’طاقت کے توازن‘ والی دلیل جہاد گریز طبقوں کی ’سلفیت‘ اور علمیت!

gaza

ابن علی

گزشتہ دنوں… اہل غزہ کا جہاد جہاں مصر اور خلیجی ریاستوں کے اسرائیل نواز کردار کی قیمت اپنے جگرگوشوں کے خون سے دیتا رہا… وہاں ’’سلفیت‘‘ کے دعویدار کچھ ’مذہبی‘ طبقوں کے ’دلائل‘ کے نشتر بھی بڑے صبر و تحمل سے سہتا رہا۔ جہادِ غزہ کو ’’باطل‘‘ قرار دینے کےلیے بےشمار دلیلیں دی جا رہی تھیں، جن میں ایک ٹیپ کا مصرع ’’طاقت کے توازن‘‘ کی فرضیت تھا۔ زیرنظر تحریر کا یہ پس منظر ذہن میں رہے۔

دلائل جہادِ طلب کے، لاگو جہادِ دفع پر!

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا!!!

بھائی ہماری نہ سنیں ابن قیمؒ کی سن لیں!!!

’سلفیت‘ کا نام جپنے والے غالی، جنہیں بلادِ عرب میں اس وقت ’مدخلی‘ یا ’جامی‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے اور یہاں بھی وہ ’اصلی اہلسنت‘ کے زیرعنوان اپنے لیے جگہ بنانے کےلیے کوشاں ہیں، اور جوکہ ہر ہر ملک میں امریکی حمایت یافتہ حکمرانوں کے دامن سے چپک رہنے والی  ’سلفیت‘ کے نمائندہ ہیں… اور جوکہ معاصر اسلامی تحریکوں _ خصوصاً جہادی جماعتوں _ کے خلاف صبح شام زہر اگلتے ہیں… اور جوکہ اپنی جہاد دشمنی میں عملاً غامدی صاحب کی ’’المارد‘‘ ہی کے ہمنوا ہوجاتے ہیں خصوصاً جہادِ دفع کےلیے ’سٹیٹ‘ اور ’ولی الامر‘ کی شرط لگانے میں…

یہ حضرات معاصر جہاد (خواہ وہ فلسطین و غزہ کا جہاد ہو، یا افغانستان کا یا کشمیر کا یا عراق کا) کے خلاف جو ایک ہردم تیار دلیل اپنے پاس رکھتے ہیں وہ یہ کہ: جہاد کی شروط میں سے ایک ’’شرط‘‘ (ان لوگوں کے خیال میں) یہ ہے کہ مجاہدین اور دشمن کے مابین طاقت کا توازن کم از کم بھی ایک::دو کا ہو۔ جس کےلیے یہ سورۃ الانفال کی آیت پیش کرتے ہیں: الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٦٦﴾

باوجود اس کے کہ کم طاقت کی صورت میں یہ آیت جہاد کو پھر بھی ’’منع‘‘ قرار نہیں دیتی، اور نہ اس میں ’’منع‘‘ کی کوئی دلیل ہے (آیت میں محض ایک چیز کی اجازت ہے نہ کہ منع)… تاہم علمائے امت نے بیان کر رکھا ہے کہ یہ حکم ’’جہادِ دفع‘‘ سے متعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ’’جہادِ طلب‘‘ سے ہے۔

جہادِ دفع: جو مسلمانوں پر دشمن کے چڑھ آنے کی صورت میں لازم آتا ہے۔ اِس کو ’’جہادِ اضطرار‘‘ بھی کہتے ہیں (یعنی وہ جہاد جس کو ٹالنے کا مسلمانوں کے پاس آپشن ہی نہیں ہوتا)۔ جبکہ جہادِ طلب: وہ جہاد جو مسلمانوں کے کافر پر چڑھائی کرنے کی صورت میں ہوتا ہے، اس کو ’’جہادِ اختیار‘‘ بھی کہتے ہیں (یعنی وہ جہاد جس کو ٹالنے کا مسلمانوں کے پاس آپشن موجود ہوتا ہے)۔

