شرح ’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 4
"عوام الناس" ہمارے ہیں
ڈاکٹر سفر الحوالی نے اپنی تحریر و تقریر میں اِس
نقطہ کو جابجا واضح کیا ہے۔
عام طور پر یہ
تصویر یوں دکھائی جاتی ہے کہ تقریباً پورا برصغیر ’’ماتریدیہ‘‘ ہے۔ یا ’’المھنَّد علی المفنَّد‘‘ کو
اپنے عقیدہ کے مراجع میں گنتا ہے۔ پورا مصر، شام اور عراق ’’اشاعرہ‘‘ ہے۔ پورا
ترکی اور وسط ایشیا فلاں ٹھپے کا معتقد ہے۔
پورا شمالی افریقہ فلاں لیبل کا حامل ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تم لوگ جس ’اہل
سنت‘ کی بات کرتے ہو، کہ جس میں ’’ماتریدیہ‘‘ اور ’’اشاعرہ‘‘ کی تاویلِ صفات وغیرہ
بھی نہ ہوں، اور فلاں ٹھپے کے فلاں فلاں
خلافِ سنت مسئلے اور فلاں لیبل کے فلاں خلافِ معتقدِ سلف اقوال بھی نہ ہوں... وہ
تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ تمہاری تو یہاں کوئی نسبت ہی نہیں بنتی!شیخ
سفرالحوالی کا کہنا ہے: آئیے یہ تصویر ہم آپ کو دکھاتے ہیں:
یہ ہم
بیان کر چکے کہ فیصلہ ’’ٹھپے‘‘ اور
’’لیبل‘‘ پر نہیں ہوگا۔ وہ تم جتنے مرضی لگاتے رہو ؛ ایجاباً اور سلباً، غیرمؤثر
ہے۔ اصل فیصل یہ ہے کہ کسی آدمی نے ایک باطل اعتقاد کو سوچ سمجھ کر اختیار کر رکھا
ہو۔ تو پھر اب ہم پوچھتے ہیں: برصغیر کے عوام الناس میں کتنے ہیں جو باقاعدہ اپنا
یہ عقیدہ بیان کریں کہ اللہ رب العزت اپنے ’’عرش‘‘ پر نہیں ہے؟ (معاذاللہ)۔ یا یہ
کہ اللہ رب العزت کی ’’رحمت‘‘ حقیقی نہیں ہے بلکہ ’’رحمت‘‘ کا مطلب صرف ’احسان کا
ارادہ کرنا‘ ہے نہ کہ فی الحقیقت مہربان ہونا؟ اور یہ کہ اللہ کا ’’غضب‘‘ حقیقی
نہیں ہے بلکہ ’’غضب‘‘ کا مطلب ہے ’عذاب کا ارادہ کرنا‘؟ کتنے ہیں جو اپنا یہ
اعتقاد بتائیں کہ اللہ کا کسی سے ’’خوش ہونا‘‘ حقیقی نہیں ہے؟ اللہ کا کسی سے
’’ناراض ہونا‘‘ حقیقی نہیں ہے؟ کتنے ہی جو اس چیز کو یاد کرتے اور کراتے دنیا سے
جاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی قبر کا بقعۂ ارضی فضیلت میں کعبے، کرسی اور عرشِ
خداوندی سے اوپر ہے؟ مصر، شام اور عراق کے
عوام الناس میں کتنے ہیں جو اعتقاد رکھیں کہ اللہ اوپر نہیں ہے؟ جو اپنا یہ عقیدہ
بتائیں کہ اللہ کو ’’اوپر‘‘ کہنے سے ’سمت‘ لازم آتی ہے لہٰذا ہم تو خدا کےلیے
’سمت‘ بیان کرنے کا گناہ نہیں کریں گے! جو یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ کا کسی سے
’’محبت‘‘ کرنا حقیقی نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اور اب ہم آپ سے پوچھ لیتے ہیں کہ: برصغیر، مصر، شام، عراق اور شمالی افریقہ کے یہ
جو ’’عوام المسلمین‘‘ کے ٹھٹھ ہیں ان میں سے اللہ کے فضل سے کتنے ہیں جو اللہ کے
کسی سے ’’خوش ہونے‘‘ کو ’’حقیقی خوش ہونا‘‘ ہی مانتے ہیں؟ جو اللہ کے ’’غضب‘‘ کو
’’حقیقی غضب‘‘ ہی مانتے ہیں؟ جو اللہ کی رحمت کو ’’حقیقی رحمت‘‘ ہی مانتے ہیں؟ جو
یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ اپنے نیک بندوں سے فی الحقیقت ’’محبت‘‘ کرتا ہے... اور
ان صفات کی وہ فلسفیانہ توجیہات جو اشاعرہ اور ماتریدیہ کے ہاں ایک درجہ پر جا کر
کروائی جاتی ہیں، یہ سب ان توجیہات کو ہکابکا ہو کر ہی سنتے ہیں۔ تو پھر یہ ’’عوام الناس‘‘ ہمارے ہوئے یا
تمہارے؟ حق یہ کہ ’ٹھپے‘
تمہارے اور ’’لوگ‘‘ ہمارے!
یہ کلامی
بحثیں اور پیچیدہ نکتے تو یہاں کے خطیبوں اور داعیوں کے علم میں نہ ہوں گے کجا
’’عوام الناس‘‘؟!
اور یہ
کلامی نکتے تو علماء کو مشکل سے سمجھ آتے ہیں!
