"حیاتی مماتی" کے پريشان کن مسئلہ
· انبياء کے قبر كى زندگى كيا دنيوى ہے، يا برزخى، يا اخروى؟
· حیاتیوں کے دلائل كا مكمل تجزيہ
· "حیاتی مماتی" کے متعلقہ مسئلے پر کچھ روشنى: رسول عربی عليہ السلام کے واسطہ سے توسل اور ان سے طلب شفاعت ان کى وفات کے بعد
اردو استفادہ: عافیہ زینب
(یہ مضمون جنوبی افریقہ کے ایک ديوبندى مفتی کو جواب دینے کے لیے تحریر کیا گیا تھا ۔ علماء کى ايک مجلس خاص میں انہوں نے اپنی کم علمی اور کج فہمی کے باعث 2011 میں اپنے مخالفين پر بے جا تنقید کی تھی)
جو لوگ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں ان کے لیے یہ مسئلہ تعارف کا محتاج نہیں ۔ یہ بحث زیادہ تر جنوبی ایشیا میں کی جاتی ہے ۔ اگر آپ کسی عرب کے عالم سے "حیاتی مماتی" کے فلسفہ کے بارے میں دریافت کریں تو اکثر اس قضیہ سے بالکل لاعلمى کا اظہار کريں گے ۔
اس بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے يہ بات لازمى ہے کہ "حیاتی مماتی" جیسے مجمل ومبہم الفاظ کی بجائے ایسی اصطلاحات استعمال کریں جو كہ واضح ہوں، عالمی سطح پر مقبول شمار ہوسكتے ہوں اور قديم علم وعلماء کی سے ان کا کچھ علاقہ ہو ۔ اس طرح کے قضیوں میں نئی اصطلاحات کا استعمال یہ تاثر دیتا ہے کہ گویا متقدمین کے پیش نظر یہ مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں ۔ اگر چہ کہ دونوں "حیاتی مماتی" مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بے دریغ ایک دوسرے پر تکفیر وتبدیع کے فتوے لگانے پر تلے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک پڑھنا گوارا نہیں کرتے، مگر ان میں سے اکثر لوگ خود بھی اس قضیہ کی اصل حقیقت سے لاعلم ہوتے ہیں ۔
اس ابہام کو دور کرنے کے لئے مناسب یہ ہوگا کہ یہ سوال زیر غور ہوکہ کیا انبیاء عليہم السلام اپنی قبروں میں "دنیوی زندگی" جی رہے ہیں یا "برزخى زندگی" جی رہے ہیں جو کہ موت کے بعد اور "اخروی زندگی" کے ما قبل ہے؟ اس کے جواب میں ہم يہ تحقيق پیش کرتے ہیں:
اہل سنت کے نزديک پیغمبران خدا عليہم السلام حیات ہیں ۔ عالم برزخ کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جس کو "برزخى زندگی" کہا جاتا ہے -انبياء اس موت کا مزہ چکھ چکے ہیں جو ہر فانی انسان کے مقدر میں ہے ۔
اب عالم برزخ میں "برزخى زندگی" کس کيفيت، ہیئت يا نوعيت کى ہے تو اللہ اعلم! کیونکہ یہ غیب کے معاملات ہیں ۔ ہمیں تو صرف ان حقائق کو تسلیم کرنے کى ضرورت ہے جو قران وسنت کے مستند ذرائع سے ہم تک پہنچے ہیں، کہ تمام انبیاء ورسل اپنی اپنی مساعی جمیلہ کے عوض اپنی قبروں میں نہایت اچھی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔
ہمارے پاس یہ بحث کرنے کی قطعی گنجائش نہیں کہ انبياء کى برزخى زندگی کى ماہیت کيسے باقى عام مُردوں سے مختلف ہوگی ۔ ہم تو بس اتنا ہی مانتے ہیں کہ مقبول احادیث کے مطابق روز حشر تک یہ لوگ عالم برزخ میں رہیں گے اور اپنے اپنے اعمال کا پھل پاتے رہیں گے ۔ برزخی زندگی ایک حقیقت ہے جس کا انکار مشکل ہے ۔
