مغرب سے درآمدشدہ اِس ماڈرن سسٹم کو آپ نے دیکھ رکھا ہے… یہاں ایک ہی وقت میں کتنے کتنے لوگوں کو ’ووٹ‘ ڈالے جا رہے ہوتے ہیں، آپ کے سامنے ہے۔ دس دس، پچاس پچاس امیدوار کیا ایک ہی وقت میں ’ووٹ‘ وصول نہیں کر رہے ہوتے؟
جبکہ ہمارے اسلامی ادوار میں… ایک ہی وقت میں کتنے لوگوں کی ’’بیعت‘‘ کی جا رہی ہوتی تھی؟ کچھ یاد ہے؟؟
شرعاً اِس بات کی کہاں تک گنجائش ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی کئی لوگوں کو عوام سے ’’بیعت‘‘ مل رہی ہو؛ یعنی کوئی کسی کی ’’بیعت‘‘ کررہا ہو تو کوئی کسی کی؟!
کیا اِس ایک ہی بات سے واضح نہیں ہوجاتا… کہ ’ووٹ‘ کوئی اور چیز ہے اور ’’بیعت‘‘ کوئی اور چیز؟
دونوں کے مابین زمین آسمان کا فرق۔ لیکن اِس ’دیسی مکینک‘ ذہنیت کا کیا کیاجائے جو کہیں کا پرزہ کہیں جڑ دیتی ہے! چونکہ شکل سے دونوں ’’پیچ‘‘ ہی نظر آتے ہیں اس لیے جہاز کی چیز موٹر کار میں جڑ دو۔ موٹر کار کی چیز چھکڑے میں فٹ کرلو؛ اور اِس ’تخلیقی کاوش‘ پر لوگوں سے داد بھی طلب کرو! کرنے کو کیا نہیں ہوتا؛ یہاں جو مرضی کرلو اور جو مرضی ’بنا‘ لو۔ چلتی کا نام گاڑی؛ خواہ و ہ جیسے بھی چلے اور ’جدھر کو‘ بھی چلے! اِس کا نام ’اجتہاد‘ ہے جو بڑے عرصے سے عالم اسلام میں مفقود تھا!
ووٹ اور بیعت کو ایک قرار دینا!!! باقاعدہ سوال اٹھانا کہ حضرت دونوں کے مابین ایسا کونسا بڑا فرق ہے!!!
بنیادی طور پر ہم اپنی شرعی اشیاء کا موازنہ مغربی مصنوعات کے ساتھ کرنا ہی نادرست جانتے ہیں؛ دونوں کا الگ الگ جہان ہے اگرچہ ان کی جزئیات میں کہیں پر کچھ مماثلت ہی کیوں نہ دکھائی دے۔تاہم چونکہ ہمارے کچھ ’محققین‘ مغرب کے ووٹ اور ہم مسلمانوں کی بیعت کو خلط کر رہے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بیعت سے متعلق کچھ بنیادی امور واضح کردیے جائیں؛ تاکہ اس ’دیسی انڈسٹری‘ کی حقیقت سامنے آ جائے جو ہماری جماعۃ المسلمین اور مغرب کی ماڈرن سٹیٹ کے پرزے نکال نکال جوڑ جوڑ نت نئی ’ایجادات‘ اور ’تجربات‘ پیش کرتی ہے؛ اور جس کے باعث روز یہاں ایک نئی بحث اٹھی ہوتی ہے۔
*****
’’بیعت‘‘ اور ’ووٹ‘ کو ایک ٹھہرانے والے دیدہ ور اِس چھوٹے سے واقعے پر ہی غور فرمالیں جس میں انس بحرین سے واپسی پر حضرت عمر کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں:
عَنْ مُوْسَى بنِ أَنَسٍ: أنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيْقَ بَعَثَ إِلَى أَنَسٍ ليوجِّهه عَلَى البَحْرَيْنِ سَاعِياً، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ، فَقَالَ: إِنِّيْ أَرَدْتُ أَنْ أَبْعَثَ هَذَا عَلَى البَحْرَيْنِ، وَهُوَ فَتَىً شَابٌّ. قَالَ: ابعَثْهُ, فَإِنَّهُ لَبِيبٌ كَاتِبٌ، فَبَعَثَه، فلمَّا قُبِضَ أَبُو بَكْرٍ قَدِمَ أَنَسٌ عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ: هَاتِ مَا جِئْتَ بِهِ, قَالَ: يَا أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ, البَيْعَةَ أَوَّلاً، فَبَسَطَ يَدَهُ. (سیر أعلام النبلاء ج 4 ص 420) | موسیٰ بن انس راوی ہیں: حضرت ابوبکر نے انس کو طلب فرمایا، کہ خراج کا افسر بن کر بحرین روانہ ہوں۔ عمر تشریف لائے تو ابوبکرؓ فرمانے لگے: میں اسے بحرین بھیجنا چاہتا ہوں؛ جوان آدمی ہے۔ عمرؓ نے کہا: بھیج دیجئے؛ دانشمند پڑھا لکھا ہے۔ تب ابوبکرؓ نے انہیں بھیج دیا۔ ابوبکرؓ کے فوت ہونے کے بعد انسؓ لوٹے تو دربارِ عمرؓ میں حاضر ہوئے۔ عمرؓ بولے: پیش کرو کیا لائے ہو۔ انسؓ بولے: امیرالمومنین! پہلے بیعت تو کرلوں! اور (بیعت کےلیے) اپنا ہاتھ کھول دیا‘‘۔[2] |
بیعت کیا ہے؟ ابن خلدون کے الفاظ میں:
اعلم أنّ البيعة هي العهد على الطّاعة كأنّ المبايع يعاهد أميره على أنّه يسلّم له النّظر في أمر نفسه وأمور المسلمين لا ينازعه في شيء من ذلك ويطيعه فيما يكلّفه به من الأمر على المنشط والمكره۔ وكانوا إذا بايعوا الأمير وعقدوا عهده جعلوا أيديهم في يده تأكيدا للعهد فأشبه ذلك فعل البائع والمشتري فسمّي بيعة مصدر باع (تاریخ ابن خلدون ج 1 ص 261) | جان لو: بیعت ہے: اطاعت کا عہد۔ گویا بیعت کنندہ اپنے امیر کے ساتھ عہد باندھتا ہے کہ اِس کا معاملہ اُس کے سپرد ہے؛ وہی اِس کے معاملات میں فیصلے کرے اور وہی دیگر مسلمانوں کے معاملات میں؛ یہ کسی چیز میں اُس سے نہ الجھے گا، وہ اِس کو جس چیز کا مامور کرے یہ اُس کی اطاعت کرے گا، دل چاہے تب دل نہ چاہے تب۔ دستور تھا کہ جب لوگ امیر کی بیعت کرتے اور اُسکے ساتھ عہد باندھتے تو اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دیتے عہد کو پختہ کرنے کے انداز میں، جیسے سودا طے کرتے وقت فریقین کرتے ہیں۔ یوں اس کا نام بیعت پڑ گیا جوکہ باع یبیع سے مصدر ہے۔ |
*****
فقہ خصوصاً ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ پر متقدمین کی جو بھی تصانیف آپ دیکھیں گے، یہاں تک کہ شروحِ احادیث میں جہاں جہاں ’’بیعت‘‘ کے مسائل بیان ہوئے ہیں… اِن سب مصادر میں آپ اس پر مکمل اتفاق پائیں گے کہ ’’بیعت‘‘ کی دو اقسام ہیں:
- بیعتِ خاصہ یا بیعتِ خواص، جس کو بیعتِ انعقاد بھی کہا جاتا ہے۔ (یعنی وہ بیعت جس سے خلیفہ کی خلافت وجود میں آجاتی (constituteہوجاتی) ہے۔
- بیعتِ عامہ یا بیعتِ عوام، جس کو بیعتِ اطاعت بھی کہا جاتا ہے۔ (یعنی وہ بیعت جس کے ذریعے مسلم معاشرہ اپنے امام کے لیے اپنی اطاعت اور وفاداری کا اظہار کرتا ہے)۔
الفاظ کی حد تک اِن فقہاء، مصنفین اور شارحینِ حدیث کے مابین کوئی فرق ہو سکتا ہے مگر مفہوم کے لحاظ سے ذرہ بھر فرق نہیں:
- خواص کو ’’اہلِ عقد‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے ’’عقد‘‘ کرنے سے ہی مسلم سربراہ کی خلافت یا امامت ’’منعقد‘‘ ہوتی ہے۔
- ہاں جب اہلِ عقد کی بیعت کے نتیجے میں امیر کی امارت یا خلافت ’’منعقد‘‘ ہوجاتی ہے تو پھر عامۃ المسلمین کو اُس کی بیعت کرنا ہوتی ہے۔ اِس کو بیعتِ عام کہا جاتا ہے؛ اور اِسی کا نام بیعتِ اطاعت ہے۔ یعنی ایک عام مسلمان اِس بیعت کے ذریعہ سے اپنے خلیفہ یا امام کو اپنی اطاعت، وابستگی اور حمایت کا یقین دلاتا ہے؛ جس سے ’’جماعت‘‘ (یکجہتی) خصوصاً احادیث میں مذکور ’’لزومِ جماعت‘‘ ایسے معانی کا ایک نہایت خوب اعادہ ہوتا ہے۔
یعنی عوام ’’طے‘‘ نہیں کرتے۔ طےکرنا (to constitute) عربی میں ’’عقد‘‘ کہلاتا ہے اور طےہونا ’’انعقاد‘‘۔ یہ کام ’’اہلِ عقد‘‘ کا ہے۔ معاملہ ان کے طے کرنے سے طے ہوگا اور ان کے ختم (dissolve) کرنے سے ختم۔ (dissolve کرنے کو عربی میں ’’حل‘‘ کہتے ہیں)۔ پس یہ ہیں خواص یعنی ’’اہلِ حل و عقد‘‘۔ یہی معاملہ طے کرتے ہیں اور یہی ختم کرتے ہیں؛ ’’امام‘‘ اِن کے بنانے سے بنے گا، اِن کے ہٹانے سے ہٹے گا؛ اِنہی کو ’’اولی الامر‘‘[أ] کہتے ہیں جن کی اطاعت قرآنِ مجید میں فرض ٹھہرائی گئی ہے؛ عوام الناس کو ان کے پیچھے کھڑا ہونا ہے خواہ وہ ’’عقد‘‘ کریں اور خواہ ’’حل‘‘۔
’’بیعتِ عوام‘‘ کی نوبت یہاں آخر میں آتی ہے، جب اہل حل و عقد کے ہاتھوں ہر چیز ’’طے‘‘ ہوجاتی ہے۔
(حق یہ ہے کہ عوام کہیں بھی معاملہ ’’طے‘‘ نہیں کرتے؛ مگر اسلامی عمل میں چونکہ ’’گندم نمائی و جوفروشی‘‘ ہے ہی نہیں اس لیے ایک بات صاف بےلاگ کہہ دی جاتی ہے۔ جبکہ جمہوریت میں نہ صرف عوام بلکہ نمائندگانِ عوام کو بھی ویسے تو ہانکا ہی جاتا ہے جس کے بڑےبڑے اعلیٰ کارپوریٹ طریقے اور ہتھکنڈے ایجاد میں آگئے ہیں، البتہ عوام کو باور یہ کرایا جاتا ہے کہ یہاں سب کچھ وہ طے کرتے ہیں!)
*****
ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں چھٹی صدی کے مالکی فقیہ اور محدث محمد بن علی المازری کا قول بطور استشہاد نقل کرتے ہیں:
يَكْفِي فِي بَيْعَةِ الْإِمَامِ أَنْ يَقَعَ مِنْ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ وَلَا يَجِبُ الِاسْتِيعَابُ وَلَا يَلْزَمُ كُلَّ أَحَدٍ أَنْ يَحْضُرَ عِنْدَهُ وَيَضَعَ يَدَهُ فِي يَدِهِ بَلْ يَكْفِي الْتِزَامُ طَاعَتِهِ وَالِانْقِيَادُ لَهُ بِأَنْ لَا يُخَالِفَهُ وَلَا يَشُقَّ الْعَصَا عَلَيْهِ (فتح الباری جلد 7، ص 494) | امام کی بیعت کے معاملہ میں یہ کافی ہے کہ یہ اہل حل و عقد کی جانب سے انجام پا جائے۔ اس کےلیے سب کا شامل ہونا ضروری نہیں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ ہر ہر شخص ہی امام کے پاس حاضر ہو اور اپنا ہاتھ امام کے ہاتھ میں دے۔ بلکہ یہ کافی ہے کہ آدمی اس کی اطاعت اور تابع فرمانی کی پابندی اختیار کرلے کہ وہ اس کی نافرمانی نہ کرے گا اور اس کی حیثیت کو متنازعہ نہ کرے گا۔ |
اہل حل و عقد کی یہ حیثیت تمام مذاہب کے ہاں متفق علیہ ہے:
فقہ حنفی:
قَالَ الْعَلَّامَةُ الْبِيرِيُّ فِي أَوَاخِرِ شَرْحِهِ عَلَى الْأَشْبَاهِ وَالنَّظَائِرِ عِنْدَ الْكَلَامِ عَلَى شُرُوطِ الْإِمَامَةِ ثُمَّ إذَا وَقَعَتْ الْبَيْعَةُ مِنْ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ صَارَ إمَامًا يُفْتَرَضُ إطَاعَتُهُ كَمَا فِي خِزَانَةِ الْأَكْمَلِ وَفِي شَرْحِ الْجَوَاهِرِ تَجِبُ إطَاعَتُهُ فِيمَا أَبَاحَهُ الدِّينُ (ابن عابدین: منحة الخالق، على البحر الرائق 7: 53) | علامہ البیری الاشباہ والنظائر پر اپنی شرح کے آخر میں امامت کی شرائط پر کلام کرتے ہوئے کہتے ہیں: جب اہل حل و عقد کی جانب سے بیعت ہوجائے تو وہ امام طے پاجاتا ہے اس کی اطاعت فرض ہوجاتی ہے۔ جیساکہ خزانۃ الاکمل اور شرح الجواھر میں آیا ہے: اس کی اطاعت شریعت کے جائز کردہ امور میں واجب ہوجاتی ہے۔ |
یہی بات مختصر طور پر البحر الرائق (ج 6 ص 299) اور حاشیہ ابن عابدین (ج 1 ص 549) میں آئی ہے۔
فقہ مالکی:
اعْلَمْ أَنَّ الْإِمَامَةَ الْعُظْمَى تَثْبُتُ بِأَحَدِ أُمُورٍ ثَلَاثَةٍ: إمَّا بِإِيصَاءِ الْخَلِيفَةِ الْأَوَّلِ لِمُتَأَهِّلٍ لَهَا، وَإِمَّا بِالتَّغَلُّبِ عَلَى النَّاسِ؛ لِأَنَّ مَنْ اشْتَدَّتْ وَطْأَتُهُ بِالتَّغَلُّبِ وَجَبَتْ طَاعَتُهُ وَلَا يُرَاعَى فِي هَذَا شُرُوطُ الْإِمَامَةِ؛ إذْ الْمَدَارُ عَلَى دَرْءِ الْمَفَاسِدِ وَارْتِكَابِ أَخَفِّ الضَّرَرَيْنِ. وَإمَّا بَيْعَةُ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ، وَهُمْ مَنْ اجْتَمَعَ فِيهِمْ ثَلَاثَةُ أُمُورٍ الْعِلْمُ بِشُرُوطِ الْإِمَامِ، وَالْعَدَالَةُ، وَالرَّأْيُ (الشرح الکبیر للشیخ الدردیر: 4: 298) | جان لو: امامتِ عظمیٰ ان تین میں سے کوئی ایک سبب ہو تو ثابت ہوجاتی ہے: 1.یا پچھلا خلیفہ کسی ایسے شخص کے حق میں جو اس کا اہل ہو وصیت کرگیا ہو، 2. یا کوئی شخص زبردستی لوگوں پر غالب آگیا ہو؛ کیونکہ جس شخص نے زبردستی غالب آ کر شکنجہ سخت کرلیا ہو اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔ اس میں امامت کی شروط کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ وجہ یہ کہ معاملے کا اصل دارومدار مفاسد کو دفع کرنے اور دو نقصانات میں سے کمتر کو اختیار کرنے پر ہے۔[3] 3. یا اہل حل و عقد کے بیعت کرنے سے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں تین امور مجتمع ہوتے ہیں: وہ ان شروط کا علم رکھتے ہوں جن کا خلیفہ میں پایا جانا ضروری ہے۔ نیک سیرت ہوں۔ اور اصحابِ رائے ہوں۔ |
یہی بات مالکیہ کی کتب الذخیر ۃ للقرافی (ج 13 ص 234)، حاشیۃ الصاوی على الشرح الکبیر (ج 4 ص 426) اور منح الجلیل شرح مختصر خلیل (ج 9 ص 196) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
فقہ شافعی:
فإن الإمامة لا تنعقد إلا بأن يستخلفه الإمام الذي كان قبله، أو بأن لم يكن هناك إمام فيقهر الناس بالغلبة، أو بأن يعقد له الإمامة أهل الحل والعقد، ولا يلتفت إلى إجماع العامة على عقده؛ لأنهم أتباع لأهل الاجتهاد. قال الشيخُ أبُو إسحاق في ” التنبيه “: ولا ينعقد إلا بعقد جماعة من أهل الحل والعقد. (البیان فی مذھب الإمام الشافعی 12: 10) | امامت منعقد نہیں ہوتی الا یہ کہ: 1.پچھلا امام اس کو اپنا جانشین بنا کر گیا ہو، 2.یا یہ کہ کوئی امام نہ پایا جاتا ہو اور کوئی شخص غالب آ کر لوگوں پر زبردستی (اقتدار قائم) کرلے، 3. یا اہل حل و عقد اس کےلیے امامت کا تقرر کریں۔ البتہ انعقادِ خلافت کے طے کرنے کے معاملہ میں عوام الناس کے اتفاق کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔ کیونکہ وہ تو اہل اجتہاد (اہل رائے) کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ ابو اسحاق شیرازی اپنی کتاب ’’التنبیہ فی الفقہ الشافعی‘‘ میں بیان کرتے ہیں: خلیفہ کا انعقاد اہل حل و عقد میں سے ایک جماعت (تعداد) کے طے کیے بغیر نہیں ہوتا۔ |
