آزادیوں کے طوق
ذیشان وڑائچ
لبرل اخلاقیات کے جو اصول پائے جاتے ہیں ان میں ایک بنیادی
اصول ہوتا ہے جسے "کونسنٹ" (consent) کہا جاتا
ہے۔
کونسنٹ (consent)
کا مطلب
ہوتا ہے مرضی یا رضامندی کا ہونا۔ یہ اصول دراصل مغرب کے آزادی کے تصور
سےنکلا ہے۔اس اصول کے مطابق ہر ایک کو حق ہے کہ اسے جو چاہنا ہے وہ
چاہے۔ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے، البتہ کسی انسان پر جبر کرنا غلط ہے۔ کسی
کی مرضی پر جبھی روک لگائی جائے گی جب اس کی مرضی کسی اور کو اس کی مرضی پر چلنے
سے روکتی ہو۔
کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کی بنیاد اس بات پر ہوگی
وہ کسی انسان کو اس کی مرضی سے روکتی ہے یا نہیں۔ ویسے تو اسلام بھی ہر ایک کو
صحیح یا غلط جو بھی ہو اپنی مرضی سے چننے کا اختیار دیتا ہے۔ بلکہ ہر معاشرہ کسی
نہ کسی حد تک کونسنٹ کا قائل ہوتا ہے۔ لیکن لبرل اخلاقیات کسی چیز کے خیر و شر
ہونے کے سلسلے میں کونسنٹ کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
انسان کی مرضی پیدا کہاں سے ہوتی ہے؟ ایک تو یہ ہے کہ انسان کی اپنی فطری پسند،
خواہشات اور ترجیحات ہوتی ہیں جن کے مطابق انسان ایک چیز کواختیار یا رد کرتا ہے۔
اسلامی نکتہ نظر سے بھی انسان جو کچھ اپنے اختیار سے کرتا ہے اس کے لئے وہی ذمہ
دار ہے اور اسے اس کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کا سامنا کرنا ہے۔ لیکن کونسنٹ کو
کسی خیر و شر کی بنیاد نہیں بناتا۔ یعنی کوئی اپنے کونسنٹ کو استعمال کرتے ہوئے
ایک گناہ کا کام کرتا ہے تو پھر اسلام اس کی تحسین نہیں کرتا۔ دنیا میں لوگوں کو
ایک محدود دائرے میں اپنی مرضی پر چلنے دینا خد کا فیصلہ ہے۔ لیکن پھر اسلام اپنے
اجتماعی نظام میں ایسے انتظامات بھی کرتا ہے کہ لوگوں کے لئے خدا کی مرضی پرچلنا اور چلانا آسان ہوجائے اور
خدا کی مرضی کے خلاف جانا مشکل ہوجائے۔ اسلامی سزاؤں کا نفاذ، سودی لین دین پر
پابندی، کھلم کھلا فحاشی پر پابندی وغیرہ ایسے اقدام ہیں جو کہ عام لوگوں کے لئے
دین پر چلنا آسان بناتے ہیں۔ اس طرح کے انتظامات انہیں ایک ایسا ماحول فراہم کرتے
ہیں جس کی وجہ سے ان کی مرضی اللہ کی مرضی کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔حقیقت میں حکومتی سطح پر اسلامی نظام کی اصل علت یہی ہے کہ عوام
الناس جو کہ اپنے اطراف، ماحول، مواقع اور پابندیوں سے اثر لیتے ہیں ان کے لیے
انفرادی و اجتماعی سطح پر اللہ کا حکم بجالانا آسان ہوجائے۔ حکومتی سطح پرایسی پیش
بندیاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے
کام میں مرکزی اہمیت کی حامل ہیں۔
ہیومنزم(Humanism) یا انسان
پرستی انسانی مرضی کو اس طرح پیش کرتی ہے گویا کہ ہر انسان کی مرضی خالص انسان کے
اندر پیداشدہ کوئی چیز ہے۔ کیا واقعی میں انسان کی مرضی پوری کی پوری اس کی
اپنی ہوتی ہے؟ ایک شخص ٹی وی کے ایک پروگرام کوپسند کرتا ہے اور اپنی مرضی اور
