’’فرد‘‘ میں آ جانے والا بگاڑ
اور
’ذاتی اصلاح‘ کے زیرعنوان ہونے والی تلبیسات
ایقاظ کے فائل سے
’’ذاتی اصلاح‘‘…. !
اس سے خوبصورت شعار کیا
آپ کہیں سے لا کر دے سکتے ہیں؟!
’’ذاتی
اصلاح‘‘ ایسی اعلیٰ و ارفع بات کیا کبھی بھی اور کہیں بھی رد ہوسکتی ہے؟ تو پھر….
یہ ہوا صحیح منہج: اپنے من میں ڈوب جاؤ، اور دنیا کو بھول جاؤ! اِس اندر کے پاپی
کو اگر تم نے ٹھیک کرلیا تو پھر سب ٹھیک ہے؛ اور اگر اِسی کو درست نہ کرپائے تو
کیا حاصل؟ تو پھر آئیے ’اپنی اصلاح‘ کی طرف…. اور ’دنیا‘ کی جان بخشی فرمائیے….
جوکہ خدا کا شکر ہے اس وقت بڑے ہی محفوظ ہاتھوں میں ہے اور نہایت صحیح سمت چلائی
جارہی ہے!
’’ذاتی
اصلاح‘‘…. جس کی تفسیر البتہ مختلف طبقے، جماعتیں اور فرقے اپنے اپنے انداز سے
کریں گے!
دانشور اور ’ذاتی اصلاح‘ کا فلسفہ
داعیانِ اَخلاق اِس
’’ذاتی اصلاح‘‘ کی تفسیر اپنے اسلوب سے کریں گے، اور جوکہ اوپر کے ایک نمونے میں
آپ کے سامنے بیان ہوئی… اِس ’بحران‘ کا باربار حوالہ دینے والے ’ماہرینِ سماجیات‘
کے خیال میں فرد گویا ایک پلاسٹک کا پودا ہے جو ہر جگہ اور ہر موسم میں ہرابھرا رہ
سکتا ہے اور جس کے لیے ’موسم‘، ’مٹی‘ اور ’آب وہو‘ کچھ لایعنی و غیرمتعلقہ اشیاء
کا نام ہے! کسے معلوم نہیں، باہر جو آندھیاں
چل رہی ہیں وہ ’’اخلاق‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کی دیرینہ تعمیرات تہِ خاک کرنے کے
لیے ہی اٹھائی گئی ہیں۔ اور کسے معلوم نہیں کہ یہ جھکڑ اَب بھی (یعنی ’آزادی‘ کی
نیلم پری ہاتھ آجانے کے بعد بھی!) تیز ہی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پھر بھی تعجب فرمایا
جارہا ہے کہ ’’فرد‘‘ اخلاقی پستی کی اِس
خوفناک حد کو کیوں جاپہنچا! حضرات! تعجب یہ کیوں نہیں کرتے کہ آپ کا یہ
’’فرد‘‘ اس سے بھی گہرے پاتال میں جاگرنے سے اب تک بچا کیسے رہ گیا؟! وہ زہرآلود فضائیں جودو صدی سے اِس ’’فرد‘‘ کو سانس
لینے کے لیے یہاں مہیا ہیں، زہر کا یہ حیرت انگیز خوش اثر فارمولہ کسی
لیبارٹری نے ’’قدروں‘‘ کو تلف کرنے کے لیے ہی ایجاد کیا ہے! دو سو سال آپ کے ہاں یہی ’قرض کی مے‘ چلی اور اس ’آبِ
حیات‘ کو ایک سے بڑھ کر ایک نام دیا
گیا۔ تاآنکہ جب یہ نشہ عروج کو پہنچا، اور آپ کی وہ ’فاقہ مستی‘ رنگ لے آئی، تو
وہی دانش ور جو قوم کو بھر بھر کر اس کے جام پلا رہے تھے یکلخت قوم سے بیزار ہوئے
اور اِس بیہودگی پر جو اِس نشے کا ہی طبعی اثر ہے ’’فرد‘‘ کو ’اخلاقی
بحران‘ اور ’سماجی پستی‘ کے طعنے دینے چل پڑے۔
اس کا یہ مطلب کسی صورت
نہیں کہ قوم کی اخلاقی حالت پر سرد آہیں بھرنے والے یہ ’مدعیانِ دانش‘ اخلاق اور
