آج کا ’’آئین‘‘ محض انتظامی شیڈولز کا نام نہیں ہے
ذیلی مبحث 1: تعلیق 19[1]
آج کا ’’آئین‘‘
محض انتظامی شیڈولزschedules کا نام نہیں ہے!
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ:
وہ چیز جسے انسان ساختہ ’آئین‘ یا
’کانسٹی ٹیوشن‘ کہا جاتا ہے، وہ صرف اُن اقوام کی ضرورت ہوسکتی تھی جن کے پاس
’’شریعت‘‘ نہیں ہے۔ ’’شریعت‘‘ کے ہوتے ہوئے ’آئین‘ اور ’کانسٹی ٹیوشن‘ کی ضرورت
جپنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو ’’شریعت‘‘ کے معنیٰ سے ناواقف ہیں۔ ’’شریعت‘‘ کا
اپنا مطلب ’’دستور‘‘، ’’آئین‘‘ اور ’’قانون‘‘ کے سوا آخر کیا ہے؟
تو یہاں عموماً ایک اشکال پیش
کر دیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ:
جناب آپ سمجھے نہیں کہ ’’آئین‘‘ہوتا
کیا ہے۔ آپ آئین پڑھکر دیکھیں، اس میں مرکزاورصوبوں کے مابین تعلقاتِ کار کا بیان
ہوتا ہے۔ وزارتوں کی تقسیم، بجٹ اور آڈٹ سے متعلقہ امور، افسروں کی بھرتی،عدالتوں
کا نظامِ کار، افواج کی تشکیل اور سپہ سالاروں کی تعیناتی، پولیس اور دیگر سیکورٹی
اداروں کی تنظیم۔ غرض ایسی بےشمار اشیاء ہوتی ہیں۔ یہاں آپ کیسے کہہ دیتے ہیں کہ
شریعت کے ہوتے ہوئے انسان ساختہ آئین کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا مرکز اور صوبوں کے
مابین تعلقاتِ کار،وزارتوں کی تقسیم، بجٹ، آڈٹ اور عدالتوں کا نظامِ کار وغیرہ
ایسی اشیاء کی تفصیلات شریعت نے انسانوں پر چھوڑ نہیں دی ہیں؟ ان معاملات میں
شریعت کی نصوص کو ہی کافی قرار دینا کیا عجیب مذاق ہے؟
ہماراجواب:
بلاشبہ ’آئین‘ میں انتظامی امور سے
متعلقہ اشیاء بھی ہوتی ہیں۔ اور اِن معاملات کی حد تک، ظاہر ہے ایک فاتر العقل شخص
ہی یہ کہے گا کہ وزارتوں اور محکموں کی تقسیم و درجہ بندی، یا مرکز اور صوبوں کے
مابین وسائل کی تقسیم یا تعلقاتِ کار یا افسروں کی بھرتی یا نظام العمل وغیرہ ایسی
اشیاء کی تفصیلات لازماً آیتوں اور حدیثوں میں ہی تلاش کی جائیں! یہ اِشکال جن
طبقوں کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے ان حضرات کو ہم کہیں گے کہ دراصل آپ نہیں سمجھے
کہ ’’شریعت‘‘ کیا ہوتی ہے یا شاید آپ جاننا نہیں چاہتے کہ آپ کے ’آئین‘ پر ہمارا
اصل اعتراض ہے کیا۔
آئین کا ایک حصہ بےشک وہی ہے جس کا
مذکورہ بالا اِشکال میں ذکر ہوا۔ سلطنت کے انتظامی ڈھانچے سے متعلقہ اصول
و ضوابط پر دستاویزات بنانے اور رکھنے پر شریعت اور اہل شریعت کو بھلا کیا مسئلہ
ہو سکتا ہے۔ شریعت نے اِن امور کو جب چھوڑ ہی انسانوں پر دیا ہے تو پھر
انسانوں کے ان اشیاء کو طے کرنے، اپنے پاس لکھ رکھنے، اور بوقت ضرورت ان میں کوئی