(وَتَنْعَقِدُ الْإِمَامَةُ) بِطُرُقٍ أَحَدُهَا (بِالْبَيْعَةِ) كَمَا بَايَعَ الصَّحَابَةُ أَبَا بَكْرٍ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ – (وَالْأَصَحُّ) أَنَّ الْمُعْتَبَرَ، هُوَ (بَيْعَةُ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَالرُّؤَسَاءِ وَوُجُوهِ النَّاسِ الَّذِينَ يَتَيَسَّرُ اجْتِمَاعُهُمْ) حَالَةَ الْبَيْعَةِ بِأَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كُلْفَةٌ عُرْفًا فِيمَا يَظْهَرُ؛ لِأَنَّ الْأَمْرَ يَنْتَظِمُ بِهِمْ وَيَتَّبِعُهُمْ سَائِرُ النَّاسِ وَيَكْفِي بَيْعَةُ وَاحِدٍ انْحَصَرَ الْحَلُّ وَالْعَقْدُ فِيهِ أَمَّا بَيْعَةُ غَيْرِ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ الْعَوَامّ فَلَا عِبْرَةَ بِهَا (تحفة المحتاج فی شرح المنھاج 9: 76) | خلافت کا انعقاد جن طریقوں سے ہوتا ہے ان میں سے ایک ہے بیعت، جیساکہ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی تھی۔ صحیح تر قول کی رو سے: (بیعت میں) جس چیز کا اعتبار ہے وہ ہے اہل حل و عقد کا بیعت کر لینا، جوکہ علماء اور سرکردہ لوگ اور عمائدین ہوتے ہیں جن کا اکٹھا ہونا اس موقع پر بآسانی ممکن ہو اور دستور کے مطابق اس میں ظاہراً کوئی تکلف نہ ہو۔ وجہ یہ کہ معاملہ انہی کے دم سے چلتا ہے، رہے باقی لوگ تو وہ انہی کے پیچھے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک ہی شخص میں حل اور عقد محصور ہوجائے[4] تو اس (ایک شخص) کا بیعت کرلینا کافی ہوتا ہے۔ رہے اہل حل و عقد کے ماسوا لوگوں یعنی عوام کی بیعت، تو اس کو نہیں دیکھا جاتا۔ |
اسی مضمون کی عبارتیں آپ کوفقہ شافعی کے ان مصادر میں ملیں گی:
روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتین (ج 10 ص 43)، أسنىٰ المطالب فی شرح روض الطالب (ج 4 ص 109)، مغنی المحتاج إلیٰ معرفۃ معانی ألفاظ المنھاج (ج 5 ص 422)، نہایۃ المحتاج إلیٰ شرح المنھاج (ج 7 ص 410)، إعانة الطالبین علىٰ حل ألفاظ فتح المعین (ج 4 ص 241)۔
فقہ حنبلی:
(وَيَثْبُتُ) نَصْبُ الْإِمَامِ (بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ عَلَيْهِ كَإِمَامَةِ أَبِي بَكْرٍ) الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – (مِنْ بَيْعَةِ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَوُجُوهِ النَّاسِ) الَّذِينَ (بِصِفَةِ الشُّهُودِ) مِنْ الْعَدَالَةِ وَغَيْرِهَا،وَلَا نَظَرَ لِمَنْ عَدَا هَؤُلَاءِ؛ لِأَنَّهُمْ كَالْهَوَامِّ (کشاف القناع عن متن الإقناع ج 6 ص 159) | خلیفہ کے تقرر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اُس پر اتفاق ہو جائے، جیسے ابوبکر صدیق خلیفۃ الرسولﷺ کی امامت پر ہوا تھا۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ اہل حل و عقد اُس کی بیعت کرلیں جوکہ علماء اور معاشرے کے سرکردہ لوگ ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ان میں شہادت کی صفات پائی جائیں یعنی نیک سیرتی وغیرہ۔ رہ گئے ان کے علاوہ لوگ تو وہ کسی شمار میں نہیں کیونکہ وہ کالانعام ہوتے ہیں۔ |
نیز دیکھئے دقائق أولی النُھیٰ لشرح المنتھیٰ (ج 3 ص 387)۔
سیاسۃ شرعیۃ کی کتب:
انہی (اہل حل و عقد) کو سیاسۃ شرعیہ کی بہت سی کتب ’’اہل اختیار‘‘ کے نام سے ذکر کرتی ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو خلیفہ کا چناؤ کرنے کے مجاز ہیں۔ خصوصی طور پر دیکھئے شافعی فقہ کے عظیم نام امام جوینیؒ (جوکہ امام الحرمین کے لقب سے مشہور ہیں) کی مشہور تصنیف ’’غِیَاثُ الاُمَم فی الۡتِیاث الظُّلَم‘‘، نیز ’’الاحکام السلطانیۃ‘‘ کے عنوان سے دو شہرہ آفاق تصانیف جن میں سے ایک کے مصنف شافعی فقیہ الماوردیؒ ہیں اور دوسری کے مصنف حنبلی فقیہ ابو یعلیٰؒ، نیز احمد بن علی فزاری قلقشندیؒ کی ’’مآثر الإنافۃ فی معالم الخلافۃ‘‘۔
’’اہل اختیار‘‘ میں کیا اوصاف ہونا ضروری ہیں؟ اس پر امام الحرمین الجوینی باقاعدہ فصل باندھتے ہیں۔ پہلے ان اوصاف کا ذکر کرتے ہیں جو علمائے اسلام کے ہاں متفق علیہ ہیں اور پھر وہ اوصاف جن میں اختلاف یا ظن کو دخل ہے۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’اہل اختیار‘‘ کی کم از کم وہ صفات نقل کردی جائیں جن کی بابت جوینی کہتے ہیں کہ یہ اجماعی ہیں:
فَلْتَقَعِ الْبِدَايَةُ بِمَجَالِ الْإِجْمَاعِ فِي صِفَةِ أَهْلِ الِاخْتِيَارِ ثُمَّ نَنْعَطِفُ عَلَى مَوَاقِعِ الِاجْتِهَادِ وَالظُّنُونِ. فَمَا نَعْلَمُهُ قَطْعًا أَنَّ النِّسْوَةَ لَا مَدْخَلَ لَهُنَّ فِي تَخَيُّرِ الْإِمَامِ وَعَقْدِ الْإِمَامَةِ، فَإِنَّهُنَّ مَا رُوجِعْنَ قَطُّ، وَلَوِ اسْتُشِيرَ فِي هَذَا الْأَمْرِ امْرَأَةٌ ; لَكَانَ أَحْرَى النِّسَاءِ وَأَجْدَرُهُنَّ بِهَذَا الْأَمْرِ فَاطِمَةَ – عَلَيْهَا السَّلَامُ – ثُمَّ نِسْوَةَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَنَحْنُ بِابْتِدَاءِ الْأَذْهَانِ نَعْلَمُ أَنَّهُ مَا كَانَ لَهُنَّ فِي هَذَا الْمَجَالِ مَخَاضٌ فِي مُنْقَرَضِ الْعُصُورِ وَمَكَرِّ الدُّهُورِ. وَكَذَلِكَ لَا يُنَاطُ هَذَا الْأَمْرُ بِالْعَبِيدِ، وَإِنْ حَوَوْا قَصَبَ السَّبْقِ فِي الْعُلُومِ. وَلَا تَعَلُّقَ لَهُ بِالْعَوَامِّ الَّذِينَ لَا يُعَدُّونَ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَذَوِي الْأَحْلَامِ. وَلَا مَدْخَلَ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ فِي نَصْبِ الْأَئِمَّةِ. فَخُرُوجُ هَؤُلَاءِ عَنْ مَنْصِبِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ لَيْسَ بِهِ خَفَاءٌ. فَهَذَا مَبْلَغُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْفَصْلِ. (غیاث الأمم، مولفہ إمام الحرمین الجوینی ص62، 63) | پس چاہئے کہ پہلے اہل اختیار (خلیفہ کا چناؤ کرنے کے مجاز لوگوں) میں مطلوب صفات سے متعلقہ وہ حصہ بیان کردیا جائے جس پر (علمائے اسلام کا) اجماع پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم ان حصوں پر آئیں گے جو ظنی اور اجتہادی ہیں۔ چنانچہ جو بات ہم یقینی طور پر جانتے ہیں (یعنی جن مسائل میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں) وہ یہ کہ: Ã امام کا چناؤ اور امامت کا انعقاد کرنے میں عورتوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ کیونکہ عورتوں کی جانب (اس سلسلہ میں) کبھی رجوع کیا ہی نہیں گیا۔ اگر اس معاملہ میں کسی عورت کو شریکِ مشورہ ہونا ہوتا تو عورتوں میں سب سے بڑھ کر اس بات کی لائق اور حقدار فاطمہ تھیں اور ان کے بعد رسول اللہﷺ کی ازواج، امہات المومنین رضی اللہ عنہن۔ جبکہ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ان تمام گزرے ہوئے ادوار میں عورتوں کا اس میدان میں کبھی کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ Ã اسی طرح یہ مسئلہ غلاموں کو بھی نہیں سونپا جاتا خواہ وہ علوم میں کتنا ہی تفوق کیوں نہ رکھتے ہوں۔ Ã نیز عوام کا بھی اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں، جوکہ علماء اور مدبرپختہ کار شمار نہیں ہوتے۔ Ã نیز اہل ذمہ (جدید زبان میں ’غیر مسلم شہریوں‘) کا بھی ائمۃ المسلمین (حکمرانوں) کے تقرر میں کوئی کام نہیں۔ چنانچہ ان سب کا ’’حل و عقد‘‘ کے منصب سے کوئی تعلق نہ ہونا ایک ایسی بات ہے جس میں (اہل علم کے ہاں) کوئی ابہام نہیں۔ یہ ہوئیں وہ باتیں جو اِس باب میں یقینی ہیں۔ |
ماوردی اور ابو یعلیٰ دونوں صراحت کرتے ہیں:
ولا يلزم أن يعرفوه بعينه واسمه إلا أهل الاختيار الذين تقوم بهم الحجة وببيعتهم تنعقد الخلافة (الأحکام السلطانیۃ مولفہ الماوردی۔ ص 18) | عوام پر یہ تک لازم نہیں کہ وہ خلیفہ کو معین طور پر اور اس کے نام سے جانتے ہوں۔ یہ جاننا اہل اختیار پر لازم ہے جن کے دم سے حجت قائم ہوتی ہے اور جن کی بیعت سے خلافت منعقد ہوتی ہے۔ |
ولا يجب على كافة الناس معرفة الإمام بعينه واسمه، إلا من هو من أهل الاختيار الذين تقوم بهم الحجة وتنعقد بهم الخلافة. (الأحکام السلطانیۃ مولفہ ابو یعلیٰ۔ ص 27) | سب لوگوں پر تو یہ بھی لازم نہیں کہ وہ خلیفہ سے معین طور پر اور اس کے نام سے واقف ہوں۔ یہ فرض ہے ان لوگوں کا جو اہل اختیار میں آتے ہوں کہ جن کے دم سے حجت (خلافت کی رِٹ) قائم ہوتی ہے اور جن کے دم سے خلافت کا انعقاد ہوتا ہے۔ |
قاضی ابو یعلیٰ تو مسئلے کو بنیاد سے ہی دو طبقوں میں محصور کردیتے ہیں: ایک ’’اہل اختیار‘‘ (یعنی اہل حل و عقد) اور دوسرا ’’خلیفہ بننے کی اہلیت رکھنے والے‘‘:
وهي فرض على الكفاية، مخاطب بها طائفتان من الناس. إحداهما: أهل الاجتهاد حتى يختاروا. والثانية: من يوجد فيه شرائط الإمامة حتى ينتصب أحدهم للإمامة. أما أهل الاختيار فيعتبر فيهم ثلاث شروط. أحدها: العدالة. وَالثَّانِي: الْعِلْمُ الَّذِي يُتَوَصَّلُ بِهِ إلَى مَعْرِفَةِ من يستحق الإمامة. والثالث: أن يكون من أهل الرأي والتدبير المؤديين إلى اختيار من هو للإمامة أصلح۔ (ص 19) | خلافت فرضِ کفایہ ہے۔ اس فرض کے مخاطب دو طبقے ہیں: ایک وہ لوگ جو صاحبِ رائے ہوتے ہیں، تاوقتیکہ یہ چناؤ نہ کرلیں۔ دوسرا وہ لوگ جن میں امامت (خلافت) کی شرائط پائی جاتی ہیں تاوقتیکہ ان میں سے کسی ایک کا تقرر نہ ہوجائے۔ جہاں تک اہل اختیار کا تعلق ہے تو ان میں تین شروط دیکھی جاتی ہیں: ایک: نیک سیرتی۔ دوسری: اس پائے کا علم جس سے وہ معلوم کر سکیں کہ کون امامت کے لائق ہے۔ تیسری یہ کہ: وہ پختہ رکھنے والے اصحابِ تدبیر میں آتے ہوں جس سے کام لے کر اس شخص کا چناؤ ہو سکے جو امامت کےلیے موزوں ترین ہے۔[5] |
اہل حل و عقد کیلئے اہل شوکت ہونا ضروری ہے
اہل حل و عقد مسلم معاشرے کی امامت پر فائز طبقہ ہے۔ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کی بافت ’ماڈرن سوسائٹی‘ کے تارپود سے بالکل جدا ہے۔ یہ نہایت طبعی اور فطری رشتوں پر قائم ایک انسانی اکٹھ ہے۔ اِس کےلیے عوام کی ’نمائندگی‘ اور عوام کے ’تفویض کردہ اختیارات‘ ایسے الفاظ ایک درجہ اجنبی ہیں اور اِس کی لغت میں کبھی مستعمل نہیں رہے۔ (یہاں عوام کی ’’امامت‘‘ ہوتی ہے نہ کہ ’نمائندگی‘)۔ اِس کے ’’ائمہ‘‘ میں سے ہی کچھ لوگ ’عہدہ داران‘ office bearers بھی بنتے ہیں جن کو خصوصی طور پر ’’اولی الامر‘‘ کہہ دیا جاتا ہے مگر یہ ’’امر‘‘ ان کو سونپا اصل ’’مالکانِ امر‘‘ کی جانب سے جاتا ہے۔ پس ایک ہوئے ہمارے پاس عمومی اصحابِ امر جوکہ اہل حل و عقد ہیں، انہی کو اہل شوریٰ کہا جاتا ہے۔[6] دوسرے ہوئے خصوصی اصحابِ امر؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اہلِ شوریٰ براہِ راست یا بالواسطہ کسی عہدے پر بٹھاتے ہیں۔ ’’اولی الامر‘‘ کے یہ دو دائرے[7] واضح ہوجائیں تو سلف سے ماثور تمام تفاسیر ایک ہی حقیقت کا بیان ہوجاتی ہیں؛ اور ان میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔[8] (دیکھئے تعلیق 5 میں ’’اولی الامر‘‘ کے تحت نقل کیے گئے اقوالِ سلف)۔
جہاں تک ’’امامت‘‘ کا تعلق ہے… تو صحیح بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوبکر اس کو یوں بیان کرتے ہیں:
عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ، فَرَآهَا لاَ تَكَلَّمُ، فَقَالَ: «مَا لَهَا لاَ تَكَلَّمُ؟» قَالُوا: حَجَّتْ مُصْمِتَةً، قَالَ لَهَا: «تَكَلَّمِي، فَإِنَّ هَذَا لاَ يَحِلُّ، هَذَا مِنْ عَمَلِ الجَاهِلِيَّةِ» ، فَتَكَلَّمَتْ، فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: «امْرُؤٌ مِنَ المُهَاجِرِينَ» ، قَالَتْ: أَيُّ المُهَاجِرِينَ؟ قَالَ: «مِنْ قُرَيْشٍ» ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟ قَالَ: «إِنَّكِ لَسَئُولٌ، أَنَا أَبُو بَكْرٍ» ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: «بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ» ، قَالَتْ: وَمَا الأَئِمَّةُ؟ قَالَ: «أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ، يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ؟» قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: «فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ» (صحيح البخاري رقم 3824. كتاب المناقب، باب أيام الجاهلية) | قیس بن ابی حازم سے روایت ہے، کہا: حضرت ابوبکر قبیلہ احمس کی زینب نامی ایک خاتون کے ہاں تشریف لےکر گئے۔ ابوبکرؓ نے دیکھا کہ وہ بات نہیں کرتی ۔ پوچھا بات کیوں نہیں کرتی؟ لوگوں نے جواب دیا: اس نے خاموش رہ کر ہی پورا حج کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُس سے کہا: کلام کرو، یہ چیز جائز نہیں؛ یہ جاہلیت کے عمل میں سے ہے۔ تب وہ بولنے لگی۔ اور پوچھا: آپ کون؟ ابوبکرؓ نے جواب دیا: مہاجرین میں کا ایک آدمی ہوں۔ وہ بولی: مہاجرین کے کس طبقے سے؟ فرمایا: قریش سے۔ کہنے لگی: قریش کے کس حصے سے؟ ابو بکرؓ فرمانے لگے: بہت زیادہ سوال کرتی ہو، بھئی میں ابو بکر ہوں۔ عورت نے سوال کیا: یہ بھلی صورتحال جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے بعد نصیب کی ہے، ہم اس پر کب تک برقرار رہیں گے؟ ابوبکرؓ نے فرمایا: تم تب تک اس پر برقرار رہو گے جب تک تمہارے ائمہ اس پر استقامت اختیار کرکے رہیں گے۔ عورت بولی: ائمہ کیا ہوتے ہیں؟ابوبکر نے کہا: کیا تمہاری برادری میں سرکردہ شخصیات اور معززین نہیں رہے جو لوگوں کو چلاتے ہوں اور لوگ ان کی مانتے ہوں؟ عورت بولی: کیوں نہیں۔ ابوبکر بولے: تو یہ ہیں وہ لوگ۔ |