پسند سے اس پروگرام کو دیکھتا ہے۔ لیکن اس پروگرام کے درمیان جو اشتہارات ہوتے ہیں
کیا وہ اپنی مرضی سے دیکھتا ہے یا اسے زبردستی دکھائےجاتے ہیں؟ اور جب زبردستی اس
کو وہ اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی پسند ناپسند تبدیل ہوجاتی
ہیں تو کیا وہ حقیقی معنوں میں اس کی مرضی ہوتی ہے؟ یہاں پر کوئی یہ نہ سوچے کہ
لوگ اشتہارات دیکھ کر چیزیں نہیں خریدتے ہیں۔ کمپنیاں بے کار میں اشتہارات کے لئے
کروڑوں روپیہ نہیں لگاتیں۔ باقاعدہ مارکٹ ریسرچ کی جاتی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
اشتہارات کی وجہ سے کمپنی کا سیلز بڑھتا ہے۔ پھر تو یہ پسند کا جو پروگرام ہوتا ہے
وہ دراصل لوگوں کے مرضی، پسند اور اختیارات کو کاشت کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
ہم بچپن میں جس معاشرے میں رہتے ہیں اسی سے اپنے آپ کو
شناخت کرتے ہیں۔ معاشرتی اقدار ہماری پسند ناپسند کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا
کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارےکونسنٹ کی تشکیل میں معاشرتی اقدار انتہائی اہم ہیں۔
بچپن میں دین اور دینی عقائد کی تعلیم دینے پر بعض سیکولر طبقوں کی طرف سے یہ
اعتراض ہوتا ہے کہ یہ بچوں پر زیادتی ہے کہ اس میں بچوں کی مرضی کے بغیر ان کے ذہن
میں ایک مخصوص عقیدے کو بٹھادیا جاتا ہے جس کے بعد اس کے لئے اپنے اس عقیدے سے
باہر سوچنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ خالص سیکولر دائرے میں یہ ایک بامعنی اعتراض
نظر آتا ہے۔ لیکن انہیں سیکولر پرستوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا جب بچوں کو
اسکولی تعلیم دی جاتی ہے۔ سکولوں میں بھی تو ایسی تعلیم دی جاتی ہے جس کی بنیاد کسی
نہ کسی طور پر اخلاقیات اور اقدار سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہاں پر بھی کونسٹ غائب ہوتا
ہے۔ اگر دینی تعلیم جبر ہے تو سکولی تعلیم بھی تو جبر کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے ذہن کی تعمیرمیں اس کے
والدین، اطراف و جوانب، معاشرہ، معاشرے میں پائے جانے والا مذہب اور مدرسے و سکول
کی تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ بچہ اپنے بچپن سے جو کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اس
کا اثر لیتا ہے اور یہ سننے اور دیکھنے میں اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ اس پر
مسلط کی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ایک بچہ دکان میں رکھی ہوئی ڈمی پر سجے ہوئے
لباس کو دیکھتا ہے تو بھی اس کا اثر لیتا ہے۔
انسانی زبان خود اپنے
الفاظ میں بہت ساری قدریں لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ ایک بچہ جب بچپن سے اپنی مرضی کے
بغیر ایک زبان سیکھتا ہے تو اس زبان کے بہت سارے الفاظ اپنے پورے احساسات و اقدر
مع اپنے تاریخی تناظر کے ساتھ اس کے اندر اتر جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بچے کے