دیانت میں خود کسی بہتر حالت میں ہیں! جس پستی کو یہ پہنچ چکے ہوئے ہیں، خدا کا
شکر ہے قوم آج بھی ان سے لاکھ درجہ بہتر حالت میں ہے۔ الا ماشاء اللہ، جتنا یہاں
کوئی دانش وری اور چارہ گری کے زعم میں مبتلا ہے وہ اتنا ہی کرپٹ ہے، مالی،
اخلاقی، سماجی ہر ہر سطح پر۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ اوروں کو جام بھر بھر
کر پلانے والے خود سب سے بڑھ کر اس نشے میں دھت نہ ہوں! تاہم ’اربابِ سخن‘ کو قدرت
سے جو فصاحت عطا ہوئی ہے اس کا بہترین استعمال یہی ٹھہرا کہ ایک بے بس قوم کو جی بھر
کر رگیدا جائے! یوں بھی ان سے بڑھ کر کون واقف ہوگا کہ ’ناصح‘ کو اپنے کرتوت
چھپانے کا جو بہترین طریقہ دستیاب رہتا ہے وہ اس کا ’’پیشۂ نصیحت‘‘ ہے! نیز اِس
’قومی بحران‘ کے موضوع پر کچھ تو ’اظہارِ خیال‘ کرنا ہے! اور اگر ایک سامنے کی چیز
کو ’انکشاف‘ بنا کر پیش کرنے کا ملکہ آدمی کو عطا ہوا ہو، تو گہرائی میں جاکر کسی
حقیقی سبب کی جستجو کرنا اور اس پر عرق بہانا کیا ضروری ہے!؟ اور جبکہ حقیقی سبب
کی جستجو کے لیے جو دیانت اور خداخوفی درکار ہے وہ یہاں آخری حد تک مفقود ہے۔ اپنی
دانشوری کے جوہر دکھانے کے لیے ان لوگوں نے جس طرح اِس قوم کو تنقید کی دھار پر
رکھا ہوا ہے ، خصوصاً ’’ملامتِ باہمی‘‘ کے کچھ مہلک ترین رویے عام کررکھے ہیں، اس
سے قوم کے اعصاب شل ہونے کو ہیں۔ قوم فی الوقت اِن ’صاحبانِ نظر‘ کے ہاتھوں جو
نقصان اٹھارہی ہے وہ تمام قومی نقصانات سے سوا ہے۔ ’ہم تو ہیں ہی ایک ناکام اور
نالائق قوم‘ ایسی ذہنیت اب سرچڑھ کر بولنے لگی ہے اور ہر مجلس میں سنی جانے لگی ہے
تو اس کے پیچھے یہی کالموں اور چینلوں میں گھس بیٹھی مخلوق ہے۔ کسی قوم کے’ففتھ
کالمسٹ‘ جو وہاں مایوسی اور بددلی بانٹنے میں لگے ہوں دشمن کا کام حددرجہ آسان
کردیتے ہیں۔ یہی ہمارا اصل بحران ہیں، ورنہ آج بھی یہ ایک بہترین قوم ہے اور ان
شاء اللہ العزیز معجزے کرکے دکھاسکتی ہے، صرف اِن کورچشموں اور نورِخداوندی سے
محروم تاریک دماغوں سے خلاصی پانے کی دیر ہے؛… اور یہ البتہ ناگزیر ہے۔) اِن نکتہ
وروں کے خیال میں ’’فرد‘‘ وہ چیز ہے جس کو اس زہرناک فضا کا کوئی اثر لیے بغیر
اُسی تسلسل کے ساتھ ماحول میں خیر اور بھلائی کے ڈھیر لگاتے چلے جانا چاہئے تھا!
اور چونکہ ایسے معجزے اور کرامات ایک معاشرے میں اس بہتات کے ساتھ نہیں ہورہے تو
اِس کو یہ اربابِ دانش ’فرد‘ کا بحران کہیں گے جس کا ذمہ دار بھی اِس ’سائنٹفک‘
تجزیے کی رُو سے یہ ’فرد‘ بھلامانس خود ہے؛خارجی صورتحال (جس کے سب سے بڑے ذمہ دار
یہ خود ہیں) اور اس کے زہریلے اثرات کو اس کی ذمہ داری اٹھوانا اِن ’دیدہ وروں‘ کی
نظر میں ایک سخت غیرعلمی رویہ ہے!
