سانحۂ
پشاور کے پس منظر میں:
جی تو یہی
چاہتا ہے کہ فی الفور خبر آئے، یہ امتِ محمدﷺ کے کسی شخص کی کارروائی نہیں ہے۔
کوئی نام کا بھی مسلمان اس کے پیچھے ملوث نہیں پایا گیا۔ یہ ’’احساس‘‘ بےوجہ
نہیں؛ اسلام اور مسلمان کے ایک دیرینہ ’’تعارف‘‘ کا
پیداکردہ ہے۔ ’’مسلمان‘‘ سے ہماری واقفیت خاصی پرانی ہے؛ غلامی کے یہ چند عشرے اس
کا کل تعارف نہیں۔ پس وہ ’’مسلمان‘‘ ہی آج
ہمیں بہت سی باتوں پر یقین کرنے نہیں دے رہا!!! بار بار کہتا ہے، میں
کوئی آج پیدا نہیں ہوا، تم مجھے چودہ سو سال سے جانتے ہو!!! یادِ ماضی عذاب ہے یا
رب! تاریخ پڑھنا ناقابلِ برداشت ہو چلا!
کوئی یقین کرنے کی بات ہو تو
مانیں!
معصوم بچوں کو مسلمان کب مارتے
ہیں۔ نہ دین کے نام لیوا اور نہ بےدین۔ ان کے بڑوں کے ساتھ اگر کسی کی دشمنی
ہے، توآخر وہ کونسی شریعت ہے جو ان معصوموں کو گولیوں سے بھون ڈالنے کی اجازت دیتی
ہے؟ نہ اسلام کا نام لیوا اور نہ انسانیت کا دم بھرنے والا، کوئی بھی اس درندگی تک
نہیں جا سکتا۔ انگلی بار بار کچھ بہت سی پُراَسرار جہتوں کی طرف اٹھتی بھی ہے۔
’ریمنڈ ڈیوس‘ کی آل اولاد اِسی ملک میں گھومتی پھرتی ہے۔ ’پڑوسی‘ ایجنسیوں کی نیک
نامی اور خداترسی بھی کچھ ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ’ہتھوڑا گروپ‘ سے لے کر بعد کے
بہت سے دلدوز ہولناک واقعات کچھ خاصی مانوس جہتوں اور جانےپہچانے کرداروں کے
ساتھ جڑے چلے آئے ہیں؛ جس پر باخبر لوگوں کے ہاں کبھی دو رائے نہیں پائی گئیں...
اور اب بھی کہیں سےکوئی ایسی خبر نہیں آئی کہ ان پاپی عناصر نے فرشتے بن جانے کا
یکدم کوئی عزمِ مصمم کر لیا ہے؛ اور اس کے ساتھ ہی ان کی پارسائی ہر شک و شبہ سے
بالاتر بھی ہوگئی ہے! ایسی انسانیت سوز حرکتوں کا مرکز یہاں کوئی بھی اسلام دشمن
اور انسانیت دشمن ہو سکتا ہے؛ اور وہ بڑے عرصے سے ہمارے اس مسلم خطے کو اپنی
سرگرمیوں کا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔
پھر بھی... اِس سے کہیں بڑے ایک
سوال نے ہمیں آج آن گھیرا ہے، حق یہ تھا کہ اس پر ہماری نیندیں حرام ہو جاتیں:
ایسا کیوں ہے کہ معصوم بچوں کے
بہیمانہ قتل کے ایک واقعہ پر شکوک و شبہات کی سوئیاں سب سے زیادہ کچھ مسلمان ناموں
