بسلسہ: مسلم سرزمینوں پر حملہ آور کفار کے خلاف جہاد
شہید… اور بہتر (72)حوریں
ذیشان وڑائچ
’یہ لوگ خودکش حملے اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگروہ کافروں کو بم سے اڑا دیں گےتوانہیں جنت میں ۷۲ کنواریاں ملیں گی‘۔یہ اور اس طرح کے جملے مغربی استعمار کے وکلاء اور ان کے حمایتی دیسی لبرلوں اور ملحدوں کی طرف سے عام طور بولے اور پھیلائے جاتے ہیں۔
گویا کہ مسلم مقبوضہ جات میں مسلمانوں کی طرف سے جو مزاحمت ہورہی ہے اس کا پورا مقدمہ یہی ہے۔ نہ عراق پر امریکہ نے حملہ كيااور نہ افغانستان پر ۔نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ امریکی حمایت اور اقوم متحدہ کی توثیق سے اسرائیل نے پوری فلسطینی قوم کو یرغمال بنايا اورنہ ہی کبھی پوری فلسطینی قوم کو نکال کر ان کى جگہ یہودیوں کو لابسایا۔ نہ ہی اسرائیل نے کسی فلسطینی کو کوئی تکلیف پہنچائی۔ اللہ کے راستے میں قتال دراصل اپنی دنیا کی زندگی کو ایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربان کردینا ہے۔یہ ظلم کو قبول نہ کرنے کی ضد ہے۔ یہ حق کے لئے اپنی جان دینے کا جذبہ ہے۔ یہ ایک یقین ہے کہ اس دنیا کی زندگی سے زیادہ اہم حق ہے۔ لیکن بات کوگھُما کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے گویاکہ یہ پورا جھگڑا ہی بہتر حوروں کا ہے اور بس۔گویا مغربی استعمار کا مقابلہ کرنے والاایک بے شعور اور جنس زدہ قسم کا کوئی شخص ہے۔
اس طرح کی لغو باتیں کر کے اصل مسئلہ ہی کہیں دبا دیا جاتا ہے۔
چونکہ یہ موضوع ملحدوں اورمغربی استعمار کے وکلاء کی طرف سے بار بار آتا ہے اس لئے جنت کی کنواریوں پر بھی کھل کر بات كرلى جائے ۔ لیکن اس موضوع پر کچھ بھی عرض کرنے سے پہلے یہ بتادیں کہ بحث اور مناظرے میں ایک چكماديا جاتا ہے جس کا مقصد عام پر طور پرایک صحیح مؤقف کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس چكمے کو ریڈ ہیرنگ (Red Herring)کہتے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ پر سے بحث کے ارتکاز کو ہٹانے کے لئے درمیان میں کچھ ایسی بات کی جاتی ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر ایک غیر متعلقہ موضوع کی طرف چلی جاتی ہے۔بحث کے دورا ن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر عوامی ذہن فوراً متوجہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بہتر کنواری حوروں والا نکتہ بھی ایسا ہی ہے اس لئے اصل مسئلہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اسی کا بھر پور استعمال ہوتا ہے۔
مناظرے کو غلط طریقے سے جیتنے کے لئے ایک اور چال استعمال کی جاتی ہے جسے سٹرا مین آرگیومنٹ (Straw man argument) کہتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کا مقدمہ بھی آپ خود بیان کرتے ہیں اور اس کی تردیدبھى خود کرکے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ میں نے ہرادیا۔ حالانکہ ایسا شخص فریق مخالف کے مقدمے کو نہیں بلکہ خود اپنے مقدے کو ہرا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ غور کریں تو اسلام کے مقابلے میں یہ دونوں چاليں ملحدین اور مغرب کے مفکرین کی طرف سے خوب استعمال ہوتی ہیں۔اسلام پر شدید ترین تنقید کرنے کے حوالے سے ایک دہریہ بہت مشہور ہے جس كا نام رچرڈ ڈاکنز ہے۔ یہ بندہ مسیحی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ مسیحیت پرزیادہ تنقید کرے۔ لیکن اس کے نشانے پر اکثر اسلام ہوتا ہے اور اس معاملے میں یہ بندہ ریڈ ہیرنگ استعمال کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔
