مسلم معاشرے کا ناسور: نفاق و زندقہ
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾وَإِذَا
قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴿١١﴾ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ ﴿١٢﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا
أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا
إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٢﴾ البقرۃ
ان کے دلوں میں بیماری تھی۔ تب اللہ نے ان کی بیماری اور
بڑھائی۔ان کےلیے ہے ایک دردناک عذاب؛ بدلہ ان کے جھوٹ کا۔ جب اِن سے کہو زمین میں خرابی مت کرو، تو یہ بولیں: ہم تو
سنوارنے والے ہیں۔ سنو! یہی ہیں خراب کار، مگر ان کو شعور نہیں۔ اور جب اِن سے کہو
ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے تو یہ بولیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟
سنو یہی ہیں بیوقوف، مگر جانتے نہیں ہیں -
* فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ۔
یہاں؛ اس محل کا تعین ہوا
جہاں ایمان ٹھہرتا اور قرآن اثر کرتا ہے۔
انسان میں نصب وہ آلہ جو عالمِ بالا کے ساتھ معاملہ کرتا اور حیاتِ ابدی کا نشان
پاتا ہے؛ اور جسے ٹھیک رکھنا انسان کی سب سے پہلی ضرورت ہے؛ کیونکہ انسان کی تمام
تر فلاح کا دارومدار اِسی کے درست رہنے پر ہے۔ یہی شرائع کا اصل مخاطب۔ یہی خدا کی نظر پڑنے کی اصل
جگہ۔ یہی خیر، اخلاق اور پاکیزگی کی
آماجگاہ۔ اور یہی زمینی آبادکاری کےلیے مطلوب اصل مادہ اور یہاں کی سرسبزی و
شادابی کا اصل راز۔ یعنی قلوب۔
اِدھر، یہیں پرکوئی مرض پل
رہا تھا: شکوک، شبہات اور نفاق۔ خرابی یہاں تھی۔ وہ سب بحثیں، فلسفے جھاڑنا اور
دانشوری بگھارنا تو محض علاماتِ مرض تھیں۔ خدا کی شان کو ماننا اور اس کے
قانون و شریعت کا خیرمقدم کرنا، یعنی تسلیم و اذعان یہیں پر جگہ نہ پا سکا تھا۔
یہیں پر بیماری نے سر اٹھا رکھا تھا۔ اور اسی کی جڑ اکھاڑنا ضروری تھا؛ لیکن اس کی
کبھی خبر ہی نہ لی گئی تھی۔
یاد رکھو: قرآنی خطاب ہو یا
نبوی بیان.. یہاں ’’مرض‘‘ سے
مراد دو قسم کے روگ ہیں جو قلب کو صحت اور
اعتدال کی حالت سے محروم کر دیتے ہیں: باطل شبہات۔ اور غلیظ شہوات۔
1.
کفر،
نفاق، بد اعتقادی، شرک، بدعات، سب کا تعلق پہلی چیز سے ہے، یعنی باطل شبہات والا روگ۔
2.