کی طرف ہی پھر رہی ہیں؟ کوئی خرانٹ دماغ ان سوئیوں کو مسلمانوں کی طرف پھیر رہا ہے
تو بھی یہ مسلمان کی طرف کیوں پھر رہی ہیں؟ ’سب سے زیادہ‘ کسی اور طرف کو کیوں
نہیں جا رہیں؟
معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل ہو تو لوگوں کے ذہن میں سب سے
پہلا اور قوی ترین اندازہ آخر یہ کیوں نہیں آتا کہ یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہو
سکتا؟کیا یہ ’’مسلمان‘‘ کے تعارف کا حصہ نہیں؟ دنیا آخر کیوں محمدﷺ
اور آپؐ کے دین کو بھول جائے؟
محمدﷺ کے پیروکاروں کی بابت
ہمیشہ دنیا کےلیے یہ ماننا مشکل رہا ہے کہ یہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور کسی بھی مذہب کے عبادت گزاروں پر کبھی بھی ہاتھ اٹھا
سکتے یا ان کو کبھی بھی گزند پہنچا سکتے ہیں... تو اس کی وجہ یہی تو
ہے کہ محمدﷺ نے دنیا کو نہ صرف کچھ نہایت
اعلیٰ و پختہ اخلاقی معیار دے دیے ہوئے ہیں، بلکہ قوتِ اخلاق کے بل پر –
جس پر آپ اندازہ کر سکتے ہیں ہمارے نبیﷺ اور آپؐ کے اصحاب کا
کتنا زور لگا ہو گا – یہ اخلاقی معیار ہی اپنے نام کرا لیے ہیں۔ قومیں
اس بلندی کا سوچ تک نہیں سکتیں۔ محمدﷺ اور اصحابِ محمدؐ() کی جیت کا میدان کسی
عسکری میدان سے پہلے دراصل یہ تھا، جسے انہوں نے بڑی کامیابی سے جیتا تھا۔ بلکہ
اُن کے یہ اخلاقی معیار ہی شر کی قوتوں کے خلاف ان کو عسکری میدانوں میں لے کر
اترے تھے۔ سب سے پہلے ان کا ایک کیس تھا: عبادت اور اَخلاق۔ اتنا خوبصورت
کہ اس کے حسن پر ہر کوئی فدا ہونے لگے۔ اور پھر اس کیس کےلیے ان کی جنگ تھی۔ جو شر کی قوتوں کے خلاف کسی وقت ’’قتال‘‘
تک چلی جاتی تھی۔ مگر جنگ تھی اُس کیس کےلیے؛ جس کا مرکزی مضمون
’’عبادت-اور-اخلاق‘‘ تھا۔ پس یہ کبھی نہ ہوسکتا تھا کہ مسلمان اپنی
’جنگ‘ جیتے کےلیے اپنا وہ ’’کیس‘‘ ہار دے، جس کےلیے وہ جنگ کرتا ہے!!!
دنیا کے ہوشمند تو اس بات کے
روادار نہیں ہوتے کہ ایک ’معرکہ‘ جیت لینے کی قیمت پر وہ ایک ’’جنگ‘‘ ہار دیں،
(یہاں تک کہ باقاعدہ کہاوت بن گئی:winning a battle but losing the
war)۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ایک ’معرکہ‘
جیتتے جیتتے نہ صرف پوری ’’جنگ‘‘ ہار دیں
بلکہ وہ ’’کیس‘‘ ہار دیں جس کےلیے وہ جنگ لڑی جاتی ہے!
