جدید معتزلہ اور انسان کو "خدا" سے
آزاد کرانے کی مہم
مدیرِ ایقاظ
قدیم معتزلہ کا مقدمہ تھا:
شریعت تو محض عقل کے فیصلے کی
تائید کرنے آتی ہے لہٰذا ’’اصل‘‘ تو عقل ہی ہےجو سب انسانوں کے مابین مشترک ہے۔
جس پر ’جدید معتزلہ‘ نے گرہ لگائی:
پس معاملاتِ کار کو (طریقوں
طریقوں سے) انسانوں اور ان کے کنونشنز ہی کی طرف لوٹایا جانا ہے۔
یہ وجہ ہے، ’جدید معتزلہ‘ کی
زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ ’’آسمان‘‘ کی جانب کم سے کم اشیاء لوٹائی جائیں
اور ’زمین‘ سے انکی دلیلیں زیادہ سے زیادہ ڈھونڈی جائیں؛ نوٹ کرنے والے انکے منہج (یا ذہنیت) میں یہ بات بآسانی نوٹ کرسکتے ہیں۔
(اصل میں یہ ہیومن اسٹ پیراڈائم کو ’انٹرنلائز‘ کرنے کا نتیجہ ہے؛ ’’آسمان‘‘ سے
جان چھڑانے کی ایک اچھی خاصی تگ و دو۔)
یہیں سے ’جدید معتزلہ‘ نے یہ مسلک بھی نکالا کہ شریعت
کا معروف ومنکر وہی ہے جو کسی معاشرے کے لوگوں کو معروف و منکر لگے (قدیم معتزلہ
یہ سنتے تو اس پر جھرجھری
لیتے)۔ نیز یہ کہ رشتے اور بندھن، اور حقوق وفرائض کا تعلق اس بات
سے ہے جو انسان آپس میں طے کرلیں (زیادہ سے زیادہ یہ ’نکاح‘ کے رشتے کو ’’آسمانی‘‘ مانیں گے کیونکہ یہ
انسان کے ’پرسنل‘ معاملات میں آتا ہے؛ لہٰذا ’مذہب‘ اِس رشتے پر ’’حوالہ‘‘
بنے تو کوئی بڑی رکاوٹ نہیں؛ زیادہ امکان البتہ یہی ہے کہ جلد یا بدیر اس کو بھی
’معاشرے کا مانا ہوا ایک تعلق‘ قرار
دیا جائے اور اِس رشتے کا ثبوت تو اسی بنیاد پر ہو، البتہ جب انسان کوئی
چیز طے کرلیں تو پھر شریعت نے تو اس
کی تائید کےلیے آنا ہی ہوتا ہے!) البتہ باقی رشتے اور ان رشتوں کے احکام
انسانوں کے اپنے طے کردہ (سوشل
کونٹریکٹ) ہی ہونے چاہئیں، اموال (جدید زبان میں ’’معیشت‘‘)، عدل، حقوق، جماعت،
اطاعت اور راعی و رعایا (جدید زبان میں ’’سیاست‘‘) وغیرہ ایسے سب معاملات کو یہ
لوگ اپنے ’مبادیاتِ فہم‘ کے چند فارمولے لگا کر (جو حدود، قصاص اور سود وغیرہ سے
متعلقہ آیات کو ’موضوع‘ سے غیرمتعلقہ ٹھہرا دیں اور ’’سیکولرزم‘‘ کے معروفِ عام عقیدے پر ان آیات
کی زد نہ آنے دیں) عملاً انسان کے سپرد کردیتے ہیں۔
چونکہ ’’اصل‘‘ ان کے نزدیک انسانی عقل ہے، لہذا وہ اصولی
بنیاد کہ کونسی انسانی جماعت اپنے جملہ معاملات خدا کو سونپ کر رکھے
ہوئے ہے (قطع نظر اس سے کہ تفصیلات میں ’’شریعتِ خداوندی‘‘ کے بہت سے امور
’نظامِ کفار‘ کے ساتھ ایک اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں) اور کونسی جماعت اپنے
معاملاتِ کار کو اللہ و رسول کی جانب نہ لوٹانے کے مسلک پر ہے (قطع نظر
اس سے کہ تفصیلات میں اس کے ’’نظام‘‘ کے بہت سے امور مسلمانوں کی ’شریعت‘ کے ساتھ
ایک اشتراک اور مماثلت بھی رکھتے ہوں)...
یہ اس اصولی بنیاد ہی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ
کونسی جماعت خالق کی فرماں بردار (’’مسلم‘‘) ہے اور کونسی جماعت خالق کی ’’کافر‘‘
اور اُس کی جانب سے آئی ہوئی کتاب کو ’’رد‘‘ کر رکھنے کی روش پر ہے...