حضرت ابوبکر کی اِس تفسیر کو بنیاد بناتے ہوئے، ابن تیمیہ ودیگر اہل علم معاشرے کے سب اصحابِ قیادت کو، جو لوگوں کی زندگی میں دخیل ہیں، اپنی اپنی سطح کے ’’اولی الامر‘‘[9] شمار کرتے ہیں۔ اسی سے متصل، یہاں ابن تیمیہ سلف سے چند مزید آثار لے کر آتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے:
عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” اثْنَانِ مِنَ النَّاسِ إِذَا صَلَحَا صَلَحَ النَّاسُ، وَإِذَا فَسَدَا فَسَدَ النَّاسُ: الْعُلَمَاءُ وَالْأُمَرَاءُ”۔ (حلیۃ الأولیاء وطبقات الاصفیاء مؤلفہ أبونعیم ج 4، ص 96)[10] | میمون بن مہران حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں: ’’لوگوں میں سے دو طبقے ہیں جو اگر درست ہوں تو لوگ درست ہوں گے اور اگر یہ خراب ہوں تو لوگ خراب ہوں گے: علماء اور امراء۔ |
چنانچہ سلف کے ہاں ’’معاشرے کی قیادت‘‘، ’’معاشرے کو چلانے‘‘ اور ’’معاشرے کےلیے مطاع ہونے‘‘ کے حوالے سے یہ دونوں اصناف ایک ساتھ ذکر ہوتی ہیں۔ خود یہ دونوں ایک دوسرے کےلیے واجبِ اطاعت ہیں: علماء اپنے دائرے میں امراء کےلیے[ب] اور امراء اپنے دائرے میں علماء کےلیے؛ جبکہ ’’معاشرے‘‘ کےلیے دونوں۔ امت کے اہم معاملات ان کے مل کر طے کرنے سے طے ہوں گے۔
بلکہ حق یہ ہے کہ بہت زیادہ ’انتظامی عملے‘ کی نوبت اُس وقت آتی ہے جب مسلم معاشرہ میں غیرمعمولی بگاڑ آ چکا ہو، ورنہ مسلمانوں کے ہاں بستیوں کی بستیاں کسی لمبی چوڑی انتظامی مشینری کے بغیر چلتی رہی ہیں۔ ’رہنما‘ کی حیثیت میں لوگ کسی سے واقف تھے تو وہ معاشرے کا اہل علم و فضل طبقہ تھا۔ یا پھر قبائلی ماحول میں لوگوں کے سردار اور وڈیرے تھے جن کی رِٹ کو اسلام نے کبھی گزند نہیں پہنچایا، بلکہ ان کو (ایک خاص دائرہ میں اہل علم و تربیت کے تابع کرتے ہوئے)[11] اور بھی معتبر ٹھہرایا۔ چنانچہ ’سرکار کے تعینات افسروں‘ کی فوج ظفر موج اور ہر ہر چیز کو ’پولیس‘ اور ’انتظامی اداروں‘ کی تحویل میں دے رکھنا، جوکہ کرپشن کا پورا ایک پیکیج ساتھ لے کر آتا ہے، ’ماڈرن سٹیٹ‘ کا فنامنا ہے نہ کہ تاریخی طور پر ہماری ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کا۔ معروف معنوں میں ’سرکار‘ کا دخل یہاں نہایت محدود ہوتا ہے۔ زندگی اپنے آزادانہ بہاؤ پر چلتی ہے۔ ’’سماجی عمل‘‘ یہاں کے ’سیاسی عمل‘ پر بہت زیادہ حاوی ہوتا ہے۔ ساہوکارانہ ’کارپوریٹ‘ کلچر[12] کی بجائے یہاں ’’کو۔آپریٹ‘‘ کلچر فروغ پاتا ہے۔ (سود کی حرمت اور مسجد کی مرکزیت؛ مسلم معاشرے کی دو نہایت عظیم چیزیں ہیں)۔ اکثر معاملات لوگ اپنے خود نمٹاتے ہیں؛ جس میں اہل علم و فراست کی راہنمائی البتہ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ طبعی رشتے اور صحت مند میل جول جوکہ ’’دین‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ کے زیرنگرانی پروان چڑھتا ہے ’’تعاونِ باہمی‘‘ کے ہزاروں رستے خود نکالتا ہے؛ اور یہ چھوٹے چھوٹے ندی نالے خودبخود ’دریاؤں‘ کی شکل دھارتے اور دریا خودبخود آگے ’’سمندر‘‘ میں گرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی خطوط پر قائم معاشرہ میں اہلِ علم و اخلاق کا جتنا بڑا کردار ہے اتنا اہلِ حکومت کا نہیں، گو اس کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
یہ وجہ ہے کہ ہماری اسلامی لغت ’نمائندگی‘ کی بجائے ’’امامت‘‘ کا لفظ دہراتی ہے جوکہ ایک سراسر مختلف تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں کے سیاسی عمل میں ’’عوام المسلمین‘‘ کی شرکت یقیناً ہے مگر اپنے ’نمائندوں‘ کی وساطت نہیں بلکہ اپنے ’’ائمہ‘‘ کی وساطت۔ وہ ائمہ جو جائز حدود میں عوام کی پسند نا پسند کا بھی پورا خیال کرتے ہیں، ان کی راحت اور آسودگی کا بھی اور سب سے بڑھ کر ان کی حقیقی ضرورتوں کا (جس میں آخرت ہمیشہ مقدم ہوتی ہے اور جس کا ادراک ایک عامی کی بجائے ایک پختہ کار شخص کو زیادہ ہوتا ہے) [13]۔ [ج] چنانچہ یہ عالمانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کے مالک لوگ ہی مسلمانوں کے اہل حل وعقد (کرتا دھرتا) ہوتے ہیں؛ ہاں کوئی ان میں سے ایک بستی کی سطح کا ’’کرتا دھرتا‘‘ ہوگا، تو کوئی ایک بڑے خطے یا ولایت کی سطح کا، تو کوئی امت کی سطح کا۔ ہر ہر سطح پر جو معاملات پیش آئیں گے، اُس اُس سطح کے اہل حل و عقد وہاں ’’شوریٰ‘‘ کا فرض انجام دیں گے؛ امت کے خلیفہ، یا ایک خطے کے والی یا بستی کے امیر کا فرض ہوگا کہ وہ ان کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہ کرے: ’’وَأمۡرُھُمۡ شُوۡریٰ بَیۡنَھُمۡ‘‘۔[14]
*****
البتہ یہ غلط فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے… کہ جب ہم اہلِ علم وفضل کو جماعۃ المسلمین کے ’’ائمہ‘‘ یا ’’اولی الامر‘‘ میں شامل کرتے ہیں (سلف کی ایک بڑی تعداد کے قول کی رُو سے) تو اس سے مراد کوئی پسماندہ و گوشہ نشین قسم کی مخلوق ہوتی ہے، اگرچہ ’’جماعت‘‘ میں اس کا کوئی بھی کردار نہ ہو!… مسلمانوں کے سیاسی و سماجی عمل میں ’’ائمہ‘‘ ہم اُن علماء کو کہیں گے جن کا معاشرے میں باقاعدہ ایک کردار ہے اور جن کو لوگوں کی اتباع اور پیروکاری حاصل ہے۔ جن کے اپنائے ہوئے مواقف کی لوگوں پر ایک دھاک ہوتی ہے اور لوگوں (خصوصاً صالحین) کی بڑی تعداد ان کے کہنے میں ہوتی ہے۔ ایسے علماء و فضلاء نیز ان کے ساتھ معاشرے کے مدبرین، عمائدین، سردار، وڈیرے اور سالارانِ سپاہ اور دیگر اصحابِ اثر ورسوخ (جو حضرت ابوبکر کی تفسیر کی رو سے معاشرے میں ’’ائمہ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں؛ کیونکہ لوگ ان کے تابع ہوتے ہیں) مل کر اور باہمی صلاح مشورے سے جب اپنے میں سے کسی باصلاحیت آدمی کے سر پر ’’امامۃ المسلمین‘‘ کا تاج رکھتے ہیں تو اس کی خلافت کی حجت یا سُلطۃ (رِٹ) ملک کے طول و عرض پر قائم ہوجاتی ہے اور اس کی اطاعت سب لوگوں پر واجب۔ یہاں جا کر عوام الناس کے ’’بیعت‘‘ کرنے کی نوبت آتی ہے، جسے ’’بیعتِ اطاعت‘‘ کہتے ہیں؛ یعنی وہ بیعت جس کے ذریعے مسلم عوام اپنے ائمہ کے فیصلے پر اظہارِ اطمینان کرتے اور ان کے چناؤ کردہ امامِ اعظم کو اپنی اطاعت اور فرماں برداری کا یقین دلاتے ہیں۔
چنانچہ ’’اہل حل و عقد‘‘ میں لازماً وہ طبقے آئیں گے جو قوت اور سطوت کے مالک ہیں اور جن کے صاد کردینے سے خلیفہ کی رِٹ قائم ہوجاتی ہو۔ اِسی ’’رِٹ‘‘ کو ہمارے اسلامی مصادر میں ’’سلطۃ‘‘ یا ’’سلطان‘‘ یا ’’شوکۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔شریعت اور شوکت کا یہ اجتماع[15] ہی ’’خلافت‘‘ کی تشکیل کرتا ہے۔ نہ اکیلی شریعت رکھنے کا نام ’’امامت‘‘ ہے اور نہ اکیلی شوکت رکھنے کا۔
چنانچہ مجموعی طور پر یہ چیز ایک ہے یعنی ’’شریعت و شوکت کا اجتماع‘‘۔ البتہ مصنفینِ سیاسۃ شرعیۃ میں سے کوئی اس کے کسی پہلو کو سامنے رکھ کر اس کا وصف کرتا ہے تو کوئی کسی پہلو کو: کہیں پر مؤلف ان لوگوں کو ’’اہلِ شوریٰ‘‘ کہہ دیتا ہے، کہیں پر ’’اہلِ اختیار‘‘، کہیں پر ’’اہلِ اجتہاد‘‘، کہیں پر ’’اہلِ شوکت‘‘، کہیں پر ’’اولی الامر‘‘، کہیں پر ’’علماء‘‘، تو کہیں پر ’’اھل الرأی والتدبیر‘‘ تو کہیں پر ’’اھل الحلِ والعقد‘‘۔[16] البتہ مجموعی طور پر ان لوگوں کا اصحابِ شریعت اور اصحابِ شوکت ہونا ضروری ہے۔[17] رہے وہ لوگ جن کے صاد کرنے سے خلیفہ کی رِٹ مسلمانوں کے شہروں اور بستیوں پر قائم نہیں ہوتی یعنی جو عوام الناس سے خلیفہ کی اطاعت نہیں کروا سکتے اور ان کو ایسے لوگوں کی شراکت یا تعاون میسر نہیں جو عوام کو قابو میں لا سکیں اور جن کے ساتھ عامۃ الناس کی رغبت اور خوف وابستہ ہو… تو وہ ’’اہلِ حل و عقد‘‘ کے زمرے میں ہی نہ آئیں گے خواہ وہ کتنے ہی باشرع و باتدبیر کیوں نہ ہوں‘ جیساکہ آگے چل کر ہم ابن تیمیہ ودیگر اہل علم کے کلام میں دیکھیں گے۔
چنانچہ سیاسۃ شرعیہ کے اکثر مصنفین کا بیان (تعبیر کے فرق کے ساتھ) ’’اہل حل و عقد‘‘ کی جس تعریف کے گرد گھومتا ہے (اور جس کی کچھ وضاحت ہم آگے چل کر جوینی، غزالی اور ابن تیمیہ وغیرھم کے کلام میں دیکھیں گے)، وہی ہے جو امام نوویؒ کی تعریف میں آئی:
أَنَّ الْمُعْتَبَرَ بَيْعَةُ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالرُّؤَسَاءِ وَسَائِرِ وُجُوهِ النَّاسِ الَّذِينَ يَتَيَسَّرُ حُضُورُهُمْ (روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتین، کتاب الإمامۃ وقتال البغاۃ، ج 10 ص 43) [18] | جس بات کا اعتبار ہے وہ ہے اہلِ حل و عقد کی بیعت۔ یعنی علماء، رؤساء اور سب نامور و مقبول شخصیات، جن کا (بیعت کے وقت) حاضر ہونا بآسانی ممکن ہو۔ |
نووی کی بیان کردہ ان تین اصناف کی توضیح عبداللہ الطریقی (مؤلف ’’اھل الحل والعقد، صفاتھم ووظائفھم‘‘) ودیگر اہل علم یوں کرتے ہیں:
- علماء: جس پر کلام ہوچکا (کہ یہی ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کی غرض و غایت اور دستور پر اصل اتھارٹی ہیں اور یہی ہیں جو قدم قدم پر معاملے کو اس کی اصل جہت پر لانے اور رکھنے کےلیے مطلوب رہتے ہیں)۔
- رؤساء: یعنی اصحابِ قوت و نفوذ۔ قبائلی سردار اور عمائدین۔ کئی اہل علم نے صراحت کی: رؤساء الجند یعنی افواج کے سالار وغیرہ۔ امام ابن تیمیہ نے اصحاب الدیوان کا بھی ذکر کیا یعنی اعلیٰ بیوروکریسی۔[19] محکمہ جات کے سربراہ وغیرہ۔
- وجوہ الناس[20]: معاشرے کی نامور وبااثر شخصیات۔ طریقی﷿ اس صنف میں تین طبقوں کو شامل کرتے ہیں: اصحاب المال والجاہ والشرف۔ یعنی اصحابِ ثروت۔ جاہ و حشمت کے مالک طبقے۔ اور اونچے خانوادوں کے لوگ۔
علماء، رؤساء اور وجوہ الناس… اِن تین نوع کی نمائندہ شخصیات،[21] جن کے اجتماع سے خلیفہ کی شرعی و انتظامی رِٹ قائم ہوجاتی ہو اور شورشیں فرو اور مسلم شیرازہ مجتمع رکھا جا سکتا ہو… ’’بیعتِ انعقاد‘‘ کےلیے بہت کافی ہیں۔ اس کے بعد عامۃ الناس کےلیے بیعت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔
*****
اصل چیز ’’أھل الحل والعقد‘‘ کا اختیار ہے:
اگرچہ مؤلفین نے خلیفہ کے چناؤ کی دو یا تین صورتیں ذکر کی ہیں، جن میں ’’استخلاف‘‘ بھی بیان کر دیا جاتا ہے (یعنی پہلے خلیفہ کا اپنے بعد والے کو بدستِ خود اپنا جانشین بنا جانا) اور استیلاء (زبردستی خلیفہ بن جانا) بھی۔ لیکن یہ بطورِ واقعہ بیان ہوا ہے نہ کہ بطورِ اصل۔ اگر آپ محققینِ اہل سنت کی تنقیحات دیکھیں تو خلیفہ کے چناؤ کی دو یا تین نہیں صرف ایک صورت ہے اور وہ ہے: اہل ِ اختیار و شوکت کا اس کی خلافت پر صاد کرنا اور پھر عامۃ المسلمین کا اُس کو اپنی بیعت دینا۔ یہ ایک نہایت اہم مبحث ہے اور اس کو سمجھنے کے کئی پہلو ہیں جنہیں ہم اختصار سے بیان کریں گے اور پھر فقہاء کی تالیفات سے اس پر نقول پیش کریں گے:
- یہ کہنا کہ خلافتِ ابوبکر کا انعقاد اور طریقے سے ہوا تھا، خلافت عمر کا اور طریقے سے اور خلافتِ عثمان کا اور طریقے سے… صرف ظاہری فرق کے اعتبار سے ہی درست ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے عقدِ خلافت کی تین صورتیں نہیں بلکہ ایک ہی صورت رہی ہے اور وہ ہے: پہلے اہلِ حل و عقد کامل کر ایک شخص کے گلے میں خلافت کا قلادہ ڈالنا… اور پھر عامۃ المسلمین کی جانب سے اس کی بیعت کرکے اہل حل و عقد کے فیصلہ کی توثیق اور خلیفہ کی اطاعت کا اظہار کرنا۔
- خلیفہ پر اہل حل و عقد کا کلی اجماع ہونا شرط نہیں ہے۔ اس کےلیے بہت سے مؤلفین نے ’’اجماع‘‘ کا لفظ استعمال ضرور کیا ہے مگر اس سے ان کی مراد اُس انداز کا اجماع نہیں جو اصولِ فقہ میں ذکر ہوتا ہے (اور جس میں ایک ایک عالم کے متفق ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے)۔ سیاسۃ شرعیۃ کے باب میں خلیفہ پر ’’مسلمانوں کا اجماع‘‘ ہونے سے مؤلفین کی مراد ہوتی ہے: اہل حل و عقد کی بڑی تعداد کا اتفاق۔ ورنہ، جیساکہ ابن تیمیہ صراحت کرتے ہیں، خود ابوبکر کی خلافت پر تمام اکابر صحابہ کا اتفاق نہ ہوا تھا، جیسے سعد بن عبادہ جو اپنی قوم کے سردار تھے اور نبیﷺ کے اصحابِ شوریٰ میں شامل رہے تھے، حضرت ابوبکر کی بیعت پر آمادہ نہ ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں، حضرت علی اور حضرت زبیر ایسے اعیان بھی وہاں موجود نہ تھے۔ اہل علم و فضل اور اصحابِ شوکت کی اتنی تعداد جو بلادِ اسلام پر خلیفہ کی رِٹ قائم کروا دے اور مسلمانوں کے مابین اس کو نزاعی نہ رہنے دے، اس سلسلہ میں کافی ہے۔
- ’’اہل حل وعقد‘‘ کا آپس کا تعلق، رابطہ، اعتماد، مفاہمت اور ہم آہنگی اصل بنیاد ہے۔ مثلاً حضرت ابوبکر کی تمام اکابرِ صحابہؓ کے مابین ایک سربرآوردہ حیثیت ہے تو یہاں لمبے چوڑے تکلفات میں نہیں پڑا جاتا؛ سقیفہ بنی ساعدہ میں چند اعیانِ صحابہؓ کا بیعت کرلینا بقیہ کی جانب سے کفایت کر جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ’’بیعتِ عامہ‘‘ کےلیے منادی کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالہ سے حضرت عمرنے بعدازاں اپنے ایک خطبہ میں (جوکہ صحیح بخاری میں مروی ہے):