کونسنٹ کی عمر تک پہونچنے سے پہلے ہوچکا ہوتا ہے۔ لیکن پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس
ذہنی تعمیر کے بغیر انسان مکمل انسان بنتا نہیں۔
ہم اگر توقع کریں کہ ایک انسان خود سے اپنا کونسنٹ اپنی
مرضی سے بنا کر لائے تو پھر بچے کو پیدا ہوتے ہی ایک اندھیرے کمرے میں بند کیا
جانا چاہئے جہاں سے اسے نہ کوئی آواز سنائی دے اور نہ کچھ دکھائی دے۔ اور جب وہ
بالغ ہوکر کونسنٹ کی عمر کو پہنچ جائے تب
اس سے پوچھا جائے کہ جناب آپ کا کونسنٹ کیا ہے۔ لیکن پھر ایسا انسان اس قابل نہیں
رہتا کہ وہ واقعی میں اپنی مرضی سے کوئی چیز اختیار کرے۔ الغرض ایک انسان بغیر کسی
مسلط کردہ نظام کے ٹھیک سے انسان ہی نہیں بن پاتا۔
لیکن سیکولر ہیومنسٹ نظام زندگی کا دعوی ہے کہ ان کے ہاں
کونسنٹ کے مطابق انصاف ہوتا ہے۔
اسی کونسنٹ کی بنیاد پر ایک اوباش عورت کسی بھی مرد کے ساتھ
کسی کلب میں ڈانس کرسکتی ہے، نشہ کرسکتی ہے، تنہائی میں جاسکتی ہے، اور پھر کسی
خاص مرحلے پر جاکر یہ بھی کہہ سکتی ہےکہ میرے ساتھ ریپ ہوا ہے کیوں کہ
کونسنٹ نہیں تھا۔ خالص سیکولر قانون کی نظر میں اس کا نشہ کرنا، مدہوش ہوکر ڈانس
کرنا، مستی کی حالت میں تنہائی میں جانا سب کچھ صحیح ہے کیوں کہ یہاں پر کونسنٹ
پایا جاتا ہے۔ اور پھر بڑی سہولت کے ساتھ ریپ ہونا صرف اس لئے غلط ہے کیوں کہ
دوسرے صبح اسے لگا کہ وہ کسی خاص سٹیج پر جاکر کونسنٹ سے باہر ہوگئی تھی۔ اس مثال
سے پتہ چلتا ہے کہ کونسنٹ انسانی فطرت سے کتنی مطابقت رکھتا ہے۔
ویسے جن معنوں میں کونسنٹ کو استعمال کیا جاتا ہے وہ حیرت
انگیز طور پر جبر کے ساتھ میں بھی ہوسکتا ہے۔ کسی فرد یا افراد کے اجتماع کو ایک
ایسی صورت حال میں ڈھکیل دیا جائے کہ اس کے پاس صرف دو میں سے کسی چیز کا اختیار
ہو اور جب وہ انتہائی مجبوری میں کسی ایک چیز کو اختیار کرتا ہے تو وہ کونسنٹ
کہلاتا ہے۔ مثلاً ایک انتہائی مجبور عورت عصمت فروشی کا دھندہ اختیار کرنےپر مجبور
ہوجاتی ہے تو اس عورت کا عصمت فروشی اختیار کرنا اس کے کونسنٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ یعنی اگر وہ
ہررات ایک دوسرے مرد کے ساتھ سوتی ہے تو وہ اپنے کونسنٹ سے سورہی ہوتی ہے جو کہ
لبرل معیار کے مطابق کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں ہے۔
ایک کم عمر بچی اپنے مخصوص مادر پدر آزاد ماحول میں اپنی
ناسمجھی کی وجہ سے حاملہ بن جائے تو وہ بھی خود یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے کونسنٹ کی
وجہ سے حاملہ بنی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس ملک کے قانون کے مطابق وہ کونسنٹ کی عمر
کو پہونچ گئی ہو۔ میڈیا، معاشرہ، سکول اور وہ عناصر جس نے ایسا ماحول بنایا جس میں
ایک بچی اپنے کونسنٹ کو بھگت کر ایک جذباتی اور نفسیاتی کیفیت سے گذرتی ہے
اس کے لئے قصور وار نہیں ہوتے۔
ایک شادی شدہ عورت کو اس بات کا حق ہے کہ وہ جب چاہے اپنے