ترمیم کرلینے پر شریعت کو کیوں کوئی اعتراض ہونے لگا؟ ’’آئین‘‘ کے یہ انتظامی
جوانب administrative aspects
یہ دوتہائی اکثریت سے طے کریں یا سادہ اکثریت سے؛ یہاں ہمارا کوئی اعتراض نہیں۔
البتہ آئین کے اِس حصے کو دکھا کر
’’آئین‘‘ کے اُس پورے تصور کو ہضم کروانے کی کوشش کرنا جو جدید دنیا کے اندر معروف
ہے، کسی شعبدہ بازی سے کم نہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ایک قوم کی اجتماعی
زندگی کے اکثر راہنما اصول اس کے ’’کانسٹی ٹیوشن‘‘ کے اندر سموئے ہوتے ہیں۔
اختیارات کا پورا نقشہ ’’کانسٹی ٹیوشن‘‘ کے اندر دے دیا گیا ہوتا ہے۔ ’’اختیارات‘‘
کے اسی نقشے کی روشنی میں خالق اور اس کے نازل کردہ احکام کا ’’آئینی‘‘ اسٹیٹس اور
ان کی پابند کُن binding
یا غیرپابندکُن non-binding
حیثیت بھی خودبخود متعین ہوجاتی ہے۔ ’’پابندیوں‘‘ اور ’’آزادیوں‘‘ کا پورا نقشہ
درحقیقت دستورِ مملکت ہی سے نکالا جانا ہوتا ہے۔آئینی مباحث کا یہ وہ
ایریا area ہے جو درحقیقت شرائع کے طے کرنے کا ہے۔ اِس ایریا میں شرائع کو حاکم بن کر
رہنا ہوتا ہے اور اس سے متعلقہ تمام احکام صرف اور صرف شریعت کے الفاظ اور
دلالتوں سے ہی لیے جانے ہوتے ہیں نیزشریعت ہی کو اِن احکام کے معاملہ
میں ’’حوالہ ‘‘ reference رہنا ہوتا
ہے۔ ہم موحدین کی سب بحث اور ہمارا سب نزاع دراصل دستور کے اِن جوانب سے
ہوتا ہے۔
پس ہمارا یہ کہنا دراصل اِن حوالوں سے
تھا کہ ’’آئین‘‘ وضع کرنے کی ضرورت اُن اقوام کو ہی ہو سکتی ہے جو ’’شریعت‘‘ سے
تہی دامن ہیں۔
رہ گیا خالص انتظامی عمل administrative
side of enacting a constitutional document
تو شریعت کے تابع رہتے ہوئے subject to the Shariah یہ آپ جتنے مرضی اور جیسے مرضی بنائیں، اہل شریعت کو اس پر ہرگز
کوئی اعتراض نہ ہوگا (’’آپ‘‘ سے مراد: امت کے اہل حل و عقد)۔ حیرت کی بات البتہ یہ
ہے کہ آپ کے آئین کے نہ تو اصولی جوانب اور نہ ہی انتظامی جوانب کچھ بھی subject
to the Shariah
قرار نہیں دے رکھا گیا۔ ’’قانون‘‘ کے حوالے سے تو ایک بےضرر سا تکلف کرلیا گیا کہ
قانون کتاب و سنت کی تعلیمات کے منافی نہ بنایا جائے گا (گو آئین کےاسی چیپٹر میں
آگے جاکر اس کےلیے ڈھیر سارے چور دروازے رکھ لیے گئے)۔ اور گو ’’قانون‘‘ کے معاملے
میں بھی یہ خوئے بندگانہ اختیار نہ کی گئی کہ خود کتاب و سنت کی تعلیمات
ہی کو قانون مانا جائے اور نصوصِ کتاب و سنت سے ہی سب احکام اخذ کیے جائیں (اس
پر بات کسی اور مقام پر ہوگی)۔ تاہم ’’آئین‘‘ کے معاملہ میں تو رسماً بھی کوئی
ایسا تکلف نہیں کیا گیا۔
[1]بسلسلہ تعلیق 19
’’شریعت بذاتِ خود دستور ہے‘‘۔ حاشیہ 4