جنت کی حور اور ملاحدہ کی ذہنی کیفیت
اب آتے ہیں قتال اور حوروں کے موضوع پر۔
قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو جنت کی نعمتیں عطا کرے گا اور ان نعمتوں میں پاکیزہ بیویاں بھی شامل ہيں۔جنت میں عطا کی جانی والے بیویوں کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہے۔
- انہیں حور عین کہا گیا ہے۔ یعنی بڑی آنکھوں والی۔الرحمن ۷۲، الواقعۃ۲۲
- جیسے حفاظت سے پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔الواقعۃ: ۲۳
- جیسے یاقوت و مرجان: الرحمن ۵۸
- عروب، شوہروں کی محبوبہ، دل لبھانے والی۔ سورہ واقعہ ۳۷
- ہم عمر، سورہ واقعہ ۳۷
- پاکیزہ بیویاں، آل عمران ۱۵، النساء ۵۷
- نیچی نگاہوں والی، سورہ رحمن ۵۶
- خَيْرَاتٌ حِسَانٌ، اچھی اور خوبصورت، سورہ رحمن ۷۰
- جنہیں کسی جن و انس نے نہ چھوا ہوگا۔ سورہ رحمن، ۵۶، ۷۴
- ۱نوجوان ،بھرے جسم والی ، سورہ نبأ ۳۳
- اللہ نے انہیں خاص طور پر الگ سے بنایا ہوگا۔الواقعہ ۳۵
- کنواریاں، الواقعہ ۳۶
احادیث میں مزید اس کی وضاحتیں آئی ہیں۔ لیکن یہاں پر جنت کی حوروں کی تمام خصوصیات بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ جب جنت کی بیویوں کی بات کی جاتی ہے تو مخالفین صرف ایک لفظ سے جنت کی پاکیزہ بیویوں کا ترجمہ کرتے ہیں اور وہ لفظ ہوتاہے “ورجن”(Virgin) یعنی کنواری۔ حالانکہ جس کے اندر طبعی سلامت روی کی تھوڑی سی رمق باقی ہووہ جنت کی بیوی کی جو تشریح قرآن میں آئی ہے اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ لیکن یہاں پر نظر “کنوارے پن” سے آگے جاتی ہی نہیں۔ اس طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان کو صرف اور صرف عورت کی بکارت سے واسطہ ہے۔ نہ اسے اس کی حسین اور بڑی آنکھوں والی ہونے سے کوئی واسطہ ہے، نہ اس کی محبت اور پاکیزگی سے کوئی غرض۔ یہ شاید عالم اسلام سے ملحدین اور مغرب کے شائقین کی توجہ حاصل کرنی کی ایک سستی سی کوشش ہے۔ ہم نے مضمون کے ابتداء میں ریڈ ہیرنگ پر جو بات کی تھی اس بات کو یہاں پیش نظر رکھیں۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک بھرپور عورت کا باکرہ ہونا ناقابل یقین حد تک انوکھی چیز ہے۔قانونی طور پر رضامندی کی عمر (age of consent) طے ہونے کے باوجود ان کے یہاں بچی کم عمری میں ہی اپنے کسی دوست یا بالغ رشتہ دار کے ساتھ بکارت کھوچکی ہوتی ہے۔ یا ان کے نزدیک عورت کا باکرہ ہونا ہی قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن جس کنواری حور کی بات کر رہا ہے وہ اپنے شوہر کی انتہائی محبوب، ہم عمر یعنی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھنے والی، نگاہیں نیچی رکھنے والی، یعنی اس کی نگاہیں اور دل صرف اپنے مرد کی طرف ہی متوجہ ہوں گے۔ پھر پاکیزہ اور ایسی پاکیزہ کہ اسے اس کے شوہر سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا تک نہ ہو۔ اس سب کے باوجود جنت کی بیویوں کی تشریح صرف پردہ بکارت سے کرنے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مغرب زدہ انسان کی سوچ کس سطح کی ہے اور وہ قرآن کو بھی اس سطح سے آگے سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔فری مارکيٹ معاشیات نے انسانوں کے دماغ کو جس طرح سے کرپٹ کیا ہےشاید یہ اسی کی ایک جھلک ہے۔ آخر فری مارکيٹ میں عورت بھی تو سامان تجارت ہی ہے چاہے وہ طوائف ہو یا خوبصورت کپڑوں میں ملبوس اپنی مسکراہٹ بیچنے والی کوئی ريسپشنسٹ یا پھر اپنی لوچ دار آواز میں کسی مرد کے غصے سے کمپنی کو بچانے والی کسٹمر کیئر یا کال سنٹر والی خاتون۔
یہ کرپٹ دماغ جیسے ہی جنت کی حور کا لفظ سنتا ہے اس کے دماغ میں کسی حیاباختہ عورت کی فحش فلم چلنے لگتی ہے اور وہ اللہ کے اس زبردست انعام کو اس سے بہتر انداز میں سمجھ نہیں پاتا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔
حوروں کا لالچ کیوں؟
ویسے اس بارے میں اسلام مخالف فکر کی طرف ایک سوال یہ بھی ہے کہ اللہ نے حوروں والا پیکیج دیا ہی کیوں؟ یہ سوال بھی ایک غلط تاثر یہ دیتا ہے کہ بس اللہ نے حوروں کا ہی وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے جنت میں مومنین کے لئے بہترین نعمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں پاکیزہ بیویاں بھی شامل ہیں۔ باغات، دودھ اور شہد کی نہریں، چشمے، نہ ختم ہونے والے پھل، پرندوں کا لذیذ گوشت، محلات، ایسی بہترین شراب جس سے سرور تو حاصل ہو لیکن نہ بندہ اپنی عقل کھوئے اور نہ سردرد ہو،گاؤ تکیہ لگا کر دوستوں کی محفلیں، جنت کا بازار، اپنے رشتہ داروں اور چاہنے والوں کا ساتھ ، خدمت کرنے والے غلمان، موت، بیماری، خوف اور بڑھاپے سے ہمیشہ ہمیشہ کا چھٹکارا ، سلاما ًسلام کی تحیات اور وہ سب کچھ جو بندہ چاہے اور جس کا تصورہم دنیا میں نہیں کرسکتے۔ اور اس سے بھی آگے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت، اور پھر اللہ کی طرف سے جنتیوں کوشراب طہور پلانا، اور پھر اللہ کا دیدار اور مالک المک کی طرف جنتیوں پر سلام اور سب سے بڑی چیز اللہ کی طرف سے رضامندی کا پروانہ، وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ۔ کیا کسی بندے کواور بھی کچھ چاہئے؟
ان سب چیزوں کابیان قرآن پاک میں ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص جس کی ذہنی حالت صحیح ہو مؤمن پر اللہ کی طرف سے ہونے والے انعامات کی تشریح ۷۲ کنواریوں کے نام پر کرسکتا ہے؟ یہ کیسا ذہن ہے جس کی سوچ بہتر کا عدد اور کنوارے پن میں ہی اٹکا ہوا ہے؟ یا وہ یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے رب نے بس اپنے بندوں کے لئےکنواریاں تیار رکھی ہیں۔ یا پھر مسلمانوں کے شعور کی سطح پر خواہ مخواہ افسوس کرکے انہوں کوئی خاص خوشی ہوتی ہے۔ یا اپنے غلط کیس پر زبردستی مطمئن رہنے کے لئے یہ ذہن اس سے آگے سوچنے پر تیار نہیں ہے؟