حقوق زوجیت کونسنٹ کی بنیاد پر ادا کرنے سے انکار کرے اور کسی بھی وقت یہ دعوی کرے
کہ اسے ریپ کیا گیا ہے۔ اس قسم کے ریپ کو مغرب میں میریٹل ریپ(marital rape) کہا جاتا ہے۔ اسکے
بالمقابل اسلام میں عورتوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اپنے شوہر کے جنسی مطالبے کو
خوامخواہ رد نہ کرے۔
پچھلے دنوں جرمنی سے خبر آئی تھی کہ وہاں پر ختنہ کرنے پر
پابندی پر غور کیا جارہا ہے۔ وجہ اس پابندی کی یہ بتائی گئی کہ بچے کے جسم کےایک
حصے کو کاٹنا جبکہ بچہ ابھی کونسنٹ کی عمر کو نہیں پہنچا ہے ان کی اخلاقیات میں
ناجائز ہے ۔یہ پابندی لگ بھی جاتی، لیکن یہودیوں کی مظلومیت آڑے آگئی۔ پابندی کی
صورت میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی بھی لپیٹے میں آجاتے لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہود کی مظلومیت مغرب کی سب سے بڑی قدر ہے
یہاں پر مغرب کی یہود پرستی انسان پرستی پر غالب آگئی۔اس لئےفی الحال اس
پابندی کو ملتوی کردیا گیا۔
الغرض سیکولر نظام میں کونسنٹ خیر و شر کی ایک اہم بنیاد
ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کونسنٹ کا پورا آئیڈیا انتہائی
غیر فطری اور مشینی ہے۔ لیکن اس غیر فطری نظریے کے ساتھ میں ملٹی بلین انڈسٹری کا
کاروبار بھی جڑا ہوا ہے۔ ٹی وی کی مثال سے واضح ہوا کہ سمع و بصر کا غلط
استعمال کرکے انسان کے اندر کونسنٹ کو پیدا بھی کیا جاسکتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ کونسنٹ
نامی چیز پر ایمان رکھنے والے پورے خلوص دل سے ہی ایمان رکھتے ہوں یا پھر وہ اس
ایمان کے معاملے میں جبری کونسنٹ کے شکار ہوں۔
یہاں پر سیاسی جبر، معاشی دباؤ، پرنٹ اور برقی
میڈیا کے ذریعے باقاعدہ کونسنٹ بنانے کا بھی پورا نظام موجود ہے۔ جس طرح ایک کمپنی
اپنا پراڈکٹ بناکر مارکٹ میں بیچتی ہے اسی طرح کروڑوں روپیہ خرچ کرکے یہ انڈسٹری
انسانوں کے دماغوں میں کونسنٹ کی بھی کاشت کرتی ہے۔ جب کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے
نئے فون کا ماڈل مارکٹ میں رونما ہوتا ہے تو انسانوں کے دماغ فری
مارکٹ کے حوالے کئے جاتے ہیں تاکہ وہاں پر ڈیمانڈ اور کونسنٹ کی خوب افزائش ہوسکے۔
سیکولر اخلاقیات کے بڑے بڑے دعوی کئے جاتے ہیں اور اس طرح سے انسانی دماغوں کے
اغوا پر کسی کی طرف سے بھی اظہار افسوس نہیں ہوتا۔
بچوں کو اسکول میں جو تعلیم دیجاتی ہے اس پر بچوں کی کوئی
مرضی نہیں لی جاتی۔ بلکہ جب بچے "تعلیمیافتہ" ہوجاتے ہیں تو یہ تعلیم
خود بخود انکے اندر اس تعلیم کیلئے کونسنٹ پیدا کردیتی ہے۔
ایک سوشلسٹ نظریہ حکومت کے ذریعے ان عوامل کو کنٹرول کرتا
ہے۔ اسلام اللہ کے احکامات کی بنیاد پر ان عوامل کو کنٹرول کرتا ہے تاکہ معاشرے
میں خیر اور بھلائی کو پنپنے کے زیادہ مواقع ملے ۔ اور لبرل سیولرزم انسانوں کے دل
و دماغ کو سرمایہ دار کے حوالے کرتا ہے تاکہ وہ اپنے مارکٹ کی مناسبت سے جن اقدار
