فیس بک پر ہمارے ہاں ایک عبارت شیئر ہوئی:
جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوا تھا:
’’اصل چیز فی الوقت یہاں استشراق اور استعمار کی کمر توڑنا ہے؛ یہ اگر ہوجاتا ہے تو عالم اسلام پر اُس کی جکڑ آپ سے آپ ڈھیلی پڑتی جائے گی اور تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ آپ یہاں اپنی مرضی کی ایک دنیا کھڑی کرنے کے آزادانہ مواقع پانے لگیں‘‘۔[1]
اس پر کامنٹس میں ایک سوال/اعتراض آیا:
استعمار ، استشراق ، ‘اسلامی’ جمہوریتیں ، مغربی ثقافت کی کمر توڑنا انفرادی یا گروہی سطح پر کیسے ممکن ہے ریاست کی طاقت کے بغیر ۔ آپ چند ہزار کا مجمع لگا کر یا مسجد میں چند سو کو استعمار و استشراق پر تقریر کرکے تو دے سکتے ہیں لیکن ان میں سے چند افراد پر ہی ریاست کے کسی دفتر میں اسشتراق و استعمار مخالف کام پر آمادہ نہیں کر سکتے۔
مناسب معلوم ہوا کہ اس پر کچھ وضاحت سے بات کردی جائے:
برادرم!
اِس ’’نو من تیل‘‘ کے انتظار نے اب تک ہمارا بہت ستیاناس کیا ہے۔ (یعنی اقتدار ہو تو ہم کچھ کریں؛ اور جب تک اقتدار یا ریاستی قوت نہیں تو سب اس کےلیے دہائی دیں!) اِس ’’انتظار‘‘ کے نتیجے میں زمین ہم اسلامی قوتوں کے قدموں تلے سے مسلسل کھینچی جا رہی ہے؛ اور ہم اس عالمی کفر اور اِس جبر و استحصال کے خلاف اپنی ’’مزاحمت‘‘ کے سلسلہ میں مسلسل پسپا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اِس ’’نو من تیل‘‘ والی ذہنیت ہی کو ہم نے اپنی تحریروں میں ’’یوٹوپیا‘‘ کا نام دیا ہے جو امت کو اُس کے ’’آج کے کرنے کے کام‘‘ سے معطل رکھنے کا باعث ہے؛ ورنہ ’’خلافت‘‘ پر ہمارا مکمل ایمان ہے اور ’’انقلاب‘‘ کے ساتھ بھی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔
مختصراً…ہم نے اپنی گفتگو میں پیش قدمی کے دو محاذوں کا ذکر کیا ہے:
- اندرونی سطح پرمغرب کے پروردہ شرک (استشراق اور اس کے سیے ہوئے انڈوں اور چوزوں) کے خلاف ایک عقائدی (نظریاتی) جنگ۔ عالم اسلام کی اِس فکری مزاحمت کو حالیہ مرحلہ میں شرک و توحید کےمابین یہاں ’’کیمپوں کی تقسیم‘‘ اور ایک ’’کھَولتی کشمکش a boiling conflict of ideology بنا دینا ضروری ہے۔ خالص عقیدہ کی جنگ a pure conflict of ideology۔ عین ویسی ہی ایک نظریاتی کشمکش جو رسول اللہﷺ نے (کوئی ’’اقتدار‘‘ رکھے بغیر!!!) ’’ام القرىٰ وما حولھا‘‘ میں کھڑی کردی تھی۔ شرک اور توحید کی یہ وہ جنگ ہے جس کا مضمون قرآن میں دہرادہرا کر بیان ہوا ہے؛ خصوصاً مکی قرآن میں۔ رسول اللہﷺ کا اصل مضمونِ دعوت ظاہر ہے ’’قرآن‘‘ ہے جس کا فوکس ’’شرک اور توحید‘‘ کی جنگ ہے نہ کہ ’اقتدار‘۔ (واضح رہے، ہم ’’فوکس‘‘ کی بات کر رہے ہیں، یہ نہیں کہہ رہے کہ ’’اقتدار‘‘ اسلام میں مطلوب نہیں)
- بیرونی سطح پرصلیبی وصیہونی لشکروں (افواجِ استعمار) کے خلاف ہمارا جو عسکری جہاد ہو رہا ہے (مانند جہاد افغانستان، جہادِ فلسطین، جہادِ عراق ومالی وغیرہ)، اس میں استعمار کی کمر توڑ دینے کےلیے امت کی طاقت اور وسائل کو زیادہ سے زیادہ سے جھونک دینا؛ یہاں تک کہ اس کا خون رِس رِس کر بالآخر وہ اُس پوزیشن کو پہنچ جائے جو آج سے ڈھائی عشرے پیشتر ’’سوویت یونین‘‘ پر آئی تھی اور جس کے بعد اسلحہ کے ڈھیر رکھنے کے باوجود اُس کو اپنی ایسی پڑی کہ وہ ہمارے گھروں میں گھسنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا؛ اور جس کے بعد ہمارے لیے کسی دوسرے محاذ کی جانب رخ کرنا ممکن ہوا۔