کسے معلوم نہیں، باہر جو
آندھیاں چل رہی ہیں وہ ’’اخلاق‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کی دیرینہ تعمیرات تہِ خاک کرنے کے
لیے ہی اٹھائی گئی ہیں۔ پھر بھی تعجب فرمایا جارہا ہے کہ ’’فرد‘‘ اخلاقی پستی کی
اِس خوفناک حد کو کیوں جاپہنچا! حضرات! تعجب یہ کیوں نہیں کرتےکہ آپ کا یہ ’’فرد‘‘
اس سے بھی گہرے پاتال میں جاگرنے سے اب تک بچا کیسے رہ گیا؟!
’اربابِ سخن‘ کو قدرت سے جو فصاحت عطا ہوئی ہے اس کا
بہترین استعمال یہی ٹھہرا کہ ایک بے بس قوم کو جی بھر کر رگیدا جائے! یوں بھی ان
سے بڑھ کر کون واقف ہوگا کہ ’ناصح‘ کو اپنے کرتوت چھپانے کا جو بہترین طریقہ
دستیاب رہتا ہے وہ اس کا ’’پیشۂ نصیحت‘‘ ہے!
مذہبی طبقے
آپ کو معلوم ہے اِس’گلوبل
بستی‘ میں کلاسیکی اشیاء کے لیے پورا ایک پورشن مخصوص ہے۔ اس کے ’کلاسیکی‘ سیکشن
میں سرفہرست ’مذاہبِ عالم‘ آتے ہیں (ہر مذہب اپنے فرعی ’مسالک‘ کے پورے پورے شجرے
سمیت!) پس ایسی ’اصلاح‘ پر کسی کو کیا اعتراض ہوگا؛ اِن سب مذہبی ومسلکی وروحانی
واخلاقی ومابعدالطبیعیاتی رنگوں کا جھلکنا تو اِس تصویر کے چند گوشوں میں بجائے
خود درکار ہے! یہ رنگ جس قدر اصلی، مستند اور ’دلائل‘ سے لبریز اور تنوع سے
بھرپورہوں، اُتنی ہی یہ تصویر شاہکار بنتی ہے!
ایک ایسے ماحول میں
صالحین کا پہلا کام یہ تھا کہ وہ یہاں کے موسموں کے ساتھ الجھتے؛ زمین اور فضا کو
سونپ رکھے گئے اُس فاسد فنکشن کے آڑے آتے جو یہاں معصیت کی پیدائش اور افزائش کرتا
ہے۔ یوں ایک نظریاتی وسماجی جنگ کے نتیجے میں زمین اور فضا کا ہی وہ طبعی کردار
بحال کراتے جو خدا کا مطلوبہ انسان پیدا کرنے کے لیے درکار ہے۔
انبیاء کی اصل اتباع تھی
تو وہ یہ : یعنی ایک صالح عمل کی پرورش کے لیے ’’انسان‘‘ کو زمین اور فضا صاف کرکے
دینا (جس کے بعد ہی لوگوں کا معاملہ ’’وحسابهم على الله‘‘ پر چھوڑا جاتا ہے)۔ البتہ
’’زمین‘‘ اور ’’فضا‘‘ سے دستبردار ہوکر ’’فرد‘‘ کی افزائش کے لیے مصنوعی incubators پر آجانا کوئی ’’منہج‘‘
ہی نہیں ہے (اس کا صحیح یا غلط ہونا تو بہت بعد کی بحث)، اگرچہ ایسے کسی غیرطبعی
عمل کے نتیجے میں بیس کروڑ کے ایک ملک میں چند لاکھ افراد پیدا کیوں نہ کرلیے گئے
ہوں۔
یہاں جس ’تبلیغی‘ مساعی
پر آج ہم فریفتہ ہیں (اور اس کی ’’کامیابی‘‘ کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں) وہ اس سے
مختلف نہیں کہ ایک پودے کو اُس کے ناموافق فضا اور زمین میں کاشت کرنے کی کوشش ہو
(مقصود اگر واقعتاً وہ انسان ہو جو نبوتوں اور کتابوں کا مطلوب ہے)۔۔۔ گویا ایک
برفانی علاقے کا درخت گرم استوائی خطے میں! ایک غیر معمولی لاگت اور کچھ غیرطبعی
انتظامات کے نتیجے میں آپ ایسے کسی ’تجربہ‘ میں کامیاب ضرور ہوجاتے ہیں مگر اسے آپ
’’کھیپ‘‘ نہیں کہتے۔ ماحول کے مقابلے پر؛ وہ کوئی نحیف ولاغر پودا ہی ہوا کرتا ہے
جو بالعموم ’دیکھنے‘ کے کام آتا ہے نہ کہ ’’پھل‘‘ دینے کے!
