دھرنے
اور جمہوریت
جب کسی چیز پر لوگوں کا ایمان ہو!
ہر شخص کو اس وقت آپ ’عوام عوام‘ اور ’پارلیمنٹ
پارلیمنٹ‘ کرتا دیکھ سکتے ہیں...
کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا، کسی چیز پر ایمان
جھوٹا بھی ہو تو ایک سطح پر وہ بھی بولتا ہے!
’’اعتقاد‘‘ عجب چیز ہے۔ اس کی بنیاد پر لوگ اپنے
سچا ہونے کی یقین دہانی کم از کم ضرور کراتے ہیں! سچوں سے بڑھ کر جھوٹوں کو کسی
وقت اس کا سہارا لینا اور اس کا نام جپنا ہوتا ہے!
قسم جھوٹی ہو تو بھی معبود ہی کے نام کی کھائی
جاتی ہے؛ غیرمعبود کا نام جھوٹی قسم تک پر
نہیں لیا جاتا۔ اِس کا نام ہے اعتقاد!
سب سے بڑھ کر جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو ’عوامی مینڈیٹ‘ کا
دکھ!
کیا باعثِ تعجب نہیں؟!
اس نظام کے ساتھ کوئی سچا ہے تو ’آئین آئین‘،
جھوٹا ہے تو ’آئین آئین‘!
کوئی تو وجہ ہے کہ ایک لفظ کا باربار وِرد سینوں
پر ٹھنڈ ڈالتا ہے؛ اور دل ہیں کہ اکتانے کا نام نہیں! كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ...!!!
ایک چیز کی ’’مرکزیت‘‘ آپ سے آپ بولتی ہے حضرات؛
تکلف کہاں تک! کیا شک ہے کہ ’پارلیمنٹ‘ اور ’عوام‘ اِس دور کی ایک دیوی ہے؛ اس کا
ذکر جہاں نفوس کو تسکین دیتا ہے وہاں وہ کسی بات یا موقف کے درست ہونے کی ’حتمی و
آخری دلیل‘ بھی ہوتا ہے!
اور کیا شک ہے... کہ ریاستی عمل جس دن ’’نہیں
کوئی عبادت و اطاعت کے لائق مگر اللہ‘‘ کی مرکزیت پر قائم ہوگا اس دن آپ زبانوں پر
اِسی کثرت کے ساتھ ’’اللہ‘‘، ’’رسول‘‘ اور ’’شرع‘‘ ایسے الفاظ سنیں گے، ان شاء
اللہ۔
کہیے تو... کیا کوئی شخص یہ ’گالی‘ کھانے کا روادار
ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کے احکام کو توڑ رہا ہے، پارلیمنٹ کی رِٹ قائم کرانے میں
مخلص نہیں ہے؟ آدمی مر جائے گا مگر اپنے بارے میں ایسی بات نہیں سنے گا! اسے
کہتے ہیں ایمان! حتیٰ کہ اپنے مخالفوں اور بدخواہوں کو ’منہ توڑ‘ جواب دینے کےلیے
انہیں اُسی ’جمہوریت‘ کے دشمن ہونے کا طعنہ دیا جائے گا، جس کی پامالی پر وہ اِس کے خلاف جلوس
نکالتے پھرتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو ’’جمہوریت‘‘ کی بنیاد پر ناک آؤٹ کرتے ہیں!
’’جمہوریت‘‘ کس طرف ہے؟ اِس کے ساتھ؟ یا اُس کے ساتھ؟ یا کسی کسی ایک کے ساتھ بھی
نہیں؟ یہ سوال میری نگاہ میں اتنے اہم نہیں۔ دھرم اور معبود کے نام پر استحصال
کرنے والے استحصال بھی بہرحال کرتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر دو طرف
’’جمہوریت‘‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ ہر دو طرف ’’جمہوریت کی پامالی‘‘ کا طعنہ چلتا
ہے۔ ہر دو فریق یہ ایک گالی کھانے کا روادار نہیں، باقی اُسے جو مرضی کہہ لو!
ہم مطالبہ نہیں کر رہے... صرف نوٹ کروا رہے ہیں:
کیا خیال ہے، ان میں سے کسی فریق کو یہ طعنہ دیا جائے کہ وہ ’’شرعِ خداوندی‘‘ کے
ساتھ مخلص نہیں تو کیا وہ ایسے ہی بھڑک اٹھے گا جتنا وہ اس طعنہ سے بھڑک اٹھتا ہے
کہ وہ ’جمہوریت‘ کے ساتھ مخلص نہیں؟ خوش ہو اے جمہوریت، تیری یہاں کتنی بھی پامالی ہے، کم از کم تیرا یہاں نام ضرور لیا جاتا ہے!
*****
سب سے بڑا تعجب البتہ ان لوگوں پر ہے جو اِس
’پارلیمانی نظام‘ ہی سے ’’اسلامی نظام‘‘ کا لطف و سکون بھی وصول فرما رہے ہیں!!!
اسلام سے وابستہ طبقے کہیں ناشکری نہ کر بیٹھیں،
یا بھول نہ جائیں: یہ خوبصورت نظام ’پارلیمانی‘ کے ساتھ ساتھ ’اسلامی‘ بھی ہے!!!
*****
یاد رکھئے گا... ’’اسلامی نظام‘‘ وہ صورت ہوتی
ہے جہاں منافقین بھی اپنا بچاؤ ’’مَا أنۡزَلَ اللّٰہُ‘‘ کے حوالوں میں دیکھیں۔ نہ کہ
وہ صورت جہاں سچے بھی ’پارلیمنٹ پارلیمنٹ‘ کے وِرد ہی سے اپنی بات میں دلیل اور
وزن پیدا کریں۔