پیرس حملے کے تناظر میں
ناموس رسالت ، کچھ اصولی مباحث
ذیشان وڑائچ
ابھی
ہمیں پورا یقین نہیں ہے کہ پیرس میں جن
لوگوں نے حملہ کیا تھا وہ مسلمان ہی تھے یا کوئی اور۔ اگر مسلمان ہی تھے تو اس بات
کا جواب اہل علم ہی دے سکتے ہیں کہ اسلام
میں ایسے کسی حملے کی کتنی گنجائش ہے اور آیا اس سے اسلام کا فائدہ ہے یا نہیں۔
چونکہ
ناموس رسالت کا موضوع ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے تو ہم اس بار قارئین کی توجہ کچھ
بنیادی مباحث کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔
بلاشبہ
نبیﷺ کے کارٹون بنانا ہم مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت چیز
ہے۔مغربی فکر اس طرح کی حرکتوں کے لئے جو جواز فراہم کرتی ہے اسے آزادی اظہار کہا
جاتا ہے۔ "آزادی" مغرب کی ایک بہت ہی بنیادی قدر ہے۔ مغرب کے اصول کے
مطابق انسان کو ہر چیز کرنے کی آزادی دینی
چاہئے۔ لیکن اسے اس بات کی آزادی نہیں دی جانی چاہئے جس سے کسی انسان کا
نقصان ہوتا ہو۔ ایک شخص کچھ بھی کر لے اور اس سے کسی دوسرے انسان کو نقصان نہ ہو
تو اسے اس کی اجازت ہونی چاہئے چاہے وہ چیز کتنی ہی لغو ہو۔ اگر کسی کے عمل سے ایک
انسان کو جسمانی نقصان پہنچتا ہے تو پھر مغربی فکر کے مطابق اسے ایسے عمل کی آزادی
نہیں دی جانی چاہئے۔ اسی طرح اگر کسی کے عمل سے کسی دوسرے انسان کو مالی نقصان پہنچتا
ہو تو بھی مغرب ایسے شخص کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی آزادی نہیں دیتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسان کی شخصیت صرف مال اور جسم کا مجموعہ ہے
یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ انسان اپنے ساتھ کچھ جذبات بھی رکھتا ہے اور یہ انسانی
شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ انسانی
اجتماعیتیں اپنی محبتوں کے مراکز رکھتی
ہیں جن کے بارے میں انسان انتہائی حساس جذبات
بھی رکھتا ہے۔ اس بارے میں انسانوں کے درمیان شدید قسم کے اختلافات بھی ہوتے ہیں
کہ کس کے مراکز محبت عقلی اور علمی پیمانے پر پورے اترتے ہیں۔ اس بارے میں اقوام
اور اجتماعی اکائیوں کے درمیان بحث اور مقابلے بھی ہوتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور
کون غلط۔ یہاں پر اصل کشمکش مغرب اور مذہب کے
تصور انسان سے متعلق ہے۔ مغرب انسان کو صرف مادے کی ایک پیچیدہ شکل سمجھتا ہے ۔
اسی لئے انسان کو بچانے کا مطلب ان یہاں صرف انسان کے جسم اور اور مال کو
بچانا۔ ان کے نزدیک انسانی جذبات اور مقدسات انسان کا حصہ نہیں ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو آزادی ہے کہ انسانی جذبات اور
مقدسات کے ساتھ جس طرح چاہے کھیلے۔ اس چھیڑخانی کے لئے ان کے ہاں عقل نہیں بلکہ صرف آزادی اظہار معیار ہے۔
یعنی کچھ انسانوں کا دوسرے کروڑوں انسان کے مقدسات اور جذبات کے ساتھ چھیڑ خانی
کرنا بالکل جائز ہے چاہے وہ چھیڑ خانی کتنی ہی
غیرمنطقی ہو۔ لیکن اگر اس کے جواب میں ان کروڑوں انسانوں میں سے کوئی ان
چھیڑخانی کرنے والوں کو جسمانی نقصان پہنچائے تو یہ جرم ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ
مغرب انسان کو جسم اور مال سمجھتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب اور مغرب کے
تصور انسان میں بہت ہی جوہری قسم کے فرق ہے۔ اقوام اورنظریات کے درمیان اختلافات ہونا کوئی غیر معمولی چیز
نہیں ہے۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تصور انسان کو ہی حقیقی سمجھتا ہے اور
اسی تصور انسان کو پوری دنیا میں تھوپتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ دنیا کے تمام انسان
اس کے تصور انسان کے مطابق بن جائیں۔ اپنے
اس تصور انسان والے عقیدے پر ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں
کہ اپنے عقیدے کا اظہار کارٹونوں کی شکل