دعوى يہ ہے کہ موت کے بعد عالم برزخ کى زندگى "برزخى زندگی" ہوا کرتى ہے، نہ کہ " دنیوی زندگی" - مگر "حیاتی" فلسفہ کا پرچار کرنے والوں کے نزدیک انبیاء ورسل عالم برزخ میں بھی "دنیوی زندگی" بسر کر رہے ہیں ۔ اس کے لیے ان کے پاس کچھ دلائل بھی موجود ہوتے ہیں جو کہ در حقیقت بے اصل شبہات کا مجموعہ ہے ۔ ذیل میں ان حضرات کے شبہات اور ان پر مختصر جوابات دئے جارہے ہیں:
1: ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صحيح حدیث کے مطابق انبیاء اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ عالم برزخ کی نماز ہے جس کی نوعیت سے ہم لاعلم ہیں، اور اس کا دنیوی زندگی میں ادا کی جانے والی نماز سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اسے کسی کے "دنیوی زندگی" میں ہونے کی دلیل مانا جا سکتا ہے ۔ بلکہ اس صورت حال میں ان تمام صالح نفوس کو بھی "دنیوی زندگی" میں تصور کیا جائے گا جن کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ جب محشر ميں اللہ تعالی اپنی پنڈلی کھولیں گے تو وہ اس کے حضور سجدہ ریز ہوں گے، حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ يہ "اخروى زندگی" کى بات ہوگى، کوئى اس کو "دنیوی زندگی" کى دليل نہيں مانتا ۔
2: "دنیوی زندگی" کى دوسری دلیل جو دی جاتی ہے وہ یہ کہ ازواج مطہرات کو آپ عليہ السلام کی وفات کے بعد نکاح ثانی کی اجازت نہ دی گئی تھی ۔ تاہم ہمارے نزدیک اس کی اصل وجہ سورہ احزاب کی آیت ہے، نہ کہ رسول اکرم عليہ السلام کا "دنیوی زندگی" میں ہونا! ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس آیت کے نزول کی حکمت یہی بیان کریں کہ "چونکہ آپ عليہ السلام "دنیوی زندگی" میں ہیں لہذا ان کی بیویوں کو نکاح کا پیغام بھیجنا حرام ہے " - ليکن ہمارے نزدیک اس کی زیادہ قوی تشریح اس قاعدے کی رو سے ہوتی ہے جسے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم نے روایت کیا کہ اہل جنت میں ہر خاتون اپنے آخری دنیوی شوہر کی ہمراہی میں ہوگی ۔ سو اگر ازواج مطہرات نکاح ثانی کر لیتیں تو یہ بات یقینا ان کے اور ان کے بلند مرتبہ شوہر عليہ السلام کے مرتبے کے خلاف ہوتی کہ ان کی دائمی زندگی میں ان کو کسی اور کی رفاقت نصیب ہو ۔ علمائے احناف میں امام طحاوی نے اپنی کتاب "شرح مشکل الآثار" میں حذیفہ بن یمان رضوان اللہ عليہ کی وساطت سے اس حکم کی یہی تشریح کی - اگر انہیں نبی عليہ السلام کے بقید "دنیوی زندگی" ہونے کا ذرہ برابر شک ہوتا تو وہ ضرور اس کی طرف اشارہ کرتے، مگر سچ تو یہ ہے کہ علمائے سلف میں سے کسی نے بھی کبھی اس "دنیوی زندگی" کى طرف اشارہ بھى نہیں کيا ۔
3: ایک اور غلط فہمی جس میں "دنیوی زندگی" کا عقيدہ رکھنے والے لوگ مبتلا ہیں وہ یہ ہے کہ نبی عليہ السلام کا کل ترکہ صدقہ کیا گیا تھا، کوئی ترکہ اہل وعیال کو نہیں ملا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب ترکہ کا مطالبہ کیا تو اگر چہ بڑے بڑے جید صحابہ رضوان اللہ عليہم نے انہیں نبوى ترکہ کا حکم شرعى سمجھایا، مگر کسی نے بھی اس کی وجہ نبی عليہ السلام کى "دنیوی زندگی" میں