ہیومن رائٹس اور حقوق العباد
دو مختلف چیزیں
ذیشان وڑائچ
اسلام کا بنیادی دعوی یہ ہے کہ ہمارے پاس خالق کائنات کی طرف سے ایسا پیغام موجود ہے جس سے ہم خیر کو جان سکتے ہیں۔ خیر سے ہماری مراد یہ جاننا ہے کہ اللہ کی رضا کس چیز میں ہے۔ اس کے برعکس سیکولرزم کے پاس خیر و شر کا کوئی تصور اصولی سطح پر موجودنہیں ہے۔ سیکولر ہیومنزم جس چیز کو بنیاد بنا کر صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتا ہے وہ رائٹس[1] ہیں نہ کہ خیر۔ یعنی مغرب کی سیکولر فکر یہ طے نہیں کرتی کہ کیا چیز خیر ہے اور کیا چیز شر۔ چونکہ ہر مذہب خیر و شر کا اپنا تصور رکھتا ہے اس لئے سیکولر فکر خیر و شر کے تصور کو مذہب تک محدود کر کے صرف حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ فکر یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ ہر انسان کو اپنے خیر و شر کے انتخاب کا حق دیتی ہے۔ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود اپنے خیر و شر کا فیصلہ خود کرے۔ لیکن کسی انسان کو اس بات کا حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے تصور خیر کو دوسروں پر مسلط کرے چاہئے وہ کوئی بھی اجتماعی اکائی کیوں نہ ہو۔
والدین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو یہ بتائے کہ خیر کیا اور شر کیا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے پر اپنا تصور خیر مسلط نہیں کرسکتے۔
حکومت کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنی رعایا کے لئے کوئی تصور خیر تجویز کرے۔ حکومت کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کے تصور خیراختیار کرنے کے حق کی حفاظت کرے۔
اس کے بر عکس اسلام اپنا ایک تصور خیر رکھتا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے اللہ انسان اور تمام مخلوقات کا خالق اور مالک ہے۔ اصل حق تو صرف اللہ ہی کا ہے۔ جس کا وہ حکم دے وہی حق ہے اور وہی خیر ہے۔ اس اعتبار سے کسی مخلوق کا حق اللہ کے حکم سے مشروط ہے۔ حقوق العباد کی بنیاد بھی حقوق اللہ ہی ہے۔ چونکہ اللہ نے بندوں کو یہ اور یہ حقوق تفویض کئے ہیں اس لئے ہم یہ مانتے ہیں کہ بندوں کے یہ حقوق ہیں۔ ایک شخص کفر پر رہنا چاہتا ہےاور اس کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کفر پر رہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کفر پر رہنا اس کا کوئی ذاتی حق ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے انسانوں کو حق و باطل میں جس راستے پر چاہے چلنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔ یہ آزادی اس کا حق نہیں ہے بلکہ اللہ نے اپنی حکمت سے دی ہوئی ہے۔ چونکہ یہ آزادی اللہ نے دی ہے اس لئے مسلمانوں کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی اس آزادی کو اس سے چھین لیں اگرچہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کو استعمال کر کے خیر کے بچائے شر کا انتخاب کر رہا ہےاور ہماری شدید خواہش ہے کہ ہم کسی بھی طرح سے اسے اس شر سے روک دیں۔
مغرب انسانوں کے حق خود ارادی کی حفاظت کے لئے کچھ اور انتظامات کرتا ہے۔جس طرح ہم خدا کے وجود، اس کے خالق اور مالک ہونے کو ایک عقیدے کے طور پر مانتے ہِیں اسی طرح ہیومن رائٹس کے دعوے دار یہ مانتے ہیں انسان کے کچھ ذاتی حقوق ہوتے ہیں اور یہ حقوق مطلق غیر مشروط اور قائم بالذات ہیں۔ ان حقوق کی بنیاد پر ہر خیر اور اور شر کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور انہیں بنیادی حقوق کی بنیاد پر دیگر ادیان کا بھی محاسبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس دعوے کے پیچھے ایک مابعد الطبیعاتی عقیدہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس عقیدے کو ہیومنزم کہتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق ہیومن ایک ایسی ہستی ہے جس کا وجود کسی کا محتاج نہیں ہے، ہیومن کی خواہشات کا پورا ہونا فی نفسہ مطلوب ہے، ہیومن کی آزادی اس کا ایسا ذاتی حق ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ ہیومن کی آزادی اور خواہشات پر صرف اس وقت پابندی لگائی جاسکتی ہےجب کسی دوسرے ہیومن کی آزادی یا خواہش میں رکاوٹ پیدا ہوجائے۔