بےشک یہ کارروائی کرنے والا دنیا کا کوئی ہندو، صلیبی، صیہونی
ہوتا۔ اور بےشک امکان بھی یہی ہے کہ اس میں کافروں کی کچھ عالمی ایجنسیاں ہی کسی
اعلیٰ سطح پر ملوث ہیں۔ میں کہتا ہوں، فرض کریں ایسا ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ یہ
کسی مسلمان کی کارروائی نہیں تھی، اور ایسا کوئی انکشاف سامنے آجانے کے بعد ہم
یہاں کے ایک ایک ابلاغی ادارے کو اُس کی پیشہ ورانہ دیانت کی بابت آئینہ دکھانے
بھی چل پڑتے ہیں، کہ تم اسلام کے نام لیواؤں کی طرف ایسے گھٹیا اشارے کیوں کرتے
رہے تھے۔ فرض کریں ایسا کوئی انکشاف ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود، میں کہوں گا، آج
ہمیں اپنی تاریخ کی بدترین افتاد کا سامنا ہے۔ لوگ سوچنے لگے، ’’مسلمان‘‘ نے اپنی
ساکھ اور پہچان آج ہار دی ہے۔ اِس کی پونجی جو اِس نے صدیوں کی محنت سے جمع کی، اس کے
ہاتھ سے آج جاتی رہی۔ آباء کی کمائی ہوئی نیک نامی ہم نے ہاتھ سے دے ڈالی۔
شاید کوئی نہ سوچتا ہو، اس ساکھ کے بغیر، اپنے اُس تاریخی چہرے کے بغیر جو اخلاقی
برتریکی روشنی سے دمکتا اور دلوں کو موہ لیتا ہے، ہم تاریخ کا باقی ماندہ سفر
کیسے کریں گے؟
آج بھی ’’مسلمان‘‘ کی جیت اصل
میں یہ ہوتی کہ کہیں پر بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور راہبوں کا قتل ہو تو
دنیا کہے کہ کوئی اور ہو تو ہو، ایسا کرنے والا کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ
ایک جیت ایسی ہے کہ اس پر مسلمان اپنی سو جنگیں قربان کر سکتا ہے۔ بلکہ مسلمان کی
جنگ اصل میں اس جیت کےلیے ہے۔ خود مسلمان اس کےلیے ہے۔ اس کو کھو دینا مسلمان کی
سب سے بڑی ہار ہے۔
غرض بچے، عورتیں، بوڑھے
’’مسلمان‘‘ سے خوفزدہ ہوں کہ وہ ان کو باقاعدہ ہدف بنا کر گولیوں سے بھون ڈالے گا،
یہ تاریخ کا سب سے ناقابل یقین واقعہ ہے۔ انسانی معاشروں کی یہ سب کمزور اصناف
(بچے، بوڑھے، عورتیں) خواہ وہ ہندو یا عیسائی کیوں نہ ہوں، ’’مسلمان‘‘ سے عدم تحفظ
محسوس کریں، خود اس سے بڑا کوئی سانحہ نہ ہوگا۔ وہ اپنے تحفظ اور بچاؤ
کےلیے مسلمان کی بجائے کسی اور طرف دیکھیں، یہی دھچکہ ’’مسلمان‘‘ کےلیے بہت تھا۔
کجا یہ کہ وہ ایک مسلمان کے ہاتھوں بےدردی سے قتل بھی ہو جائیں! یا یہ امکان مانا
جانے لگے کہ بچوں کو باقاعدہ ہدف بنا کر قتل کرنے ایسے ایک واقعے کے پیچھے ایک
مسلمان کا ہاتھ ہو۔ یہ درحقیقت ہمارے تعارف اور ہماری تاریخی شناخت کا مسئلہ
ہے۔ محمدﷺ کے پیروکاروں کی ساکھ اور پہچان کا معاملہ ہے۔
مسئلہ ’’امیج‘‘ image کا ہے، حضرات۔ ’’افعال‘‘ کا مسئلہ اس
کے بعد آتا ہے۔ اِمیج، یعنی پہچان۔ ’’افعال‘‘ اور ’’پہچان‘‘ کے مابین زمین
آسمان کا فرق ہے۔ ’’افعال‘‘ میں یہ بحث
ہوگی کہ ’آدمی نے فلاں کام کیا ہے یا نہیں‘، اور یہ تو کسی بھی اچھے یا برے
شخص کے ساتھ پیش آسکتا ہے۔ جبکہ ’’پہچان‘‘ میں یہ بات ہوگی کہ ’’فلاں
کام یہ آدمی کر ہی نہیں سکتا‘‘، اور یہ چیز صرف اچھے لوگوں کے ساتھ خاص ہے، اور
ایک پوری زندگی کا ثمر ہوتا ہے۔ عام آدمی کو یہ چیز تو نصیب ہو سکتی
ہے کہ ’ثابت ہوجائے، ایک کام اُس نے نہیں کیا ہے اور جھوٹ اس کے نام لگ گیا ہے‘
لیکن یہ اُس کا نصیب نہیں کہ ’’وہ یہ کام کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ یہ رتبۂ بلند ملا جس
کو مل گیا۔
آج ہم نے جو چیز ہاری وہ یہ ’’پہچان‘‘ اور ’’امیج‘‘ ہی ہے۔ یہاں
ہم وہ بحث کر ہی نہیں رہے کہ ایک کام کس نے کیا اور کس نے نہیں کیا۔
ہمارا سیاقِ گفتگو اس چیز سے متعلق ہے کہ ’’کون کون ایسا ہے جس کی بابت یہ گمان
کیا ہی نہ جا سکے کہ یہ کام اس کا ہے‘‘۔
پس نیک نامی... ’افعال‘ سے
بڑھ کر ایک ’’پہچان‘‘ کا نام ہے،
جو ہماری سب سے قیمتی دولت رہی ہے۔ ہمارے سلف کے ہاں اِس ’’پہچان‘‘ کی بابت
باقاعدہ تاکیدیں ہوتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ قول:
برخوردار!