ہمارا یہ ثانی الذکر پراجیکٹ (بیرونی محاذ، خصوصاً جہاد افغانستان والا) خاصا اچھا جا رہا ہے؛ جس کے باعث ہم اُس پوزیشن کے نسبتاً قریب ہو رہے ہیں جب ہم اپنے گھر کی تعمیر اپنی مرضی سے کرنے کے قابل ہوں اور مغرب ہماری ان تعمیرات کو توڑپھوڑ دینے کےلیے اپنے بحری بیڑوں کے ساتھ چڑھ دوڑنے سے اچھاخاصا عاجز ہوگیا ہو۔
البتہ جہاں تک ہمارا اول الذکر پراجیکٹ (اندرونی محاذ، معاشرتی سطح پر شرک و توحید کی جنگ) ہے…تو یہاں ہم بہت پیچھے ہیں؛ اور یہاں امت کی بہت سی قوت اور صلاحیت سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کو ہم نے ’’نظریاتی مزاحمت‘‘ کا نام دیا ہے؛ جوکہ اس وقت معاشرتی فورموں پر تقریباً مفقود اور روپوش ہے۔ اگر اس کو اٹھا دیا جائے تو بلاشبہ یہاں ایک ایسا اضطراب برپا کیا جاسکتا ہے جو شرکیاتِ مغرب اور اس کے علمبرداروں کو اپنے طوفانی ریلے میں بہا کر لے جائے۔اس کےلیے لاکھوں کروڑوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی؛ چند ہزار باصلاحیت نفوس بہت کافی ہوتے ہیں۔
کیا آپ کو اندازہ ہے جب کوئی مٹھی بھر جمعیت کسی معاشرے کے اندر پائے جانے والے شرک اور اتباعِ جاہلیت کے خلاف ایک مزاحمت کھڑی کرتی ہے تو اللہ کی مہربانی سے وہ پورے معاشرے کو اپنی زد میں لے آتی ہے؛ اور یہ ’’کشمکش‘‘ تھوڑی دیر میں وہاں پر تبدیلی کی ایک اساس بھی فراہم کرنے لگتی ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ہمیں اپنے معاشرتی فورموں پر ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ملتی ہے:
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مودودی صاحب کی اٹھائی ہوئی نظریاتی مزاحمت ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندر گونجتی سنائی دے رہی تھی اور یہاں ایک سماجی نظریاتی مزاحمت کا سماں بننے لگا تھا، جس کی بنیاد پر یہاں کی پڑھی لکھی دنیا کا ایک عام ’غیرجانبدار مسلمان‘ اِس ’’دو فریقوں کی جنگ‘‘ کی بابت سوچنے پر مجبور ہونے لگا تھا… کاش وہ سلسلہ یہاں کی سیاست کی بےسمتی اور ’مثبت کردار کی تلاش‘ کی نذر نہ ہوتا۔
مگر آج اِن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الو بول رہے ہیں، الحاد دندنا رہا ہے، خال خال کوئی پروفیسر یا کوئی ’’آؤٹ سٹینڈنگ‘‘ طالبعلم ملے گا جو الحاد کا منہ توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حالانکہ ان ثقافتی مراکز میں ’’چڑھ کر بولنا‘‘ ہمیں نظریاتی و ثقافتی طور پر بالادست کر دیتا ہے۔ اقتدار سے محروم ایک جمعیت کو نظریاتی و ثقافتی طور پر زورآور irresistible ہوکر دکھانا ہوتا ہے۔ وہ ایسا کرے تو ہی فکری اشرافیہ intelligentsia میں اس کے عقیدہ کے ہمنوا پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اِس وقت… یہاں کے اونچے عہدوں پر تو کیا، ’’نسبتاً اچھی پوزیشنوں‘‘ پر بھی ایسے باصلاحیت نفوس نہیں پائے جاتے (یا نہ ہونے کے برابر ہیں) جو اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر معاشرے پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت سے مالامال ہوں۔