بلکہ ایک قدم آگے جاکر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مغربی نظریاتی ڈسکورس میں ہیومن کے معنی میں ہی یہ شامل ہے کہ وہ آزاد اور قائم بالذات رہنا چاہتا ہو۔ جو فرد اپنے وجود کا مقصد اپنی آزادی اور خواہشات کے پورے ہونے کے علاوہ کچھ اور طے کرے وہ حقیقت میں ہیومن نہیں ہے۔ اس اعتبار سے انسان اور ہیومن دراصل دو الگ الگ حقیقتوں کا نام ہے۔ اسلامی فکری دائرے کے اندر انسان کا مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے جبکہ مغربی فکری پیراڈائم میں اللہ کا بندہ ہیومن ہو ہی نہیں سکتا کہ اس نے اپنی آزادی اور خواہشات کو کسی اور کی بنیاد پر پابند کیا ہوا ہے۔
اس بیان سے یہ بات بالکل ہی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے حقوق العباد اور مغرب کے ہیومن رائٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسلما ن اپنے حقوق العباد کے مآخذ کو وحی الہی سمجھتے ہیں تو مغرب اپنے ہیومن رائٹس کے مآخد کو ایک مابعد الطیعاتی عقیدہ پر رکھتے ہیں۔ یعنی ان کا یہ دعوی کہ انسان مقصود بالذات ہے اس کی خواہشات کا پورا ہونا اور اس کی آزادی فی نفسہ مقصد ہے ایک عقیدہ ہی ہے جس کو عقلی یا سائنسی بنیادوں پر ثابت تو نہیں کیا جاسکتا۔ اسے میٹافزکس کہتے ہیں۔چونکہ مسیحیت اور بائبل کو اجتماعی زندگی سے نکالنے کے بعد مغرب کے پاس اپنی اخلاقیات کی کوئی بنیاد نہیں رہ گئی تھی اس لئے مغربی فلسفیوں نے انسان کے بجائے ہیومن نام کی ایک چیز گھڑی اور اپنے تئیں اس کو قائم بالذات کے حقوق بھی تفویض کردیے۔یہ میٹافزکس گویا کہ ہیومن کو صمد اور انا ربکم الاعلی کے عہدے پر فائز کردیتا ہے۔ اس عقیدے کے نزدیک ہیومن کے لئے کسی ایسے مقصد کو ماننا جس کا منبع ہیومن خود نہ ہو ہیومز کی توہین ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم ہیومن کا مقصد خدا کی بندگی مان لیں تو گویا کہ ہم نے ہیومن کی توہین کی[2]۔
جیسا کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسلام خیر کا ایک واضح تصور رکھتا ہے جس کی بنیاد رضائے الہی ہے۔ اسلام میں انسانوں کے حقوق کا تعین بھی اس کے اپنے تصور کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
اس کے مقابلہ میں مغرب صرف رائٹس کا تصور رکھتا ہے۔
لیکن
کیا واقعی میں ایسا ہے؟ خیر و شر کی کی یہ کشمکش شاید انسانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ مغرب دعوی تو یہی کرتا ہے کہ وہ صرف رائٹس یا حقوق کا تعین کرتا ہے۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ خیر و شر تصور پھر بھی اپنے ماننے والوںکو پیدا کر کے دیتا ہے۔ جو مغرب کے تفویض کردہ ہیومن رائٹس کونہیں مانتا اور اس پر عمل نہیں کرتا تو مغرب کے ابلاغیاتی نظام کے ذریعے اس کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے اس کو شر ہی مانتے ہیں۔ اور جو ا ن رائٹس کی پاسداری کرتا ہے اس کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جو کہ سراسر خیر ہو۔ پچھلی کچھ دو تین دہائیوں سے اپنی جنگوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے اور اپنے عوام کو راضی کرنے کے لئے اس تصور خیر و شر کا سہارا لیا گیا۔
