ملالہ
کو نوبیل انعام۔ ایک غیر سازشی تھیوری!
ذیشان
وڑائچ
جی نہیں ملالہ کوئی مغرب
کی ایجنٹ نہیں ہے۔ کوئی سازش نہیں رچائی گئی۔ کوئی ساز باز نہیں ہوئی۔ وہ ایک عام
سی مسلمان لڑکی ہے جسے سوات کے ہنگامی حالات کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ بی بی سی والوں نے اس
کی ایک ڈائری قسط وار چھاپ دی۔ اب یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس
ڈائری کے مواد پر بی بی سی کے صحافیوں یا پالیسی کا کتنا اثر تھا۔ بس پھر اس ڈائری نے پاکستانی طالبان کے خلاف ایک مقدمہ کھڑا
کردیا۔ بنیادی مقدمہ تو یہ بنا کہ سوات میں تعلیم کی صورت حال بہت خراب ہے
اور خاص طور لڑکیوں کی تعلم تو ناممکن ہے۔ اس کیس میں خاص طور یہ لگ رہا تھا کہ
مقامی طالبان کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ لیکن بعد میں یہ مقدمہ ذرا سا پھیل کر
کچھ اور ہوگیا۔ اب صورت حال یہ لگ رہی تھی کہ پورے پاکستان میں لڑکیوں کے لئے
تعلیم حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہے اور پاکستان کی ہر لڑکی تعلیم سے محروم ہوتی ہے
اور ایسے میں ملالہ نام کی بس ایک لڑکی تعلیم کی شمع کو لے کر کھڑی ہوئی جس کو
طالبان نے اس تعلیم کے حق کے مطالبے کی وجہ سے جان سے مارنے کی کوشش۔ ملالہ کی جان
بچانے کے لئے اسے انگلینڈ بھیج دیا گیا جہاں پر اس کا کامیاب علاج گیا۔
گولی سچ مچ لگی، پاکستانی
طالبان نے ہی ماری، طالبان کے نمائندے احسان اللہ احسان نے خود اس کا اعتراف کیا۔
نہ گولی مارنے کی کہانی میں کوئی سازش تھی اور نہ ہی آپریشن کر کے اسے بچانے میں۔
لیکن اس سب کے باوجود یہ
سوال پھر بھی بنتا ہے کہ وہ کونسا کارنامہ تھا جس کی وجہ سے ملالہ نوبل پرائز کی
حقدار مانی گئی؟ ملالہ کے حوالے سے پورا واقعہ پڑھیں تو اس میں ملالہ کا کوئی بھی
کارنامہ نظر نہیں آتا۔ پورے پاکستان میں اگر لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کوئی مسئلہ ہے
تو وہ یا تو امن و امان کی صورت حال ہے یا پھر غربت ہے۔ اس کو تعلیم کے حق کے ہونے
اور نہ ہونے کے مقدمے میں تبدیل کرکے ملالہ کو ہیرو بنانا اپنی جگہ ایک سوالہ نشان
ضرور رکھتا ہے۔ یہ سوال مزید شدت سے تب ذہن میں آتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایدھی
صاحب جیسے ایک سلف میڈ قسم کے بندے نے برسوں بے غرض ہوکر پاکستان کی خدمت کی ہے
اور اس خدمت میں کوئی مذہبی برانڈنگ بھی نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود جناب ایدھی کی
طرف نوبیل پرائز کمیٹی کی توجہ نہیں گئی۔
یاد دلادیں کہ ہم کسی
سازشی تھیوری کی بات نہیں کر رہے ہیں نہ ہمیں کوئی خفیہ ہاتھ نظر آتا ہے۔ یہاں پر
سازشی تھیوریاں تو بہت پائی جاتی ہیں۔ چلئے ایک غیر سازشیی تھیوری پیش کرتے ہیں۔
امن اور ادب کوئی غیر
اقداری شیء نہیں ہے۔ مغرب کے معاشرے میں ادب اور امن کا اپنا ایک خاص سیکولر تصور
پایا جاتا ہے جو کہ مغرب کی کچھ صدیوں سے پیدا شدہ اقدار کے نتیجے میں پیدا ہوا
ہے۔ جب آپ کسی کے امن کی کوشش کو سراہتے ہیں تو اس امن سے وہی چیز مراد ہوتی ہے جو
کہ مغرب کے مخصوص سوشیل آرڈر سے پیدا شدہ امن کا تصور ہوتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یاسر عرفات جب مجبوری میں دب کر صلح کر لیتے
ہیں تو نوبیل انعام پاتے ہیں۔ شیریں عبادی جو کہ ایران کی مذہبی حکومت کی مخالف
ہوتی ہیں تو وہ بھی اس کی حقدار ہوجاتی ہیں۔ اوبامہ ابھی کچھ بھی نہیں کرتے ہیں تو
بھی نوبیل انعام پاتے ہیں۔ مغرب کے ثناء خوان ان فیصلوں کی وکالت کرنے کے لئے اپنے
پاس اچھے خاصی نکات بھی رکھتے ہوں گے۔ مغرب کی طرف سے جب ایسے فیصلہ ہوں گے جو کہ
قوموں کی اقدار سے متعلق ہوں تو لازماً وہی اس کے حقدار ٹھیریں گے جو کہ مغرب کے
سوشیل آرڈر سے موافقت رکھتے ہیں۔ بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ کے باوجود پاکستانی معاشرہ آج
تک مغرب کے سوشیل آرڈر کو قبول نہیں کرسکا
اور نہ ہی کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسے میں لڑکیوں کی تعلیم کے نام پر پاکستان کو ایک
پس ماندہ اور غیر مہذب معاشرے کے طور پر پیش کرنا ایک عین فطری ایجنڈا ہے۔ اس کو
سازش قرار دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ تو سامنے کی بات ہے۔
اور ویسے بھی اب تک اس بات
کا پتہ نہیں چل سکتا کہ ملالہ نے تعلیم کے فروغ کے لئے کیا کام کیا ہے؟ اب تک جو
بھی پتہ چلا ہے وہ یہی ہے کہ ملالہ کے نام پر بی بی سی اور مغربی میڈیا نے اپنا
کام خوب نکالا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ملالہ کی
شہرت کی وجہ پر کوئی بھی بامعنی سوال پوچھا جاتا ہے تو فوراً یہ الزام دھر دیا
جاتا ہے کہ دیکھو یہ سازشی تھیوری پیش کر رہے ہیں۔ اس لئے مکرر عرض ہے کہ جو بھی
پیش کیا گیا ہے وہ سامنے کی بات ہیں۔ یہ ایک قطعی غیر سازشی تھیوری ہے۔