تو صاحبو اللہ کا پیکیج تو بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ انسان کا یہ چھوٹا سا دماغ اس کا پورا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یہ پیکیج انسان کی فطرت سے سوفیصد مطابقت رکھتا ہے اور اس میں ہر سطح کے انسان کےلئےسکون و اطمینان اور زبردست اپیل موجود ہے۔
لیکن حوریں پھر بھی ہیں، تو سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ جنسی پیکیج دینے کی اللہ کو کیوں ضرورت پیش آئی؟ اس بارے میں ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ ایک کھلی خیانت ہوگی کہ اللہ کے انعامات کے سلسلے میں حوروں کا اس طرح سے ذکر کیا جائےگویا بس یہی کچھ ہے۔ اب اس پورے پیکیج میں پاکیزہ بیویوں کا ہونا کیوں مسئلہ ہے، کیا یہ انسانوں کی فطری ضرورت نہیں ہے کہ اللہ کى رحمت سے اس کے سکون اور لذت کے لئے پاکیزہ بیویاں ہوں؟ اسلام کے مخالف کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کسی حیاباختہ عورت سے ہی لذت حاصل کی جاسکتی ہےاور اس سے محظوظ ہونے پر صرف اللہ کے دشمنوں کا اجارہ ہے؟ کیوں دین کے ماننے والوں کو اس سے احتراز کرنا چاہئے؟جن کے نزدیک جنسی لذت کا مطلب کسی فحش فلم میں چلنے والے مناظر ہیں تو یقیناً مؤمنین کو ملنے والے انعامات سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی۔ کیا ضروری ہے کہ جنس اور عورت کو مغرب کی مسخ شدہ فطرت کے تناظر میں ہی دیکھا جائے؟ یاکہیں ایسا تو نہیں کہ مستشرقین سے اسلام سیکھتے ہوئے انہوں نےاسلام کو بھی مسیحیت کی نظر سے دیکھنا شروع کردیا ہو جہاں پر عورت اور جنس مجبوری کے گناہ ہیں؟الغرض خالص انسانی یا اسلامی نکتہ نظر سے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ ایک ایمان والے کے لئے دنیا میں بھی ایک اچھی بیوی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہےتوآخرت میں اللہ اپنے بندوں کو اس انعام سے کیوں نہ نوازے؟
اگر جنت میں اتنے سارے انعامات کے ساتھ پاکیزہ بیویوں کا ذکر نہ ہوتا توبھی اعتراض کرنے والے لازماً یہ سوال کرتے کہ اللہ نے اتنی اہم چیز کو کیوں نظر انداز کردیا۔ اب چونکہ ذکر آگیا ہے اور اتنے اچھے انداز میں آیا ہے تو بھی منکروں کو چین نہیں۔ یہ صرف ایک ضد اور ہٹ دھرمی کی کیفیت ہے۔
اتنی ساری حوریں کیوں؟
ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ بہتر بیویاں کیوں؟ ایک کیوں کافی نہیں۔ اول تو یہ بات واضح ہو کہ قرآن میں کہیں پر بھی جنت کی بیویوں کی تعداد نہیں آئی ہے۔ کچھ ضعیف احادیث میں مبالغہ آمیزتعداد آئی ہیں۔ ایک صحیح حدیث میں سچ مچ شہید کے لئے ۷۲ حوروں کی خوشخبری آئی ہے۔ترمذی میں یہ حدیث مذکور ہے جو کہ سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔
مقدام بن معدی کرب سےروایت ہے،رسول اللہﷺنےفرمایا: شہیدکےاللہ کے ہاں كچھ اعزاز ہیں:
- خون کی پہلی دھارکےساتھ ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
- اس کوجنت میں اس کےمقام کا نظارہ کروایاجاتاہے۔
- عذاب قبرسےاس کو امان دےدی جاتی ہے۔ اور (قیامت کےروز) ہولِ عظیم سےاس کوبےخوف کردیاجاتاہے۔
- اُس کےسر پر وقار کا تاج پہنایاجاتاہے،جس میں (جڑاہوا) ایک یاقوت دنیا ومافیہاسےگراں ترہے۔
- 72 حوروں سےاس کابیاہ کیاجاتاہے۔
- اوراپنے 70 رشتہ داروں کےحق میں اسکوشفاعت کاحق دیاجاتاہے۔