یعنی دعوی تو جو ہے وہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے ان کی حقوق کی سیاست نے ایک نتیجہ کے طور پر خیر و شر کا تصور ضرور پیدا کیا ہے۔ بالفاظ دیگر چاہے وہ اسلام ہو چاہے مغرب کا سیکولر ہیومنزم دونوں کے اندر خیر و شر کا تصور موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں خیر کے تصور سے حق کا تصور پیدا ہوتا ہے جبکہ مغرب میں حقوق کے تصور سے خیر کا تصور پیدا ہوتا ہے۔
مغرب نے ہیومن رائٹس کے جواز کے لئے ایک اور اصول بنایا ہوا ہے جو کہ عقل عام کے لئے بہت اپیل رکھتا ہے۔ ان کا اصول یہ ہے کہ ہم انسان دوسروں کے لئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔ویسے تو یہ بات ایک حدیث سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن مغرب چونکہ صرف رائٹس کا دعوے دار ہیں اور کسی تصور خیر کو رد کرتا ہے اس وجہ سے اسلامی فکر کے دائرے میں اسکا وہ مطلب نہیں نکلتا جو کہ مغربی فکر سے نکلتا ہے۔ مثلاً اسلامی اعتبار سے میں چونکہ اپنے لئے اسلام کو پسند کرتا ہوں اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی مسلمان ہوجائیں۔ مغرب اس کو بالکل ہی دوسرے بلکہ الٹ معنی میں لیتا ہے۔ اس کے نزدیک میرا چاہنا کہ دوسرے بھی مسلمان ہوجائیں ایک غلط مطالبہ ہے۔ مغربی فکر کے مطابق چونکہ میں نے اپنے لئے اسلام کو پسند کرنے کے لئے اپنی حق خود ارادی کو اختیار کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ مذہبی معاملے میں جو چاہیں کریں۔ چاہے تو کسی بت کی پوجا کرے، کسی قدرتی مظہر کی پوجا کرے، کسی اللہ کے نیک بندے کی پوجا کرے یا شیطان پوجا کرے۔ یعنی بات ایک ہی ہونے کے باجود نتیجہ بالکل دوسرا نکل آتا ہے۔
اور پھر اس اصول سے کے تحت صرف بالکل ہی بنیادی اخلاقیات طے ہوسکتی ہیں۔ یہ اصول صرف فرد اور فرد کے درمیان معاملات طے کرانے میں تو کسی حد تک مفید ہوسکتا ہے لیکن معاشرے کے کامپلیکس قسم کے مسائل اس سے طے نہیں ہوسکتے۔ مثلاً یہ سوال کہ ایک عورت کو اپنا حمل ساقط کرانے کا حق ہے یا نہیں؟ کسی فرد کو اپنے معاشرے کے خلاف کوئی عمل کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ میاں بیوی کے درمیان حقوق کا توازن کس طرح سے قائم کیا جائے جب کہ دونوں کے وجود میں حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق پایا جاتا ہے؟ والدین اور بچوں کے درمیان حقوق اور ذمہ داری کا توازن کس طرح سے قائم کیا جائے؟ اس اصول کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ پر رکھنا پڑے گا۔ تیزی کے ساتھ بدلتی دنیا میں میاں بیوی یا بچے اور والدین کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کی جگہ رکھ کر دیکھ سکیں۔ اور پھر جو حقوق اور آزادی مجموعی معاشرتی بھلائی کے طے کئے جاتے ہیں اس میں تو یہ اصول بالکل ہی کام نہیں آتے۔ اس اصول کی بنیاد پر جب دین کے طے کردیا معاشرتی حقوق کی تنقیح کی جاتی ہے تو ایک ملحد، انسان اور خدا کو بھی ایک ہی مقام پر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ یعنی اس کا ذہن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ نعوذ باللہ خدا خود تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو بندے کی جگہ پر رکھے اور پھر انسانوں کے لئے قانون بنائے۔فسبحان اللہ عما یصفون۔
اور ویسے بھی اس طرح کے اصولوں کا محتاج تو وہ ہے جس کے پاس اصول اور قانون بنانے کے لئے کوئی بنیاد نہ ہو۔
بہرحال ان حقوق والےعقائد کی مغربی معاشرے میں خوب پذیرائی ہوئی جس کی کچھ وجوہات ہیں۔
- اس سے مسیحیت سے نالاں مغرب کے ہیومن کو اپنے اجتماعی اخلاقیات کی کچھ بنیادیں مل گئیں۔
