شرح
’’تعامل اہل قبلہ‘‘ 9
اعلیٰ
انسانی رویوں کا مالک ہونا
اہل سنت کے اہم ترین اوصاف میں آتا ہے
خداترسی اور انسان دوستی دنیا
میں کہیں آپ کو مجتمع نہ ملے گی سوائے انبیاء کے سچے پیروکاروں
کے یہاں۔ ’’اصولِ سنت‘‘ انہی دو خوبیوں کا سنگم ہے؛ اور یہ قِران السعدین کہیں
اور نہیں پایا جاتا۔ ’’اعلیٰ بےساختہ انسانی رویے‘‘ صرف اسلامی عقیدہ کی ڈالیوں پر نمودار ہونے والی چیز ہے۔ ’’اسلامی تصورِ عبادت‘‘
کا یہ میٹھا پھل عرصۂ دراز تک ہمارے یہاں وافر پایا جاتا رہا؛ جس سے ہماری
تہذیب جہان بھر کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی رہی۔
ہندو، مجوسی، سکھ، عیسائی، یہودی ہمارے عدل میں آسودگی پاتے۔ اپنے راجوں مہاراجوں کو چھوڑ کر ہمارے سائے میں آ بسنا ان کےلیے
زیادہ باعث سکون تھا۔ نہ صرف خلفائے
راشدین بلکہ ہمارے سلاطین کی صدیوں یہ پہچان رہی۔
سفرالحوالی کا کہنا ہے، ہماری
تحریکوں کو یہ بلندیاں آج پھر سر کرنا ہیں ۔ اپنے
اِس اِمیج image کی بحالی ہماری ترجیحات میں بہت
اوپر ہونی چاہئے۔ اس کو یقینی بنانے کےلیے آج ہمیں بہت آگے تک جانا ہوگا۔ ہمارا یہ
ڈراؤنا اِمیج کہ وقت کا انسان اس میں اپنے لیے ایک خوف اور عدم تحفظ محسوس کرے...
یہ ہماری ایک نہایت غلط اور گمراہ کن تصویر ہے؛ اور ہمارے لیے لمحۂ فکریہ۔
کجا یہ کہ... کافر تو کافر،
مسلمان ہی آپ کے ہاتھوں خود کو غیرمحفوظ سمجھے؛ خصوصاً کسی ایسی کارروائی سے جو اس
کے خلاف ’بحقِ عقیدہ‘ انجام دی جائے گی!
کیامعلوم کون کس کی نظر میں ’کافر‘ ٹھہرے اور اس کا جان مال مباح!
امت میں تیزی کے ساتھ پھلتے اِس
وقت کے یہ ’’تکفیری‘‘ رجحانات بےشمار پہلوؤں سے ہمارے وجود اور ہمارے اِمیج کو
برباد کر رہے ہیں۔ ان کا سدباب ہونا وقت کے اہم فرائض میں سے ایک فرض ہوگا۔
*****
’’کفر اور اسلام‘‘ کا فرق رکھنے
کے باوجود... نیز نبیﷺ کی جانب سے کسی قسم کی ڈھیل اور مداہنت نہ ہونے کے باوجود...
ہم دیکھتے ہیں، مدینہ میں یہود کا آپﷺ کے ہاں بےتکلفانہ آنا جانا رہتا ہے۔ پھر
رسول اللہﷺ کا بہت سے موقعوں پر یہود کے ہاں تشریف لے جانا، ’’دین‘‘ پر کھل کر بات
کرنا اور انہیں کھل کر بات کرنے کا موقع دینا، لیکن یہود کے ساتھ ایک بھرپور سماجی
زندگی کو پھر بھی معطل نہ ہونے دینا، باوجود اس کے کہ اُن کی جانب سے قدم قدم پر
شرارتیں بھی ہو رہی تھیں اور سازشوں کا بھی بازار گرم تھا... حق یہ ہے کہ یہود کے
ساتھ نبیﷺ کے اِس تعامل میں ہمارے دیکھنے اور سمجھنے کےلیے بہت کچھ ہے۔
اس کی ایک جھلک ہم نے احمد دیدات اور ذاکر نائیک
وغیرہ ایسے داعیانِ اسلام کے ہاں آج بھی دیکھی
ہے۔ کفار کے ساتھ میل جول کو ختم نہ ہونے دینا، مکالمہ کے دروازے کھلے
رکھنا اور اس کے نفسیاتی وسماجی دواعی کو زندہ رکھنا بوجوہ ضروری ہے۔ دنیا
میں متلاشیانِ حق اور جویانِ خیر ہمیشہ کی طرح
آج بھی ہمارے پاس پہنچیں اور وہ ’’حق‘‘ اور ’’خیر‘‘ ان کو صرف ہماری
’کتابوں‘ اور ’باتوں‘ میں نہیں بلکہ ہمارے ’’چہروں‘‘ اور ’’رویوں‘‘ میں بھی وافر
ملے، اِس کے بہت سے نفسیاتی انتظام یہاں پر مفقود ہیں۔