Hamid Kamaluddin
Eeqaz
“منہج” اور “اصول” اگر آدمی کے متبعینِ سنت والے ہیں، تو پھر ان “اصول” کو لاگو کرنے کے دوران کوئی غلطی کھا جانا اور کسی بدعتی قول کی طرف چلا جانا آدمی کو “مبتدع” نہیں ٹھہراتا؛ ایسا آدمی بدستور اہل سنت شمار ہوگا۔
شرح ’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 8
’’بدعتی‘‘ کسے کہیں گے؟
ایک عام ذہن یہ ہے کہ جس بھی شخص کے ہاں ہم نے کوئی بدعتی بات پائی اسے ’’بدعتی‘‘ جانا.. تاوقتیکہ پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے کہ وہ اپنی اُس بدعت سے تائب ہو جانے کے بعد دنیا سے گیا تھا! وجہ...؟ آپ خود دیکھ لیں، جو بات ہم نے آپ کو اُس کی کتاب یا کیسٹ سے نکال کر دی وہ بدعت ہے یا نہیں!
گویا ہر وہ شخص جو کسی بدعت میں واقع ہوا، بدعت اُس پر واقع ہوگئی! حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بہت سے صالحین، ائمۂ دین کہیں کہیں ایک بدعتی بات کے قائل ہوئے، لیکن اس سے ان کی عدالت اور امامت پر کوئی بھی حرف نہیں آیا۔ [1] یہ موضوع تفصیل طلب ہے۔ یہاں ابن تیمیہ کی چند مختصر تقاریر دی جاتی ہیں:
وَكَثِيرٌ مِنْ مُجْتَهِدِي السَّلَفِ وَالْخَلَفِ قَدْ قَالُوا وَفَعَلُوا مَا هُوَ بِدْعَةٌ وَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ بِدْعَةٌ إمَّا لِأَحَادِيثَ ضَعِيفَةٍ ظَنُّوهَا صَحِيحَةً وَإِمَّا لِآيَاتِ فَهِمُوا مِنْهَا مَا لَمْ يُرَدْ مِنْهَا وَإِمَّا لِرَأْيٍ رَأَوْهُ وَفِي الْمَسْأَلَةِ نُصُوصٌ لَمْ تَبْلُغْهُمْ. (مجموع الفتاوىٰ: ج 19 ص 191)
سلف اور خلف کے بہت سے مجتہدین قولاً اور فعلاً ایسے امور کا شکار ہوئے جو بدعت ہیں۔ وہ یہ نہ جان پائے کہ وہ چیز بدعت ہے۔ اس کی وجہ:
1. یا کچھ ضعیف احادیث، جنہیں وہ صحیح سمجھ رہے تھے۔
2. یا کچھ آیات سے وہ کوئی ایسا مفہوم لے لیتے رہے جو ان آیات کی اصل مراد نہ تھی۔
3. یا کسی ایسی رائے کے باعث جو انہیں صحیح نظر آئی؛ جبکہ اس مسئلہ میں نصوص تھیں مگر ان تک نہ پہنچ پائیں۔
بیہقی، ابو ذر ہروی، ابوبکربن العربی (مؤلف تفسیر احکام القرآن) اور ابوالولید الباجی وغیرہ کے ہاں پائے گئے بعض مقالات کا بدعت ہونا بیان کرنے کے بعد، ابن تیمیہ اپنی تقریر دیتے ہیں کہ: دین میں ان کی خدمات نہایت قابل قدر اور لائق اعتبار ہیں۔ پھر ان کے کئی ایک عذر بیان کرتے اور آخر میں کہتے ہیں:
فقَلَّ من يَسلَم مِن مثلِ ذٰلك في المتأخرين، لِكثرةِ الاشتباهِ والاضطرابِ، وَبُعدِ الناسِ عن نورِ النبوةِ وشمسِ الرسالةِ، الذي بهٖ يحصُلُ الهدىٰ والصوابُ، ويزولُ بهٖ عنِ القلوبِ الشكُّ والارتيابُ. (درءُ تعارض العقل والنقل: ج 2 ص 102 ۔ 103)
متاخرین میں تو بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جو اِن اشیاء سے بچے ہوں۔ کیونکہ (ان آخری ادوار میں) اشتباہ اور اضطراب بہت پایا گیا ہے۔ یہاں لوگوں کو نورِ نبوت اور آفتابِ رسالت سے وہ قربت میسر نہیں تھی جس سے ہدایت اور راستی میسر آتی اور جس سے قلوب پر وارد شبہات اور تردُّد زائل ہوتے۔
