے ہی دعا گو ہیں۔ مگر ہمارا سوال
یہ ہے کہ تعلیمی، ابلاغی اور سماجی میدانوں میں الحاد اور لادینیت کے مقابلے پر
اسلامی ایجنڈا کا رکھوالا آج کون ہے؟ ’’دین‘‘ کی بالادستی کےلیے آج کون
پریشان ہے؟
لامحالہ ہماری نظر
اُن جماعتوں کی طرف اٹھتی ہے جو شروع دن سے ’’اقامتِ دین‘‘ کےلیے سرگرم چلی آئی
ہیں اور کبھی تشدد کے راستے پر نہیں چلیں۔ یعنی ’’تحریکی اسلام‘‘ کی نمائندہ اور
’’پرامن راستوں‘‘ کی داعی جماعتیں۔ ان کے مابین نکتہ ہائے نظر یا طریق ہائے عمل کا
خواہ جتنا بھی اختلاف ہے، اور جس کے ہونے میں فی الواقع کوئی حرج نہیں، اس تمام تر
اختلاف کے باوجود ان کے آپس میں قربت بڑھانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ وقت آچکا کہ:
1) ’’مقصد‘‘ کا اشتراک ’’طریقِ کار‘‘ کے فرق پر حاوی کردیا جائے۔ یہاں؛ کوئی ایسا
نسخہ سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ ’’طریقِ کار‘‘ کا فرق ’’اختلافِ تنوع‘‘ میں ڈھل
جائے۔ اور ’’مقاصد کا اشتراک‘‘ بجائے خود ایک ٹھوس ’’وحدت‘‘ کی بنیاد فراہم کردے۔
اس کے نتیجے میں ’’تحریکی اسلام‘‘ کا ایک وسیع تر محاذ تشکیل پا لے۔
2) یہ سب طبقے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس پر کھل کر مکالمہ کریں کہ ’’تحریکی
اسلام‘‘ کی جڑیں اکھاڑنے کے درپے جو جو عوامل اس وقت ہمیں درپیش ہیں:
Ü ان کی صحیح صحیح نوعیت اور ان میں سے ایک ایک کا پس منظر کیا ہے؟
Ü وہ کیا اسباب ہیں جو بڑی تیزی کے ساتھ ’’تحریکی اسلام‘‘ کے مقدمہ پر مٹی ڈال
دینے کا باعث بنے؛ اور ان کے ازالے کی فوری ودیرپا صورتیں کیا ہو سکتی ہیں؟
ہماری تجویز ہے ان
سوالوں پر مل کر غوروفکر کی خاطر ایک مجلس منعقد کروانے کےلیے کوئی ایک تحریکی
جماعت پہل کرلے اور اور دیگر جماعتوں کی قیادتوں نیز ایسے دماغوں کو اکٹھا
کرے جو اِن سوالوں کے ہمدردانہ جوابات سامنے لانے میں مددگار ہوسکتے ہوں۔ ’’تحریکی
اسلام‘‘ کا مقدمہ مل کر اور بدلتی صورتحال کے پیش نظر ازسرنو سامنے
لانا اور اقامتِ دین کےلیے سرگرم حلقوں میں اس پر زیادہ سے زیادہ دلجمعی
ویکسوئی لےکر آنا ناگزیر ہو چکا۔ حق یہ ہے کہ ’ناگزیر‘ کا لفظ بھی اس
کےلیے کم ہے۔ اپنی اپنی بولی بولنا، خواہ وہ جتنی بھی اچھی ہو، اب کسی مسئلے کا حل
نہیں رہا، کاش ہم اس کا اندازہ کرلیں۔ وقت کسی تاخیر کا متحمل نہیں۔