کو چاہے معاشرے میں فروغ دے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر نظام کونسنٹ کی افزائش کرتا ہے۔ سیکولر
نظام انسانوں کےکونسنٹ کو اپنے مخصوص اجتماعی مفادات کے مطابق کرتا ہے۔ ہر قومی
ریاست بچپن سے ہی بچوں کے ذہن کو اغوا کر کے اپنے سٹیٹ کی محبت ان کے دل میں
بٹھاتی ہے۔لبرل سیکولر تعلیمی نظام اخبارات اور سیاسی تجزیوں کے ذریعے اپنے عوام
کے ذہن میں یہ بٹھاتا ہے کہ ان کے ہاں سچ مچ کا کونسنٹ پایا جاتا ہے۔ معاشرے میں
فرد کے لئے حقیقی کونسنٹ قطعی طور پر پایا نہیں جاتا۔ لیکن لبرل نظام کی خصوصیت یہ
ہے کہ وہ اپنی اخلاقیات کی بنیاد ایسی چیز پر رکھتا ہے جس کو ختم کرنے کا بھی وہ
خود پورا انتظام کر رہا ہوتا ہے۔ کونسنٹ سرمایہ دارانہ وسائل کو استعمال کر
کے انسانی ذہن کا استحصال کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ کوئی اس
پر احتجاج نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اس کا شکار اس کے لئے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا
ہے۔
اس پوری تحریر کا مقصد یہ ثابت کرناقطعی نہیں ہے کہ ایک
انسان کی اپنی کوئی مرضی ہوتی ہی نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی چیز کو اختیار
کرنے اور نہ کرنے میں اس انسان کی اندرونی کیفیت کے علاوہ بہت سارے بیرونی عناصر بھی
ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کونسنٹ کو حق و ناحق کی مکمل بنیاد بنانا نے ایک ناقص اصول
ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کونسنٹ پر اثر انداز ہونے والے عوامل کس کے اختیار میں
ہیں۔ہاں اگر کوئی علیم و خبیر ہو جس کو انسانوں کے تمام اندرونی اور بیرونی عوامل
کا پتہ ہو وہ اگر انسانوں کی نیتوں کے مطابق فیصلہ کرے تو لازماً یہ ایک حق بات
ہوگی۔ لیکن سیاسی نظام اور دنیووی حکومت چلانے والے علیم و خبیر نہیں ہوتے۔
سچائی یہ ہے کہ کسی بھی اجتماعی نظام میں حقیقی معنوں
میں مکمل کونسنٹ نہیں ہوتا۔ وہ اجتماعی نظام اپنے حساب سے عوام کے اندر کونسنٹ
پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں لبرل آرڈر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک غیر حقیقی
چیز کے ہونے کا دعوی کرتا ہے اور اس کو اپنی اخلاقیات کی بنیاد بناتا ہے۔ دوسری
اہم بات یہ ہے کہ آزادی اور لبرلزم کے نام پر یہ نظام انسانوں کے دماغوں کو مارکٹ
کے حوالے کرتا ہے۔ یہ کونسنٹ دراصل ایک فریب ہے خود اپنے عوام کی آنکھوں میں
ڈھول جھونکنے کے لئے۔
اور جب لبرلز ایک مسلم اجتماعیت پر لبرلزم نافذ
کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو دراصل ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلم اتھارٹی اپنی طرف
سے عوام پر کوئی پابندی نافذ نہ کرے ۔اوردوسری طرف عوام کے دماغوں کو ان اداروں کے آگے پلیٹ میں
رکھ کر پیش کردے جو کہ سیکولرزم اور مارکیٹ
ڈیمانڈ کے مطابق عوامی ذہن میں کونسنٹ کی کاشت کرسکیں۔