- یہ عقیدہ اخلاقیا ت کی انتہائی قسم کی غیر حتمی، مبہم اور دھندلی اخلاقیات کا تصور پیش کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے کے طاقتور عناصر کو اس تصور اخلاق کو اپنی مرضی سے ڈھالنے کی آزادی مل جاتی ہے۔
- مذاہب اور فرقہ پرستی کے جھگڑے سے فرار کا آسان حل اسی میں نظر آتا ہے۔
- ہیومن کی آزادی کے نام پر سرمایہ داروں کو انسانی کمزوریوں کے استحصال کے بہت آسان نسخے مل جاتے ہیں۔ حکومت چونکہ انسانی آزادی کو پابند نہیں کر سکتی اس لئے انسان کی کمزور نفسیات کے ساتھ کھیلنے کے لئے مارکیٹ آزاد ہوتی ہے۔ نت نئی ایجادات کو انسانی ضرورت کے طور پر پیش کرنا، اپنا مال بیچنے کے لئے عورت کے جسم کو پیش کرنا، کھیل کود جیسے بے کار مشغلوں میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو مصروف رکھ کر انسانوں کی صلاحیتوں کا ضائع کرنا اس کی عملی شکلیں ہیں۔ خود اختیاری کے نام پر جوئے، شراب اور جنسیت کو مارکٹ میں پھیلانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ یہ سب چیزیں جن کو اخلاقیت کے معیارات پر کم از کم دھوکہ اور فریب ہی کہا جاسکتا ہے آزادی کے نام پر جائز ہوجاتی ہیں۔
- کسی حد تک آزادی کے نام پر میڈیا بھی آزاد ہوجاتا ہے۔ اس معاملے میں میڈیا آزادی کے نام پر سرمایہ داری کے استحصال کو جواز بھی فراہم کرتا ہے اور سرمایہ داری کے نام پر جو عوام کا استحصال ہوتا ہے اس کا مقدمہ سامنے ہی آنے نہیں دیتا۔ میڈیا چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی توسیع کی ہی ایک شکل ہے اس لئے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانا میڈیا کی مجبوری ہے۔ بالفاظ دیگر آزادی، سرمایہ دارانہ نظام اور ابلاغی نظام کی خوب نبھتی ہے اور یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے دوام میں سہارا بنتی ہے۔
اوپر بیان کردہ نکات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کا ہیومن رائٹس اور اسلام کے بیان کردہ حقوق العباد، دو الگ اور متضاد چیزیں ہیں۔اس بات کابہت حد تک امکان ہے کہ آپ ہیومن رائٹس اور حقوق العباد کے بیان کردہ کچھ نکات میں مماثلت پائیں۔ دنیا میں اخلاقیات کے اعتبار سے تمام قوموں میں بہت کچھ مماثلت پائی جاتی ہیں۔ لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہم ان کی بنیادوں پر اتفاق کرتے ہوں۔آپ چینی تہذیب اور اسلام کے بیان کردہ حقوق میں بھی بہت کچھ مماثلت پائیں گے لیکن اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کہ ہم چینی تہذیب کی بنیادوں کے بارے میں جو کہ ایک خالق کائنات کے تصور سے ہی بے بہرہ ہے کوئی مثبت تاثر رکھتے ہوں۔ اس لئے اگر آپ کو ہیوم رائٹس اور اسلام کے حقوق العباد میں کوئی مماثلت نظر آتی ہے وہ حقیقی مماثلت ہر گز نہیں۔
اس بارے میں ایک بنیادی سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر اس مماثلت میں حرج ہی کیا ہے۔ واقعی میں کوئی حرج نہیں اگر بات مماثلت کے طور ہی بیان کی جائے۔
- حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ابلاغیات اور بین الاقوامی سیاست میں مغربی فکری پیراڈائم ہی حاوی ہے ۔ جب ہم حقوق العباد کو مغرب کے فکری پیراڈائم میں بیان کرتے ہیں تو نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسلام مغرب کا خوشہ چیں نظر آتا ہے۔۔ اس طریقے سے اسلام کی نظریاتی شکست صاف طور پر نظر آتی ہے۔ صاف طور پر لگتا ہے کہ ہم معذرت خواہانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔یعنی آپ جب مغرب سے علمی مکالمہ شروع کرتے ہیں تو ابتداء ہی میں ان کے مؤقف کو تسلیم کرچکے ہوتے ہیں۔
- ہیومن رائٹس کی فکری بنیادیں آج کے دور کا بہت بڑا کفر ہے۔ ان فکری بنیادوں کا صاف مطلب یہ ہیومن کو اللہ کی صفت صمد سے متصف کیا جائے اور یہ “انا ربکم الاعلی” کے کفر سے کچھ کم نہیں۔اس دنیا میں ہم کفر کا ابطال بیان کرنے پر مامور ہیں نہ کہ اس کی موافقت کرنے پر۔