جبکہ بےحیائی،
بدکاری، سفلہ پن، خدا کی نافرمانی اور حقوق کی پامالی کی جانب لپکنا اور اس کےلیے
بےتاب ہونا، اس کا تعلق دوسری چیز سے ہے، یعنی غلیظ شہوات والا روگ۔
اول الذکر کا بیان: جیسے
سورۃ البقرۃ کا یہ مقام، جس میں ’’مرض‘‘ سے مراد ہے: شک اور نفاق جو ان کے دلوں کو بیمار اور لاغر کرتا ہے (جلالین)۔ سورۃ الانفال }إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي
قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مرض سے مراد: ضعفِ اعتقاد (جلالین){ سورۃ التوبہ }وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ
فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْمراد: ضعفِ اعتقاد (جلالین){، النور }أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ (مراد: کفر (جلالین){ سورۃ محمد }رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ، مراد:
شک (جلالین)،{ المدثر }وَلِيَقُولَ
الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مراد: شک (جلالین){
ثانی الذکر جیسے: الاحزاب }فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ
مراد: زنا کی طلب (تفسیر
سعدی){ الاحزاب }لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ
الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مراد: زنا کی طلب (جلالین){
یہیں سے؛ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ قلب کی صحت اور
تندرستی کیا ہے۔ یہ ہے ان ہر دو قسم کے روگ سے بچا ہونا۔ یہ کمال عافیت ہے؛ اگر
خدا کسی کو نصیب کردے؛ اور یہی باربار خدا سے مانگنے کی چیز۔ اِن ہر دو روگ سے بچے
ہونے کی کیا کوئی علامت ہے؟ جی ہاں۔ یقین اور فرماں
برداری، جو انسان کے وجود سے پھوٹنے لگے اور آدمی معصیت سے دور بھاگنے لگے۔ نیز اِس
یقین اور فرماں برداری میں آدمی کا اہل اتباع (صحابہؓ) والے معیار کی جستجو کرنا،
جیساکہ آگے اس کا بیان آتا ہے۔ ایسے خوش نصیب کے تو کیا ہی کہنے!
* فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا۔ نہایت عظیم تنبیہ: ایک فعل
کی نسبت خدا کی طرف ہو رہی ہے! یہاں؛ تقدیر کی ایک حکمت معلوم ہوئی: یعنی بیماری
سے مزید بیماری آنا۔ کوئی خرابی اپنے اندر تھی، سو خدا کی طرف سے بھی اسی میں ترقی
ملی۔ پس پتہ چلا، ’’پہلا قدم‘‘ انسان کی زندگی میں کتنا اہم ہے۔ ’’راستے‘‘ آگے
خودبخود چلتے ہیں۔ ضروری تو یہ تھا کہ سب باتوں کو چھوڑ اِسی ایک مسئلہ پر پریشان ہو جاتے؛ یہیں پر اہل اتباع کی ایک ایک
بات اور ایک ایک ادا پر توجہ مرکوز کر لی اور ان کے پیچھےپیچھے چل دیے ہوتے۔ آدمی
کا اپنی ’’سمت‘‘ طے کر لینااس کی زندگی کا سب سے اہم سوال ٹھہرا۔ یہ ’’بیج ڈالنے‘‘
والی بات ہے، باقی جو کچھ ہے وہ ’’محنت‘‘ ہے۔ بیج برا ہو تو اس پر محنت اس سے بھی
بری۔ بہت سی محنتیں بہت بہت کڑوے پھل لاتی ہیں۔ پس کل توجہ، دعاء، بیداری، ہوشمندی
اس بات پر کہ بنیاد میں آپ کیا ڈالتے ہیں۔ یہی تصویر ہمیں قرآن کے کچھ اور مقامات
پر دکھائی جاتی ہے: وَنُقَلِّبُ
أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّة (الانعام: 110) ’’اور ہم بھی ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو پھیر دیں گے جس طرح یہ اس پر
