الجزائر کا مسلمان فرانس کا ظلم نہیں بھولا
Robert Fisk / تلخیص: عائشہ جاوید
حملہ آوروں کی شناخت ہونے سے قبل ہی ذہن میں یہ
خیال ہی گردش کر رہا تھا کہ ہو نہ ہو،
انکا تعلق الجزائر سے ہو گا ۔ بعد ازاں فرانسیسی پولیس نے اس امر کی تصدیق بھی کر دی۔ اس سب کا
اندازہ لگانا کچھ ایسا مشکل نہ تھا ۔ الجزائر کی چھ سالہ جنگ آزادی
جس میں ڈیڑھ ملین کے قریب مسلمان شہید ہوئے اور چند ہزار فرانسیسی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ،
اس کی خونیں بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر تمام اخبارات اور ٹی وی کی
نشریات تاریخ پر ایک نظر ڈالنے میں بخل سے کام نہ لیں؛ اس بات کو مد نظر رکھتے
ہوئے کہ ماضی میں کی گئی لمحوں کی خطا ئیں صدیوں کی سزا کو دعوت دیا کرتی ہیں ۔قتل و غارت ، غم و غصہ اور
مجرموں کی تلاش اخبار کی سرخیاں بنتی ہیں۔ کس
نے کیا؟ کیسے کیا؟ لیکن جو ہوا وہ کیوں
ہوا؟ اس کا محرک کیا تھا ؟ اس پر شاذ و نادر ہی توجہ دی جاتی ہے۔ پیرس کے واقعہ کی بابت بھی ایسا ہی کچھ
سننے کو ملتا ہے کہ کرنے والے مسلح نقاب پوش
گن مین تھے، آٹومیٹک رائفلز استعمال کی
گئیں ، انکا ہدف صحافی اور کارٹونسٹ تھے۔ اور حملہ آوروں کا مقصد چارلی ایبڈو میں شائع ہونے والے
توہین آمیز کارٹونوں کا بدلہ لینا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی سب کہتے
ہیں کہ اجتماعی قتل کی کوئی توجیہ نہیں تھی۔تاہم جیسا کہ ہم نے پہلے، کہا تاریخ سے نظریں چرانے کی
غلطی دانستہ دہرائی گئی کہ ۱۹۵۴ سے ۱۹۶۲ تک ایک پوری قوم نے اپنی آزادی و خودمختاری کی
جنگ ایک ایسے سفاک سامراجی نظام کے خلاف جاری رکھی جس نے
ڈیڑھ صدی تک ان پر اپنا تسلط قائم رکھا۔ فرانس کی ساڑھے چھ ملین کی مسلم آبادی میں تقریبا ۵ ملین
الجزائری ہیں ۔ معاشی طور پر پسماندہ حال اور دوسرے درجے
کے شہری گردانے جاتے ہیں۔
فرانس کے زیر تسلط دوسری اراضی کے برعکس یہاں
سامراج کا اثر و رسوخ اس حد تک تھا کہ یہاں سے
پیرس کی پارلیمینٹ میں نمائندگان تک کو بھیجا جاتا تھا۔ اور اس سرزمین سے شمالی افریقہ اور سسلی پر قبضہ کرنے کی پلاننگ کی جاتی
تھی۔خود الجزائر پر قبضہ کرتے ہی فرانس نے اس میں آبادکاری شروع کر دی تھی ۔مساجد
کو کلیساوں میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ کئی عشروں تک
بغاوت،پسپائی اور جبری تعاون کی ملی جلی کیفیت طاری رہی۔ ۸ مئی ۱۹۴۵ کو Sétif میں جہاں مسلمان اکثریت میں
تھے ، VE (Victory in Europe
Day)منایا جا رہا تھا ، اس ریلی میں ۱۰۳ یورپی باشندےمارے گئے ۔ فرانس کی حکومت نے اشتعال میں آکر ۷۰۰ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔ گردو نواح کے
علاقوں پر فضائی بمباری کی گئی اور بحری فوج کی خدمات بھی حاصل
کی گئیں۔ اقوام عالم اس سب پر خاموش تماشائی بنی رہیں۔ ۱۹۵۴ میں تحریک آزادی زور پکڑ گئی۔
مورخ الیسٹیر ہورن لکھتا ہے کہ الجزائر کی
جدوجہد آزادی کی حکایت حکومت اور نیشنل لبریشن فرنٹ کی جانب سے بمباری، قتل و غارت سے لکھی گئی جس میں لاکھوں مسلمان لقمہء
اجل بن گئے۔جرمن نازی اور پیرا ملٹری پولیس اس خون خرابے میں
برابر کے شریک رہے۔ اکتوبر ۱۹۶۱ میں تیس ہزار افراد نے پیرس میں اس ظلم و بربریت کے خلاف احتجاجی
