صاحبو! یہی ایک موقع ہے!
ایک
دانا نے کسی بھلےمانس کو غفلت اور زیاں میں دھنسا ہوا پایا... تو اس سے کہا: برخوردار! کیا
تم اپنی اِس حالت کو موت کےلیے درست پاتے ہو؟
اس نے
جواب دیا:
نہیں، اِس حالت میں تو میں یہ جہان نہیں چھوڑوں
گا۔
فرمایا:
یعنی اِس جہان سے توبہ تائب ہو کر ہی جانا چاہتے ہو؟
کہا: جی
ہاں، اس کے بغیر تو معاملہ خراب ہے۔
پوچھا: تو
کیا اپنے نفس کو ابھی اِسی لمحے توبہ کےلیے آمادہ پاتے ہو؟
وہ شخص
بولا: ابھی تو نہیں، البتہ کسی نہ کسی وقت توبہ کا ارادہ ہے!
بزرگ نے
پوچھا: تو کیا تمہارے علم میں کوئی اور جہان بھی ہے جہاں تم خدا کو خوش کرجاؤ؛ اور
اس کے بعد اُس کے ابدی جہان میں جا پہنچو؟
وہ شخص
بولا: نہیں ،جہان تو یہی ایک ہے۔
بزرگ نے
پوچھا: تو کیا تمہارے دو نفس ہیں؛ کہ ایک نفس اگر مر کر یہاں سے چلا بھی گیا تو
دوسرا نفس نیک عمل کرتا رہے گا؟
وہ شخص
بولا: نہیں، نفس تو یہی ایک ہے۔
بزرگ نے
پوچھا: تو کیا موت سے کوئی یقین دہانی
حاصل کر رکھی ہے کہ وہ اچانک تمہارے ہاں پھیرا نہیں لگا لے گی؛ اور وہ ’’ابدی
جہان‘‘ جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں، تمہارے سامنے یکلخت آکھڑا نہیں ہوگا؟
وہ شخص
بولا: نہیں، یقین دہانی تو کوئی نہیں۔
تب وہ
بزرگ بولے: برخوردار! پھر تو کوئی عقلمند تمہاری اِس حالت پر رہنے کا خطرہ مول نہ
لےگا۔ (التبصرۃ لابن جوزی 2: 86)
تو بھائی! دنیا بس یہی ہے جو تم
نے دیکھ لی! ایسے ہی دن، ایسی ہی راتیں، ایسی ہی گرمیاں، ایسی
ہی سردیاں، ایسی ہی بہاریں، ایسی ہی خزائیں، ایسے ہی رمضان، اور ایسا ہی ایک کے بعد ایک
نیا سال! اِس کے سوا یہاں کیا ہے جس کی آس میں رہا جائے؟ ایسے ہی دنوں، ایسی ہی سردیوں اور گرمیوں اور ایسے ہی رمضانوں میں
ایک ابدی جہان کی طلب کرسکتے ہو تو کرلو؛ یہاں اور کچھ نیا نہیں۔ کچھ نیا رہ گیا ہے تو وہ صرف ایک چیز: کوئی
ایسی گرمی، کوئی ایسی سردی، کوئی ایسا سال،
کوئی ایسا رمضان، کوئی ایسا دن، جب تم اِس دنیا میں نہیں پائے جاؤ گے!!!
خدا کے ساتھ معاملہ درست کرنے کے یہ ایام جو تمہیں حاصل ہیں، یہ تو اب نئے نہ ہوں
گے؛ کوئی اور دن، کوئی اور سال، کوئی اور رمضان تمہیں ملے گا تو وہ بھی ایسا ہی
ہوگا جیساکہ یہ! اب تو کوئی ایسا رمضان ہی باقی ہے جو تمہیں نہ ملے اور تم اُس
کو نہ ملو! تو پھر وہ چیز تو بہت بھیانک ہے جس کا تمہیں ’’انتظار‘‘ ہے!
*****
جیساکہ ہم پہلے ایک مضمون میں کہہ آئے، معمولات کو
توڑنا زندگی کی ایک نئی جہت پانے کےلیے ضروری ہے۔ رمضان اِس چیز کے کئی ایک مواقع
خودبخود لےکر آرہا ہے۔ یہاں ہم بطورِ خاص تائب ہونے کا مطلب بیان کریں گے۔ نیز رمضان میں شعائر خداوندی کی جو ایک خصوصی تعظیم ہوتی ہے۔ اور آخر میں بندگی کے اس اصل جوہر پر روشنی ڈالیں گے جو رمضان کی اس ساری محنت سے آدمی کو فی الحقیقت برآمد کرنی ہوتی ہے۔ دیکھیے اس کتابچہ کی آئندہ فصول۔