پہلی دفعہ ایمان نہیں لاتے‘‘۔فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف:5) ’’جب وہ لوگ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا ہی کردیا‘‘۔وَأَمَّا
الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ (التوبۃ: 125) ’’اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی‘‘۔ پس معصیت کی سزا ہوئی ایک
اور معصیت۔ بدی کا انجام ہوا ایک اور بدی۔
دوسری طرف؛ نیکی کا بدلہ ہوا ایک اور نیکی: وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ
اهْتَدَوْا هُدًى (مریم: 76) ’’اور جنہوں نے ہدایت پائی
اللہ ان کو ہدایت میں اور بڑھا دے گا‘‘۔وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ (التغابن: 11) ’’اور جو اللہ پر ایمان لائے،
اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔
* وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ
لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ۔
’’فساد فی الارض‘‘ ہے: خدا کی
دھرتی میں وہ کام کرنا جن سے خدا نے روک لگا رکھی ہے۔ اور ان امور کا ضیاع کرنا جن
کو بچا رکھنا خدا کو یہاں مطلوب ہے۔
(طبری)
اہل
نفاق کا وصف: زمین میں فساد کرنا، یہاں خدا کی نافرمانی کی راہ سے، خدا کے منع
کردہ امور کا راستہ چل کر، خدا کے عائد کردہ فرائض کو
برباد کرکے، خدا کے اس دین میں شکوک پیدا کرکے جس کو مانے اور تسلیم کیے بغیر کسی
شخص کا عمل خدا کے ہاں قبول ہونے والا نہیں، نیز مومنوں کو ایسا ایمان دکھا کر جو
حقیقت میں شک و بےیقینی ہے، اور خدا کے دوستوں
کے خلاف خدا کے ان دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرکے جو خدا کو اور خدا کی کتابوں اور
رسولوں کو جھٹلانے والے ہیں ۔ یہ ہیں منافقین کا فساد فی الارض۔
(طبری)
قابلِ غور: آیت کی تفسیر میں حضرت سلمان فارسی
کا قول: یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی پیدا نہیں
ہوئے۔ یہاں طبریؒ سوال اٹھاتے ہیں: یہ تو طے ہے کہ آیت منافقینِ مدینہ کی بابت
آئی، پھر سلمان کے اس قول کا مطلب؟ طبری اسکی توجیہ کرتے ہیں: سلمان کا
مقصد ہے کہ اب ایسے لوگ (مسلم سماج میں) نہیں رہے، مگر آئندہ کسی وقت پھر پیدا ہو
جائیں گے۔
یعنی زنادقہ جو ایک بار پھر مسلم معاشروں میں
کفر کی بولی بولنے لگیں گے۔
اہل زمین کو خدا کے حکم کی پروا نہ ہونا... زمین
پر کھلےعام خدا کی نافرمانی ہونا... یہ زمین کی تباہی اور اس کے وسائل کا اجاڑا
ہے۔ آثار سے ثابت ہے، تمام اہل زمین اس کی پاداش بھگتتے، غلے اور اناج تک سے برکت
اٹھ جاتی، اور چرند و پرند تک اس کی قیمت
دیتے ہیں۔
* قَالُوا
إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ بولے: ارے ہم ہی تو سنوارنے والے ہیں! معصیت
اور کفر پر مبنی وہ ایک ناسور کردار جس پر دعوائے ایمان کا خول چڑھا رکھا گیا ہے،
ایک مسلم معاشرے میں... جب بھی انہیں یہ روش چھوڑنے کا کہا جائے، اور تقاضا کیا
جائے کہ کافروں کو ان سے وہی رویہ دیکھنے کو ملے جو مومنوں کے شایانِ شان ہے، یعنی
رسولؐ اور اس کی شریعت سے سچی وفاداری اور خدا کے دشمنوں سے صاف بیزاری... وہاں یہ
اپنی ذہانت و پارسائی اور اپنی پالیسیوں کے قصے لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور الٹا
