امت
کی یادداشت
ایقاظ ڈیسک
کسی دانا کا قول ہے: تاریخ کسی قوم کی اجتماعی
یادداشت کا نام ہے۔
مسلمان بطور ایک عالمی جماعت، روئےزمین کا مرکزی
ترین کردار ہے۔ ایک عام قوم کی زندگی میں بھی اپنے ماضی سے آگاہ رہنے کی اتنی
اہمیت ہے، تو پھر ’’مسلمان‘‘ کےلیے تو اس کی تاریخ ایک بےحد بڑا مضمون ہے۔ یہ اِس
کے وجود کی کہانی ہے، جو بہت پیچھے سے چلی آرہی ہے اور اسے آگے بہت دور تک جانا
ہے۔ اہل زمین کے احوال، صلاح و فساد کا یہ سارا گراف ’’مسلمان‘‘ کے عروج و زوال سے
مربوط ہے۔ تاریخ سے ناواقفیت اپنے وجود سے لاعلمی ہے۔ خود اِس دین اور عقیدہ کے
کئی ایک مضامین تاریخ نہ پڑھنے والے شخص سے روپوش رہتے ہیں۔ لیکن جہاں آج ہم اور بےشمار اشیاء سے لاعلم
ہیں، وہیں ہم الا ماشاء اللہ اپنی تاریخ کے علم سے بھی کورے ہیں۔
ایقاظ یہاں مطالعۂ تاریخ کا ایک سلسلہ شروع کر
رہا ہے۔ یہ قسط وار مضامین تاریخ کا ایک
نہایت مختصر مطالعہ ہوگا، جس سے ہمارے تحریکی نوجوان کو اپنے ماضی کی ایک
عمومی تصویر مل جائے گی۔ تفصیلی مطالعہ ظاہر ہے ایک ماہنامہ کے اندر ممکن نہیں،
شوق رکھنے والے حضرات اس کےلیے دیگر مصادر سے رجوع کر سکتے ہیں۔ کوشش کی جائے گی
کہ یہ مطالعہ تاریخ مختصر ہونے کے باوجود ہمہ پہلو ہو۔ اچھے اور برے پہلو سب ایک
ساتھ ہوں، حیاتِ انسانی کے متعدد شعبوں پر اس میں نظر ڈالی گئی ہو، اور مسلم ماضی
کا کوئی گوشہ اس میں چھوٹ نہ گیا ہو۔
یہ مطالعہ ہم آئندہ شمارہ سے شروع کریں گے، ان
شاء اللہ۔ یہاں مطالعہ تاریخ کی ضرورت و افادیت پر چند کلمات کہے جاتے ہیں:
1) تاریخ کا ایک طالب علم ہی یہ جان سکتا ہے کہ یہ امت زمینی عمل میں کیا
کردار ادا کرتی آئی ہے۔ اس پہلو سے ناواقف آدمی کےلیے دین اور عقیدہ چند عبارتوں
کا نام رہ جاتا ہے۔ ہاں تاریخ پڑھ کر مسلمان اپنے آپ کو روئےزمین پر ’’چلتا ہوا‘‘
پاتا ہے، جہاں وہ پہاڑوں، ریگزاروں، میدانوں، دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرتا ہوا
آگے بڑھ رہا ہے اور براعظموں کے براعظم اس کی نگاہِ حق شناس کی زد میں آتے ہیں۔
یوں مسلمان کتابوں سے نکل کر جہانی عمل سے وابستہ ہونے لگتا ہے۔ قرآن مجید میں
’’عقیدہ‘‘ کا ایک مجرد ذکر نہ ہونا بلکہ انبیاء اور ان کے مدمقابل طاغوتوں کو
سامنے رکھتے ہوئے تاریخ کی کہانی بیان ہونا، نفس پر قوی اثرات ڈالتا ہے۔
2) تاریخ پڑھنے والا خدائی سنتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ عروج و زوال کے قوانین اس
سے محو گفتگو ہونے لگتے ہیں۔ اور اسے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین عمل معجزات کا منتظر
نہیں ہوتا، کچھ اٹل قوانین کا پابند ہوتا ہے، اور صالحین کو بھی انہیں سے واسطہ