نیکی کرنا کافی نہیں جب تک کہ نیکی
تمہاری پہچان ہی نہ بن جائے۔ نیکی تمہاری پہچان ہو گی تو ایسا
آدمی بھی تم سے نیک گمان اور نیک امید رکھے گا جس سے تم نے کبھی نیکی نہ کی ہو۔
اور یہ بات اس سے کہیں بہتر ہے کہ برائی تمہاری پہچان ہو اور ایسا آدمی
بھی تم سے خائف رہے جس سے تم نے کبھی بدی نہ کی ہو۔ کیا تم نے کبھی دیکھا نہیں
سانپ اور بچھو کو وہ شخص بھی مارنے کو دوڑتا ہے جسے کسی سانپ اور کسی بچھو نے کبھی
نہ ڈسا ہو!
’’پہچان‘‘
کے معاملہ میں... محمدﷺ کے پیروکار کیسے ہوتے ہیں؛
اور دنیا کو ان سے کس کس بات کی توقع کرنی چاہئے اور کس کس بات کی توقع ہرگز نہیں
کرنی چاہئے، ہمارے بڑوں کو یہ بات تختۂ دار پر بھی نہ بھولی۔ اپنے نبیؐ کی لاج
رکھنا ان کو کیسےکیسے مواقع پر یاد رہا، اس پر بخاری کی یہ روایت دیکھ لیتے ہیں:
یہ صحابیِ رسولؐ خبیب بن عدی کا
واقعہ ہے، جو ایک غدر کے نتیجے میں اپنے ایک ساتھی زید بن دثنہ سمیت زندہ کفار کے
ہاتھ آگئے تھے۔ قرآن پڑھنے پڑھانے والا یہ مجاہد بدر کے میدان میں
مردانہ وار لڑتے ہوئے مکہ کے ایک بڑے نام حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کو موت
کی نیند سلا چکا تھا، لہٰذا اس اِغواءشدہ مجاہد کو مکہ میں حارث بن عامر کے ورثاء
کے ہاتھ بیچ ڈالا گیا کہ وہ اپنے باپ کے بدلے میں اسے قتل کر کے اپنے انتقام کی آگ
بجھائیں۔ بقیہ واقعہ ہم بخاری کی عبارت سے پڑھیں گے جو ’’قرآن‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کی
ایک مجسم تصور پیش کرتی ہے:
فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ، وَابْنِ دَثِنَةَ
حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو
الحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ
قَتَلَ الحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ
أَسِيرًا، فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ، أَنَّ بِنْتَ الحَارِثِ
أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ
بِهَا، فَأَعَارَتْهُ، فَأَخَذَ ابْنًا
لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ قَالَتْ فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى
فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي
وَجْهِي فَقَالَ تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ
وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ
لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ
لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ
ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنْ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا
خَرَجُوا مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ
فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ ذَرُونِي
أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ لَوْلَا
أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ
عَدَدًا
مَا أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا ...
عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي
وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الإِلَهِ وَإِنْ
يَشَأْ ...
يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
فَقَتَلَهُ ابْنُ الحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ
الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا.