- ایک تو سقیفہ کی بیعت کو ’’ناگہانی بیعت‘‘ (بیعۃُ فلتۃٍ) کہا۔ اور باقاعدہ ایک اصول بیان کیا (مفہوم): کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ سقیفہ میں چند لوگوں کی بیعت سے خلیفہ کا تقرر ہوگیا تھا لہٰذا عمر کے فوت ہوتے ہی یہاں بھی کوئی سے دو آدمی اٹھیں گے، ان میں سے ایک دوسرے کی بیعت کرلے گا اور وہ دونوں امت کو اپنی خلافت کا پابند کرلیں گے تو وہ خبردار ہوجائیں؛ مسلمانوں کے اتفاق کو پس پشت ڈالنے اور ان میں نزاع کھڑا کرنے ایسی کوشش کے نتیجے میں وہ دونوں قتل تک کیے جا سکتے ہیں۔
- دوسرا، حضرت عمر باقاعدہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ تم میں کون ہے جو ابوبکر کے قدکاٹھ کا ہو؟ یعنی جہاں اعیانِ صحابہ پر واضح ہے کہ ایسا کوئی شخص ہے ہی نہیں جو ابوبکر کے ہوتے ہوئے ذرا دیر کےلیے بھی منصبِ خلافت کےلیے درخورِ اعتناء ہو… وہاں اس پر لمبی چوڑی بحث اور صلاح مشورہ غیرضروری تھا۔ زیادہ سے زیادہ، حضراتِ انصار کا ایک اشکال دور کرنا ضروری تھا کہ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین اقتدار کے کلی مالک کیونکر ہوسکتے ہیں (جوکہ عرب زندگی کےلیے واقعتاً ایک عجیب بات تھی)[22] اور جس کے ازالہ کےلیے حدیث ہی فیصلہ کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی جو ابوبکر کے مقابلے پر کسی کو درخورِ توجہ ٹھہراتی۔ حضرت عمر کے اٹھائے ہوئے اس نقطے سے یہی بات نکلتی ہے کہ جہاں ’’اہل اختیار‘‘ کے مابین کوئی غیرمعمولی سربرآوردہ شخصیت نہیں ہے وہاں سقیفہ جتنی سرسری کارروائی ’’اہل اختیار‘‘ کے فیصلہ کو نکھارنے کے معاملہ میں ہرگز کافی نہ ہوگی۔
- استخلافِ عمر (حضرت ابوبکر کا حضرت عمر کو اپنا جانشین بنانا) بےشک ایک درست واقعہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب لینا کہ خلافتِ عمرؓ محض ابوبکرؓ کے تقرر فرمادینے سے یعنی اہلِ حل و عقد کے موافقت کیے بغیر ہی انجام پا گئی تھی، اِس واقعے کو پڑھنے کا درست طریقہ نہیں۔ محققین نے صراحت کی ہے کہ حضرت ابو بکر نے اپنی بیماریِ مرگ میں اَعیانِ صحابہؓ کو باقاعدہ طلب کیا اور ان سے کہا کہ میری اجل آچکی، لہٰذا میری اطاعت کی جو قید تمہارے گلے میں تھی اس کو ختم سمجھو البتہ میرے ہوتے ہوتے آئندہ خلیفہ کا چناؤ کرلو تاکہ میری وفات کے بعد امت اختلاف میں نہ جا پڑے۔ یہ تک مذکور ہے کہ یہ سن کر وہ ابوبکرؓ کی مجلس سے اٹھ گئے اور اس پر صلاح مشورہ کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ہی یہ مسئلہ ابوبکرؓ کو سونپنے کا فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ خلیفہ کےلیے کسی کو نامزد کردیں۔ جس پر ابوبکرؓ نے ان سے یقین دہانی چاہی کہ اگر وہ ان کو یہ اختیار دیتے ہیں تو پھر وہ ان کے نامزد کو قبول کریں گے، جس پر انہوں نے حضرت ابوبکر کو اپنی جانب سے یہ عہد دیا۔ جس کے بعد ابوبکر نے عثمان کو بلایا اور عمر کے نام کی تحریر لکھوا دی۔
- اسی طرح حضرت عمر کے اپنے بعد چھ اشخاص کو نامزد کرنے کے حوالے سے، بخاری میں آتا ہے کہ عمرؓ کے زخمی ہوجانے کے بعد آپؓ کی عیادت کےلیے آئے ہوئے صحابہؓ نے آپؓ سے درخواست کی تھی کہ وہ کسی کا استخلاف کریں، جس کے بعد انہوں نے چھ اشخاص نامزد کردیے۔
- پھر امت کے چوٹی کے فقہائے سنت (مانند جوینی، غزالی، ابن تیمیہ وغیرہ) یہ صراحت کرتے ہیں کہ سقیفہ کے چند لوگوں کی بیعت کو جو انہوں نے ابو بکر کو دی تھی اگر بفرضِ محال صحابہؓ رد کردیتے تو ابوبکرؓ خلیفہ نہ ہوتے۔ اِسی طرح استخلافِ عمرؓ پر اگر کسی وجہ سے وہ صاد نہ کرتے تو عمرؓ خلیفہ نہ ہوتے۔ اِسی طرح عمرؓ کے نامزد چھ اشخاص کی بابت عبدالرحمن بن عوفؓ کے فیصلہ کو صحابہؓ اگر رد کردیتے تو عثمانؓخلیفہ نہ ہوتے۔ بلکہ ابن تیمیہ صراحت کرتے ہیں کہ ائمۂ اہل سنت کا یہ قول ہی نہیں ہے کہ خلافت چند اشخاص کے فیصلہ سے قائم ہوتی ہے؛ اہل سنت کے ہاں خلافت قائم ہوتی ہے اہل شوکت کی جانب سے خلیفہ کی رِٹ قبول کرنے سے۔
- اسی طرح یہ بحث کہ ’’اہل حل و عقد‘‘ میں سے کتنے لوگ خلیفہ کی بیعت کرلیں توہم اس کو ’’بیعتِ انعقاد‘‘ مان لیں گے (جس کے بعد عامۃ الناس اس کی بیعت کرنے کے مجاز ہوجاتے ہیں)… محققینِ اہل سنت کا کہنا ہے کہ اس معاملہ میں ’تعداد‘ کی بحث فضول ہے۔ اگر چند لوگوں کی موافقت میں غالب اکثریت کی موافقت آجاتی ہو تو ان چند لوگوں کا بیعت کرلینا ہی ’’بیعتِ انعقاد‘‘ متصور ہوگا۔ فقہاء نے یہاں تک کہا کہ اگر ایک بھی شخص باقیوں کی رضامندی کا عنوان ہو تو اس کی بیعت سے خلافت کا انعقاد ہوجاتا ہے۔ جیساکہ ہم نے کہا، اصل چیز ’’اہل حل وعقد‘‘ کا آپس کا تعلق، رابطہ، اعتماد، مفاہمت اور ہم آہنگی ہے۔
- یہاں سے خلافتِ استیلاء (یعنی طاقت کے بل پر برسر اقتدار آنا) کی حیثیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ بےشک اہل سنت کے تمام مذاہب کے ہاں ایسے خلیفہ کی اطاعت پر زور دیا جاتا ہے؛ اس کے خلاف مسلح خروج کرنے کو جمہورِ اہل سنت کے ہاں ممنوع ٹھہرایا جاتا ہے… تاہم فقہاء یہ صراحت کرتے ہیں کہ خلافتِ جبر کو ان کا قبول کرنا بالکل اور باب سے ہے: وہ اس خلافت کو ’’درست‘‘ اور ’’حق‘‘ ہرگز نہیں سمجھتے؛ فقہاء کا اس کی اطاعت کو مسلمانوں پر لازم ٹھہرانا ’’مصالح اور مفاسد کے موازنہ‘‘ کی دلیل سے ہے۔ یعنی لاکھوں مربع میل پر جمی ہوئی ایک حکومت کی اطاعت نہ کرنے اور اس کے ساتھ مل کر جہاد اور اقامتِ شریعت کو ترک کرنے سے اسلام اور امت کے جو روزمرہ مصالح معطل ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس میں بہت سے حقوق ضائع، اموال برباد، امن تباہ، حدود معطل، بلکہ دشمن کا غلبہ تک ہوسکتا ہے… تو یہ نقصان عظیم تر ہے۔ دوسری جانب، ایک جمی ہوئی حکومت کو بزور ختم کرنے میں مسلمانوں کی جو خونریزی ہونے والی ہے وہ نقصان اس سے بھی عظیم تر ہے؛ اور اس بات کی ضمانت پھر بھی نہیں کہ لڑ کر وہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہی ہوجائیں گے۔ سرزمینِ اسلام کو اندرونی جنگوں کا اکھاڑا بنا رکھنے کے بڑے بڑے خوفناک مضمرات ہیں؛ اور عموماً نقصان ہوجانے کے بعد سمجھ آتے ہیں۔ بنابریں… زبردستی کی خلافت کو فقہائے سنت کے ہاں احکامِ ضرورت کے تحت قبول کیا گیا ہے نہ کہ کبھی بھی اس کو صحیح ہونے کی سند دی گئی ہے۔
- بنابریں… خلافت کے صحیح طور پر منعقد ہونے کی صورت صرف ایک ہے اور وہ ہے جمہور اہل حل وعقد کا صراحتاً یا ضمناً ایک خلیفہ کی بیعت کرنا۔
- ’’خلیفہ‘‘، ’’اہل حل و عقد‘‘ اور ’’عامۃ الناس‘‘ سے متعلق اصل حدود اور حقائق جب واضح ہوگئے تو پھر اس کی عملی صورتیں کسی دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جو بھی اختیار کرلی جائیں؛ اس میں کوئی تنگی اور مضائقہ نہیں۔ (مزید ملاحظہ فرمائیے اس تعلیق کے آخر میں ہماری گفتگو زیرعنوان ’’سیاسی عمل میں عامۃ الناس کی شرکت‘‘)
اب ہم ائمۂ حدیث و فقہائے سنت سے ان نقاط پر چند نقول پیش کریں گے:
سب سے پہلے حضرت عمر کے خطبہ پر مشتمل حدیثِ بخاری:
ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلاَنًا، فَلاَ يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ: إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلاَ وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا،[23] وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ،[24] مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ فَلاَ يُبَايَعُ هُوَ وَلاَ الَّذِي بَايَعَهُ، تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلاَ۔[25] (بخاری 6830) | مجھے یہ بات پہنچی کہ تم میں سے کسی کہنے والے نہ کہا کہ بخدا اگر عمر فوت ہوجائے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرلوں گا۔ کوئی ہرگز دھوکے میں نہ رہے اور کہے کہ ابوبکر کی بیعت بھی تو ناگہانی ہوئی اور سرے چڑھ گئی ۔ خبردار! وہ بےشک (ناگہانی) تھی لیکن اللہ نے اس کے شر سے بچا لیا۔ جبکہ تم میں سے کوئی ابوبکر جیسا نہیں جسے گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں۔ جو کوئی مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کرے گا تو نہ اُس کی بیعت ہوگی اور نہ اس کے بیعت شدہ کی؛ وہ غلط فہمی میں نہ رہیں کہ (اس حرکت کے نتیجے میں) وہ دونوں قتل ہوسکتے ہیں۔ |
اِس سیاق میں حضرت عمر کے چند مزید اقوال:
مَنْ دُعِيَ إِلَى إِمَارَةٍ مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَقْبَلَ (فتح الباری ج 12 ص 154) | شوریٰ کے بغیر جس کسی کو امیر بننے کی دعوت دی جائے اس کےلیے حلال نہیں کہ اُسے قبول کرے۔ |
مَنْ دَعَا إِلَى إِمَارَةِ نَفْسِهِ، أَوْ غَيْرِهِ مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يَحِلُّ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَقْتُلُوهُ(مصنف عبد الرزاق 5: 445) | جو شخص مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر اپنی یا کسی دوسرے کی امارت کی طرف بلائے تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ اُسے قتل کیے بغیر چھوڑ دو۔ |
فَمَنْ تَأَمَّرَ مِنْكُمْ مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاقْتُلُوهُ (عبد الرزاق 5: 481) | پس جو تم میں سے امیر بنے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر، تو اس کو قتل کر ڈالو۔ |
عَنِ الْمَعْرُورِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: «مَنْ دَعَا إِلَى أَمْرِهِ مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ» (کتاب السنۃ لأبی بکر الخلال1: 143) | معرورؒ راوی ہیں، کہا: میں نے عمر کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر اپنے اقتدار کی طرف بلایا، اُس کی گردن مار دو۔ |
فَمَنْ بَايَعَ امْرَأً مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنَّهُ لَا بَيْعَةَ لَهُ، (مصنف ابن أبی شیبۃ2: 145) | پس جس نے کسی شخص کی بیعت کی، بغیر مسلمانوں کے مشورہ کے، اُس کی کوئی بیعت نہیں۔ |
قاضی ابو یعلیٰؒ مختصر الفاظ میں یہ پورا پراسیس بیان کر دیتے ہیں:
فَإِذَا تَعَيَّنَ لَهُمْ مِنْ بَيْنِ الْجَمَاعَةِ مَنْ أداهم الاجتهاد إلى اختياره وعرضوها عَلَيْهِ, فَإِنْ أَجَابَ إلَيْهَا بَايَعُوهُ عَلَيْهَ، وَانْعَقَدَتْ له الإمامة ببيعتهم، ولزم كَافَّةَ الْأُمَّةِ الدُّخُولُ فِي بَيْعَتِهِ وَالِانْقِيَادُ لِطَاعَتِهِ. (الاحکام السلطانیۃ ص 24) | اہل حل و عقد جب اپنے مابین سے اس شخص کا تعین کرلیں جس کی بابت ان کا اجتہاد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا چناؤ ہونا چاہئے، اور وہ اس کو عہدہ پیش کردیں، تو اگر وہ عہدہ قبول کر لے تب یہ (اہل حل وعقد) اس کی بیعت کریں گے۔ ان کے بیعت کرلینے سے اس کی امامت منعقد ہوجائے گی اور تب پوری امت پر لازم ہوجائے گا کہ اس کی بیعت میں آجائیں اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں۔ |
عمر کے بعد عثمان کا چناؤ ہوا تو ’’شوریٰ‘‘ کا حق ادا کردیا گیا۔ مصنف عبدالرزاق:
قَالَ الْمِسْوَرُ: فَمَا رَأَيْتُ مِثْلَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَاللَّهِ مَا تَرَكَ أَحَدًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَلَا ذَوِي غَيْرِهِمْ مِنْ ذَوِي الرَّأْيِ إِلَّا اسْتَشَارَهُمْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ (مصنف عبد الرزاق رقم 9776) | مِسوَر کہتے ہیں: میں نے کسی کو عبدالرحمن بن عوفؓ جیسا نہیں دیکھا؛ بخدا اُس رات انہوں نے مہاجرین، انصار اور دیگر پختہ کار رائے والوں میں سے کسی کو نہ چھوڑا؛ ان میں سے ایک ایک کے ساتھ مشورہ کیا۔ |
ابن تیمیہؒ امام احمد بن حنبل کا قول نقل کرتے ہیں:
وَقَالَ فِي رِوَايَةِ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ، وَقَدْ سُئِلَ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – ” «مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ لَهُ إِمَامٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً» “مَا مَعْنَاهُ؟ فَقَالَ: تَدْرِي مَا الْإِمَامُ؟ الْإِمَامُ الَّذِي يُجْمِعُ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ، كُلُّهُمْ يَقُولُ: هَذَا إِمَامٌ؛ فَهَذَا مَعْنَاهُ (منھاج السنۃ ج 1 ص 529) | امام احمد کا قول بروایت اسحاق بن منصور: کہ جب آپؒ سے حدیثِ نبوی کی بابت پوچھا گیا: ’’جو شخص مرا اس حال میں کہ اس کا کوئی امام نہ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘، اس سے کیا مراد ہے؟ تو امام احمد نے فرمایا: جانتے ہو امام کیا ہوتا ہے؟ امام وہ ہوتا ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہو، جس کے بارے میں سب کہیں کہ یہ امام ہے؛ تو وہ ہوتا ہے امام۔ |
مالکی فقیہ النفراوی کہتے ہیں:
فَالْإِمَامُ مَنْ انْعَقَدَتْ لَهُ الْبَيْعَةُ بِأَهْلِ الْعَقْدِ وَالْحَلِّ۔ (الفواكه الدواني ص 1: 106) | امام وہ ہے جس کےلیے بیعت طے پائی ہو اہل حل و عقد کے ہاتھوں۔ |
شافعی فقیہ الاسنوی کہتے ہیں:
