محمد قطب کی اپنی ایک تحریر:
ایک دوست نے جو میرے ساتھ ایک ہی جگہ (ادارہ ثقافتِ عامہ ، مصر) کام کرتا رہا ہے، ایک مستشرق سے اپنی ایک بار کی ملاقات کا احوال مجھے سنایا۔ یہ مستشرق ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں قاہرہ کے دورے پر آیا تھا۔ اس نے میرے اس دوست سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت سے سوال پوچھے اور مسلمانوں کے ہاں پائے جانے افکار کی بابت کچھ استفسارات کئے۔ دورانِ گفتگو، مستشرق اس سے میرے بارے میں پوچھنے لگا: ’’کیا فلاں شخص کو جانتے ہو‘‘؟ میرے دوست نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس سے پوچھنے لگا: ’’کیا وہ الازھر کا پڑھا ہوا ہے’’؟ دوست نے جواب دیا: ’’نہیں، وہ قاہرہ یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے پڑھا ہے‘‘۔ اس پر وہ اپنی حیرانی بلکہ نا پسندیدگی چھپائے بغیر نہ رہ سکا کہ قاہرہ یونیورسٹی کا انگریزی ڈیپارٹمنٹ جو کہ بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہاں چوٹی کے سیکولر پیدا کرے جو اس ملک میں رہتے ہوئے یہاں مغرب کی طرح سوچیں اور مغربی طرزِ زندگی کا ایک عکسِ جلی نظر آئیں…. اس ڈپارٹمنٹ کا پڑھا ہوا دینی ایشوز پر کس طرح جتا ہوا ہے اور اسلام کے موضوعات پر لکھتا ہے!
اس کے بعد وہ میری تحریروں پر تنقید کرنے لگا، خصوصا میری کتاب ’’شبهات حول الاسلام‘‘ پر۔ سب سے زیادہ وہ اس بات پر تلملا رہا تھا کہ میں مغرب کی مادیت پر کس طرح تنقید کرتا ہوں اور مغرب کی مادی تہذیب پر، جوکہ روح سے خالی ہے، کس انداز میں چڑھائی کرتا ہوں۔ اسی تنقید کی رَو میں وہ میرے دوست سے کہنے لگا: ’’اچھا تو تم لوگوں نے اپنی روحانیت کے بل بوتے پر کیا کرلیا؟ البتہ ہماری مادی ترقی اگر نہ ہوتی تو تمہارا جینا ہی آج دشوار ہوتا‘‘! میرے مرحوم دوست نے اس پر اس کی تصحیح کی: ’’مگر وہ (محمد قطب) تو یہ کہتا ہے کہ اسلام صرف روحانیت نہیں۔ اسلام تو ہے ہی اس حقیقت کا نام جہاں عالمِ مادہ و عالمِ روح یکجا ہو جاتے ہیں۔ وہ تو اس بات کا داعی ہے کہ ان دونوں ہی میدانوں میں مسلمان بیک وقت سرگرمِ عمل ہو‘‘۔ مستشرق کہنے لگا:’’مگر تمہارے ہاں حقیقتِ حال جو اس وقت پائی جاتی ہے وہ تو کچھ اور کہتی ہے‘‘۔ میرے دوست نے میرے بارے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا:’’اُس کی فکر کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں پائی جانے والی آج کی جو حقیقتِ حال ہے وہ حقیقتِ اسلام سے ایک بڑا فاصلہ اختیار کر گئی ہے‘‘۔ اس پر تو مستشرق اپنا آپ ضبط ہی نہ کرسکا۔ جوش میں کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کہنے لگا: ’’اچھا! تو وہ یہ کہتا ہے؟!! کہاں کہا ہے اس نے یہ؟؟‘‘ میرے دوست نے جواب دیا: ’’اپنی کتاب ھل نحن مسلمون ؟‘‘ میں۔ اس پر مستشرق نے پسپائی اختیار کرلی اور کہنے لگا: ’’یہ ایک خطرناک جہت ہے‘‘۔
از کتاب: هَلُمُّ نَخْرُج مِن ظُلُمات التِّيْه