اس لحاظ سے؛ ہم کہیں گے، برصغیر میں "ماتریدیہ"
چند سو نکل آئیں اور مصر و شام میں "اشاعرہ"
چند سو سے بڑھ جائیں تو بڑی بات ہے؛ یعنی آٹے میں نمک کے برابر۔
بلکہ
شیخ سفرالحوالی متقدمین ائمہ اہل سنت سے استشہاد کرتے ہوئے، ایک قدم اور آگے بڑھتے
ہیں، اور اہل سنت کا یہ اصیل مبحث سامنے لاتے ہیں کہ:
عقیدۂ
سلف کی خاصیت یہ ہے کہ نصوصِ کتاب و سنت کو ان کے فطری معانی پر باقی رہنے دیا جائے۔
چنانچہ ’’ایمان‘‘ کی جو حقیقتیں کتاب اور سنت کے اپنے الفاظ میں آگئی ہیں وہ خود
ہی لوگوں کے اذہان کی بےساختہ تشکیل کرجاتی ہیں۔ اس میں جب تک آپ کچھ ’مزید‘ نہ
کریں تب تک آپ کا وہ ’مزید‘ انہی الماریوں میں دھرا اور گاہےگاہے کی انہی بحثوں
میں پڑا رہتا ہے؛ جبکہ لوگ اُس ’’فطرت‘‘ اور ’’بےساختہ معانی‘‘ پر باقی رہتے ہیں جو خالق کی پہچان کی بابت قلوب میں ودیعت کیے گئے ہیں اور جن
کی مدد سے وہ نصوص میں بیان ہونے والی ’’ایمان‘‘ کی حقیقتوں کو کسی تکلف کے بغیر
لیتے ہیں۔ اس لیے یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کان میں خالق کا اپنا کلام یا اُس کے رسولؐ کا
اپنا بیان کم پڑا ہو (اور اس معنیٰ میں تو ضرور ہم مانیں گے کہ کسی خطے میں اہل سنت
کا کام بہت پیچھے ہو) لیکن ’’کان‘‘ کی اپنی وہ طبعی استعداد ’’تبدیل‘‘
بہرحال نہیں ہوئی ہوتی۔ اس میں جتنا سا کتاب اور سنت کا کلام پڑا ہےوہ اپنی اصل
حالت پر ہے؛ اور
’’اہل سنت‘‘ ہونا یہی ہے۔
یہاں
شیخ سفر وہ ’’فطرت‘‘ والی دلیل لےکر آتے ہیں جو احادیث میں مذکور ہوئی: (کل
مولود یولَد على فطرۃ الإسلام)۔ یعنی
ہر مولود
اسلام کی ’’فطرت‘‘ لے کر دنیا میں آتا ہے؛ جب تک ’’ماحول‘‘ اس کو ’’تبدیل‘‘
نہ کردے وہ ’’فطرت‘‘ اپنی جگہ باقی رہتی ہے۔ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ عقیدہ کے کسی مخصوص ’’ورژن‘‘ نے اذہان کو ’’تبدیل‘‘ کتنا کیا ہے؛
کیونکہ اگر ایک واضح ’’تبدیلی‘‘ ثابت نہ ہو تو وہ چیز اپنی ہی اصل پر باقی تصور ہوگی۔
اب چونکہ "ایمان"
جو کتاب اور سنت میں آیا وہ تو اِس "فطرت" کو تبدیل نہیں کرتا بلکہ اِس
کو آسودہ کرتا اور اِس کو طبعی حالت پر برقرار رکھتے ہوئے اِس کی نشوونما کرتا ہے..
اور چونکہ سلف کا
طریق "ایمان" کے اِن حقائق کو جو کتاب اور سنت میں بیان ہوئے ان کے
"فطری معانی" پر باقی رکھنا اور ان میں کوئی "تصرف" کرنے سے
گریز کرنا ہے... لہٰذا کسی بھی معاشرے کے سادہ لوح "عوام
المسلمین" کو ہم اصالتاً by-default اشاعرہ
یا ماتریدیہ نہیں مانیں گے۔
معاملے
کی ترتیب یوں نہیں ہوگی کہ: ایک علاقہ کے عامۃ المسلمین عقیدہ کے کسی مخصوص "ورژن"
پر مانے جائیں تاوقتیکہ ان میں سے کسی شخص کا، عقیدہ کے اُس مخصوص ورژن سے "دستبردار"
ہو کر راہِ سنت پر آنا، پایۂ ثبوت کو
نہ پہنچ لے!
بلکہ
ترتیب یہ ہوگی کہ: یہ "عوام المسلمین" اپنی اسی فطرت پر سمجھے جائیں
جوکہ راہِ سنت کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہم آہنگ ہے (یعنی نصوص کا ایک بےساختہ
مفہوم لینا)...تاوقتیکہ ان میں سے کسی شخص کا اِس فطرت سے "دستبردار"
ہو کر عقیدہ کا کوئی مخصوص ورژن شعوری طور پر اختیار کر لینا پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ لے۔
یہاں
فیصلے لیبل
نہیں کریں گے بلکہ وہ حقائق کریں گے جو لوگوں کے اذہان میں بےساختہ
بولتے ہیں۔ پس ہمارا بہت سارا کام "فطرت"
نے خود کر دیا ہوا ہے؛ لہٰذا یہ
"عامۃ المسلمین" درحقیقت ہمارے ہیں اور ہم ان کے۔ خواہ ’لیبل‘ لگا
رکھنے والے حضرات جو مرضی کہیں۔ یہ "عوام المسلمین" اللہ اور اُس کے
رسول کی چیز ہیں خواہ خیال کرنے والے ان
کو کچھ بھی خیال کرتے پھریں۔