إِذا عقد وَاحِد من أهل الشَّوْكَة الْبيعَة لوَاحِد وَالْبَاقُونَ ساكتون انْعَقَدت ولَايَته (التمهيد في تخريج الفروع على الأصول ص 455) | اہلِ شوکت میں سے اگر ایک آدمی کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کا انعقاد کردے درحالیکہ باقی (اہل حل وعقد) خاموشی اختیار کرلیں تو اس کی ولایت منعقد ہوجاتی ہے۔ |
نووی کہتے ہیں:
الْمُعْتَبَرَ بَيْعَةُ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالرُّؤَسَاءِ وَسَائِرِ وُجُوهِ النَّاسِ الَّذِينَ يَتَيَسَّرُ حُضُورُهُمْ، وَلَا يُشْتَرَطُ اتِّفَاقُ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ فِي سَائِرِ الْبِلَادِ وَالْأَصْقَاعِ، بَلْ إِذَا وَصَلَهُمْ خَبَرُ أَهْلِ الْبِلَادِ الْبَعِيدَةِ، لَزِمَهُمُ الْمُوَافَقَةُ وَالْمُتَابَعَةُ، وَعَلَى هَذَا لَا يَتَعَيَّنُ لِلِاعْتِبَارِ عَدَدٌ، بَلْ لَا يُعْتَبَرُ الْعَدَدُ، حَتَّى لَوْ تَعَلَّقَ الْحَلُّ وَالْعَقْدُ بِوَاحِدٍ مُطَاعٍ، كَفَتْ بَيْعَتُهُ، لِانْعِقَادِ الْإِمَامَةِ. (روضة الطالبين وعمدة المفتين ج 10 ص 43) | جس بات کا اعتبار ہے وہ ہے اہل حل و عقد کا بیعت کرلینا یعنی علماء، عمائدین اور سب نامور وسرکردہ لوگ جن کا حاضر ہونا بآسانی ممکن ہو۔ یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ تمام اہل حل و عقد تمام شہروں میں اتفاق کریں۔ بلکہ جب ان کو دوردراز کے شہروں سے (نئے خلیفہ کی) خبر موصول ہوتو ان پر لازم ہے کہ وہ اس کی موافقت اور پیروکاری اختیار کرلیں۔ بنا برایں؛ اہل حل و عقد کی تعداد کوئی شرط نہیں۔ کوئی سی بھی تعداد ہو، مسئلہ نہیں۔ یہاں تک کہ حل یا عقد کا پورا معاملہ ایک ہی ایسے شخص سے متعلق ہوجائے جس کی بات (باقیوں کے ہاں) مانی جانے والی ہے تو اس ایک شخص کا بیعت کرلینا امامت کے انعقاد کےلیے کافی ہوجاتا ہے۔ |
حضرت ابوبکر کا حضرت عمر کو جانشین بنانا… اور شوریٰ:
عن الحسن قال: لما ثَقُل أبو بكر رضي الله عنه إستبان له في نفسه جمع الناس إليه فقال لهم: إِنه قد نزل بي ما قد ترون، ولا أظنني إِلّا لِمماتي، وقد أطلق الله تعالى أيْمانكم من بَيْعتي، وحلَّ عنكم عَقْدي، وردَّ عليكم أمركم: فأمِّروا عليكم من أحببتم، فإنَّكم إن أمَّرتم في حياةٍ مني كان أجدر أن لا تختلفوا بعدي. فقاموا في ذلك وخَلَّوه تخلية فلم تستقم لهم، فرجعوا إليه فقالوا: رَهْ لنا يا خليفة رسول الله. قال: فلعلكم تختلفون. قالوا: لا. فقال: فعليكم عهد الله على الرضا. قالوا: نعم. قال: فأمهلوني أنظر لله ولدينه ولعباده. فأرسل أبو بكر إلى عثمان فقال: أشر عليَّ برجل، فواللہ إنك عندي لها لأهل وموضع، فقال: عمر (فقال) : أكتب فكتب حتى انتهى إلى الإِسم فغُشي عليه فأفاق، فقال: أكتب عمر. (ابن المبرد فی ’’محض الصواب فی فضائل أمیر المؤمنیں عمر بن الخطاب 1: 287، ابن عساکر فی تاریخ دمشق 40: 248، ابن الجوزی فی مناقب عمر ص 55، الکاندھلوی فی حیاۃ الصحابۃ 2: 254) | حسن بصریؓ راوی ہیں، کہا: جب ابوبکر کی طبیعت گراں ہوئی اور ان پر اپنی حالت واضح ہوگئی تو آپؓ نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا، اکٹھے ہوئے تو کہا: میری حالت تم دیکھ رہے ہو؛ میرا نہیں خیال میں بچ پاؤں گا۔ تم نے میری بیعت کے جو عہد کررکھے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان سے آزاد کردیا۔ میرا عقد تم پر سے ختم ہوا، اب تمہارا معاملہ تم کو واپس؛ لہٰذا تم جس کو چاہو اپنے اوپر امیر بنا لو کیونکہ تم میرے جیتے جی امیر بنا لو گے تو اس خطرےمیں نہ رہو گے کہ میرے بعد اختلاف میں پڑو۔ وہ لوگ وہاں سے اٹھ کر تخلیہ میں چلے گئےمگر بات نہ بنی۔ تب وہ ابوبکرؓ کے پاس واپس آئے اور کہنے لگے: اے رسول اللہﷺ کے خلیفہ! آپ ہی ہمارے لیے کوئی رائے دیکھ لیجئے۔ ابوبکرؓ فرمانے لگے: ہوسکتا ہے تم اتفاق نہ کرو۔ وہ بولے: نہیں۔ ابوبکرؓ بولے: تو پھر کیا تم خدا کے نام کا عہد کرتے ہو کہ اس کو قبول کرو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ ابوبکرؓ نے فرمایا: تو پھر مجھے کچھ وقت دو کہ میں اللہ کےلیے، اس کے دین کےلیے اور اس کے بندوں کےلیے بہترین شخص کا انتخاب کروں۔ تب ابوبکرؓ نے عثمانؓ کو بلایا اور کہا: مجھے کسی آدمی کا مشورہ دو، بخدا تم اس کے اہل ہو۔ وہ کہنے لگے: عمر۔ ابوبکرؓ کہنے لگے: تو لکھ دو۔ پس عثمان لکھنے لگے، جب نام پر پہنچے تو ابو بکرؓ کو غشی پڑی۔ سنبھلے تو بولے: لکھو: عمر۔ |
امام الحرمین الجوینی کی تقریر:
ذَهَبَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّ الْإِمَامَةَ تَنْعَقِدُ بِبَيْعَةِ اثْنَيْنِ مِنْ أَهْلِ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ. وَاشْتَرَطَ طَوَائِفُ عَدَدَ أَكْمَلِ الْبَيِّنَاتِ فِي الشَّرْعِ ; وَهُوَ أَرْبَعَةٌ. وَذَهَبَ بَعْضُ مَنْ لَا يُعَدُّ مِنْ أَحْزَابِ الْأُصُولِيِّينَ إِلَى اشْتِرَاطِ أَرْبَعِينَ، وَهُوَ عَدَدُ الْجُمُعَةِ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. وَهَذِهِ الْمَذَاهِبُ لَا أَصْلَ لَهَا مِنْ مَأْخَذِ الْإِمَامَةِ… وَأَقْرَبُ الْمَذَاهِبِ مَا ارْتَضَاهُ الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ، وَهُوَ الْمَنْقُولُ عَنْ شَيْخِنَا أَبِي الْحَسَنِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – وَهُوَ أَنَّ الْإِمَامَةَ تَثْبُتُ بِمُبَايَعَةِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقْدِ. وَوَجْهُ هَذَا الْمَذْهَبِ أَنَّهُ تَقَرَّرَ أَنَّ الْإِجْمَاعَ لَيْسَ شَرْطًا فِي عَقْدِ الْإِمَامَةِ، ثُمَّ لَمْ يَثْبُتْ تَوْقِيفٌ فِي عَدَدٍ مَخْصُوصٍ. وَالْعُقُودُ فِي الشَّرْعِ مَوْلَاهَا عَاقِدٌ وَاحِدٌ، وَإِذَا تَعَدَّى الْمُتَعَدِّي الْوَاحِدَ، فَلَيْسَ عَدَدٌ أَوْلَى مِنْ عَدَدٍ، وَلَا وَجْهَ لِلتَّحَكُّمِ فِي إِثْبَاتِ عَدَدٍ مَخْصُوصٍ، فَإِذَا لَمْ يَقُمْ دَلِيلٌ عَلَى عَدَدٍ لَمْ يَثْبُتِ الْعَدَدُ، وَقَدْ تَحَقَّقْنَا أَنَّ الْإِجْمَاعَ لَيْسَ شَرْطًا، فَانْتَفَى الْإِجْمَاعُ بِالْإِجْمَاعِ، وَبَطَلَ الْعَدَدُ بِانْعِدَامِ الدَّلِيلِ عَلَيْهِ، فَلَزِمَ الْمَصِيرُ إِلَى الِاكْتِفَاءِ بِعَقْدِ الْوَاحِدِ. الَّذِي أَرَاهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ لَمَّا بَايَعَهُ عُمَرُ لَوْ ثَارَ ثَائِرُونَ، وَأَبْدَوْا صَفْحَةَ الْخِلَافِ، وَلَمْ يَرْضَوْا تِلْكَ الْبَيْعَةَ، لَمَا كُنْتُ أَجِدُ مُتَعَلَّقًا فِي أَنَّ الْإِمَامَةَ كَانَتْ تَسْتَقِلُّ بِبَيْعَةِ وَاحِدٍ، وَكَذَلِكَ لَوْ فَرَضْتُ بَيْعَةَ اثْنَيْنِ أَوْ أَرْبَعَةٍ فَصَاعِدًا، وَقَدَّرْتُ ثَوَرَانَ مُخَالِفِينَ، لَمَا وَجَدْتُ مُتَمَسَّكًا بِهِ اكْتِرَاثٌ وَاحْتِفَالٌ، فِي قَاعِدَةِ الْإِمَامَةِ. وَلَكِنْ لَمَّا بَايَعَ عُمَرُ تَتَابَعَتِ الْأَيْدِي، وَاصْطَفَقَتِ الْأَكُفُّ، وَاتَّسَعَتِ الطَّاعَةُ، وَانْقَادَتِ الْجَمَاعَةُ. فَالْوَجْهُ عِنْدِي فِي ذَلِكَ أَنْ يُعْتَبَرَ فِي الْبَيْعَةِ حُصُولُ مَبْلَغٍ مِنَ الْأَتْبَاعِ وَالْأَنْصَارِ وَالْأَشْيَاعِ، تَحْصُلُ بِهِمْ شَوْكَةٌ ظَاهِرَةٌ، وَمَنْعَةٌ قَاهِرَةٌ، بِحَيْثُ لَوْ فُرِضَ ثَوَرَانُ خِلَافٍ، لَمَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ أَنْ يُصْطَلَمَ أَتْبَاعُ الْإِمَامِ، فَإِذَا تَأَكَّدَتِ الْبَيْعَةُ، وَتَأَطَّدَتْ بِالشَّوْكَةِ وَالْعَدَدِ وَالْعُدَدِ، وَاعْتَضَدَتْ، وَتَأَيَّدَتْ بِالْمِنَّةِ، وَاسْتَظْهَرَتْ بِأَسْبَابِ الِاسْتِيلَاءِ وَالِاسْتِعْلَاءِ، فَإِذَا ذَاكَ تَثْبُتُ الْإِمَامَةُ، وَتَسْتَقِرُّ، وَتَتَأَكَّدُ الْوِلَايَةُ وَتَسْتَمِرُّ، وَلَمَّا بَايَعَ عُمَرُ مَالَتِ النُّفُوسُ إِلَى الْمُطَابَقَةِ وَالْمُوَافَقَةِ، وَلَمْ يُبْدِ أَحَدٌ شِرَاسًا وَشِمَاسًا، وَتَظَافَرُوا عَلَى بَذْلِ الطَّاعَةِ عَلَى حَسَبِ الِاسْتِطَاعَةِ، وَبِتَعَيُّنِ اعْتِبَارِ مَا ذَكَرْتُهُ بِأَنِّي سَأُوَضِّحُ فِي بَعْضِ الْأَبْوَابِ الْآتِيَةِ أَنَّ الشَّوْكَةَ لَا بُدَّ مِنْ رِعَايَتِهَا… … ثُمَّ أَقُولُ: إِنْ بَايَعَ رَجُلٌ وَاحِدٌ مَرْمُوقٌ، كَثِيرُ الْأَتْبَاعِ وَالْأَشْيَاعِ، مُطَاعٌ فِي قَوْمِهِ، وَكَانَتْ مَنْعَتُهُ تُفِيدُ مَا أَشَرْنَا إِلَيْهِ، انْعَقَدَتِ الْإِمَامَةُ. وَقَدْ يُبَايِعُ رِجَالٌ لَا تُفِيدُ مُبَايَعَتُهُمْ شَوْكَةً وَمُنَّةً قَهْرِيَّةً، فَلَسْتُ أَرَى لِلْإِمَامَةِ اسْتِقْرَارًا. (غیاث الأمم ص 68 – 72) | اگرچہ بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ اہل حل وعقد میں سے دو آدمی کسی کی بیعت کرلیں تو اس کی امامت منعقد ہوجاتی ہے۔ بعض نے وہ تعداد ضروری ٹھہرائی جو گواہی میں کامل ترین ہے یعنی چار۔ بعض ایسے لوگ جو اہل اصول میں شمار نہیں ہوتے چالیس کی تعداد ضروری ٹھہرانے کی طرف بھی گئے ہیں، جوکہ شافعی کے نزدیک جمعہ کی تعداد ہے۔ مگر انعقادِ امامت کے مسئلہ پر یہ سب موقف بےبنیاد ہیں… اس سلسلہ میں حق کے قریب ترین مذہب وہ ہے جسے قاضی ابوبکر الباقلانی نے پسند فرمایا، یہی ہمارے شیخ ابو الحسن الاشعری سے منقول ہے: اور وہ یہ کہ: اہل حل و عقد میں سے ایک بھی آدمی بیعت کرلے تو امامت کا انعقاد ہوجاتا ہے۔ اس کی توجیہ یہ ہے کہ امامت کے انعقاد میں جب سب کا متفق ہونا ضروری نہیں، اور شریعت نے کسی مخصوص تعداد کی توقیف بھی نہیں کی، جبکہ شریعت میں عقود contracts ایک آدمی کے دستخط سے انجام پا جاتے ہیں، البتہ معاملہ جب ایک سے بڑھ جائے تو پھر کوئی تعداد کسی دوسری تعداد کی نسبت اولیٰ نہیں، کسی مخصوص تعداد کو زبردستی واجب نہیں ٹھہرایا جاسکتا… تو پھر جب کسی مخصوص تعداد پر دلیل نہیں تو تعداد کا مسئلہ سرے سے ثابت نہیں۔ اب جب یہ بات ہم قطعی طور پر جان چکے کہ سب (اہل حل وعقد) کا متفق ہونا شرط نہیں، اور جوکہ اجماعاً ثابت ہے، اور (اہل حل وعقد کی) کسی مخصوص تعداد پر دلیل نہیں لہٰذا تعداد کا مسئلہ بھی ختم ہوا تو لامحالہ ہمیں اس طرف جانا ہوگا کہ (اہل حل وعقد کے) ایک آدمی کے بیعت دے دینے کو کافی جانا جائے۔ میری جو رائے ہے وہ یہ کہ عمرؓ نے جب ابوبکرؓ کی بیعت کی تو اُس وقت اگر کچھ لوگ شورش کرلیتے، اس سے اختلاف کرنے لگتے اور اُس بیعت سے عدم رضامندی ظاہر کرتے تو میں اس کی کوئی بنیاد نہیں پاتا کہ پھر بھی ایک ہی شخص کی بیعت سے یہ امامت منعقد ہوجاتی۔ بیعت کرنے والوں کی تعداد دو یا چار یا زیادہ فرض کرلیں تو بھی میں کوئی ایسی بنیاد نہیں پاتا جس کو امامت کے مسئلہ میں درخورِ اعتناء ٹھہرایا جاسکتا۔ مگر معاملہ یوں رہا کہ عمرؓ کے بیعت کرتے ہی بیعت کنندگان کا تانتا بندھ گیا اور ہاتھوں پر ہاتھ پڑتے گئے۔ دائرۂ اطاعت وسیع ہوتا چلا گیا اور پوری جماعت (اِس بیعت کے) تابع ہوگئی۔ پس اصل معاملہ میرے نزدیک یہ ہے کہ بیعت کا اعتبار اس چیز میں ہو کہ اتنے سارے پیروکار، مددگار اور حمایتی دستیاب ہوجائیں جن سے ایک واضح شوکت قائم ہوجاتی اور ایک زورآور ناقابل تسخیر حیثیت مل جاتی ہو، یہاں تک کہ کسی مخالفت کا اٹھنا فرض کرلیا جائے تو بھی امام کے حمایتی پچھاڑے نہ جاسکتے ہوں۔ ہاں جب (ایسی) بیعت کی یقین دہانی ہو، اور اس کو نفری اور سازوسامان کے حوالے سے شوکت میسر ہو، اس کے بازو مضبوط ہوں اور پیروکاروں کا ساتھ ہو، اور وہ تمام اسباب پورے ہوں جو غلبے اور برتری کےلیے ضروری ہوں… تو تب جاکر امامت ثابت ہوتی ہے۔ تب اس کا استقرار ہوتا ہے اور آدمی کا عہدہ یقینی ہوتا اور اُسے برقرار رہنے کی بنیاد ملتی ہے۔ چنانچہ عمرؓ کے بیعت کرتے ہی، نفوس اس بیعت سے مطابقت اور موافقت کی جانب مائل ہوتے چلے گئے۔ کسی نے کوئی شورش یا گڑبڑ نہ کی اور سب مل کر اطاعت حسبِ استطاعت کی روش ظاہر کرتے چلے گئے۔ میں نے جو ذکر کیا اُسی کا صحیح ہونا آئندہ ابواب میں دلائل سے ثابت ہوجائے گا، جن کی رو سے شوکت کا اعتبار ناگزیر ہے۔ نیز میں کہتا ہوں: اگر بیعت کرنے والا ایک شخص ہو، جو نگاہوں کا مرکز ہو، پیروکاروں اور حمایتیوں کی وسیع تعداد رکھتا ہو، اپنے لوگوں میں اس کی بات مانی جاتی ہو، اور اس کو پشت سے وہ مضبوطی حاصل ہو جو اوپر مذکور صورت پر پوری اترتی ہو، تو اُس (ایک شخص کی بیعت سے) امامت منعقد ہوجائے گی۔ دوسری جانب بہت سے آدمیوں کی بیعت جس سے وہ شوکت، غلبہ اور کنٹرول نہ ملتا ہو میرے نزدیک امامت کو منعقد نہیں کرتی۔ |
امام غزالی کی تقریر:
