المیہ غزہ پر خلیجی مصری کردار

gaza-5

ابن علی

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران بعض خلیجی ممالک کے شرمناک کردار پر ہمارے سوشل میڈیا فورمز پر ڈیوڈ ہرسٹ کا ایک مضمون شیئر کیا گیا۔ جسے ’سعودی عرب کی شان میں گستاخی‘ پر محمول کرتے ہوئے ہم پر ’کامنٹس‘ کی بوچھاڑ کردی گئی۔ سب سے اہم یہ کہ ’لندن کے سعودی سفیر نے خود ایک مضمون لکھ کر ڈیوڈ ہرسٹ کا جواب دے ڈالا ہے۔ اس پر ہماری جانب سے یہ کلمات کہے گئے:

فلسطین (غزہ) پر تاریخ کی بدترین آفت کے وقت… خلیجی مصری گٹھ جوڑ ایک کھلی حقیقت ہے، اس پر پردہ ڈالنے والوں، اور اس معاملہ میں خلیجی حکمرانوں کےلیے ’غیرتِ دینی‘ دکھانے والوں کو چاہئے خدا کا خوف کریں۔

تیونس کے دوائیوں سے بھرے جہاز نے مصر کی فضاؤں میں چکر کاٹ لیے کہ زخمیوں تک مرہم پٹی کا سامان ہی پہنچا دیا جائے، مگر پتھر دلوں پر اثر نہیں ہوا اور تیونس کا وہ جہاز دوائیوں سمیت واپس جانے پر مجبور ہوگیا۔  کئی مغربی ممالک نے کوششیں کرلیں کہ سیسی میاں اپنی جیب سے کچھ نہ کریں صرف دوائیوں اور علاج معالجے کی اشیاء کو جو انسانی ہمدردی کی تنظیمیں لا رہی ہیں، رفح سے گزر جانے کی اجازت ’مرحمت‘ فرمادیں، مگر ضمیر کو کوئی جنبش نہیں۔

کیا سیسی کی محسن خلیجی ریاستوں سے کوئی دوا دارو سے بھرا جہاز آتا تو بھی سیسی اس کو اترنے کی اجازت نہ دیتا؟!

کیا سیسی پر پیسہ نچھاور کرنے والی خلیجی ریاستیں سیسی کو فلسطینیوں کا طبی حصار اٹھانے اور دنیا بھر سے آنے کےلیے تیار بیٹھی طبی ٹیموں کا راستہ نہ روکنے پر مجبور کرتیں تو بھی سیسی کا جواب وہی ہوتا جو اس نے تیونسی طیارے کو دیا؟ کون سادہ لوح ہے جسے اس سوال کا جواب معلوم نہیں!!!

اس خلیجی خاموشی کو جرم تک نہ کہا جائے تو آخر کیا کہا جائے؟ فلسطینی چیخ چیخ کر واضح کر چکے… اور ہم بھی چاہیں گے کہ خلیج کے ’غیور حکمرانوں‘ کے دفاع کنندگان اس بات کو نوٹ کریں کہ:

کون اس آس پر بیٹھا ہے کہ عرب سورما اس موقع پر اپنے ہتھیاروں اور فوجوں کے ساتھ فلسطینیوں کی مدد کو آئیں گے۔ یہ فوجیں مسلمانوں کی مدد کےلیے تھیں ہی کب؟ یہ عرب سورما تو صرف اتنا ہی کر دیں کہ رفح کے بارڈر پر غزہ کے ’غیرجنگجو‘ بچوں اور عورتوں کی مرہم پٹی کا انتظام ہوجائے… بلکہ یہ بھی نہ کریں، انسانی تنظیموں کی لائی ہوئی طبی امدادوں کو رفح سے راستہ دلوانے میں کوئی کردار ادا کردیں… تو بھی وہ ان تیل خور بادشاہوں کےلیےدل سے دعائےخیر کریں گے۔ مگر اس پیسے کی قسمت میں ایسی سعادت بھی کہاں!

ہمارے معترض فرماتے ہیں: لندن کے سعودی سفیر نے اس موضوع پر ڈیوڈ ہرسٹ کے مضمونhttp://goo.gl/Z3EzUCکا جواب دے دیا ہے۔ ماشاء اللہ۔ لیکن کیا جواب دیا ہے؟ ڈیوڈ ہرسٹ نے ٹی وی چینلز پر سامنے آنے والے اسرائیلی آفیشلز کے بیانات نقل کیے تھے (جن کی بابت ہمارے کئی فلسطینی دوستوں نے بھی توثیق کی ہے):

 Former Israeli defense minister Shaul Mofaz surprised the presenter on Channel 10 by saying Israel had to specify a role for Saudi Arabia and the United Arab Emirates in the demilitarization of Hamas. Asked what he meant by that, he added that Saudi and Emirati funds should be used to rebuild Gaza after Hamas had been defanged.