ہونے کو نہیں بتائی - اگر "دنیوی زندگی" اس حکم شرعى کى بنياد يا حتى کہ اس کى کوئى حکمت ہوتى تو صحابہ ضرور اس کو بيان کرتے -"دنیوی زندگی" کا عقيدہ رکھنے والے حضرات سے سوال يہ ہے کہ کيا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا "دنیوی زندگی" کے عقيدہ سے ناواقف تھيں، اور اگر ايسى بات ہے تو کيا کسى صحابى کو يہ موقع نہيں ملا کہ آپ عليہ السلام کى لخت جگر کو"دنیوی زندگی کا بنيادى قسم کا عقيدہ" سکھا دے!؟
4: ایک اور دلیل يہ ہے کہ نبی اکرم عليہ السلام تک درود وسلام پيش ہوتے ہيں اور آپ عليہ السلام اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔ اس کا جواب يہ ہے کہ یہ عالم غیب کا معاملہ ہے جس میں قياس جائز نہيں، کہ اس سے "دنیوی زندگی" کے عقيدہ کا اثبات ہو سکے! اہل دنیا اور اہل برزخ کے باہمی تعلق اور پیغام رسانی کے طریقوں پر کوئی بھی شخص خود خیال آرائی نہيں کر سکتا -
5: ایک اور دلیل جو يہ لوگ دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ زمین انبیاء کے جسموں کو خراب نہیں کرتی ۔ یہ بات اگر چہ علمائے کرام کے نزديک ايک صحیح حدیث میں مذکور ہے، مگر یہ "دنیوی زندگی" کے فلسفہ کی کسی صورت بھی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اس قاعدہ کی رو سے تو پھر وہ تمام شہداء جن کی نعشوں کا شہادت کے برسوں بعد قبروں کی کھدائیوں کے دوران صحیح سلامت پایا جانا تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے، ان سب کو بھی دنیوی طور پر زندہ ماننا لازم آئے گا ۔ قياس کے طور پر ان کے بھی نہ ترکے تقسیم ہونے چاہئیں، نہ ہی ان کی بیویوں کو دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہیے ۔ بلکہ پھر مشرکین مکہ کے سردار ابو جہل کو بھی زندہ ہونا چاہیے کیونکہ خود بعض علمائے دیوبند کى ايک بیان کردہ واقعات کے مطابق (جس کی صحت سخت مشکوک ہے) ابو جہل کو روزانہ اس کی قبر سے اٹھا کر اس کے گناہوں کی سزا دی جاتی ہے! اور اگر اس کلیہ کو درست مان لیا جائے تو پھر تو وہ تمام نافرمان بھی "دنیوی زندگی" میں ہیں جو احادیث کی رو سے قبروں میں لیٹے اپنے اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں ۔
6: ایک اور شبہ جس میں یہ لوگ ہیں وہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق نبی عليہ السلام اپنے روضہ مبارک پر سلام عرض کرنے والوں کی طرف نہ صرف متوجہ ہوئے ہیں بلکہ بنفس نفیس اس کا جواب بھی دیتے ہیں ۔ بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور یہ نہ تو خود کسی عقیدہ کی بنیاد بن سکتی ہے اور نہ ہی دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے ۔ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ قران مجید جيسا معجزہ کے مانند نبی اکرم عليہ السلام کا یہ بھی کوئی معجزہ دائمہ مستمرہ ہو - پھر اگر اس حدیث کی دلیل مل بھی جائے تو پھر بھى اس کا مطلب یہ نہيں کہ نبی اکرم عليہ السلام کى قبر کى زندگی "دنیوی زندگی" بن گئی، چہ جائے کہ "برزخى زندگی" کے عقيدہ کو گمراہى کا عقيدہ مان ليں!