ہم بالکل جانتے ہیں، کہ اقتدار سے پہلے آپ ’’وسیع تر معاشرے‘‘ greater society کو سدھارنے کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ اس کےلیے نظامِ تعلیم، میڈیا اور انتظامی ادارے آپ کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔ یہ بالکل درست ہے۔ ہم بھی اِس وقت ’’وسیع تر معاشرے‘‘ کو ٹھیک کردینے کی دہائی نہیں دے رہے۔ ہم تو یہاں اُس ’’باصلاحیت اقلیت‘‘ کےلیے رو رہے ہیں جو قوم کے سمجھداروں کی آنکھیں کھول دینے کی صلاحیت سامنے لاتی ہے، جو معاشرتی فورموں پر شرک اور الحاد کے داعیوں کو خاموش کروادینے کی صلاحیت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اور معاشرے پر اثرانداز ہونے والے دماغوں پر اثرانداز ہوجانے کی طاقت رکھتی ہے۔
اس عمل کو اٹھانے کےلیے ہماری نظر میں چند ہزار باصلاحیت نفوس بہت کافی ہیں؛ یہ کام (معاشرے میں شرک اور توحید کی بنیاد پر ایک نظریاتی کشکمش) ایک مٹھی بھر جمعیت بھی کرسکتی ہے جوکہ معاشرے کی کل تعداد کا ایک فیصد بھی ہو یا اس سے بھی کم ہو، تو بہت ہے۔ شرک اور توحید کے مابین ایک نظریاتی جنگ کھڑی کرنے کےلیے آپ کے پاس ’’اقتدار‘‘ ہونا ضروری نہیں؛ خود رسول اللہﷺ کی جماعت نے یہ کام ’’اقتدار‘‘ کے بغیر کر کے دکھایا تھا؛ جس کے نتیجے میں ’’اقتدار‘‘ بھی بالآخر ان کو مل گیا تھا۔ ’’اقتدار‘‘ کا لفظ شاید گن کر دو چار بار اُن (رسول اللہﷺ اور آپؒ کی تحریک) کی زبان پر آیا ہو؛ لیکن ’’اقتدار‘‘ اُن کو مل گیا؛ کیونکہ ’’اللہ کا حق‘‘ صبح شام ان کی زبان پر تھا؛ جوکہ معاشرے کی سرزمین پر پیشقدمی کا اصل راز ہے!!!
(’’اللہ کا حق‘‘: یعنی شرک کی توبیخ اور توحید کی دہائی)
جبکہ اِدھر صبح شام ’’اقتدار‘‘ کا ذکر ہے لیکن اقتدار کو ابھی تک آوازیں ہی دینی پڑ رہی ہیں! ’’اللہ کے حق‘‘ کی بات کرلی گئی ہوتی، جوکہ قرآن اور نبوی دعوت کا مرکزی ترین مضمون ہے، تو کم از کم کوئی ایک بنیادی فرض تو سرے لگتا۔
پس یہ ہیں اس وقت کے ہمارے دو محاذ۔ دو حقیقی محاذ؛ جن پر ہمیں آج ہی پورا اترنا ہے:
- بیرونی سطح پر استعمار کی کمر توڑنا بزورِ شمشیر،
- اور اندرونی سطح پر استشراق کی کمر توڑنا بزورِ قرآن۔
ہمارے بہت سے اجتماعی مقاصد ان شاء اللہ اِسی راستے میں پیش قدمی کرتے چلے جانے سے حاصل ہونے والے ہیں۔ عسکری قوت بھی ہمیں اسی عمل سے حاصل ہوجانے والی ہے اور سماجی پزیرائی بھی۔ اِن دونوں کے اجتماع سے ہم ایک بار پھر دنیا میں سر اٹھانے کے قابل ہوسکتے ہیں اور عالمی منظرنامے پر ایک قوت کے طور پر ظہور کرسکتے ہیں؛ بفضلہٖ تعالیٰ۔ اس کے علاوہ ہمیں اِدھر اُدھر راستے میں کسی چیز سے نہیں الجھنا۔
’اتفاقات‘ سے امید رکھنا البتہ کوئی منہج نہیں۔ ہاں ہوجائیں تو مضائقہ نہیں!
واللہ غالبٌ علیٰ أمرہ۔
[1]یہ عبارت ہمارے اِس شمارہ میں ’’ایقاظ کے فائل سے‘‘.. ’’پیشقدمی کے دو محور‘‘ میں شامل ہے۔