یہ ہر دو جماعت کے ہاں پائی جانے والی شریعت کو عین بیچ سے
ہاتھ ڈالتے اور ان کو خلط ملط کرنے لگتے ہیں۔ اِدھر کی آدھی بات اٹھا کر اُس سے
جوڑی اور اُدھر کی آدھی بات اٹھا کر اِس سے جوڑی؛ اور روز ایک نیا پکوان پکا کر
پیش کردیا، اور دونوں کی ’’اصولیت‘‘ اور ’’کُلِّیّت‘‘ کو یوں بےپروائی
سے لیا گویا یہ تو کوئی چیز ہی نہیں!
(چنانچہ ہمارے نزدیک یہ روٹ عملاً ’’رسالت‘‘ کے انکار تک
جاتا ہے؛ کیونکہ رسالت ’تفصیلات‘ سے پہلے ایک ’’اصولیت‘‘ اور
’’کلیت‘‘ ہی کا نام ہے؛ اور اِس بنا پر ایک نبی کی اطاعت بھی سب سے پہلے ایک
’’اصولی اطاعت‘‘ ہوتی ہے؛ قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی شریعت کی کیا تفصیلات بتائے گا
اور کیا نہیں بتائے گا اور کب بتائے گا اور کب نہیں بتائے گا۔ ’’نبی کی
اطاعت‘‘ بہ مقابلہ ’’نبی کو مسترد کرنے‘‘ کا یہ اصولی فرق ان
دونوں راستوں کی جزئیات کے مابین پیوندکاری کا منہج اختیار کرنے سے البتہ کالعدم
ہوکر رہ جاتا ہے)
یہاں سے یہ لوگ ملتوں کا فرق بھی ختم کرنے کا موجب ہوتے ہیں
اور شرائع کا فرق بھی۔ ’’اسلامی شریعت‘‘ اور
’کفر کا قانون‘ یہاں گڈمڈ ہوکر رہ جاتا ہے؛ اور اشیاء کا تعین اِس بنیاد پر رہ ہی
نہیں جاتا کہ ان کو ’’مقرر کرنے والا کون ہے‘‘ (توحیدی پیراڈائم) بلکہ کل بحث اور
توجہ کا محور یہ ہوجاتا ہے کہ ’کیا مقرر کیا
جارہا ہے‘ (ہیومنسٹ پیراڈائم)۔ انجامِ کار... ’’آسمانی شریعت‘‘ اور
’انسان ساختہ راستوں‘ کا اصولی فرق کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور
’’جزئیات‘‘ ہی طرفین کا موضوع بن کر رہ جاتی ہیں؛ جبکہ مسئلہ اصولی وعقائدی اختلاف
سامنے لانے کا ہوتا ہے۔
حق یہ ہے کہ دو ملتوں کے مابین جزئیات کے اشتراک کو
کبھی اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ اصولوں میں ان کے اختلاف اور تضاد ہی کو
اس قدر نمایاں اور مسلسل تازہ رکھا جاتا ہے کہ ’’نبی کو ماناجانا اور نبی
کو نہ مانا جانا‘‘ روئے زمین کا سب سے بڑا اور سب سے مرکزی ایشو بنا رہے۔
جبکہ جزئیات کے اشتراک کو نمایاں کرنا ’’رسالت‘‘ کو زمین کا مرکزی ترین ایشو بنانے
کے اندر مانع بلکہ ’’رسالت‘‘ کے موضوع پر مٹی ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ (کجا
یہ کہ ’’رسالت‘‘ سے ملنے والی جزئیات کو ’’رسالت‘‘ کے ماسوا مصادر
سے بھی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش ہو اور اِس ’تحقیقی مساعی‘ سے
’’ہیومن اسٹ‘‘ عفریت یہاں پر مسلسل پلتا جائے یہاں تک کہ لبرلزم کی اس پر
باچھیں کھلتی جائیں!)۔ یہ لوگ آج اگر اپنی اس روش پر نظرثانی نہیں
کرتے اور ’’الجماعۃ‘‘ کے تاریخی رستے پر واپس نہیں آجاتے تو ڈر ہے کہ اِن (جدید
معتزلہ) کے آئندہ عشروں میں آنے والے ’’ورژن‘‘ اپنے دور میں انبیاء کے بدترین
دشمنوں پر مشتمل ہوں اور اُن کے گناہ کا ایک حصہ اِن پر بھی آئے۔
ہماری زیرتصنیف کتاب (ابن تیمیہ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پر تعلیقات)
سے اقتباس