(صحيح البخاري، كتاب
الجهاد والسِّيَر، باب: هل يستأسر الرجل.. رقم 3045)
وہ
خبیبؓ اور ابن دثنہؓ کو لیے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ مکہ لے جا کر انہیں فروخت کر
دیا۔ خبیبؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹوں نے خریدا۔ خبیبؓ نے بدر
کے موقع پر حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔تب خبیبؓ ان کے پاس قید میں ڈال دیے گئے۔
عبید اللہ بن عیاض نے مجھے بتایا کہ: حارث کی بیٹی نے اُسے بتایا کہ جب وہ (خبیب
کو قتل کرنے پر) مجتمع ہوئے، تو خبیب نے اس (خاتون) سے ایک اُسترا عاریتاً مانگا کہ اپنے زیرناف کی صفائی
کر لیں۔ خاتون نے اُنہیں استرا عاریتاً
دے دیا۔ تب کیا دیکھتی ہوں، خبیب نے میرا ایک بچہ پکڑ رکھا تھا جو خبیبؓ کی ران پر
بیٹھا تھا، جبکہ اُستراخبیبؓ کے ہاتھ میں پکڑ رکھا ہوا تھا۔ میں اپنے اس بچے کا
خیال ہی نہ رکھ پائی اور وہ اس کے پاس چلا گیا تھا۔ مجھ پر تو یکدم ایسا ہول طاری
ہوا کہ خبیبؓ نے میرے چہرے سے وہ ہول بھانپ لیا۔ خبیب بولا: کیا تم ڈر رہی ہو کہ
میں اسے مار دوں گا؟ میں کبھی ایسا کرنے والا نہیں۔ (خاتون کہتی ہے): بخدا میں نے
خبیب سے بہتر کوئی قیدی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بخدا ایک دن میری اُس پر نظر پڑی وہ
بیڑیوں میں جکڑا تازہ انگور کھا رہا تھا جبکہ اُس وقت پورے مکہ میں پھل نام کی چیز
نہیں تھی۔ (خبیب کی کرامت)۔ خاتون نے کہا: وہ کوئی رزق تھا جو اللہ نے کہیں سے
خبیبؓ کےلیے بھیجا ہوگا۔ پھر جب وہ خبیبؓ کو قتل کرنے کےلیے حرمِ مکہ سے غیر محرّم
حصے کی طرف لے کر نکلے، تو خبیبؓ نے ان سے کہا: مجھے ذرا چھوڑو، دو رکعت ادا کر
لوں۔ انہوں نے اُسے چھوڑ دیا۔ تب خبیبؓ نے دو رکعت نماز پڑھی اور بولے: مجھے اگر
یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم گمان کرو گے کہ میں موت سے ڈر کر ایسا کر رہا ہوں تو میں یہ
دو رکعتیں خوب لمبی کر کے پڑھتا۔ خدایا ان سب (ظالموں) کو شمار کر کے رکھنا۔ اور
بولے:
(شعر):
کوئی پروا نہیں، جب میں خدا کے راستے میں مارا جاتا ہوں تو میری کونسی کروٹ زمین
پر لگتی ہے۔ یہ قربانی خدا کی ذات کی خاطر ہوئی، وہ چاہے تو وہ اس جسد کو مبارک
کردے جس کی ابھی تکہ بوٹی ہوجانے والی ہے۔
تب حارث
کے ایک بیٹے نے خبیبؓ کو قتل کردیا۔
یوں
خبیب اس سنت کے جاری کنندہ ہوئے کہ کوئی مسلمان قیدی قتل ہونے لگے تو دو رکعتیں
ادا کرلے۔
اللہ رحمت فرمائے صحابیِ رسولؐ
خبیب بن عدی پر، وہ صرف بوقتِ شہادت دو رکعت سنت کے جاری کنندہ نہ تھے۔
’’مسلمان‘‘ کا جیسا تعارف رسول اللہﷺ کے اس پیروکار کے ہاتھوں کرایا گیا، وہ ایک
عظیم الشان واقعہ ہے۔ آپ دیکھ لیجئے، اِس مظلوم آدمی کے ساتھ غدر ہوا ہے۔ اس کے
نتیجے میں اس کو قتل کر دیا جانے والا ہے۔ وہ لوگ جو ابھی لمحوں میں اس کی تکہ
بوٹی کردینے والے ہیں، ان کا ایک معصوم بچہ اس کی گود میں آ بیٹھا ہے۔ تیز دھار
استرا اس کے ہاتھ میں ہے۔ اسے دیکھ
کر اس کی ماں کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی یہ موقع چلا
جانے دے۔ مگر نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ایسا کرنے والا ہی نہیں!