تھوڑے سے فرق کے ساتھ مسند احمد میں بھی یہی روایت آئی ہے۔
حدیث سے تو واضح ہے کہ شہید کا اللہ کے ہاں کتنا بڑا اعزاز ہے۔ اس اعتبار سے ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہرا یک کو اس کے درجے کے مطابق جنت میں متعدد بیویوں سے بیاہ دیا جائے گا۔ اب اس میں خرابی اسی کو نظر آئےگی جو ایک خاص قسم کے اندھادھند مساوات والے عقیدے پر یقین رکھتا ہو۔ یعنی ایسا اعتراض اٹھانے والا یہ یقین رکھتا ہو کہ دنیا میں حتی ٰکہ جنت میں بھی سب برابر ہونے چاہئے۔ یہاں تک کہ وہ انسان جو کہ ایک کڑے امتحان سے گذرتا ہے بلکہ اللہ کے دین کی نصرت کرتے ہوئے اپنی جان تک دے دیتا ہے اسے اور جس کو ایسے کسی امتحان سے گزرنا نہ پڑے اسےبھی اللہ کے ہاں ایک حور ملنى چاہيے ۔ ی ا پھر اس کو لگتا ہوگا کہ اتنی ساری بیویاں ہونگی کہ ان سب کے ساتھ وقت تقسیم کرنا پڑے گا اور باقی اوقات میں یہ بے چاری بیویاں اپنی باری کے انتظار میں پڑی بور ہوتی رہیں گی۔ یا پھر اسے لگتا ہوگا کہ جنت میں ایک بندے کو اپنی بیویوں کے ساتھ گزارنے کے لئے “وقت کی کمی” کا مسئلہ پیش آئے گا۔ اول تو یہ مساوات والا نظریہ کسی ذہنی مریض یا اندھے عقیدت مند کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی غیرعادلانہ مساوات کا عقیدہ رکھنے والے کے بارے میں کم ہی یہ توقع ہے کہ وہ جنت میں جابھی سکے گا۔ اور اگر گیا بھی تو انشاء اللہ صحیح ذہنی حالت کے ساتھ جائے گا۔حق اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ فرق مراتب کا لحاظ رکھا جائے۔ باقی جو وقت کی کمی اور”بور” ہونے کا مسئلہ ہے تو وہ جنت کو دنیا پر تعبیر کرنے کی وجہ سے ہے۔ ایسا شخص یہ سمجھتا ہے کہ جنت میں حوروں کا کام صرف اپنے شوہروں کے ساتھ شغل کرنا ہی ہے اور باقی وقت صرف بور ہونا ہی ہے۔ گویا کہ جنت کا انکار کرنے والا جنت کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔
اگر مردوں کے لئے حور تو عورتوں کے لئے کیا؟
اس سلسلے کا ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مردوں کے حوریں ہیں تو عورتوں کے لئے کیا؟
ایک اصولی بات یہ ہے کہ اسلام کے تمام احکامات مردوں اور عورتوں کے لئے ہیں سوائے ان کے جن کی تخصیص کسی خاص صنف کے ساتھ کی گئی ہو۔ اسی طرح اعمال پر اجر کے معاملے میں مرد اور عورت میں فرق نہیں ہے۔ ایسے کسی اشتباہ کو دور کرنے کے لئے کلام پاک کی کچھ آیتوں میں مردوں اور عورتوں کا علیحدہ ذکرفرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آیت یہ بھی ہے۔
جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اُسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے اور اُن کا حق انہیں بدلے میں دیں گے اُن کے اچھے کاموں کے عوض میں جوکرتےتھے۔ سورہ نحل ۹۷