وَقَوْلهمْ ان الِاخْتِيَار بَاطِل لأنه لايمكن اعْتِبَار كَافَّة الْخلق وَلَا الِاكْتِفَاء بِوَاحِد وَلَا التحكم بِتَقْدِير عدد معِين بَين الْوَاحِد وَالْكل فَهَذَا جهل بمذهبنا الَّذِي نختاره وَنُقِيم الْبُرْهَان على صِحَّته وَالَّذِي نختاره انه يَكْتَفِي بشخص وَاحِد يعْقد الْبيعَة للامام مهما كَانَ ذَلِك الْوَاحِد مُطَاعًا ذَا شَوْكَة لَا تطال وَمهما كَانَ مَال الى جَانب مَال بِسَبَبِهِ الجماهير وَلم يُخَالِفهُ الا من لَا يكرث بمخالفته فالشخص الْوَاحِد الْمَتْبُوع المطاع الْمَوْصُوف بِهَذِهِ الصّفة اذا بَايع كفى اذ فِي مُوَافَقَته الجماهير فان لم يحصل هَذَا الْغَرَض الا لشخصين اَوْ ثَلَاثَة فلابد من اتِّفَاقهم وَلَيْسَ الْمَقْصُود اعيان الْمُبَايِعين وانما الْغَرَض قيام شَوْكَة الامام بالاتباع والاشياع وَذَلِكَ يحصل بِكُل مستول مُطَاع وَنحن نقُول لما بَايع عمر ابا بكر رضى الله عَنْهُمَا انْعَقَدت الامامة لَهُ بِمُجَرَّد بيعَته وَلَكِن لتتابع الايدي الى الْبيعَة بِسَبَب مبادرته وَلَو لم يبايعه غير عمر وبقى كَافَّة الْخلق مخالفين اَوْ انقسموا انقساما متكافئا لَا يتَمَيَّز فِيهِ غَالب عَن مغلوب لما انْعَقَدت الامامة فان شَرط ابْتِدَاء الِانْعِقَاد قيام الشَّوْكَة وانصراف الْقُلُوب الى المشايعة ومطابقة البواطن والظواهر على الْمُبَايعَة فان الْمَقْصُود الَّذِي طلبنا لَهُ الامام جمع شتات الاراء فِي مصطدم تعَارض الاهواء وَلَا تتفق الارادات المتنافضة والشهوات المتباينة المتنافرة على مُتَابعَة راى وَاحِد الا اذا ظَهرت شوكته وعظمت نجدته وترسخت فِي النُّفُوس رهبته ومهابته ومدار جَمِيع ذَلِك على الشَّوْكَة وَلَا تقوم الشَّوْكَة الا بموافقة الاكثرين من معتبري كل زمَان۔ فاذا بَان أَن هَذَا مَأْخَذ الْإِمَامَة فَلَيْسَ يتمارى فِي أَن الْجِهَة الشَّرِيفَة الَّتِي ننصرها قد صرف الله وُجُوه كَافَّة الْخلق اليها وجبل قُلُوبهم على حبها وَلذَلِك قَامَت الشَّوْكَة لَهُ فِي اقطار الارض حَتَّى لَو ظهر بَاغ يظْهر خلافًا فِي هَذَا الجناب الْكَرِيم وَلَو بأقصى الصين اَوْ الْمغرب لبادروا إِلَى اختطافه وتطهير وَجه الارض مِنْهُ متقربين إِلَى الله تَعَالَى وَقد لَاحَ لَك الْآن كَيفَ ترقينا من هَذِه المغاصة الْمظْلمَة وَكَيف دفعنَا مَا أشكل على جَمِيع جَمَاهِير النظار من تعْيين الْمِقْدَار فِي عدد أهل الأختيار إِذ لم نعين لَهُ عددا بل اكتفينا بشخص وَاحِد يُبَايع وحكمنا بانعقاد الإمامه عِنْد بيعَته لَا لِتَفَرُّدِهِ فِي عينه وَلَكِن لكَون النُّفُوس محموله على مُتَابعَة ومبايعة من أذعن هُوَ لطاعته وَكَانَ فِي مُتَابَعَته قيام قُوَّة الإِمَام وشوكته۔ (فضائح الباطنیۃ 176 ۔ 178) | رافضہ کا یہ کہنا کہ (ابوبکرؓ کا) چناؤ باطل تھا کیونکہ یہ توماننے والی بات نہیں کہ سب مخلوق اس پر صاد کرگئی تھی، جبکہ ایک آدمی کی بیعت کافی نہیں، نہ ہی ’’ایک‘‘ اور ’’سب‘‘ کے درمیان محض اپنے پاس سے کوئی تعداد مقرر ٹھہرائی جاسکتی ہے… تو یہ ہمارے (اہل سنت) مذہب سے جاہل ہونے کی دلیل ہے۔ ہم جس مذہب کو اختیار کرتے اور اس کے صحیح ہونے پر دلائل رکھتے ہیں وہ یہ کہ: اگر ایک ہی شخص امام کےلیے بیعت کا انعقاد کردے تو وہ کافی ہوگا بشرطیکہ وہ ایک شخص ایسا ہو جس کی بات باقی لوگوں کے ہاں مانی جاتی ہو، ایسی شوکت کا مالک ہو جسے بےبس نہ کیا جاسکتا ہو اور جس کے باعث جمہور طبقے اِدھر مائل ہوجاتے ہوں جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے بےزور اور بےحیثیت رہ جاتے ہوں۔ پس ایک شخص اگر ایسا ہو جس کو اس انداز کی پیروکاری حاصل ہو اور اس کی بات اِس انداز میں چلتی ہو، کافی ہے؛ کیونکہ اس کے موافقت کرلینے میں جمہور طبقے خودبخود آجاتے ہیں۔ یہ ہدف اگر دو آدمیوں سے پورا ہوتا ہو تو وہ دو آدمی ضروری ہوں گے، تین سے پورا ہوتا ہو تو وہ تین۔ دیکھنا یہ نہیں کہ بیعت (انعقاد) کرنے والے کون کون ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے بیعت کرنے سے امام کو پیروکاروں اور حمایتیوں کی شوکت حاصل ہونے والی ہے یا نہیں۔ یہ ہدف ہر ایسی سربرآوردہ شخصیت کے ذریعے حاصل ہوگا جو چھا جانے والی ہو اور اس کی بات لوگوں میں تسلیم ہوتی ہو۔ ہم کہتے ہیں: جب عمر نے ابوبکر کی بیعت کی، تو محض عمرؓ کی بیعت سے امامت منعقد ہوئی، مگر اس کی بنیاد یہ کہ عمرؓ کا پہل کرنا وہ چیز تھی جس سے بیعت کرنے والی ہتھیلیوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہاں اگر عمرؓ کے علاوہ بیعت کرنے والا کوئی نہ ہوتا اور باقی سب لوگ اس کے مخالف رہتے، یا اگر برابر برابر بھی بٹ جاتے یوں کہ واضح نہ ہوسکتا کس کا پلڑا بھاری ہے تو (ابوبکرؓ کی) امامت منعقد نہ ہوتی۔ کیونکہ ابتدائے انعقاد کی شرط ہے: شوکت کا مل جانا، اس کی حمایت کی جانب قلوب کا میلان ہوجانا اور دلوں کا ظاہر وباطن سے اس کی بیعت پر موافقت کرنا۔ کیونکہ جس مقصد کےلیے ہمیں امام درکار تھا وہ ہے آراء کا مجتمع ہونا اور انتشار وبےاتفاقی کے دشت سے نکل آنا۔ اتنی مختلف الخیال آراء اور بھانت بھانت کی بولیوں کو ایک رائے کی پیروی پر اکٹھا کرنا ممکن ہی نہیں جب تک امام کی شوکت ظاہر نہ ہو، پشت پر زبردست قوت نہ لے آئی گئی ہو اور نفوس پر اس کی ہیبت اور دبدبہ قائم نہ کرالیا گیا ہو۔ اِس سب کا دارومدار ہے حصولِ شوکت پر؛ اور حصول شوکت ممکن نہیں جب تک کسی دور کی اکثر معتبر شخصیات کی موافقت نہ مل جائے۔ اب اگر یہ واضح ہوا کہ امامت کا اصل ماخذ یہ ہے تو کچھ شک نہیں رہ جاتا کہ جس ذات بابرکات (ابوبکرؓ) کی نصرت ہم کرتے ہیں خدا نے سب مخلوق کو اُس کی جانب مائل کردیا تھا اور دلوں کو اس کی محبت پر آمادہ کردیا تھا۔ یہ وجہ ہے کہ اُس کی شوکت (رِٹ) زمین میں چہاردانگ قائم ہوئی۔ اس حد تک کہ کوئی شخص اگر چین کے آخری سرے یا اوقیانوس کے کنارے پر آپؓ کی اِس شان کے آگے سرتابی کرتا تو وہ سب لپکتے کہ اُس کو اچک لیں اور روئے زمین کو اُس سے پاک کرکے خدا کے ہاں تقرب پائیں۔ اب تم پر واضح ہوا کہ یہ تاریک گھاٹی ہم نے کیونکر عبور کی؛ یہ مسئلہ جو اصحابِ نظر کی بڑی تعداد کےلیے باعثِ اشکال تھا ہم نے کیونکر حل کیا، یعنی اہل حل وعقد کی تعداد کے تعین کا مسئلہ؛ چنانچہ ہم نے اس کیلئے کوئی تعداد معیّن نہیں کی بلکہ ایک شخص کی بیعت کو کافی قرار دیا جس کے بیعت کرلینے سے امامت کا انعقاد ہوجاتا ہے اس لیے نہیں کہ وہ مخصوص طور پر کوئی ایک شخص ہے، بلکہ اس لیے کہ نفوس اس چیز کےلیے تیار ہیں کہ یہ ’’ایک شخص‘‘ اگر کسی کی اطاعت کیلئے سرنگوں ہوجائے تو وہ سب اِسکے پیچھے بیعت کیلئے چلے آئیں گے، یعنی محض اس ایک شخص کے بیعت کرلینے میں امام کی قوت اور شوکت ہے۔ |
امام ابن تیمیہ کی تقریر:
وَأَمَّا قَوْلُ [الرَّافِضِيِّ] إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّ الْإِمَامَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَبُو بَكْرٍ، بِمُبَايَعَةِ عُمَرَ، بِرِضَا أَرْبَعَةٍ. فَيُقَالُ لَهُ: لَيْسَ هَذَا قَوْلَ أَئِمَّةِ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَإِنْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْكَلَامِ يَقُولُونَ: إِنَّ الْإِمَامَةَ تَنْعَقِدُ بِبَيْعَةِ أَرْبَعَةٍ، كَمَا قَالَ بَعْضُهُمْ: تَنْعَقِدُ بِبَيْعَةِ وَاحِدٍ مِنْهُمْ» ” فَإِذَا أَمَّرَهُ أَهْلُ الْقُدْرَةِ مِنْهُمْ صَارَ أَمِيرًا. فَكَوْنُ الرَّجُلِ أَمِيرًا وَقَاضِيًا وَوَالِيًا وَغَيْرَ ذَلِكَ مِنَ الْأُمُورِ الَّتِي مَبْنَاهَا عَلَى الْقُدْرَةِ وَالسُّلْطَانِ، مَتَى حَصَلَ مَا يَحْصُلُ بِهِ مِنَ الْقُدْرَةِ وَالسُّلْطَانِ حَصَلَتْ وَإِلَّا فَلَا؛ إِذِ الْمَقْصُودُ بِهَا عَمَلُ أَعْمَالٍ لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِقُدْرَةٍ، فَمَتَى حَصَلَتِ الْقُدْرَةُ الَّتِي بِهَا يُمْكِنُ تِلْكَ الْأَعْمَالُ كَانَتْ حَاصِلَةً وَإِلَّا فَلَا… … وَالْكَلَامُ هُنَا فِي مَقَامَيْنِ: أَحَدُهُمَا: فِي كَوْنِ أَبِي بَكْرٍ كَانَ هُوَ الْمُسْتَحِقَّ لِلْإِمَامَةِ، وَأَنَّ مُبَايَعَتَهُمْ لَهُ مِمَّا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَهَذَا ثَابِتٌ بِالنُّصُوصِ وَالْإِجْمَاعِ. وَالثَّانِي: أَنَّهُ مَتَى صَارَ إِمَامًا، فَذَلِكَ بِمُبَايَعَةِ أَهْلِ الْقُدْرَةِ لَهُ. وَكَذَلِكَ عُمَرُ لَمَّا عَهِدَ إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ، إِنَّمَا صَارَ إِمَامًا لَمَّا بَايَعُوهُ وَأَطَاعُوهُ، وَلَوْ قُدِّرَ أَنَّهُمْ لَمْ يُنَفِّذُوا عَهْدَ أَبِي بَكْرٍ وَلَمْ يُبَايِعُوهُ لَمْ يَصِرْ إِمَامًا، سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ جَائِزًا أَوْ غَيْرَ جَائِزٍ. فَالْحِلُّ وَالْحُرْمَةُ مُتَعَلِّقٌ بِالْأَفْعَالِ، وَأَمَّا نَفْسُ الْوِلَايَةِ وَالسُّلْطَانِ فَهُوَ عِبَارَةٌ عَنِ الْقُدْرَةِ الْحَاصِلَةِ، ثُمَّ قَدْ تَحْصُلُ عَلَى وَجْهٍ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، كَسُلْطَانِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، وَقَدْ تَحْصُلُ عَلَى وَجْهٍ فِيهِ مَعْصِيَةٌ، كَسُلْطَانِ الظَّالِمِينَ. وَلَوْ قُدِّرَ أَنَّ عُمَرَ وَطَائِفَةً مَعَهُ بَايَعُوهُ، وَامْتَنَعَ سَائِرُ الصَّحَابَةِ عَنِ الْبَيْعَةِ، لَمْ يَصِرْ إِمَامًا بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا صَارَ إِمَامًا بِمُبَايَعَةِ جُمْهُورِ الصَّحَابَةِ، الَّذِينَ هُمْ أَهْلُ الْقُدْرَةِ وَالشَّوْكَةِ. وَلِهَذَا لَمْ يَضُرَّ تَخَلُّفُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ؛ لِأَنَّ ذَلِكَ [لَا] يَقْدَحُ فِي مَقْصُودِ الْوِلَايَةِ، فَإِنَّ الْمَقْصُودَ حُصُولُ الْقُدْرَةِ وَالسُّلْطَانِ اللَّذَيْنِ بِهِمَا تَحْصُلُ مَصَالِحُ الْإِمَامَةِ، وَذَلِكَ قَدْ حَصَلَ بِمُوَافَقَةِ الْجُمْهُورِ عَلَى ذَلِكَ. فَمَنْ قَالَ إِنَّهُ يَصِيرُ إِمَامًا بِمُوَافَقَةِ وَاحِدٍ أَوِ اثْنَيْنِ أَوْ أَرْبَعَةٍ، وَلَيْسُوا هُمْ ذَوِي الْقُدْرَةِ وَالشَّوْكَةِ، فَقَدْ غَلِطَ؛ كَمَا أَنَّ مَنْ ظَنَّ أَنَّ تَخَلُّفَ الْوَاحِدِ أَوِ الِاثْنَيْنِ وَالْعَشَرَةِ يَضُرُّهُ، فَقَدْ غَلِطَ. وَأَبُو بَكْرٍ بَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، الَّذِينَ هُمْ بِطَانَةُ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَالَّذِينَ بِهِمْ صَارَ لِلْإِسْلَامِ قُوَّةٌ وَعِزَّةٌ، وَبِهِمْ قَهَرَ الْمُشْرِكُونَ، وَبِهِمْ فُتِحَتْ جَزِيرَةُ الْعَرَبِ، فَجُمْهُورُ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – هُمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ. وَأَمَّا كَوْنُ عُمَرَ أَوْ غَيْرِهِ سَبَقَ إِلَى الْبَيْعَةِ، فَلَا بُدَّ فِي كُلِّ بَيْعَةٍ مِنْ سَابِقٍ، وَلَوْ قُدِّرَ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ كَانَ كَارِهًا لِلْبَيْعَةِ، لَمْ يَقْدَحْ ذَلِكَ فِي مَقْصُودِهَا، فَإِنَّ نَفْسَ الِاسْتِحْقَاقِ لَهَا ثَابِتٌ بِالْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّهُ أَحَقُّهُمْ بِهَا، وَمَعَ قِيَامِ الْأَدِلَّةِ الشَّرْعِيَّةِ لَا يَضُرُّ مَنْ خَالَفَهَا، وَنَفْسُ حُصُولِهَا وَوُجُودِهَا ثَابِتٌ بِحُصُولِ الْقُدْرَةِ وَالسُّلْطَانِ، بِمُطَاوَعَةِ ذَوِي الشَّوْكَةِ… … وَأَبُو بَكْرٍ ثَبَتَ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ أَنَّ اللَّهَ أَمَرَ بِمُبَايَعَتِهِ، وَالَّذِينَ بَايَعُوهُ كَانُوا أَهْلَ السَّيْفِ الْمُطِيعِينَ لِلَّهِ فِي ذَلِكَ، فَانْعَقَدَتْ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ فِي حَقِّهِ بِالْكِتَابِ وَالْحَدِيدِ. وَأَمَّا عُمَرُ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ عَهِدَ إِلَيْهِ وَبَايَعَهُ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَصَارَ إِمَامًا لَمَّا حَصَلَتْ لَهُ الْقُدْرَةُ وَالسُّلْطَانُ بِمُبَايَعَتِهِمْ لَهُ. وَأَمَّا قَوْلُهُ: ثُمَّ عُثْمَانُ [بْنُ عَفَّانَ] بِنَصِّ عُمَرَ عَلَى سِتَّةٍ هُوَ أَحَدُهُمْ، فَاخْتَارَهُ بَعْضُهُمْ. فَيُقَالُ أَيْضًا: عُثْمَانُ لَمْ يَصِرْ إِمَامًا بِاخْتِيَارِ بَعْضِهِمْ، بَلْ بِمُبَايَعَةِ النَّاسِ لَهُ، وَجَمِيعُ الْمُسْلِمِينَ بَايَعُوا عُثْمَانَ [بْنَ عَفَّانَ] ، وَلَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ بَيْعَتِهِ أَحَدٌ. قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي رِوَايَةِ حَمْدَانَ بْنِ عَلِيٍّ: “مَا كَانَ فِي الْقَوْمِ أَوْكَدُ بَيْعَةً مِنْ عُثْمَانَ كَانَتْ بِإِجْمَاعِهِمْ”. فَلَمَّا بَايَعَهُ ذَوُو الشَّوْكَةِ وَالْقُدْرَةِ صَارَ إِمَامًا، وَإِلَّا فَلَوْ قُدِّرَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بَايَعَهُ، وَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ وَلَا غَيْرُهُ مِنَ الصَّحَابَةِ أَهْلِ الشَّوْكَةِ لَمْ يَصِرْ إِمَامًا. وَلَكِنَّ عُمَرَ لَمَّا جَعَلَهَا شُورَى فِي سِتَّةٍ: عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطِلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ثُمَّ إِنَّهُ خَرَجَ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ بِاخْتِيَارِهِمْ، وَبَقِيَ عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَاتَّفَقَ الثَّلَاثَةُ بِاخْتِيَارِهِمْ عَلَى أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَا يَتَوَلَّى وَيُوَلِّي أَحَدَ الرَّجُلَيْنِ، وَأَقَامَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ثَلَاثًا حَلَفَ أَنَّهُ لَمْ يَغْتَمِضْ فِيهَا بِكَبِيرِ نَوْمٍ يُشَاوِرُ السَّابِقِينَ الْأَوَّلِينَ وَالتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ، وَيُشَاوِرُ أُمَرَاءَ الْأَنْصَارِ، وَكَانُوا قَدْ حَجُّوا مَعَ عُمَرَ ذَلِكَ الْعَامَ، فَأَشَارَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِوِلَايَةِ عُثْمَانَ، وَذَكَرَ أَنَّهُمْ كُلُّهُمْ قَدَّمُوا عُثْمَانَ فَبَايَعُوهُ، لَا عَنْ رَغْبَةٍ أَعْطَاهُمْ إِيَّاهَا، وَلَا عَنْ رَهْبَةٍ أَخَافَهُمْ بِهَا. وَلِهَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ كَأَيُّوبَ السِّخْتِيَانِيِّ وَأَحْمَدَ [بْنِ حَنْبَلٍ] ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَغَيْرِهِمْ: مَنْ لَمْ يُقَدِّمْ عُثْمَانَ عَلَى عَلِيٍّ فَقَدْ أَزْرَى بِالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ. وَهَذَا مِنَ الْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى أَنَّ عُثْمَانَ أَفْضَلُ لِأَنَّهُمْ قَدَّمُوهُ بِاخْتِيَارِهِمْ وَاشْتِوَارِهِمْ. (منهاج السنة ج 1 ص 526 – 534 | رافضی کا یہ کہنا کہ: اہل سنت کہتے ہیں رسول اللہﷺ کے بعد ابوبکرؓ امام بن بیٹھے محض عمر کے بیعت کرلینے اور کوئی چار اشخاص کے رضامندی دے ڈالنے کی بدولت… تو اسے جواب دیا جائے گا کہ: یہ جو تم نے کہا یہ ائمۂ اہل سنت کا قول ہی نہیں ہے اگرچہ بعض اہل کلام نے یہ کہہ دیا ہو کہ امامت چار اشخاص کے بیعت کرلینے سے منعقد ہوجاتی ہے یا ان میں سے بعض نے کہا کہ ان (اہل عقد) میں سے ایک ہی شخص کی بیعت سے منعقد ہوجاتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ اہلِ قدرت اگر اُس کو امیر بنائیں تو وہ امیر بنے گا۔ چنانچہ آدمی کے امیر یا قاضی یا والی غیرہ ہونے کی بنیاد قدرت اور سلطان کا حاصل ہونا ہے۔ جب وہ اسباب میسر ہوں جن سے قدرت اور سلطان حاصل ہوتی ہو تو اس کا وہ عہدہ ہے ورنہ نہیں۔ کیونکہ اِس چیز سے مقصود ہی وہ اعمال انجام دینا ہے جو قدرت اور اختیار کے بغیر انجام دیے ہی نہیں جاسکتے۔ پس جب وہ قدرت ہو جس کی موجودگی میں اعمالِ امامت کی انجام دہی ممکن ہوتی ہے تب وہ عہدہ ہوگا ورنہ نہیں… … یہاں گفتگو کے محور دو ہیں: پہلا محور: اس چیز سے متعلق ہے کہ ابوبکرؓ ہی امامت کے حقدار تھے اور یہ کہ صحابہؓ کا آپؓ کی بیعت کرنا اللہ اور اُس کے رسولؐ کو پسند تھا؛ تو یہ بات نصوص اور اجماع سے ثابت ہے۔ دوسرا محور: یہ ہے کہ ابوبکرؓ امام ہوئے کب؟ تو یہ ہوئے اہل قدرت کے آپؓ کو بیعت دے دینے سے۔ اسی طرح جب عمرؓ کو ابوبکر نے ولیِ عہد بنایا تو عمر ؓامام تب بنے جب ان کو بیعت اور اطاعت دی گئی۔ چنانچہ… بفرضِ محال اگر صحابہؓ (عمرؓ کے حق میں) ابوبکرؓ کے پروانۂ ولی عہدی کو نافذ نہ ٹھہراتے اور عمرؓ کی بیعت نہ کرتے تو عمرؓ امام نہ ہوتے قطع نظر اس سے کہ ان کا ایسا کرنا جائز ہوتا یا نہ۔ چنانچہ جائز و ناجائز کا تعلق تو ہے ان کے کسی فعل کو کرنے یا نہ کرنے سے۔ البتہ جہاں تک بجائے خود ولایت اور سلطان کا معاملہ ہے تو اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ آیا قدرت حاصل ہے یا نہیں۔ ہاں یہ قدرت جائز طریقے سے بھی حاصل ہوسکتی ہے جیسے خلفائے راشدین کو ملنے والی قوت و اقتدار، اور ناجائز طریقے سے بھی جیسے ظالموں کو حاصل قوت و اقتدار۔ ذرا دیر کےلیے اگر فرض کر لیا جائے کہ عمرؓ اور ان کے ساتھ کچھ تعداد نے ہی ابوبکرؓ کی بیعت کی ہوتی اور باقی تمام صحابہؓ بیعت پر آمادہ نہ ہوتے… تو ابوبکرؓ امام نہ ہوتے۔ ابوبکرؓ امام ہوئے اُن جمہور صحابہؓ کے بیعت کرنے سے جو اہلِ قدرت وشوکت تھے۔ چنانچہ یہ وجہ ہے کہ سعد بن عبادہؓ کا بیعت سے گریز کرنا نقصان دہ نہ ہوا؛ کیونکہ ولایت (عہدہ) سے جو مقصود ہے اس کےلیے یہ (ایک آدھ شخص کا بیعت نہ کرنا) باعثِ قدح نہیں۔ کیونکہ (ولایت سے) اصل مقصود ہے قدرت اور سلطان جس کی بدولت امامت کے مصالح انجام پاسکیں جبکہ یہ مقصد جمہور کے موافقت اختیار کرلینے سے حاصل ہوگیا تھا۔ چنانچہ جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ امام کسی ایک یا دو یا چار اشخاص کے بیعت کرلینے سے مقرر ہوجاتا ہے اگرچہ وہ (ایک یا دو یا چار اشخاص) اصحابِ قدرت و شوکت نہ بھی ہوں تو وہ بالکل غلط ہے۔ عین جس طرح وہ شخص غلط ہے جو کہے کہ کسی ایک یا دو یا دس آدمیوں کے بیعت نہ کرنے سے اس کی امامت کو کوئی فرق آجاتا ہے! ابوبکرؓ کو بیعت دینے والے وہی مہاجرین و انصار ہیں جو رسول اللہﷺ کے ہمراز رہے اور جن کے دم سے اسلام کو قوت اور تمکنت ملی رہی اور جن کے وجود سے مشرکین مقہور اور جن کے ہاتھوں پورا جزیرۂ عرب مفتوح ہوا۔ چنانچہ جو لوگ رسول اللہﷺ کی بیعت تھے انہی کے جمہور ابوبکرؓ کی بیعت ہوئے۔ رہی یہ بات کہ عمرؓ یا کسی اور نے ابوبکرؓ کی بیعت کےلیے پہل کی تو ہر بیعت میں کسی نہ کسی کو پہل کرنا ہی ہوگی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ بعض لوگ اس بیعت پر رضامند نہیں تھے تو بھی یہ بات اس (ولایت) کے مقصود کے حق میں ضرررساں نہیں۔ کیونکہ جہاں تک خلافت کا حقدار ہونے کی بات ہے تو وہ اپنی جگہ دلائلِ شرعیہ سے ثابت ہے کہ ابوبکرؓ ان میں سب سے حقدار تھے۔ ان دلائلِ شرعیہ کے ہوتے ہوئے کسی کے مخالف ہونے سے اس کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک بجائے خود اس کے حاصل ہونے کا سوال ہے تو وہ قدرت اور سلطان کے حاصل ہونے سے حاصل ہوئی؛ جب اصحابِ شوکت نے اس کی متابعت اختیار کرلی… … چنانچہ اگر حقدار ہونے کی بات ہے تو کتاب اور سنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابوبکرؓ کی بیعت کی ہدایت تھی۔ اگر سلطان اور اقتدار کی بات ہے تو ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے اہل شمشیر تھے جو اپنے اِس عمل سے اللہ کی فرمانبرداری کررہے تھے۔ چنانچہ ابوبکرؓ کے حق میں خلافت کا انعقاد کتاب کی دلیل سے بھی ہے اور قوت کی دلیل سے بھی۔ اور جہاں تک خلافتِ عمرؓ کا تعلق ہے تو آپؓ کو ابوبکرؓ نے ولی عہد بنایا اور ابوبکرؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ چنانچہ عمرؓ امام ہوئے جب ان کو قدرت اور سلطان حاصل ہوئی، صحابہؓ کی بیعت سے۔ رافضی کا یہ کہنا کہ عثمانؓ کی خلافت چھ آدمیوں کے حق میں عمرؓ کے بول دینے سے قائم ہوگئی جن میں سے ایک عثمانؓ تھے اور انہی میں سے کچھ کے اختیار کرلینے سے وہ خلیفہ ہوئے… تو اسے بھی یہی جواب دیا جائے گا: عثمانؓ اُن چھ میں سے چند کے اختیار کرلینے سے امام نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کی بیعت سے ہوئے۔ سب لوگوں نے ہی عثمان بن عفانؓ کی بیعت کی اور کوئی ایک بھی اس بیعت سے پیچھے نہ رہا تھا۔ امام احمدؒ، بروایت حمدان بن علی، فرماتے ہیں: خلفاء میں کوئی ایسا نہیں جس کی بیعت عثمانؓ سے زیادہ پختہ ہو؛ کیونکہ یہ سب کے ہی اتفاق سے ہوئی تھی۔ چنانچہ جب اصحابِ شوکت و قدرت نے عثمانؓ کی بیعت کی تو آپؓ امام ہوئے۔ ورنہ اگر یہ فرض کرلیں کہ عبدالرحمن بن عوفؓ نے تو ان کی بیعت کرلی ہوتی مگر علیؓ اور دیگر اہل شوکت شمار ہونے والے صحابہؓ آمادۂ بیعت نہ ہوئے ہوتے تو وہ امام نہ ہوتے۔ تاہم عمرؓ نے جب اس معاملے کو چھ بزرگوں عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمن بن عوف کے مابین شوریٰ ٹھہرا دیا تو طلحہؓ، زبیرؓ اور سعدؓ اپنی مرضی سے دستبردار ہوگئے اور پیچھے عثمانؓ، علیؓ اور عبدالرحمنؓ رہ گئے۔ ان تینوں کے مابین اتفاق ہوا کہ عبدالرحمنؓ خود نہ بنیں بلکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنانے کا اختیار لےلیں۔ عبدالرحمنؓ قسماً کہتے ہیں کہ انہوں نے تین راتیں آنکھ بھر کر نیند تک نہیں کی؛ وہ اس سارا عرصہ مشاورت کرتے رہے سابقین اولین اور ان کے تابعین باحسان کے ساتھ۔ نیز مشاورت کرتے رہے امرائے انصار کے ساتھ۔[26] یہ لوگ اس آخری سال حج میں عمرؓ کے ہمرکاب رہے تھے۔ ان سب مسلمانوں نے عبدالرحمنؓ کو مشورہ دیا کہ عثمانؓ کو ولایت دیں۔ عبدالرحمنؓ نے باقاعدہ ذکر فرمایا کہ وہ سب لوگ عثمانؓ کو مقدم کررہے ہیں؛ تب انہوں نے عثمانؓ کی بیعت کی، نہ عثمانؓ نے ان کو کوئی لالچ دے رکھا تھا اور نہ کوئی ڈراوا۔ یہ وجہ ہے کہ سلف اور ائمہ میں سے متعدد لوگوں مانند ایوب سختیانیؓ، احمد بن حنبلؒ اور دارقطنیؒ ودیگر نے فرمایا کہ: جو شخص عثمانؓ کو علیؓ پر مقدم نہیں ٹھہراتا وہ مہاجرین اور انصار کو کم عقل جانتا ہے۔ یہ عثمانؓ کی افضلیت کے دلائل میں سے ایک ہے؛ کیونکہ ان سب نے اپنی مرضی اور باہمی صلاح مشورے سے آپؓ کو مقدم کیا تھا۔ |
عربی عبارتیں دینے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ فقہاء کے بیانات قاری کی نظر سے براہِ راست گزر لیں اور اُس کاانحصار صرف ترجمے پر نہ رہے۔
جیسا کہ آپ دیکھ چکے، فقہاء کے بیان میں تعبیر کا فرق ہوگا مضمون کا نہیں؛ اِن حقیقتوں پر یہ سب ائمہ و فقہاء جو مغربی ’اینلائٹنمنٹ‘ سے پہلے ہوگزرے، ایک سا موقف رکھتے ہیں:
- بیعتِ انعقاد اور بیعتِ اطاعت کے مابین جوہری فرق؛
- اول الذکر کا ’’اہلِ حل و عقد‘‘ کے ساتھ خاص ہونا،
- ثانی الذکر کا ’’عامۃ الناس‘‘ سے متعلق ہونا،
- ثانی الذکر کا ترتیب میں اول الذکر کے بعد ہی ہونا نہ کہ پہلے،
- ’’اہلِ حل و عقد‘‘ جن کو ’’اہلِ اختیار‘‘ بھی کہتے ہیں، کا دو بنیادی اوصاف کے لوگوں پر مشتمل ہونا:
- علم و بصیرت،
- قوت، شوکت اور قبولِ عام۔
(یعنی دو قسم کے طبقے: ایک علماء۔ دوسرے سماجی، عسکری، انتظامی طاقت کے مالک لوگ)
- بیعتِ عام کی بھی (آخر میں) اپنی ایک اہمیت ہونا؛ البتہ
- بیعتِ انعقاد کے مفہوم میں ہی یہ بات شامل ہونا کہ اس کے کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے اثر ورسوخ سے عامۃ الناس پر اثرانداز ہوتے اور ان کو اپنے پیچھے چلاتے ہیں؛ لہٰذا جب وہ بیعت کرلیں تو عامۃ الناس پیچھے نہ رہیں گے (ورنہ وہ ’’اہل شوکت‘‘ ہی نہ کہلائیں گے)۔
- لوگوں پر اثرانداز ہونے والے (عُرفاء، نقباء، ائمہ) طبقوں کو سامنے لانے کا بندوبست ضروری ہونا؛ جن سے اہل حل و عقد تشکیل ہوتے ہیں۔
یہ سب حقائق سامنے رہیں (اور اس سے پہلے؛ ہیومنسٹ اثراتسے بیزاری قائم رہے) تو مذکورہ بالا حقائق کے فریم میں رہتے ہوئے کسی دور کے اہلِ علم اپنے معروضی حالات کے مطابق کوئی سا بھی نظام وضع کرسکتے ہیں۔
’ڈیموکریٹک اسلام‘؟!
دینِ خداوندی پر کیسے کیسے وقت آنے تھے اور کیسے کیسے فتنے اس کے نام کے ساتھ جڑنے تھے! ڈیموکریٹک اسلام اور اسلامک ڈیموکریسی! اشتراکی اسلام اور اسلامی اشتراکیت… اور اب آپ ’لبرل اسلام‘ اور ’اسلامک فیمی نزم‘ کا سننے لگے ہیں!
اسلام کو جاہلیت کے جوڑ لگانا اِس دور کا خصوصی فیشن ہے جن میں سب سےمقبول ’اسلام اور جمہوریت‘ کا ٹانکہ ہے۔ اس کے بہت سے پہلو اوپر بیان ہوچکے۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کویت کے ایک عالم شیخ حامد العلی کے مضمون (الفرق بین الشوریٰ وبین الانتخابات النیابیۃ) کے کچھ حصے ملخص کردیے جائیں:
اصل چیز تو سامنے رکھنے کی یہ ہے کہ جمہوریت اپنے ’اوریجنل‘ مفہوم میں باقاعدہ ایک فلسفی بنیاد رکھتی ہے جوکہ عقیدۂ توحید سے براہِ راست متصادم ہے۔ اس عقیدہ کی نظر میں ’’شریعت‘‘ کوئی چیز نہیں۔ یہ انسان کو مطلق اختیارات کا مالک قرار دیتی ہے؛ جوکہ اس عقیدہ کا اصل الاصول ہے۔ اِس عقیدہ میں اور بتوں کی پوجا کے عقیدہ میں شرک ہونے کے اعتبار سے سرمو فرق نہیں، دونوں ایک درجے کے کفر ہیں۔
جہاں تک رائج الوقت ’’انتخاباتِ عام‘‘ کا تعلق ہے… تو اس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو امت کو چلائیں گے ان کا معیار عوامی پرچیوں سے طے ہوگا، یوں امت کے سب معاملات، سب اہداف، سب مقاصد عوامی ہڑبونگ کے سپرد ہوجائیں گے جن میں ایک وسیع ترین اکثریت جاہلوں اور سطح بینوں کی ہے۔ یہ عوام بہت امکان ہے کہ:
- اپنے میں سے جاہل ترین اور بیہودہ ترین لوگوں کا انتخاب کرلیں،
- ایسے لوگوں کو ترجیح دے لیں جو ان کی دنیا تو بنائیں مگر ان کا دین اجاڑ دیں،
- ایسے لوگوں کو منتخب کرلیں جو ووٹ خریدنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہوں، اور جوکہ ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں،
- ذاتوں اور برادریوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں۔ جبکہ ’پارٹی‘ تو عصبیت کی بنیاد ہے ہی۔
- یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک غیرمقبول آدمی دوسری پارٹیوں کی کھینچاتانی کا فائدہ اٹھا کر جیت جائے۔ آپ جانتے ہیں یہاں ’مخالفوں کا ووٹ کاٹنا‘ پوری ایک سائنس ہے! اِس طریقے سے بھی ’عوامی نمائندے‘ سامنے آسکتے ہیں! ایسے ایسے ’عوامی امنگوں‘ کے ترجمان جن کو چننے والے دس فیصد سے بھی کم ہوں! نیز ’نمبرز گیم‘ میں متحارب فیکٹرز کے ساتھ کھیلنا اور ’پریشر گروپ‘ سیاست کے ذریعے اقتدار کی دراڑوں میں گھسنا اور بڑے بڑے سودوں پر ہاتھ مار لینا… یہ سب ’عوامی نمائندگی‘ کا حصہ ہے!