یہ تھے محمدﷺ کے پیروکار! ان کا
حق تھا کہ دنیا ان پہ فدا ہو!
اسلام کی یہ بنیاد یعنی ’’عبادت
اور اخلاق‘‘ آج اگر پھر میدان میں آجاتی ہے اور وہ بھی اس سطح پر کہ یہ ہمارا
’’چہرہ‘‘ ہی بن گیا ہو، ایسا چہرہ جس کے بغیر دنیا ہمیں پہچاننے سے ہی انکار
کرنے لگے، خواہ ’میڈیا‘ جتنا مرضی جھوٹ بک لے، کیونکہ کردار وہ چیز ہے جو کبھی بولنے
سے نہیں رہتی اور جسے لوگ کبھی سنے بغیر نہیں رہتے... ’’اِمیج‘‘، ’’پہچان‘‘ اور
’’چہرے‘‘ کا کوئی ایسا بندوبست آج اگر پھر کر لیا جائے کہ لوگ یہاں اُس تاریخی
’’مسلمان‘‘ کو دیکھنے لگیں جو اِس دنیا کو اسلام کے زیرنگیں لے کر آیا تھا... تو
’میڈیا‘ کے تمام تر جھوٹ اور بکواس کے باوجود یہ دنیا اس ’’مسلمان‘‘ کے قدموں میں
شاید اپنا سب کچھ ڈھیر کردے۔ اس ’’مسلمان‘‘ سے مفتوح ہونا قلوب کی مجبوری بن جاتی
ہے!
ایک عرصہ سے عالم اسلام میں
’’جہاد‘‘ کے حوالے سے کچھ ایسی جہتیں سامنے آنے لگی ہیں جو علم اور علماء سے دوری
کی خبر دیتی ہیں۔ خود
ہمارے یہاں اس کی کچھ فکری و عملی جہتوں پر ہی گفتگو ہوتی رہی ہے، اور اسی پر ہمیں
کچھ برا بھلا سننے کو بھی ملتا رہا ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ اس کی یہ اخلاقی
جہتیں اس کی فکری جہتوں سے کہیں بڑھ کر توجہ طلب ہیں۔ نہایت واضح رہے، یہ نہ
ہم کسی ایک واقعے پر بات کر رہے ہیں، اور نہ کوئی ایسا تجزیہ کہ وہ ایک واقعہ کرنے
والا کون ہے۔ ہم نے کہا، امکانات کے اشارے کچھ غیر مسلم قوتوں کی طرف بلاشبہ جاتے
ہیں۔ مگر وہ بات جس پر ہمیں ڈھیروں غور کرنا ہے، اس کا تعلق ’’مسلمان‘‘ کے تعارف
سے ہے۔ دوبارہ واضح کردیں، ہم یہاں ’’افعال‘‘ کی بات کر ہی نہیں رہے۔ کس نے کیا
کیا، اور کس کے ساتھ کیا ہوا، یہ ہمارا موضوع ہی نہیں۔ ہم یہاں ’’امیج‘‘ کی بات کر
رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے پریشان ہونے کی بات ہے۔ اس پر ہم سبھی کو بولنا اور
سبھی کو آواز اٹھانا ہے۔ یہاں ہم سب کا نقصان ہو رہا ہے۔ ’’مسلمان‘‘ کا وہ تاریخی
چہرہ آج پھر انسانیت کے سامنے آنا، عالم انسان میں اس کی سب پیش قدمی اپنے اُسی
تاریخی چہرے کے ساتھ ہونا... آج ہمار ی ہر
ترجیح سے بڑی ترجیح ہونی چاہئے۔