کچھ علمی اشکالات کے باعث آدمی سے بعض عبارتیں سرزد ہوجانا اُس کو ’’بدعتی‘‘ نہیں بناتا۔ ’’بدعتی‘‘ ہم ایسے شخص کو کہتے جو کسی ایسے معلوم بدعتی ٹولے کا ہمنوا ہوگیا ہو جس کا ’’بدعتی‘‘ ہونا علماء و ائمۂ سنت کے ہاں معروف ہو۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَالْبِدْعَةُ الَّتِي يُعَدُّ بِهَا الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ مَا اشْتَهَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالسُّنَّةِ مُخَالَفَتُهَا لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: كَبِدْعَةِ الْخَوَارِجِ، وَالرَّوَافِضِ، وَالْقَدَرِيَّةِ، وَالْمُرْجِئَةِ
(الفتاویٰ الکبریٰ: ج 4 ص 194)
وہ بدعت جس کے باعث آدمی اھل الاھواء میں شمار ہوتا ہے، وہ ہے جس کا علمائے اہل سنت کے ہاں کتاب اور سنت سے متصادم ہونا مشہور ہو، جیسے خوارج کی بدعت، یا روافض کی، یا قدریہ کی، یا مرجئہ کی۔
بدعتی ٹولے کا ہمنوا ہوگیا ہو سے مراد: اُس مسئلہ میں بدعتی ٹولے کے ساتھ وابستگی کرلی ہو اور ’’اہل سنت و اتباع‘‘ کے ساتھ اِس مسئلہ پر باقاعدہ تصادم اور مفارقت اختیار کر لی ہو۔ تاہم جہاں وہ سمجھتا ہے کہ ’’اہل سنت و اتباع‘‘ کا اپنا قول یہی ہے، (یعنی اہل اتباع کے ساتھ اپنا متصادم ہونا اس مسئلہ میں آدمی پر واضح نہیں ہوا) تو اسے اہل بدعت نہیں کہیں گے۔ یہ قاعدہ بھی اہل علم کے بیان میں بکثرت ملتا ہے۔
شیخ سفرالحوالی نے یہ مسئلہ اس طرح بیان کیا کہ: اصل دیکھنے کی بات آدمی کے ہاں پایا جانے والا ’’منہج‘‘ اور ’’اصول‘‘ ہے۔ یہ اگر بدعتیوں والا ہے تو وہ بدعت کی راہ پر ہے۔ البتہ ’’منہج‘‘ اور ’’اصول‘‘ اگر آدمی کے متبعینِ سنت والے ہیں، تو پھر ان ’’اصول‘‘ کو لاگو کرنے کے دوران کوئی غلطی کھا جانا اور کسی بدعتی قول کی طرف چلا جانا آدمی کو ’’مبتدع‘‘ نہیں ٹھہراتا؛ ایسا آدمی بدستور اہل سنت شمار ہوگا۔
چنانچہ اصل دیکھنے کی چیز ’’راستہ‘‘ ہے۔ ’’سنت‘‘ راستے میں چلنے والا آدمی کسی اکادکا مسئلہ میں خلافِ سنت چلا جائے تو اُسے ’’بدعتی‘‘ نہیں کہیں گے۔ جس طرح ’’بدعت‘‘ راستہ چلنے والا آدمی چند مسائل میں سنت پر ہو تو اُسے ’’اہل سنت‘‘ نہیں کہیں گے۔
[1] اس سلسلہ میں شیخ البانی کی ایک کیسٹ سے رجوع کرلینا بھی مفید ہوگا: شیخ کی یہ گفتگو ایک نوجوان کے ساتھ ہے جسے اس کے ساتھیوں نے امارات سے اردن شیخ کے پاس یہ پوچھنے کےلیے بھیجا کہ بعض بدعت پر مبنی عبارتیں جو ائمۂ متقدمین مانند نووی، ابن حجر، ابن حزم، ابن جوزی کے ہاں یا معاصرین مانند سید قطب اور حسن البنا رحمہمااللہ کے ہاں مل جاتی ہیں... اس پر ان کےلیے استغفار اور رحمت کی دعاء کرنے کی گنجائش کیسے رکھی جائے! شیخ نے اس کے جواب میں یہی قاعدہ بیان کیا کہ ہر وہ متبع سنت جو کسی ایک آدھ مقام پر بدعت میں واقع ہوجائے بدعتی نہیں ہوتا۔ جیسے ایک نیکوکار آدمی کسی ایک آدھ مقام پر گناہ میں پڑ جانے سے فاسق نہیں کہلاتا۔
حوالہ: کیسٹ سیریز ’’الھدیٰ والنور‘‘، کیسٹ نمبر 666۔ انٹرنٹ پر کیسٹ کا لنک یہاں سے مل سکتا ہے:
http://www.alalbany.me/play.php?catsmktba=15736