البتہ کسی بڑے پیمانے پر
اُس کی فصل لینا جو قوموں کا پیٹ بھرسکے ناممکنات میں رہتا ہے، جبکہ ’’معاشرے‘‘ جس
فصل پر انحصار کرتے ہیں وہ ایک ’’کھیپ‘‘ ہوتی ہے! اور بلاشبہ وہ کھیپ mass-production بڑی کامیابی کے ساتھ یہاں
ہو رہی ہے جس کو ہم نظر اٹھا کر دیکھنے کے روادار نہیں، اور جس کے مابین کچھ نحیف
پودے ’اسلامی‘ صورت کے کاشت کرلینے کو ہی ’’دین کا کام‘‘ سمجھتے ہیں!
ہماری یہ ’تبلیغی‘ پیش
قدمی اگر اس مسئلے کا ذرہ بھر حل ہوتی تو ہماری اِس مزعومہ ’’تبدیلی‘‘ کی شروعات
کم از کم ماحول کے ساتھ کوئی ایکویشن equation ضرور
بناتی؛ اور تب ہم واقعتاً ’’امید‘‘ رکھتے کہ پون صدی کی محنت سے معاشرے میں بدی
اور معصیت کا گراف اللہ کے فضل سے اتنے پوائنٹ نیچے لے آیا گیا ہے تو ان شاء اللہ
اتنی صدیوں کی مزید محنت سے یہ گراف کسی معقول حد تک نیچے لے آیا جاسکتا ہے!
لیکن ’صالحین‘ کی اس تمام
تر ترقی کے متوازی، معاشرے میں بدی اور الحاد کا گراف جس کامیابی کے ساتھ اوپر گیا
ہے اور مسلسل جا رہا ہے وہ کس ’نتیجے‘ کی طرف اشارہ کررہا ہے؟؟؟ معاملہ ہم سب کے
سامنے ہے اور ایک ’منہج‘ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت! یہ معادلہ equation جو پون صدی کے اِس ’کامیاب‘
عمل نے ہمارے سامنے لاکر رکھا ہے اگر اِسی ’کامیابی‘ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو
’نتیجہ‘ آپ سے آپ ظاہر ہے (’گلوبل ولیج‘ اپنی کامیاب ترین صورت میں!)۔ پون صدی
پیشتر ہم جہاں کھڑے تھے،اِس تبلیغی پیش قدمی کے بعد، معاشرے کے ساتھ اپنی
’’ایکویشن‘‘ بنانے میں ہم اُس کی نسبت آج بہت پیچھے کھڑے ہیں مگر اپنے اِن دعوتی
نیٹ ورکس کی عظیم الشان سرگرمی اور اپنے اِن مراکز اور اجتماعات کی دل افروز
رونقیں دیکھ کر ہم اپنی پسپائی پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں!
اسکا نام اگر اصلاح ہے تو
پون صدی میں ہونے والی ’اصلاح‘ معاشرے میں آپ سے آپ بول رہی ہے! ’ہم‘ آگے بڑھے ہوں
گے مگر ’’اصلاح‘‘ کا عمل تو جو معاشرے کے کسی کام آئے، وہیں کا وہیں کھڑا ہے بلکہ
اُس سے بھی بہت پیچھے! ’’فرد‘‘ بیچارہ تعلیم وتربیت وابلاغ کے اُسی آہنی شکنجے میں
جکڑا، کراہ رہا ہے اور ہم اس کی بے بسی پر کوئی رحم کھائے بغیر اُسی قائم مزاجی کے
ساتھ اس کو اپنی ’اصلاح‘ کرلینے کی دعوت دیے جارہے ہیں۔ (گویا دھیرے دھیرے سہی
کامیابی ہو تو رہی ہے!)۔ منکرات کے وہ ڈھیر جو آسمان کو چھونے لگے ہمارے اِن
مصلحین کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں اور یہ مسلسل دو صدی سے فرد کو عین
اُسی ’ذاتی اصلاح‘ کی زبان میں خطاب کرتے اور کوستے چلے جارہے ہیں؛ جبکہ یہ فرد
بیچارہ الحاد کے پنجوں میں اور سے اور بے بس، فکر آخرت سے مسلسل دور ہوتا چلا
جارہا ہے اور گناہوں کے مقابلے میں اس کی قوت مزاحمت اور سے اور جواب دیتی جارہی
ہے۔ یہ دیکھ کر؛ اِس قسمت کے مارے پر اسی نصیحت، آموزش، وعظ اور سرزنش کی خوراکیں
بڑھائی جانے لگیں!