ہونا ہوتا ہے۔
3)
’’اخلاقی عروج و زوال‘‘ قوموں
کی زندگی میں کس کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، یہ مضمون بھی تاریخ پڑھنے پر اچھا خاصا
انحصار کرتا ہے۔
4) تاریخ پڑھ کر آپ میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بدترین گھٹاٹوپ صورتحال کو
دیکھ کر بھی آپ مایوس نہ ہوں اور روشنی کے منتظر رہیں۔ دوسری طرف ایک آسودہ ترین
صورتحال میں بھی برے ایام سے بےخوف نہ ہوں۔ وہ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ
نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ کے
معانی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ جو شخص یہ دیکھ آیا ہو کہ تاریخ نے اس سے
پہلے کیسے کیسے موڑ مڑے ہیں وہ یہاں کی کسی صورتحال کو حتمی نہیں سمجھتا۔ یوں وہ
حوصلہ اور عزم پیدا ہوتا ہے جو ایک بدترین صورتحال کو اعلیٰ ترین صورتحال سے بدل
دینے کےلیے میدان میں جا اترتا اور نامساعد حالات کو خاطر میں لانے سے انکاری ہو
جاتا ہے۔ بایں طور آدمی خدا کی مدد کو آواز دے لاتا اور اپنی قوم کو ذلت و ادبار
سے رہا کرا لاتا ہے۔
5) مطالعہ تاریخ کے دوران آدمی پر حق اور باطل کا وہ رشتۂ مخاصمت بھی واضح
ہوتا ہے جو ازل سے چلا آتا ہے۔ خیر اور شر کی
وہ پلٹ جھپٹ جو قرآن میں قصۂ آدم و ابلیس سے بیان ہونا شروع ہوئی، انسانی
تاریخ بھی آدمی کو اُسی کہانی کا ایک منطقی تسلسل نظر آتی ہے۔
6) باطل کی چالیں سمجھ آنا بھی اسی مطالعہ کا حصہ ہے، کیونکہ تاریخ میں انسان
کو واقعات اور ان کے عواقب سے معاملہ پیش آتا ہے۔ تب مسلمان ایک سادہ لوح شخص نہیں
رہتا بلکہ واقعات کو زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔
7) انسان پر یہ واضح ہوتا ہے کہ اُس کا جو آج ہے وہ پچھلے ایک عرصۂ دراز میں
کیے جانے والے اجتماعی اعمال اور ریویوں کا نتیجہ ہے۔ اور اُس کے وہ اجتماعی اعمال
اور رویے جو آج انجام پا رہے ہیں اس کے کل کی تخلیق کرنے والے ہیں۔ اس سے نہ صرف
انسان میں ایک اجتماعی سوچ پیدا ہوتی، اور انسان شعوری طور پر ’’الجماعۃ‘‘ کا حصہ
بنتا ہے، بلکہ ’’لمبا چلنے‘‘ کی ایک ذہنیت اس کے اندر جنم لیتی ہے جوکہ کامیاب
قوموں کی سب سے بڑی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ نہ ماضی، حال سے منقطع رہتا ہے اور نہ
مستقبل، حال سے۔
8) روئے زمین پر ’’انسان‘‘ کی فاعلیت آشکار ہوتی ہے۔
9) تاریخ پر اثرانداز ہونے والی صالح شخصیات خودبخود انسان کا آئیڈیل بنتی
ہیں۔ نیز تاریخ کے کچھ گھناؤنے اور شرمناک کردار آدمی کےلیے عبرت بنتے ہیں۔
10)
قوموں کو اپنے زخموں اور رخم
کاروں سے آگاہی ملتی ہے۔
تو پھر اگلے شمارہ سے ہم اپنا یہ سلسلۂ مطالعہ
شروع کریں گے، ان شاء اللہ!