ریلی نکالی جس پر فرانسیسی پولیس کی اندھا دھند فائرنگ سے ۶۰۰
افراد شہید ہوگئے ۔زندان خانوں میں بہت سوں کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، بہت سوں کو سمندر میں پھینک دیا گیا ۔
سیکورٹی آپریشنز چیف جو اس سب کا ماسٹر مائنڈ تھا، وہی مجرم تھا جس پرPetain Vichy کے دور میں چالیس بعد انسانیت سوز جرائم کی پاداش میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
یہ معرکہ خون کی ندیوں کی صورت میں اختتام پذیر
ہوا۔ فرانس کے آبادکاروں نے پسپائی کو
تسلیم کرنے سے انکار کیا ، سیکرٹ سروس کے توسط سے مسلمانوں پر حملے جاری رکھے اور فوج کو بھی
ابھارتے رہے۔تقریبا نصف ملین مردوں عورتوں اور بچوں کو آپشن دی
گئی کہ یا تو فرانس جائیں یا کفن تیار کر لیں۔ جو وہاں گئے انکی حفاظت کے وعدے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ۔
اجتماعی ہلاکتیں ادھر بھی جاری رہیں ۔بہت سے الجزائری جوان جو فوج کے وفادار رہے ، انکو اپنے میڈلز نگلنے پر مجبور کیا
گیااور پھر انکی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا۔
خودمختاری کے بعد بھی یہ حال تھا کہ فرانس نے کٹھ پتلی حکمران بٹھا دیے ۔ سویت یونین کی طرز کی حکومت قائم ہوئی جہاں احکام و اختیاران
کا منبہ کوئی اور ہی تھا نہ کہ وہ جنھون نے خود مختاری کے حصول
کی خاطراپنی جانیں کھپا دی تھیں ۔یہاں تک کہ بہت عرصہ تک تمام بڑے شہروں میں پانی کے نظام نکاسی کے نقشے فرانس نے اپنے پاس رکھے تاکہ ہر بار
پائپ پھٹنے کی صورت میں کئی کئی میل تک کھدائی کرنی پڑتی تھی۔
پھر ۱۹۸۰ میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ جب الیکشن
کے دوسرے راونڈ کو ملتوی کر دیا جس میں
اسلام پسندوں کی جیت یقینی تھیFLN اور باغیوں نے مل کر فرانسیسی آمریت کو از سر نو تازہ کر دیا۔ گرفتاریاں، پورے پورے قصبے کو
موت کے گھاٹ اتارنا ، بہیمانہ قتل وغارت کا سلسلہ ایک بار پھر
شروع کر دیا گیا۔ فرانس نے ملٹری لیڈرز کو بھرپور شہ دی اور ملین ڈالرز سویس بینکوں میں راتوں رات
منتقل کر دیے گئے۔رد عمل کے طور پر افغان جہاد سے واپس لوٹنے
والے مسلمانوں نے پہاڑوں میں موجود مجاہدین کیساتھ ملکر الجزائر میں موجود فرانسیسی باشندوں کو مار
ڈالااور کچھ نے اسکے بعد عراق اور شام کا رخ کیا۔
فرانس کی مدد سے امریکہ اس وقت FLN کو سپورٹ کر رہا ہے جو جنگلوں اور صحراوں میں چھپےاسلام پسندوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہ اور ایک ایسی فوج کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے جس کے ہاتھوں پر ۱۹۹۰ کے دور میں ہزاروں لاکھوں شہریوں
کا خون ہے ۔ کسی امریکی سفارتکار نے ۲۰۰۳ میں عراق پر چڑھا ئی سے قبل ٹھیک ہی کہا تھا کہ امریکہ کو
الجزائری حکام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ الجزائری عراق کی جنگ لڑنے گئے اور
پھر انکو ایک نیا مقصد مل گیا ...
Charlie Hebdo: Paris
attack brothers' campaign of terror can be traced back to Algeria in 1954
Algeria is the post-colonial wound that still
bleeds in France
مضمون کا ویب لنک: http://goo.gl/Xwbby6