شرح
’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 7
اہل
سنت
’’القاب‘‘.. میں
نہیں الجھتے
بالعموم... ایک فریق اپنے لیے اچھے سے اچھے القاب اور
اپنے زیرعتاب طبقوں کےلیے برے سے برے القاب اور پیرائے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض
نعرے یا دعوے اس کے اپنے افراد کے لاشعور میں
بیٹھ اور زبانوں سے چپک جاتے ہیں۔ ان کو اپنی بابت وہی کچھ ہونے کا ایک یقین سا
ہوجاتا ہے جو کچھ القاب یا نعروں یا دعووں کی صورت ان کے یہاں برس ہا برس دہرایا گیا۔ ’دوسروں‘ کی بابت بھی اس بات کا
ایک یقین سا ہو جاتا ہے جو ان کے بڑوں کے ہاں بڑی دیر تک کہی جاتی رہی!
چنانچہ القاب، لیبل، پیرائے ہی
کہیں پر ’’مدح‘‘ کی بنیاد بن جاتے ہیں تو کہیں پر ’’مذمت‘‘
کی۔ خاص طور پر جب مسئلہ کسی جماعت کے ’عوام الناس‘ کی سطح پر جاتا ہے۔ یہاں تو
آپ دیکھتے ہیں، تعریف اور مذمت ہوتی ہی ’ٹھپوں‘ کی بنیاد پر ہے؛ اور یہی آسان ترین
کام ہے! کیونکہ ’’حقائق‘‘ کی بنیاد پر مدح اور مذمت کرنے لگیں... تو ایک ہی جماعت میں ہو سکتا ہے، ایک آدمی مدح کے قابل نکلے
تو دوسرا مدح کے قابل نہ نکلے۔ دوسری جانب، ایک ہی جماعت میں ہو سکتا ہے ایک
آدمی مذمت کا حقدار ہو تو اس کے ساتھ کھڑے دوسرے آدمی کی مذمت کرنا نہ بنتا ہو۔
پھر یہ بھی ہو سکتا ہے، کوئی
جماعت صدی دو صدی پہلے جہاد یا اصلاح یا ارشاد میں واقعتاً ایک بہترین کردار ادا
کر آئی ہو اور اس کی بنا پر وہ بہت اچھے القاب کی مستحق ٹھہر چکی ہو۔ لیکن بعد کے
لوگ ایک بڑی تعداد میں ’’فَخَلَفَ مِن بَعدِھِم خَلفٌ‘‘ والا نقشہ پیش کرنے لگے ہوں اور محض اپنے پہلوں
کی کمائی پیش کر کے تحسین پا رہے اور ’’یُرِیدُونَ أن یُحمَدُوا
بَمَا لَم یَفعَلُوا‘‘ کا مصداق بن رہے ہوں۔ اکثر جماعتیں، حلقے،
انجمنیں ذرا عرصہ گزر جانے (طَالَ عَلَیھِمُ الأمَدُ) کے بعد ’’گدیاں‘‘ بنتی دیکھی گئی ہیں جبکہ قربانیاں دینے
والا عنصر کسی اور جانب کا رخ کر چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک جماعت یا حلقے کے اندر
کارفرما حقیقتیں متغیرات میں آتی ہیں جبکہ نام، القاب، نعرے اور دعوے ثابت۔
’’ظروف‘‘ وہی، مگر اندر کا ’’مواد‘‘ موسمی تبدیلیوں کے اثرات قبول کرجانے کے باعث
کچھ سے کچھ۔ البتہ ’وابستگیوں‘‘ کا ہالہ دیکھتے ہی دیکھتے ’’عصبیتوں‘‘ میں ڈھل
جاتا ہے۔
اس لحاظ سے لیبل label اور ٹیگ
tag خوش نما مگر زیادہ تر حقیقت سے نظر
کو پھسلانے والی misleading چیز ثابت ہوتی ہے۔ ائمۂ سلف اس سے بہت زیادہ دور رہنے والے لوگ تھے۔
ہمارے ان ائمہ کے نزدیک خود ’’اہل سنت‘‘ کوئی لقب یا
کوئی ’جماعتی نام‘ نہیں بلکہ محض ایک وصف تھا۔ اندلس تا کاشغر، اور ایشیائے
کوچک تا سراندیپ، امت کا ہر وہ آدمی جو کسی بدعتی ہلاکت میں پڑا ہوا نہیں یا کسی منحرف
نسبت کو گلے لگا ئے نہیں پھرتا، ان
کے نزدیک ’’اہل سنت‘‘ تھا۔ ابن عبد البرؓ امام مالک
سے ایک روایت لاتے ہیں:
قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى مَالِكٍ فَقَالَ يَا أَبَا عبد
الله أَسْأَلُكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ أَجْعَلُكَ حُجَّةً فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ
اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ مَالِكٌ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلا
بِاللَّهِ سَلْ قَالَ مَنْ أَهْلُ السُّنَّةِ قَالَ أَهْلُ السُّنَّةِ الَّذين لَيْسَ
لَهُم لقب يعْرفُونَ بِهِ لاجهمى وَلا قَدَرِيٌّ وَلا رَافِضِيٌّ
(الانتقاء في فضائل الأئمة الفقهاء، مالك والشافعي وأبي
حنيفة رضي الله عنهم، مؤلفه: ابن عبد البر. ص 35. ط دار الكتب العلمية)
ایک آدمی امام مالک کے ہاں آیا۔ بولا: ابو عبد اللہ! میں آپ سے ایک مسئلہ
پوچھتا ہوں جس میں میں آپ کو اپنے اور اللہ عزوجل کے مابین حجت بناؤں گا۔ مالک بولے: سب طاقت توفیق اللہ ہی کے اختیار میں
ہے، پوچھئے۔ وہ شخص بولا: اہل سنت کون ہوتے ہیں؟ امام مالک نے جواب دیا: اہل سنت
وہ ہوتے ہیں جن کا کوئی لقب نہ ہو جس سے وہ پہچانے جارہے ہوں، نہ جھمی، نہ قدری
اور نہ رافضی۔
*****
صحابہ میں سے کچھ خوش قسمت ’’السابقون الاولون‘‘ یا
’’مہاجرین و انصار‘‘ وغیرہ کہلائے تو درحقیقت یہ اللہ رب العزت کے بخشے ہوئے
خطابات تھے۔ یا رسول اللہﷺ نے کسی کا
کوئی خاص درجہ رکھ دیا تھا۔ جیسے ’’اہل بدر‘‘۔ یعنی ایک چیز ایک خاص وقت میں ہوئی
اور گزر گئی۔ اس میں لقب یا تمییز کا وہ معنیٰ نہیں پایا جاتا جو لوگوں کو
’شمولیت‘ کےلیے اپنی جانب کھینچنے اور متوجہ کرانے کےلیے استعمال ہوتا ہے۔
اس کے باوجود، جیساکہ شیخ الحوالی نے ذکر فرمایا،
نبوی معاشرے میں احکام اور حقوق و واجبات کے معاملہ میں اِن سب القاب کو کچھ تاثیر
حاصل نہ تھی۔