7: آخری شبہ جس میں یہ لوگ پھنس جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ انبياء كو زندہ كہا گيا ہے، تو ان كو دوسرے مردوں كى طرح "برزخى زندگى" ماننے كا كوئى فائدہ نہيں، لہذا وہ دنيوى زندگى مان ليتے ہيں - اس كا مختصر رد یہ ہے کہ:
a. The Hadith stating they are alive doesn’t mean they are living a worldly life. If someone believes “worldly life”, they would also then have to believe the Prophets eat and drink, which is actually the belief of some, who believe in eating and drinking just for the sake of consistency!
b. Even if it is a Barzakhi life, why do these people have to believe it is a “worldly life”? Why not name it with another word? And what is so special about “worldly life” anyway that makes such people feel that the Prophets are granted a “worldly life” in their graves?
c. In the life of the Hereafter (Ukhrawi life), Allah says in Surat 'l-A`laa regarding those in Hellfire, “Then he shall not die nor live.” If the Prophets are not living a Barzakhi life, would these people in the Hellfire not be living the Ukhrawi life just because of this verse?
d. Why don’t these people believe the martyrs to be living a “worldly life” in their graves as well, as well as the Siddiqin who are greater than martyrs? The martyrs’ life has been affirmed in the Quran; in fact, there is a Quranic order NOT to refer to them as “dead people”. So why isn’t the same so-called virtue and label of “worldly life” given to martyrs and the Siddiqin by these people?
e. The Ahlus Sunnah believe that one who was never buried (e.g. drowned) would also be questioned by Munkar and Nakeer, just like everyone else buried in graves are. The "grave" is not central to the concept of "Barzakh". Graves are from the Ahkam of the Dunya. Barzakh is something related to the unseen, and this aspect of the unseen was uncovered for our Prophet. For this same reason, we say that when our Prophet was visiting the other Prophets, he was in his worldly life and the deceased Prophets were in the Barzakhi life. Also, when our Prophet was touring Jannah and Jahannam, he was still in his worldly life – we don’t say he switched to the Life of the Hereafter just because he visited places created for Life in the Hereafter. We also believe that Jesus was in his a worldly life because he has not died and is not in the stage of the Barzakh. We do not know the modality of his worldly life, just like we do not know the modality of the worldly life of Gog and Magog, or Dajjal.
f. The Prophet saw a lot of people in Mi`raj in Jahannam. What type of life were they in? If the Prophet saw all these people “physically”, it does not mean they are still living are “worldly life” like the Prophet was living at the time. It just means they are alive.
g. We believe the life of the Prophets in the Barzakh is a special type of life, just as for the martyrs, but the Jins (genus) of life is the same. The same applies to this world: everybody is in the “worldly life”, but some have “Hayah Tayyibah” as mentioned in the Quran; in contrast, some have Hayah Khabeethah. But it is all still the same worldly life. And in the Hereafter, some will have a high-quality life (Jannah); others will be living such a life that it will be as if they are neither living nor dead (Jahannam), but we all agree that the Jins (genus) of life for both sets of people is the Ukhrawi Life (the Life of the Hereafter). Thus, we don’t see why people feel the need to treat the Life of the Barzakh any differently. Nor is there any evidence to suggest some people are living a ‘worldly life’ in what is the Barzakh.
h. Our opinion is based on the notion that each person goes through ‘stages’. Each person goes through four stages: Arwaah (Souls), Dunya (World), Barzakh (Interim), Aakhirah (Hereafter). Whichever stage a person is in, he would be ascribed to that stage, so you have the Life of Arwaah, the Life of Dunya, the Life of Barzakh, and the Life of Aakhirah. As a result, for anybody to claim – without a shred of evidence – that some people in the Barzakh stage are living “worldly life” – without any precedent by the way from the Salaf who never once explicated that the Prophet are living a “worldly life” in the Barzakh stage, nor is it in any text of theology – is totally incorrect.