یہ حضرات چونکہ ابن تیمیہ و ابن قیم رحمھما اللہ کو اپنے ائمہ میں مانتے ہیں، آئیے سورۃ الانفال کے بیان کردہ ’’طاقت کے توازن‘‘ کے صحیح اطلاق سے متعلق امام ابن قیمؒ کی ایک تقریر دیکھیں۔ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:

فقتال الدّفع أوسعُ من قتال الطّلب وأعمُّ وجوباً وَلِهَذَا يتَعَيَّن على كل أحد يقم ويجاهد فِيهِ العَبْد بِإِذن سَيّده وَبِدُون إِذْنه وَالْولد بِدُونِ إِذن أَبَوَيْهِ والغريم بِغَيْر إِذن غَرِيمه وَهَذَا كجهاد الْمُسلمين يَوْم أحد وَالْخَنْدَق

وَلَا يشْتَرط فِي هَذَا النَّوْع من الْجِهَاد أَن يكون الْعَدو ضعْفي الْمُسلمين فَمَا دون فَإِنَّهُم كَانُوا يَوْم أحد وَالْخَنْدَق أَضْعَاف الْمُسلمين فَكَانَ الْجِهَاد وَاجِبا عَلَيْهِم لِأَنَّهُ حِينَئِذٍ جِهَاد ضَرُورَة وَدفع لَا جِهَاد اخْتِيَار وَلِهَذَا تُبَاح فِيهِ صَلَاة الْخَوْف بِحَسب الْحَال فِي هَذَا النَّوْع وَهل تُبَاح فِي جِهَاد الطّلب إِذا خَافَ فَوت الْعَدو وَلم يخف كرته فِيهِ قَولَانِ للْعُلَمَاء هما رِوَايَتَانِ عَن الإِمَام أَحْمد (الفروسية: ج 1 ص 188، بتحقيق مشهور حسن، طبع دارالاندلس، حائل)

قتالِ دفع کا دائرہ قتالِ طلب کی نسبت وسیع تر ہے اور اس کا وجوب بھی قتالِ طلب کی نسبت زیادہ وسیع دائرے کو محیط ہے۔ اس لیے یہ (قتالِ دفع) ہر کسی پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس میں جہاد کرے: غلام پر فرض ہوگا مالک کی اجازت ہو تب نہ ہو تب، اولاد پر فرض ہوگا والدین کی اجازت ہو تب نہ ہو تب۔ قرضدار پر فرض ہوگا قرض خواہ کی اجازت ہو تب نہ ہو تب۔ اس کا معاملہ وہی ہے جو اُحُد اور خندق کے روز مسلمانوں کے جہاد کے ساتھ تھا (جب کافر مسلمانوں پر چڑھ آئے تھے اور ان کی تعداد اور اسلحہ مسلمانوں کے مقابلے پر کئی گنا تھا)

 جہاد کی یہ جو قسم ہے اس میں یہ شرط نہیں ہوتی کہ دشمن کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے پر دوگنی یا اس سے کم ہو۔ کیونکہ اُحُد اور خندق کے موقع پر کافر مسلمانوں کے مقابلہ پر کئی گنا تھے۔ مگر جہاد مسلمانوں پر پھر بھی واجب تھا۔ کیونکہ اس خاص صورت میں جہاد (مسلمانوں پر) از راہِ اضطرار و دفع ہوتا ہے نہ کہ جہادِ اختیار۔ یہ وجہ ہے کہ جہاد کی اِس قسم میں صلاۃ الخوف کا جواز بھی صورتحال کے مطابق ہوتا ہے۔ جبکہ جہادِ طلب میں، جب دشمن کے بچ نکلنے کا خدشہ ہو البتہ دشمن کے چڑھ آنے کا خطرہ نہ ہو، صلاۃ الخوف کے (حسب صورتحال) جائز ہونے سے متعلق علماء کے مابین دو رائے پائی جاتی ہیں۔          (از کتاب ’’الفروسیۃ‘‘ مؤلفہ ابن القیم﷫)

بنابریں… ہماری درخواست ہوگی کہ یہ حضرات غزہ کے جہاد کے خلاف شریعت سے ’دلائل‘ لانے کی مہم برخاست کردیں۔ امت کی آواز میں آواز نہیں ملا سکتے تو کم از کم خاموش رہیں، اللہ ان کو جزائے خیر دے