شرح ’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 5
امتِ
محمدیہ کے خطاکار
اہل سنت کے
ہاں کیونکر دیکھے جاتے ہیں
قرآن مجید کا یہ نہایت خوبصورت
مضمون جس میں اِس امت کا اپنے گنہگاروں سمیت برگزیدہ ہونا بیان ہوا ہے...
شیخ سفرالحوالی اپنی تحریر و تقریر میں اس کی جانب بکثرت توجہ دلاتے ہیں۔ حالیہ
رسالہ میں بھی اس کی جانب اشارہ ہوا ہے:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ
الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ
لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ
اللَّـهِۚ
ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (فاطر:
32)
’’ پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چُنے ہوئے
بندوں کو۔ ایسے کہ: ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرلیتا ہے۔ ان میں کوئی میانہ چال
پر ہے۔ اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا۔ (اگر
تم سمجھو تو) یہ (اللہ کا تم پر) بہت بڑا
فضل ہے‘‘۔
چنانچہ ’’کتاب کے وارث‘‘ یہاں ایک نہیں بلکہ تین طبقے ذکر ہوئے۔ سفرالحوالی
کے بقول: لطف کی بات یہ ہے کہ ’’کتاب
کے وارثوں‘‘ کا ذکر شروع ہی اُس طبقے سے
کیا گیا جو ان میں سب سے کمتر ہے، سبحان
اللہ:
»
فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ
لِّنَفْسِهِ ’’ان میں کوئی اپنی جان پر ظلم کرلیتا ہے‘‘
»
وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ’’ان میں کوئی میانہ
چال پر ہے‘‘۔
»
وَمِنْهُمْ سَابِقٌ
بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ’’اور ان میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے حکم سے بھلائیوں میں سبقت لے گیا‘‘۔
شیخ سفر الحوالی اِس آیت کے ضمن میں
حضرت عائشہؓ کے بیان
کو دیگر تفسیری اقوال پر ترجیح
دیتے ہوئےاس شرعی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ:
منکروں اور جھٹلانے والوں کے مقابلے
پر... اِس توحید، اِس قرآن، اِس شریعت اور اِس نبیؐ کو دل سے مان لینے والوں میں خدا کے جو مقربین
اور اولیاء ہیں ان خوش نصیبوں کی تو خیر بات ہی کیا ہے۔ اِن میں جو گناہگار اور
آلودہ دامن ہیں، وہ بھی باوجود اس کے کہ اپنی فرداًفرداً حیثیت میں خدا کی عدالت میں پکڑے جانے کے خطرے سے باہر نہیں ہیں،
پھر بھی بطورِمجموعی وہ ’’خدا کے چنیدہ بندوں‘‘ اور ’’کتابِ آسمانی کے وارثوں‘‘ میں باقاعدہ مذکور ہوتے ہیں! چنانچہ
فرماتے ہیں: سورۃ فاطر کے اِس مقام پر ذرا ان باتوں پر غور کرو:
1.
یہ تینوں
طبقے مل کر کتاب کے وارث ہوئے۔ یہاں ’’کتاب‘‘ سے مراد: دین، قرآن، نبوت۔ جو بنی اسرائیل کے بعد اِس امت کو
ملی۔
2.
پھر فرمایا: الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ
عِبَادِنَا۔ یعنی یہ تینوں طبقے خدا کے چنے ہوئے، خدا کے پسندیدہ برگزیدہ ہیں۔
3.
پھر فرمایا: ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ۔ یہ چیز جو یہ تینوں طبقے خدا سے پانے میں کامیاب ہوئے، ایک
غیرمعمولی فضل ہے۔
4.
یہ ہوا اِن کا سٹیٹس اِس دنیا میں۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ آخرت میں یہ سبھی
جنت میں جانے والے ہیں: جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ
فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًاۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ۔ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ
عَنَّا الْحَزَنَۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ
مِن فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ (فاطر: 33 تا 35) ’’ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں
یہ داخل ہوں گے، وہاں اِنہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے۔ اور پوشاک
اِن کی وہاں ریشم ہوگی۔ یہ وہاں بولیں گے:
سب خوبیاں اللہ کو،جس نے ہمارا سب غم دور کر دیا۔ ارے ہمارا پروردگار تو بڑا ہی
بخشنے والا بہت ہی قدردان ہے!جس نے ہم کو بس اپنے ہی فضل سے اِس سدا رہنے کے مقام
پر لا اُتارا ہے۔ یہاں ہمیں نہ کوئی رنج پہنچنے کا اور نہ کوئی خستگی‘‘۔
5.
پھر اس سے اگلی آیات میں... اِن تین
(چنیدہ) گروہوں کے مقابلے پر... اِس توحید، اِس قرآن، اِس شریعت اور اِس نبیؐ پر ایمان نہ لانے والوں کا وہ حشر دکھایا گیا
ہے جو ان کے ساتھ آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ کیونکہ نعمت کا اصل اندازہ اس وقت
ہوتا ہے جب اس کی ضد سامنے لائی جائے اور جوکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ
قرآن مجید کے خوفناک ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ نسأل اللہ السلامۃ
اِن تین درجوں کا بیان اختصار کے
ساتھ یوں ہے کہ:
1.
ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ: امت کے وہ لوگ ہوں گے جو فرائض کی
ادائیگی میں تقصیر کرلیتے ہیں، نیز حرام کاموں کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔
2.
مُّقْتَصِدٌ: امت کے وہ لوگ جو فرائض باحسن
اسلوب ادا کرتے ہیں۔ اور حرام کاموں سے برابر دستکش رہتے ہیں۔
3.
سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ: امت کے وہ لوگ جو فرائض کی باحسن
اسلوب ادائیگی کے ساتھ ساتھ مستحبات اور قُرُبات کو اختیار کرنے میں بھی پورا زور
لگاتے ہیں۔ نیز حرام کاموں سے دستکش ہونے کے ساتھ ساتھ شبہات اور نامناسب اشیاء سے
بھی دامن کش رہتے ہیں۔
*****
یہ فصل دراصل ایک اور مبحث میں جانے
کےلیے تمہید کے طور پر دی گئی ہے۔ اور وہ مبحث یہ کہ امت کی تاریخ کے وہ ادوار
جنہیں ہم اِستنفارِ عام (عام دُہائی) کے ادوار کہتے ہیں... وہاں اہل سنت کا منہج یہ
رکھا جاتا ہے کہ عوام اہل قبلہ کو کفر کی یلغار کے خلاف میدان میں جا اترنے کی صدا
لگائی جاتی ہے، اور اُس وقت کوئی ایسی شرط نہیں لگائی جاتی کہ کفر کے خلاف اہل سنت
کی اِس جنگ میں صرف ’’نیک‘‘ اور ’’باشرع‘‘ لوگ ہی شامل ہوں، یا صرف ’’صحیح
العقیدہ‘‘ لوگ ہی شریک ہوں۔ یہ مبحث ان شاءاللہ اگلی فصل میں بیان ہوگا۔