اس لئے اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ عورتوں کا عمل صرف عورت ہونے کی وجہ سے ضائع نہیں ہوگا۔ قرآن پاک میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کا ایک مقصد انسان کی قوت عمل کو متحرک کرنا اورانسان کو دین کے لئے قربانی پر ابھارنا ہے۔ اب قوت عمل کو ابھارنے کے معاملے میں مردوں کی فطرت سے کونسی چیز مطابقت رکھتی ہے اور عورتوں کی فطرت سے کونسی چیز، اس کا جاننے والا اللہ ہی ہے۔ اس لئے پاکیزہ جوڑوں کے بارے میں اللہ نے مردوں کے معاملے اگر زیادہ کھل کر اظہار کردیا اور عورتوں کے لئے اپنے پاس سرپرائز رکھ دیا تو اس میں اعتراض کرنے کی کوئی بات نہیں۔ اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ جنت میں جانے کا ارادہ کرنے والی عورتوں کی طرف سے ایسا کوئی سوال آئےکہ انہیں کتنے شوہروں سے بیاہا جائے گا۔یہ سوال پاکیزہ عورتوں کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسا سوال یا تو مردوں کی طرف سے آتاہے یا پھر ایسی عورتوں کی طرف سے آتا ہے جن کا جنت میں جانے کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔کسی سنجیدہ مسلمان عورت کے ذہن میں یہ سوال کبھی نہیں پیدا ہوتا ہے کہ مجھے جنت میں کتنے شوہر ملیں گے؟ حالانکہ اللہ نے صاف اعلان ہے:
اوربہشت میں تمہارے لیے ہر چیز موجود ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تم جو وہاں مانگو گے ملے گا۔ فصلت ۳۱
وہاں جس چیز کو دل چاہے گا اور جس سے آنکھیں خوش ہوں گی موجود ہوگی اور تم اس میں ہمیشہ رہوگے۔زخرف ۷۱
اور مزید یہ کہ :
سو کسی شخص کو خبر نہیں جو جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانہٴ غیب میں موجود ہے یہ ان کو ان کے اعمال کا صلہ ملاہے۔ (سورت سجدہ: ۱۷)
تو پہلا نکتہ یہ ہے کہ قرآن پاک کے عمومی احکام مردوں اور عورتوں کے یکساں ہیں ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عمل پر ثواب کے اعتبار سے مرد اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے جنت کی تمام نعمتوں کا ذکر نہیں فرمایا اور جنتیوں کے لئے وہ کچھ نعمتیں ہیں جس کا تصور بھی کوئی انسان دنیا میں نہیں کرسکتا۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جنت میں اللہ کے بندوں کو جو چاہے ملے گا۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ جنت کی نعمتوں کی تشریح کرنے میں اللہ تعالی نے انسانوں کی فطرت کا خیال رکھا ہے کہ کونسی چیز ہمیں اعمال اور قربانی پر ابھارتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی نفسیات میں فرق ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
اب پھر بھی اگر کوئی مصر ہو کہ اللہ پر لازم تھا کہ وہ عورتوں کو مہیا ہونے والا جنسی پیکیج بھی بتائے تو یہ خواہ مخواہ کی ضد ہے۔ اور اگر کوئی مصر ہے کہ جب تک مجھے عورتوں کی جنسی پیکیج کی تشریح نہ کی جائے گی تب تک وہ جنت میں جانے کا ارادہ ہی نہیں کریں گےتو ہم کہیں گے ایسی ہٹ دھرمی ویسے ہی جنت میں جانے کے منافی ہے۔ پھر بھلے ایسارویہ مردوں کی طرف سے آئے یا عورتوں کی طرف سے۔
کیا ایک مجاہد حوروں کے لئے اپنے آپ کو اڑا دیتا ہے؟
اب آخر میں اس پر بھی بات ہو کہ آیا ایک خود کش بمبار سچ مچ بہتر حوروں کے لالچ میں اپنے آپ کو اُڑا دیتا ہے؟