- اگر ہم ہیومن رائٹس کے بعض نکات سے مماثلت کی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی توثیق کرتے ہیں تو بہت سارےنکات میں اسلام اور ہیومن رائٹس کے درمیان فرق بھی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہیومن رائٹس کے وکلاء اپنے کفر کی بنیاد پر اسلام کاہی محاسبہ شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اسلام کسی مسلمان عورت کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کافر سے نکاح کرے لیکن ہیومن رائٹس کے مطابق ہر عاقل بالغ مرد عورت کو اپنی پسند سے کسی سے بھی شادی یا سیول پارٹنرشپ کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح ہیومن رائٹس کے مطابق آپسی رضامندی سے زنا کرنا بالکل ہی جائز ہے لیکن اسلام میں یہ گناہ کبیرہ ہے اور اس کے ظاہر ہونے کی صورت میں سنگین ترین سزائیں ہیں۔ انبیاء اور رسولوں کی توہین کرنا ہیومن رائٹس کے مطابق جائز اور اسلام کے نزدیک قابل سزا جرم۔ اب اگر آپ ہیومن رائٹس کی توثیق سے اپنی بات شروع کریں گے تو خود اپنے لئے پھندا تیار کریں گے۔ یا پھر ہمارے بعض مفکرین کے لئے یہ کام آپڑا ہے کہ پورے اسلام کی تشریح کو ہیومن رائٹس کے پیراڈائم کے مطابق کریں۔ نتیجہ یہ ہےکہ آپ کی پوری تاریخ چاہے وہ فتوحات اور جنگوں سے متعلق ہو یا علم و فقہ سے متعلق ہو ظلم اور بربریت کی تاریخ نظر آنی شروع ہوجائے گی۔
- جب مسلمانوں کی نمائندہ شخصیات اور جماعتیں ہیومن رائٹس کی دہائی دیتی ہیں تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایک غلط اور سیکولر فکرکی آبیاری شروع ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ بعد میں جاکر نکلتا ہے۔ ہیومین رائٹس کو حقوق اللہ کے خلاف دلیل کے طور پر بیان کیا جانے لگتا ہے۔ مثلاً مسجد کے مقابلے میں ہسپتال بنانے کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے۔ نماز میں وقت ضائع کرنےکے کے بجائے بندوں کی خدمت کرنے کا مطالبہ آنے لگتا ہے۔ حج اور قربانی کے مقابلے این جی اوز کی تخلیق کردہ انڈسٹری فیلونتھروفی philanthropy میں پیسے لگانے کی بات شروع ہوجاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حقوق العباد کی بحث بھی حقوق اللہ کے تحت ہی ہو۔
- مغرب ہر بات کے لئے اسلام اور دیگر مذاہب سے دلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ مغرب کے پاس اپنے نظریات کے دلیل نہیں بلکہ مفروضہ جات اور مابعد الطبیعاتی عقائد ہیں جس کے جواز کے لئے ان کا اپنا پورا ایک فکری مکالمہ بھی موجود ہے۔ یہ مکالمہ اگرچہ مغرب کے مخصوص فکری دائرے میں بہت کچھ اپیل کرتا ہو لیکن کسی بیرونی فکر کے چیلنچ کا مقابلہ کرنے کی اس مکالمہ کے اندر بالکل ہی صلاحیت نہیں ہے۔ مغربی فکر اپنا جواز اپنی فکر سے ہی دیتی ہے نہ کہ عقل عام کے کسی اصول کے تحت۔ مغرب کی پیش کردہ عمرانیاتی فکر کو قبول کرنے کی صورت میں ہم مغرب کو ایک بہت بڑے ممکنہ چیلنج سے ریسکیو کرنے کے ذمہ دار ہوجاتے ہیں۔
مغرب کے علمی مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پورے علمی اور فکری پیراڈائم میں سے کوئی بھی چیز بلادلیل تسلیم نہ کی جائے۔ اور ان کے ہر میٹافزکس یا مابعد الطبیعاتی مفروضے کو رد کردیا جائے۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کی کی لذت، خواہاشات اور آزادی فی نفسہ مطلوب ہے اور ہر قانون کا مقصد انسان کے اس حق کو تسلیم کروانا ہےتو ہم ان کے اس دعوے کو یک قلم رد کردیں۔ یہ دعوی صرف دعوی ہے اور اس دعوے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ اس کی دلیل ہوہی نہیں سکتی۔اگر انہیں اسلامی قانون پر کوئی بھی اعتراض ہے تو انہیں اس طرح کا اعتراض کرنے کا حق ضرور ہے۔ لیکن یہ بات ان پر بالکل واضح کردی جانی چایئے کہ اگر وہ یہ اعتراض اپنے مابعد الطبیعاتی مفروضے سے اخذ کردہ قانون کی بنیاد پر کرتے ہیں تو ہم ان کے اس اعتراض کو بالکل ہی قابل اعتناء نہیں سمجھتے۔ ان کا اس طرح سے اعتراض کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسیحی ہم مسلمانوں پر اس لئے اعتراض کر رہا ہو کہ ہم عیسی ؑ کو خدا نہیں مانتے۔
