شرح
’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 11
بیچ کے طبقے زیادہ سے زیادہ نظرانداز
ان نکات کا لب لباب یہ کہ
اسلامی عمل تین جہتوں میں پورے وثوق کے ساتھ بڑھے:
1.
کفر
کی طاقتوں کے خلاف محاذ اٹھانے پر مسلمانوں کے ہاں ہرگز دو رائے نہ رہیں۔ سیکولر، لبرل، اشتراکیت پرست (یا بعض ملکوں
میں رافضیت) کی ایجنڈابردار قوتوں کے خلاف
پوری قوم کو اٹھا دینےمیں ہرگز کوئی پس وپیش نہ ہو۔
2.
اسلامی قوتوں کو وحدت پر
مجبور کردینے، ان کی پشت پر آنے، اور ان کےلیے معاشرے میں نصرت پیدا کرنے کی ضرورت
پر کوئی اشتباہ نہ رہے۔
3.
بیچ کے طبقوں کو زیادہ سے
زیادہ نظرانداز کرنے کی پالیسی ہو۔ ان کے ساتھ محاذ اٹھانے سے شدید گریز کیا جائے۔
ان کو اسلامی محاذ کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش ہو۔ بصورتِ دیگر ان سے صرفِ نظر
ہو۔ ایسا طبقہ یقیناً بہت زیادہ
ہوگا۔ ان میں سے بہت سے جاہلیت کی اچھی
خاصی آلائش لیے ہوئے ہوں گے۔ بہت سے، ماضی میں کمیونزم یا لبرلزم یا نیشنلزم وغیرہ
ایسی گمراہیوں کے بڑےبڑے علمبردار رہے ہوں گے۔ لیکن اگر اب وہ اسلام کو ایک عمومی
معنیٰ میں اون own کرلیتے ہیں (اگرچہ اسلام کو تفصیل میں جا کر
ابھی نہ سمجھتے ہوں)، اور اپنے اُن باطل عقیدوں اور فلسفوں کو ایک عمومی انداز میں
بھی ڈِس اون disown کرتے ہیں (اگرچہ اس کے بہت سے باقیات اور
تفصیلات سے ابھی بھی ان کی جان نہ چھوٹی ہوگی)... تو بھی یہ اس امر کےلیے کافی ہے
کہ ان عناصر کو اپنے اُن اسلامی پرچموں تلے لے آیا جائے جن کو چلانے والے صحیح
اسلام سے واقف ہیں۔ اگر چلانے والے زیرک ہیں تو یہ ناپختہ لوگ ان شاءاللہ راستے میں سدھرتے چلے
جائیں گے اور ایک وسیع تر اسلامی ریلے کا حصہ بنتے چلے جائیں گے۔
لہٰذا ماضی کے سرخوں، نیشلسٹوں اور لبرلوں وغیرہ سے
یہ چیز مل جانا فی الحال کافی ہے کہ: اُن جاہلیتوں سے یہ ایک اجمالی براءت اور
اسلام سے بطور شریعت اور بطور دستورِ حیات
ایک اجمالی وابستگی کریں۔
نیز معاشرے کے وہ بہت سے طبقے جن کے خیالات جاہلی
اخبارات وجرائد و ذرائع ابلاغ کے زیراثر جدید باطل نظریات کی آلائشوں سے ایک درجے
میں متاثر ہیں، اور یقیناً ایک بڑی خلقت ایسی ہے... ان سے بھی فی الحال یہ چیز مل
جانا کافی ہے، یعنی وقت کے جاہلی نظریات سے ایک اجمالی براءت اور اسلام سے بطور
دستورِ حیات ایک اجمالی وابستگی۔
اگر یہ ہوجاتا ہے تو ان طبقوں کو اپنے دشمن کی صف میں
کھڑا نہ کیا جائے۔ بلکہ
ý
یا ان کو اپنے جھنڈوں تلے
چلایا جائے اور راستے میں ان کے خیالات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی رہے۔
ý
یا اگر یہ ہمارے ساتھ نہ
ملتے ہوں تو، ان کو نظرانداز کیا جائے؛ البتہ الگ سے کوئی فریق نہ بننے دیا جائے۔
حتی الامکان... انہیں مخالف کیمپ میں کھڑا نہ کیا جائے۔
پوری کوشش ہو کہ... فریق یہاں
دو ہی ہوں: اللہ کے دشمن اور اللہ کے دوست۔