نیز:

Amos Gilad, the Israeli defense establishment’s point man with Mubarak’s Egypt and now director of the Israeli defense ministry’s policy and political-military relations department told the academic James Dorsey recently: “Everything is underground, nothing is public. But our security cooperation with Egypt and the Gulf states is unique. This is the best period of security and diplomatic relations with the Arab.”

 یہ فرمانے کی بجائے کہ ڈیوڈ ہرسٹ نے بکواس کیا ہے، سعودی سفیر نے یہ کہنے کی جرأت کیوں نہ کی کہ اسرائیل کے آفیشلز اپنے ٹی وی چینلوں پر بکواس کر رہے ہیں؟!

 سفیر صاحب غزہ کے لوگوں کی مدد فرمانا چاہ رہے ہیں(http://goo.gl/OPcw9a)مگر سفیر صاحب یہ مدد فرما نہیں رہے! !

کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور!!!

اگر وہ اس انتظار میں ہیں کہ غزہ کا مزاحمتی جہاد دم توڑ جائے اور اسرائیل کی فوجی مہم ’سرے‘ لگ لے… تو پھر واقعتاً غزہ کے ’’لوگوں‘‘ کی مدد کا وقت ابھی نہیں ہوا، اور شاید کبھی نہ ہو…!!!!! ان شاء اللہ وبفضلہٖ تعالیٰ

ہمیں بھی یہی نظر آتا ہے کہ سفیر صاحب نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ یہ سب خلیجی ریاستیں واقعتاً غزہ کے ’’لوگوں‘‘ کی مدد کےلیے تیار اور بےچین بیٹھی ہیں اور اس کےلیے بار بار گھڑی دیکھ رہی ہیں۔ اس ’’مدد‘‘ کا لمحہ آنے میں تاخیر ان خلیجی ریاستوں کو بلاشبہ پریشان کر رہی ہے۔ البتہ اس ’’مدد‘‘ کی صورت کیا ہوگی، اصل سوال یہ ہے، اور اغلباً اس کا جواب وہی ہے جو اسرائیل کے سابق وزیر دفاع شاؤل موفاز نے اسرائیل کے چینل 10 کو اپنے انٹرویو میں بتایا:

 Asked what he meant by that, he added that Saudi and Emirati funds should be used to rebuild Gaza after Hamas had been defanged.

http://goo.gl/Z3EzUC

 یعنی اسرائیلی بمباری اور فوجی کارروایئوں سے پہلے ایک بار غزہ کی جہادی مزاحمت نیست ونابود کردی جائے، اور غزہ پر اسرائیل اور اسکے منظورنظر ’کرزائیوں‘ اور ’نوری مالکیوں‘ کا قبضہ ہو جائے تو پھر غزہ کی ’’تعمیرنو‘‘ کے عنوان سے خلیجی پیسے کی بارش ہونے لگے گی… اور دنیا کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی کہ تیل کے بادشاہ غزہ کے ’’لوگوں‘‘ کی مدد میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے!!!!…

 سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ہر قیمت پر ظالموں کا دفاع کرنے کی ٹھان رکھی ہوئی ہے… یہ کہانی ہر کسی کو سمجھ آتی ہے۔ ورنہ کوئی بتائے کہ غزہ کے لوگوں کی ’’انسانی مدد‘‘ کرنے کی یہ بےپناہ تڑپ جو خلیجی بادشاہوں کو ’بےچین‘ کیے ہوئے ہے، اپنے عمل میں آنے کےلیے آخر کس گھڑی کے انتظار میں ہے۔ ’’فلسطینی جہاد کے خاتمہ کا لمحہ‘‘ کے علاوہ اس سوال کا کوئی اور جواب ہو تو ضرور ہماری راہنمائی فرمائیے!

 اور اگر اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو، لیکن خلیجی تیل برداروں کو ’’اسلام کے شیر‘‘ ثابت کرنا بھی آپ کے نزدیک ضروری ہو تو… ہم پر ’ایران کی طرفداری‘ کا کیچڑ اچھال دیجئے!

 جس طرح ایران کی اسلام دشمنی کو بےنقاب کرتی ہماری اکثروبیشتر سامنے آنے والی تحریروں کو پڑھنے والا ایک طبقہ ہمیں ’خلیجی بادشاہوں کا وظیفہ خوار‘ ہونے کا طعنہ دیتا ہے!