میں کریں بھلے اس سے دوسرے کے جذبات کو کتنی ہی ٹھیس پہنچے۔
اس
اعتبار سے ناموس رسالت کے معرکے کے تناظر
میں مغرب اور اسلام کے تصور انسان کے درمیان نظریاتی کشمکش کا بھی کھل کر اظہار
ہوتا ہے۔ یہ سوال کہ انسان فی نفسہ کیا ہے اور کیا نہیں
ہے یہ ایک عقائد اور مابعد الطبیعاتی بحث ہے۔ مغرب کا کارٹون بنانے پر اصرار اس
بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغرب اپنی مابعد الطبیعات کو دھونس کے ذریعے پوری
انسانیت پر تھوپنا چاہتا ہے۔ اور اس بارے میں مغرب اتنا پرجوش اور پختہ ہے کہ
اسلام اور مغرب کی اس شدید کشمکش کی قیمت پر بھی اپنے تصور انسان کو منوانے پر تلا
ہوا ہے۔
ویسے
مغربی فکر میں تھوڑا بہت انسانی جذبات کو بھی انسان کا حصہ مانا جاتا ہے۔ لیکن یہ
بہت محدود انداز میں ہے اور خاص طور انسان کے اجتماعی مظہر کے بجائے انفرادی مظہر
تک محدود ہے۔ مثلاً کسی انسان کے خلاف نفرت گوئی یا ہیٹ سپیچ (Hate speech) پر پابندی ہوتی
ہے۔ لیکن اس پابندی کے لئے شرط یہ ہے کہ
وہ نفرت گوئی انسان کے خلاف ہو اور کسی زندہ انسان کے خلاف ہو۔ یعنی بطور فرد کسی
مسلمان کے خلاف نفرت گوئی جائز نہیں ہے لیکن اسی مسلمان کے سامنے اسلام کے
مقدسات جیسے خدا اور رسول کے خلاف نفرت
گوئی بالکل جائز ہے چاہے اس سے کروڑوں مسلمان کو کتنی ہی ذہنی تکلیف سے گذرنا پڑتا
ہو۔وجہ یہ ہے کہ خدا انسان نہیں ہے اور رسول اس دنیا سے رحلت فرماچکے ہیں۔ آزادی کا یہ تصور ہمیں جتنا بھی غیر فطری اور
احمقانہ لگے مغرب اس تصور آزادی کا پجاری ہے اور اس معاملے میں کسی بھی طرح کی لچک
کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ کچھ ممالک جیسے امریکہ اس معاملے میں اگر محتاط
ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے تصور آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر
تیار ہیں۔ بلکہ اس کی اصل وجہ ان کے کچھ سیاسی مفادات ہیں۔
مغربی
فکر انسانوں کو مقدسات سے آزادی دلانے نکلی تھی۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ مقدسات
انسانوں کو بہت سارے متناقض اور غیر منطقی چیزوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن انسانوں کو مقدسات سے آزاد کرنے کے جذبے نے مغرب کو بھی آزادی کے نام پر ایک
ایسی مقدس چیز فراہم کردی ہے جس پر مغرب کسی بھی طرح کی منطقی بحث کے بجائے بس
کارٹون بنانے پر مصر ہے۔
مغرب
کے نزدیک انسانوں کی آزادی ایک مقدس چیز بن گئی ہے۔ ان کا اپنا تصور انسان مقدس بن
گیا ہے۔ ان کی انسان پرستی ایک مقدس چیز بن گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کی
قطعی کوئی پروا نہیں ہے کہ اپنے تقدسات کے بارے میں ان کی اس سرفروشانہ روش کی وجہ
سے کس طرح گلوبل ولیج ایک میدان جنگ بنتا جارہا ہے۔ الغرض انسان مقدسات سے تو آزاد نہیں ہوسکا بلکہ
مذہبی مقدسات کے بجائے وہ سیکولر مقدسات کے اسیر بنتے چلے گئے۔
ایک
امکان یہ بھی یہ ہے کہ آزادی اظہار پر اس طرح کا اصرار ایک شدید قسم کی احساس
محرومی کی وجہ سے ہے۔ ان کے اپنے سیکولر ہیومنزم نے ان کے اپنے آبائی مذہب عیسائیت
کو اجتماعی میدان میں شکت فاش دے دی۔ آج مغرب میں مسیحی تقدسات کا مذاق اُڑانا ایک
عام بات ہے۔ لیکن ان کے تصور انسان نے مسلمان کے تصور انسان کو شکست نہیں دیا۔ یہ
مسیحی اور مغربی بغض اسلام کو علمی، منطقی
اور نظریاتی میدان میں شکست دینے سے پوری طرح ناکام رہا۔ اب کارٹون کے میدان میں
مسلمان مقابلہ کرنے سے رہے۔ منطق اور نظریات کا
مقابلہ کارٹونوں سے کرنا تو مغرب کی ندرت ہے۔ اس میں مسلمان ان کا مقابلہ
کہاں کر سکتے ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔
ردعمل شدید ہے اور مغرب اپنے غیر منطقی عقائد پر مصر ہے اور ان عقائد کا اظہار جب
ابلاغی میدان میں ہو تو یہ کسی کا اندرونی معاملہ تو نہیں رہتا۔ اس دنیا کو گلوبل
ولیج بھی انہوں نے ہی بنایا ہے ۔