ہوتا یہ ہے کہ اسلام کے کسی قانون پر جب بھی اعتراض ہوتا ہے اس میں پہلے ہی سے ہیومن رائٹس کو معیار مان لیا جاچکا ہوتا ہے اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی نہیں جو کھل میڈیا میں ہیومن رائٹس کے اس دین مغرب کا انکار کرے۔ اس لئے اگر متضاد تصورات کے باوجودکہیں پر ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہو تو بھی ہمیں چاہئے کہ اس طرح کے سنجیدہ معاملے میں موافقت کی بنیادپر بات نہ کریں۔
یہ تو رہی اصولی باتیں۔ لیکن اس وقت پوری دنیا کو اس مغربی رائٹس والی فکر نے ہائی جیک کیا ہوا ہے اور مسلمان اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اللہ کے دین کے حوالے سے کسی سے اپنے حق کا مطالبہ کرسکیں۔ مغربی ممالک میں پائے جانے والا مسلمانوں کے حقوق ہوں یا کسی بین الاقوامی فورم میں مسلم اقوام کے حقوق کا مطالبہ ہو ہمارے سامنے مجبوری یہ ہے کہ ہم انہیں باطل ہیومن رائٹس کی بنیاد پر اپنے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔یہ ایک سنجیدہ قسم کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں ہمیں علماء سے راہنمائی لینی ہے۔اس علمی مشکل کے باجود مسلم مفکرین کےلئے ضروری ہے کہ وہ خیر اور رائٹس کے بارے میں جو اصولی اختلافات ہیں اس کا خوب کھول کر اظہار کریں۔ مغرب سے کسی بھی نظریاتی بحث میں یہ بات بالکل ہی واضح کی جانی چاہئے کہ ہم مغرب کی میٹافزکس کو قابل اعتناء نہیں سمجھتے اگرچہ ہم کچھ حقوق کا مطالبہ کرنے میں اسلام اورمغرب کے تجویز کردہ حقوق میں مماثلت پاتے ہوں۔
[1] رائٹس کا سادہ سا اردو ترجمہ حقوق بنتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک حقوق کا اسلامی تصور مغرب کے تصور سے اس اتنا زیادہ الگ ہے کہ ہم نے حقوق کے بجائے انگریزی کا لفظ رائٹس استعمال کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس کی وضاحت مضمون میں آگے آئے گی۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس کا لفظ استعمال کرتے ہوئے مغرب ہیومن کو جن معنوں میں لیتا ہے اس کا ترجمہ انسان کرنا بھی مشکل ہے۔ اسی مناسبت سے مغرب کے ہیومن رائٹس کے لئے حقوق انسانی کا لفظ استعمال کرنے سے احتیاط کی گئی ہے۔
[2] ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی ممالک افغانستان، عراق اور فلسطین وغیرہ میں مسلمانوں کو خود اپنے تجویز کردہ ہیومن رائٹس دینے سے گریزاں ہیں۔ کچھ ایک دانشوروں کو چھوڑ کر عام طور پر مغرب کے مفکرین بلکہ عوام بھی اس بارے میں کچھ زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ انہیں اپنی حکومتوں کے طرز عمل میں کچھ زیادہ برائی نظر نہیں آتی اگرچیکہ وہ اپنی حکومتوں کو ہیومن رائٹس کے چیمپین کے طور پر دیکھنے ہیں۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ مسلمان ان کے بیان کردہ معنوں میں ہیومنز نہیں ہیں یعنی مسلمان اپنے آپ کو ایک آزاد اور قائم بالذات ہستی کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ اور مسلمان اس فکر کی حامل دنیا کی واحد اور سب سے بڑی قوم ہے اس لئے وہ شعوری یا لا شعوری طور پر مسلمانوں کو ہیومن رائٹس کا حقدار نہیں سمجھتے ہیں۔