اول تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ بہتر حوروں والی خوشخبری اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کے لئے ہے۔ جو کہ نصرت دین یا اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی جان دے دے۔ اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہوا ہے کہ قتال میں فدائی حملہ جائز ہے یا نہیں۔ اگر ہم اس کو جائز قرار دیں تو بھی یہ جائز جہاد میں ہی ہونا چاہئے جس میں نشانہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے قتال کے لئے ایک جائز ٹارگٹ۔ یہ بحث کہ کہاں کہاں قتال جائز اور کہاں نہیں اس مضمون کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایک سادہ سی بات سمجھنی چاہئے کہ کسی کافر کو صرف کافر ہونے کی بنیاد پر قتل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کبھی اسلامی علمی تاریخ میں اسے جائز سمجھا گیا۔
دوم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مجاہد ایک اعلیٰ مقصد کے لئے اپنی دنیوی زندگی قربان کردیتا ہے۔ وہ اعلیٰ مقصد، اللہ کی رضا، یہ امید کہ اس کی قربانی سے کمزوروں پر ظلم کم ہو گا،آنے والی نسلوں کو عدل والا ماحول ملے گا، اللہ کا قانون نافذ ہوجائے گا، اللہ اس کے تمام گناہ معاف کرے گا، اللہ اس سے راضی ہوگا وغیرہ۔ تو یہ جہاد والی قربانی پورے شعور کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس میں مجاہد دنیا میں موجود راحتوں کو قربان کر کے غیب پر ایمان کی بنیاد پر آخرت کی راحت کا طالب ہوتا ہے۔ اللہ جس سے راضی ہوتا ہے اس پر اپنا انعام کرتا ہے جس میں اس کی پروانہ رضامندی اور دیدار کے ساتھ جنت بھی شامل ہے۔ اسی جنت کی نعمتوں کا ایک حصہ پاکیزہ بیویاں بھی ہیں اور ایک شہید کے لیے بہتر بیویاں ہوں گی۔اسلام میں للہٰیت، اللہ کی رضا اور جنت کے حصول میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم کسی عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کریں اور اللہ کے انعامات سے بے نیاز ہوجائیں۔ انسان ایک منطقی مخلوق ہے اور کسی بھی قربانی کی صورت میں یہ سوال اس کے ذہن میں ضرور اُٹھتا ہے کہ مجھے اس سے کیا ملے گا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوں جو بغیر کسی بھی دنیوی و اخروی فائدے کے قربانی دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ ایسے بندے دنیا میں بہت ہی قلیل تعداد میں ہونگے اوراسلام صرف اس قلیل تعداد کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔ اس لئے اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ اللہ کا انعام بھی ملتا ہے۔ اور اللہ کے انعامات سے بے نیازی برتنا اللہ کی رضا کے منافی ہے۔ یہ سوال کہ مجھے کیا ملے گا ایک عین منطقی اور فطری سوال ہے اور اسلام اس سوال کو غیر فطری اخلاقیات کی بنیاد پر خود غرضی قرار نہیں دیتا۔ بلکہ یہ اسلام کا کمال ہے کہ انسان کے اندر فطری طور پرپائے جانے والے حرص کے جذبے کو ایک اعلیٰ مقصد کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔اسلام کا یہی کمال ہے جس کی وجہ سے مغربی استعمار سینکڑوں گنُا مادی قوت اور آتش و آہن برسانے کی صلاحیت کے باوجود اپنا خون چاٹنے پر مجبور ہوتا رہا ہے۔
الغرض معرکہ حق و باطل کے اس پورے مقدمے کو صرف ایک جملے میں اس طرح سے دہرانا کہ “یہ لوگ خودکش حملے اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر کافروں کو بم سے اڑا دیں انہیں جنت میں ۷۲ کنواریاں ملیں گی” جھوٹ اور مریضانہ ذہن کی نشاندہی کرتا ہے اور بس۔