سمجھانے والے کو مرعوب کرتے ہیں۔ یہ ہوا اُس فساد فی الارض کا نقطۂ عروج: یعنی
حقائق کو الٹ دینا اور اصطلاحات ہی میں تصرف کرنا۔ خیر کا نام شر اور شر کا نام
خیر! ایک خرابی اذہان کے اندر خرابی ہی رہے تو سدھرنے کا امکان باقی اور خدا کی
جانب واپسی (توبہ) کا راستہ کھلا رہے گا۔ اس خرابی میں جب تک ایک ’نظریاتی حسن‘
پیدا نہ کرایا جائے تب تک یہ غیرمحفوظ ہے۔ پس یہاں ایسی نکتہ وری درکار ہے جو ترکِ
شریعت اور ترویجِ کفر کےلیے باقاعدہ ایک کشش اور پزیرائی پیدا کرائے! شیطان کا کام
معاشرے میں کبھی مکمل نہ ہوگا جب تک وہ خدا کی نافرمانی کو ’دانش‘ اور ’فلسفے‘ کے
ڈھیروں تاؤ نہ دلوائے۔ نفاق اور زندقہ اس کے بغیر ادھورا ہے۔
* أَلَا
إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ۔ ذرا تاکید کے لوازم پر غور کرتے جائیے۔ پہلے أَلَا۔ پھر إِنَّ۔ پھر إِنَّ کے ساتھ آئے ہوئے ھُمۡ کے ساتھ ایک بار پھر ھُمۡ۔ پھر ال جو حصر کےلیے ہے اور یہاں
تاکید کے مفہوم کو بڑھاتا ہے۔ یعنی چھوٹے سے ایک جملے میں چار مؤکدات!!! قرآن مجید
کا کسی چیز کو اتنی تاکید کے ساتھ فساد کہنا ایک مومن نفس کو ہلا کر رکھ دینے والا
ہے۔
* آمِنُوا كَمَا آمَنَ
النَّاسُ یعنی صحابہؓ والا ایمان۔ اتباع کا وہ نمونہ جسے آسمان کی
سند حاصل ہے۔ رسولؐ کے پیچھے چلنے کا وہ پیمانہ جو نجات کا موجب ہے۔
* قَالُوا أَنُؤْمِنُ
كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۔ یعنی صحابہؓ کی طرح ایمان لانا انہیں
بیوقوفی نظر آتا ہے۔ واقعتاً اس میں وطن تک چھوٹ جاتے اور رشتے تک قربان ہو جاتے ہیں۔
یعنی ہجرت اور مشرکین سے براءت۔ خدا کے دشمنوں سے ناطہ توڑ لینا اور رسولؐ اور اس
کی شریعت سے دشمنی کرنے والوں کے ساتھ دشمنی کرنے تک چلا جانا۔ اس کے بغیر
’’ایمان‘‘ کا کونسا تصور ہے؟ حقیقت کا سراغ پا لینے والا، جو خدا اور اس کے انعام سے واقف ہے، اس کی نظر میں
ایسی وفاداری ہی دانائی ہے۔ مگر منافق جو ان حقیقتوں کو دیکھنے سے اندھا ہے اور اس
کےلیے یہی دنیا ہے اُس کی نظر میں اس سے بڑھ کر بیوقوفی کوئی نہیں کہ یہ سب کچھ
ایک اَن دیکھے خدا کی محبت پر وار دیا جائے۔ پس یہاں حقیقتوں کے دیکھنے پر ہی اصل
جھگڑا ہے؛ جوکہ ایک دوسرے کی نظر اور عقل کو مشکوک ٹھہرانے تک چلا جاتا ہے۔ اور؛
لامحالہ ان میں سے کسی ایک کی بات درست ہے!
* أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ
السُّفَهَاءُ۔ تاکید کے وہی لوازم۔ ابدالآباد تک رہنے والی زندگی کو چند
روزہ مفاد پر قربان کرکے اپنے آپ کو دانا سمجھنا اور ایسا نہ کرنے والے کو احمق
جاننا.. اس سے زیادہ مضحکہ خیز کردار بھلا کیا ہوگا۔ اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا تو
جہالت ہے ہی، ایسا نہ کرنے والے کو عقل کا ہلکا جاننا اور اس پر بڑی بڑی بلیغ
چوٹیں بھی کرنا! یہاں؛ ہر دو فریق ایک دوسرے کو بیوقوف ہی جانیں گے۔ اس پر تعجب کیسا؛
یہ تو لامحالہ ہونا ہے۔ پس اصل دیکھنے کی چیز یہاں ہردو فریق کا ایک دوسرے کی بابت یہ دعویٰ
نہیں بلکہ اس دعویٰ کی صحت ہوگی۔
(نوٹ:
ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور
پر شامل ہوتے ہیں)