دورِ
حاضر میں غلو کا شکار لوگوں کے حق میں شاید اس بات کو ایک فتنۂ عظیم بننا تھا کہ:
ان کے انحرافات کی نشاندہی کرنے والوں میں جہاں اصولِ سنت کے ترجمان علمائےحق پائے جاتے تھے اور
نہایت اخلاص کے ساتھ ان کو تنبیہات کرتے تھے… وہاں بلاشبہ ان (غلو
کا شکار طبقوں) کا رد کرنے والوں میں بیک وقت
- مرجئہ بھی پیش پیش تھے
- درباری علماء بھی
- اور جہاد سے بددل کرنے والے طبقے بھی
تاکہ… یہ اِن کے باطل کی آڑ میں اُن کے بیان کردہ حق کو بھی مسترد
کردیں!!!
بلکہ اُن کے بیان کردہ حق کو اِن کے
باطل مقاصد کے ساتھ ہی نتھی کر ڈالیں… اور اُن کی تمام تر فہمائش و نصیحت کو
اِن کے گھناؤنے اہداف ہی کے کھاتے میں ڈال کر ’’اپنے حق پر ہونے‘‘ کے زعم پالتے
اور توانا کرتے جائیں!!!
حالانکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ:
- ناصبیوں کا رد کرنے والوں میں اہل سنت کے علاوہ رافضی بھی ہوسکتے
ہیں؛ بلکہ کسی وقت اہل سنت>>
سے بڑھ کر سرگرم ہوسکتے ہیں۔
- رافضہ کا رد کرنے والوں میں اہل سنت>> کے علاوہ ناصبی بھی پیش پیش ہوسکتے ہیں۔
- قدریہ کا رد کرنے والوں میں اہل سنت>> کے علاوہ جبریہ بھی سرگرم ہوسکتے ہیں۔
- جبریہ کی سرکوبی کےلیے اہل سنت>> کے علاوہ قدریہ بھی متحرک ہوسکتے ہیں
چنانچہ خدا کی جانب سے یہ ایک بڑا دھکہ ہوتا ہے کہ:
- ناصبیوں کی گمراہی دیکھ کر (جوکہ بلاشبہ گمراہی ہے) رافضی اپنی
گمراہی میں اور بھی پکے ہوں!
- رافضیوں کی ضلالت دیکھ کر (جوکہ بلاشبہ ضلالت ہے) ناصبی اپنی
ضلالت میں اور بھی پختہ ہوں!
- قدریہ کے باطل کو باربار نگاہوں کے سامنے لاکر جبریہ کو ’’اپنے
حق پر ہونے‘‘ کا یقین اور بھی پختہ ہو!
- جبریہ کے بھٹکنے کے تذکروں سے (جوکہ بلاشبہ بھٹکے ہوئے ہیں)
قدریہ کو اپنے راہِ راست پر ہونے کا اور بھی وثوق ہو!
وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ
اللَّهِ شَيْئًا
یہ ایک ’’حق راہ‘‘ سے ’’باطل منزل‘‘ پر پہنچنے کی کچھ کلاسیکل
مثالیں ہیں… جن پر آپ فی زمانہ بہت سی اشیاء کا قیاس کر سکتے ہیں۔
آپ نے ’’جذباتیت‘‘، بھڑک اٹھنے اور
’’ردِعمل‘‘ کی ذہنیت پا رکھی ہو، علم میں بھی پختگی نہ ہو،پھر جبکہ آپ کی
مخالفت کرنے والوں میں کچھ طبقے واقعتاً باطل پرست بھی
ہوں… تو آپ کو اپنے بھٹکنے کےلیے کچھ نہایت ’’قوی دلائل‘‘ مل جانے کا امکان
ہوتا ہے… شیطان کا ایک ایسا جال جس میں آپ دھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
|