قصہ مختصر یہ کہ "دنیوی زندگی" کا فلسفہ اور اس کے حق میں دیے جانے والے تمام دلائل ناقص بلکہ نصوص کے خلاف ہیں ۔ مثلاً ہم لوگ جن کے نزدیک حضور عليہ السلام "برزخی زندگی" ميں ہیں وہ ان کی قبر پر شفاعت اور ان کے واسطے سے دعا مانگنے کو ٹھیک نہیں سمجھتے، اس لئے کہ يہ وفات کے قبل اصل دنیوی زندگی کى بات تھى ۔ لیکن "دنیوی زندگی" کا فلسفہ والوں کے نزدیک چونکہ آنحضرت عليہ السلام ابھى بھى "دنیوی زندگی" میں ہیں لہذا نہ صرف آپ عليہ السلام کو وسیلہ بنا کر دعائیں کی جا سکتی ہیں بلکہ براہ راست آپ عليہ السلام کو مخاطب بنا کر شفاعت کی طلب بھی کی جا سکتی ہیں ۔
اور آخری بات یہ کہ اس فرقہ کے لوگ یہ الزام دھرتے ہیں کہ نبی عليہ السلام کے "دنیوی زندگی" میں ہونے کا انکار کرنے والے یکسر ہی شفاعت اور توسل کے دو عقیدے کے منکر ہیں جو کہ صریح کذب ہے ۔ ہمارا عقیدہ ہے:
1: نبی عليہ السلام کی زندگی میں آپ سے شفاعت کى طلب اور ان سے دعا کی طلب درست وجائز ہیں
2: وفات کے بعد حق جل وعلا سے يہ دعا مانگنا کہ وہ ہمارے حق میں نبی عليہ السلام شفاعت قبول کر لے درست وجائز ہیں
3: دعا مانگتے ہوئے اللہ کے اسماء اور صفات کا واسطہ دینا جائز ہے
4: اس کے علاوہ اپنے ایمان اوراعمال صالحہ کو وسیلہ بنانا جائز ہے
5: کسی نیک زندہ آدمی سے بھی دعا کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے تاہم دعا کے دوران کسی بزرگ ہستی کو وسیلہ بنانا ہمارے نزديک بدعت ہے ۔ لیکن چونکہ بعض فقہاء نے چند روایات کو صحيح سمجھ کر اس قسم کے توسل کو حرام نہیں ٹھہرایا لہذا ہم اس مسئلے کو اختلافى بھى سمجھتے ہیں
6: وسیلے کے لیے استعمال کی جانے والی دوسرے کلمات کی اگر مقبول سند دستیاب ہو تو ہم اسے قبول کرليں گے، ورنہ اس سے گریز ہی کرتے ہیں چاہے وہ دور سلف کے کسی عالم کے واسطہ ہی ہم تک پہنچا ہو - مثلا امام ابو یوسف کے نزدیک دعا میں"اللهم إني أسألکبمعقد العز من عرشک" کہنا جائز ہے ۔ ہم گمان رکھتے ہیں کہ امام ابو یوسف کو ان الفاظ کے حق میں کوئی مقبول سند معلوم ہوگی تاہم چونکہ وہ ہم تک نہیں پہنچی لہذا امام صاحب سے گہری عقیدت رکھنے کے باوجود ہم توسل کے لئے یہ طریقہ استعمال کرنے سے احتیاط برتیں گے ۔ اس معاملے میں اعتدال کا دامن يہى ہے - البتہ ماتريدی نامى فرقہ کے فقہاء نے امام ابو یوسف کى تجہيل کى اور يہ دعوى کيا کہ "اللهم إني أسألک بمعقد العز من عرشک" اس لئے ناجائز ہے کہ يہ وسيلہ ان کے کلامى قسم کے عقائد کے خلاف ہے! يہ خيال امام ابو يوسف رحمہ اللہ کی علمیت، عقيدہ اور تفقہ فی الدین کے خلاف سخت طعن ہے
7: کسی بھی غير الہى ہستی کى عبادت کر کے اس عبادت کے طفيل اللہ سے طلب نجات اور تقرب كى نيت صریح شرک ہے، اور يہ دور جاہلیت کے توسل کا طریقہ تھا، جس کى طرف سورہ زمر کى تيسرى آيت ميں اشارہ ہے