- الیکشن میں ’’پیسہ‘‘ کس طرح کھیلتا ہے، سب کے سامنے ہے حتیٰ کہ بڑےبڑے ترقی یافتہ ممالک میں!
- دین اور امانت کے پیکر لوگ اس عمل کے نتیجے میں اوپر آتے چلے جائیں، ہر جگہ ایک خواب ہے؛ اور تجربہ بول بول کر سب بتا رہا ہے۔
بنابریں… ڈیموکریسی کو اسلام سے دور نزدیک کا کوئی واسطہ نہیں۔ جس شخص کا خیال ہے کہ اسلامی فقہ کے اندر اس کی بنیادیں پائی جاتی ہیں، جاہل ہے۔
ہاں یہ سب باتیں اس بات میں مانع نہیں کہ استثنائی طور پر بعض اچھے لوگ بھی اس میں اوپر آجائیں، جس کا تعلق اِس بات سے ہے کہ کہیں پر کچھ مخصوص حالات اور مخصوص ووٹر پائے جاتے ہیں یا نہیں اور ان کو ’دستیاب‘ مواقع کی نوعیت کیا ہے۔ چنانچہ زیادہ تر یہ ایک جوا ثابت ہوتا ہے؛ کہیں کوئی تکا لگ جاتا ہے اور کہیں پر آپ کنگال ہوآتے ہیں۔ اِس جوئے کی قیمت البتہ ہر بار ’’امت‘‘ کے وجود سے ادا کرنا ہوتی ہے۔
غرض جمہوریت گنتی کا ایک نظام ہے؛ بندوں کو تولنا اس کا کام نہیں۔ معاشرے کا سب سے جاہل اور سب سے بڑا عالم اس کی میزان میں ایک برابر ہیں؛ جوکہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا عجوبہ کہلانے کے لائق ہے!
مغرب میں اس نظام نے مقبولیت پائی تو اس کی اپنی وجوہات ہیں۔ وہاں کے بادشاہوں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں روا رکھا جانے والا قہر اور ظلم اس ردعمل کی اساس بنا۔ تاہم جلد ہی سرمایہ داری ساہوکار نے اس شہ زور گھوڑے کو اپنی سواری کےلیے سدھا لیا؛ یوں یہ گیند بادشاہی ڈکٹیٹرشپ سے چھن کر سرمایہ داری ڈکٹیٹرشپ کے پاس چلی گئی۔ آپ جانتے ہیں ’عوامی نمائندگی‘ کا یہ کھیل دنیا کا مہنگاترین کھیل ہے۔ اس مہنگے کھیل میں اوپر آنے والا کھلاڑی اپنے ناقدین کو بڑی فیاضی اور بےپروائی کے ساتھ پیش کش کرے گا کہ جس طرح ہم عوام کے ووٹوں سے جیت کر یہاں پہنچے تمہیں شوق ہے تو تم بھی اسی سیڑھی سے اوپر آنے کےلیے اپنی قسمت آزمالو ورنہ خاموش ہوجاؤ! یہ فرق ہے اُس بادشاہی ڈکٹیٹرشپ اور اِس سرمایہ داری ڈکٹیٹرشپ میں؛ اُس کے خلاف آپ بول سکتے تھے، پھٹ سکتے تھے، البتہ اِس کے آگے آپ کو ’اخلاقاً‘ خاموش ہونا پڑے گا! ’الیکشن لڑ کر‘ یہاں کی قسمت بدلنے کی آپ کو ہر وقت کھلی پیش کش ہے؛اس کو قبول نہ کرنے کی صورت میں آپ کے پاس خاموشی کے سوا چارہ رہ کیا جاتا ہے! کس کے پاس قارون کا خزانہ ہے جو اِس میڈیا کا منہ بھرے گا؟ ملک گیر الیکشن کیمپین کا خرچہ اٹھانے کی سوچ تک ذہن میں لا سکے گا؟ ’بلاک ووٹ‘ کے آڑھتیوں کی خواہشوں اور فرمائشوں پر پورا اتر سکے گا؟ اور اس سے آگے اقتدار کی جو راہداریاں ہیں وہ اس سے بھی کٹھن!
بعض عقلاء اس کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ صاف مانتے ہیں کہ یہ دھوکہ ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ مطلق ڈکٹیٹرشپ سے کم از کم بہتر ہے۔ کیونکہ یہاں پر کچھ تو چیک اینڈ بیلنس ہے۔ بولنے لکھنے کی کچھ تو آزادی ہے۔ ہاں یہ کہنے کی ایک حد تک گنجائش ہے۔ بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ دنیا میں پایا جانے والا کوئی ایک شر دوسرے شر سے کمتر ہو اور کوئی ایک باطل دوسرے باطل کی نسبت کم ضرر ہو۔ البتہ ایک کمتر شر کو اسلام کا لبادہ پھر بھی نہیں پہنایا جاسکتا۔ایک کم ضرر باطل کو حقانیت کی سند پھر بھی نہیں دی جاسکتی۔ کیونکہ اشیاء پر حکم لگانے کےلیے ہمارے پاس شریعت کی میزان ہے؛ جو اِس میں غلط ہے وہ غلط ہے۔ ’حالات‘ پر ’’شریعت‘‘ حکم لگاتی ہے؛ ’’شریعت کے احکام‘‘ کی تشکیل ’حالات‘ نہیں کرتے۔
[1] ابن تیمیہ کے متن میں دیکھئے فصل دوم، حاشیہ 24
[2] ان دیدہ وروں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ… ’الیکشن‘ ہوجانے کے بعد کونسا ووٹ ڈالا جاتا ہے؟! یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہماری سیاسۃ شرعیۃ اور اُنکا ’’ووٹ، پارٹی اور حکومت اپوزیشن‘‘ کلچر دو الگ الگ دنیاؤں کے عکاس ہیں، پھر بھی انکو ’’ایک چیز‘‘ قرار دینے پر کوئی ادھار کھائے بیٹھا ہو تو اسکا کیا علاج؟
[3] زبردستی کی خلافت کو ایک معنیٰ میں تسلیم کرنے اور اس کے خلاف خروج نہ کرنے کے حوالے سے آپ کو ہر فقہی مذہب میں اقوال ملیں گے، جوکہ اہل سنت کا معتبر مذہب ہے، اور جوکہ بظاہر عجیب نظر آتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں اس کی توجیہ اور اس کی حدود کیا ہیں، اس پر آگے کچھ گفتگو ہوگی۔
[4] ’’اہل اختیار‘‘ کی جانب سے کتنے لوگ خلیفہ کی بیعت کرلیں تو خلیفہ کا تقرر ہوجاتا ہے، یہ ایک مشہور بحث ہے جس پر آگے چل کر کچھ گفتگو آ رہی ہے۔
[5] گویا ابو یعلیٰ کےہاں اس بات کا علم کہ ’’خلافت کا حقدار‘‘ کون ہوتا ہے، اور چیز ہے (جس کےلیے کسی حد تک کتابی علم بھی کفایت کرتا ہے)… اور ’’خلافت کےلیے موزوں ترین‘‘ کون ہوسکتا ہے، بالکل اور چیز (جوکہ ایک گہری نظر چاہتی ہے)۔ ’’اہل حل و عقد‘‘ وہ ہوں گے جو اِن دونوں حوالوں سے علم اور پختہ کاری کی اعلیٰ سطح پر ہوں۔ اسی وجہ سے وہ ان کو ’’اہل اجتہاد‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں (گو ’’اجتہاد‘‘ سے مراد یہاں معروف معنےٰ کا فقہی اجتہاد نہیں ہے ورنہ اہل حل و عقد میں فقہائے مجتہدین کے سوا کوئی اور شامل نہ ہوسکتا!)۔
فقہی اہلیت کے حوالے سے کتبِ سیاسۃ شرعیۃ کا البتہ صرف یہ کہنا ہے کہ: اہل حل و عقد میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہونی چاہئے جو درجۂ اجتہاد پر فائز ہو۔ البتہ ’’خلیفہ کے انتخاب‘‘ کے حوالے سے اہل حل وعقد کے ہاں (شرعی، سیاسی و سماجی جہتوں سے) اجتہادی نظر پائی جانا ضروری ہے۔
[6] یہاں پر بعض مؤلفین نے ’’اہل حل و عقد‘‘ اور ’’اہلِ شوریٰ‘‘ کے مابین عموم خصوص کا فرق بھی ذکر کیا ہے؛ جس کی رو سے ’’اہل شوریٰ‘‘ بڑی حد تک ’ٹیکنوکریٹ‘ کا معنیٰ دیتے ہیں اور عموماً مشورہ طلب کیے جانے پر مشورہ دیتے ہیں، نیز ایک معمول کے انداز میں اپنے اپنے شعبے کے اندر کام کرتے ہیں، جبکہ ’’اہل حل وعقد‘‘ وہ لوگ جو معاملات پر ہمہ دم نظر رکھتے ، خلیفہ اور اس کے کارندوں کا احتساب کرتے، بوقتِ ضرورت خلیفہ کو معزول تک کردیتے نیز بحرانوں کے وقت معاملات کو سنبھالتے ہیں۔ اہل تحقیق کا کہنا ہے، یہ اصطلاحات کا ایک دقیق سا فرق ہے، عمومی معنیٰ میں اہلِ حل وعقد ایک ہی باڈی ہے۔ آگے اِن کی تقسیمِ کار ہے، خواہ وہ جس طرح بھی کریں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض سطحوں پر اہل حل وعقد خود یا حکام اپنے ساتھ ایسے (ٹیکنوکریٹ) لوگوں کو بھی شریکِ عمل involve کریں جو ’’معاشرے میں اپنی اہمیت و کردار‘‘ کے اعتبار سے ’’اہل حل و عقد‘‘ میں نہیں آتے۔
[7] ’’اولی الامر‘‘ کے اِن دو دائروں کی مثال یوں سمجھئے جیسے ماڈرن سٹیٹ میں ’ہاؤس‘ اور ’کابینہ‘ ۔ کابینہ ظاہر ہے ہاؤس کے ہی کچھ منتخب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر اختیارات کے معاملہ میں ہاؤس کے عموم کے مقابلے پر ایک خصوص رکھتی ہے؛ گو ہیں یہ دونوں اپنی اپنی جگہ ’اصحابِ امر‘۔
[8] ’’اولی الامر‘‘ کے یہ دو دائرے اسلام کے سیاسی عمل کے حوالے سے واضح ہونا ضروری ہے؛ یعنی ایک بڑا دائرہ اور اس کے اندر پھر ایک چھوٹا دائرہ۔ اس لحاظ سے خلیفہ اور اس کے تعینات کردہ وزیر، والی اور افسران خصوصی معنی میں ’’وُلاۃ الامر‘‘ ہوں گے جبکہ اہل الحل والعقد عمومی معنیٰ میں۔ لہٰذا جس وقت فقہاء کے کلام میں آپ یہ پڑھیں کہ: ’’ولاۃ الامر‘‘ کو چاہئے کہ علماء، عمائدین اور سماجی راہنماؤں کو اہم اہم امور میں شریکِ مشورہ رکھیں، یا ان کو اعتماد میں لیا کریں… تو وہاں یہ اشکال نہ اٹھ کھڑا ہونا چاہئے کہ دیکھا علماء اور عمائدین وغیرہ ’’ولاۃ الامر‘‘ میں تو شمار نہ ہوئے! حالانکہ یہ علماء اور عمائدین ’’اصحابِ امر‘‘ تھے تو اِنہوں نے خلیفہ اور والیوں کو یہ ’’امر‘‘ تفویض کیا تاکہ وہ مسلمانوں کا انتظامِ کار چلائیں۔ }حق تو یہ ہے کہ خاص حالات میں یہ خلیفہ سے (اس کی معزولی کی صورت میں) وہ ’’امر‘‘ واپس بھی لے سکتے ہیں{۔ یہ اگر ’’اصحابِ امر‘‘ نہیں تو خلیفہ اور والیوں کے پاس ’’امر‘‘ کہاں سے آیا؟
[9] دیکھئے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج 10 ص 354۔ ابن تیمیہ کا بیان کردہ اِسی مضمون کا ایک دوسرا مقام اس سے پہلے تعلیق 5 میں، ’’اولی الامر‘‘ کی تفسیر کے تحت گزر چکا ہے۔
[10] اس مضمون کا ایک اور اثر لائقِ توجہ ہے:
مُحَمَّدَ بْنَ يَعْقُوبَ التِّرْمِذِيَّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الْوَرَّاقَ يَقُولُ: ” النَّاسُ ثَلَاثَةٌ: الْعُلَمَاءُ، وَالْأُمَرَاءُ، وَالْقُرَّاءُ، فَإِذَا فَسَدَ الْأُمَرَاءُ فَسَدَ الْمَعَاشُ، وَإِذَا فَسَدَ الْعُلَمَاءُ فَسَدَتِ الطَّاعَاتُ، وَإِذَا فَسَدَتِ الْقَرَّاءُ فَسَدَتِ الْأَخْلَاقُ” (شُعب الإیمان، مؤلفہ البیھقی: ج 3 ص 291)
محمد بن یعقوب ترمذی، کہا: میں نے ابو بکر الوراق کو فرماتے ہوئے سنا: (اصل) لوگ تین ہی ہیں: علماء، امراء اور قراء۔ امراء خراب ہوں گے تو روزمرہ حیات خراب ہوجائے گی۔ علماء خراب ہوں گے تو صالح اعمال کا ستیاناس ہوجائے گا۔ قراء خراب ہوں گے تو اخلاق کا دیوالیہ ہوجائے گا۔
قراء کا الگ ذکر اس حوالے سے کہ یہ ایک بہت بڑا ادارہ رہا ہے جو لوگوں کے قلوب کو نرم کرنے، ان کو اللہ اور آخرت کی یاد دلانے، غرورِ دنیا سے باہر لانے اور زہد کی راہ اختیار کروانے میں ایک بنیادی کردار ادا کرتا تھا۔ ’’اخلاق‘‘ کی افزودگی معاشرے کا ایک نہایت فعال شعبہ تھا۔
[11] کیونکہ شریعت وہ آئین ہے جس کی پہنچ نہ صرف لوگوں کے رہن سہن بلکہ قلوب اور عقول تک ہے اور اسی کے دم سے یہ انسانی جماعت مسلم (مالکِ کائنات کی فرماں بردار) کہلاتی ہے، گو اس میں رہن سہن کے علاقائی امتیازات کو پورا تحفظ حاصل ہے۔ ’’آئین کی پابندی‘‘ سے جماعۃ المسلمین کی مراد ہی رب العالمین کی عبادت ہے، ہاں اِس آسمان سے اتری ہوئی چیز کے تابع ہونا ہر کسی پر لازم ہے۔
[12] یہ ’کارپوریٹ‘ عفریت وہ بلا ہے جو سیاستدانوں کی پوری پوری لاٹ خریدتی ہے؛جمہوریت بی خاموشی اور سعادتمندی کے ساتھ ہر جگہ اس کا پانی بھرتی ہے۔ یہاں تک کہ ’ترقی یافتہ‘ ممالک میں سیاستدان اس کی چوکھٹ پر جھکا ہوا ملتا ہے۔ لوگوں کی زندگی میں ’سٹیٹ‘ کا عمل دخل بڑھانا، ان کے فطری رشتوں کو بےدردی سے کچلنا، ارحام کا گلا کاٹنا، اَنساب کو زیادہ سے زیادہ ’غیرمتعلقہ‘ کرنا، معاشرے کو درخت سے ٹوٹے ہوئے پتوں ایسے ’’افراد‘‘ میں بدلنا، لوگوں کی زندگی کی طبعی وعلاقائی وقبائلی صورتوں کو ناپید کرانا اور ان کے آزادانہ انتظامِ کار کو متروک کرواتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ’ریاست‘ کی جکڑ میں دینا، یوں مقامی سطح پر ’ریاست‘ کی غیر معمولی اجارہ داری absolute monopoly قائم کروا لینے کے بعد ریاستی مشینری کے بازو مروڑنے، کارپوریٹ پیسے سے یہاں اپنی مرضی کے گھوڑے اوپر لانے یا جیتے ہوئے گھوڑوں پر پیسہ لگانے، اپنے این جی او نیٹ ورکس، زرخرید میڈیا، دیوہیکل ملٹی نیشنلز اور قارون کو مات دینے والے مالیاتی اداروں کے ذریعے ہر ہر ملک کے ریاستی عمل کو اپنے دھارے میں لانے اور یوں پورے عالمی عمل کو ’’مونوپولائز‘‘ monopolize کرنے کا یہ ایک ابلیسی ایجنڈا ہے جو مسلم پسپائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اِن آخری صدیوں میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہاں تک کہ اب ہمارے بہت سے مسلم دانشور اِسی کارپوریٹ کلچر کا پہیہ بنے ہوئے طرزِ زندگی کو ’’اصل‘‘ جان کر اور ’ریاست‘ کی اِسی آدم خور تصویر کو ریاست کی ’اسلامی تصویر‘ سمجھتے ہوئے اسلام کے سیاسی و سماجی عمل کی تفسیر کر نے لگے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ آج ان کو مسلمانوں کےلیے ’ریاست‘ کی بجائے ’’جماعت‘‘ اور ’نمائندگی‘ کی بجائے ’’امامت‘‘ کا تصور خاصا اوپرا لگتا ہے۔ اہل علم و فقہ کو جوکہ ’’حقیقتِ اسلام‘‘ پر اتھارٹی ہوتے ہیں، ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کے ’’ائمہ‘‘ اور ’’اولی الامر‘‘ میں شامل ٹھہرانا ان کو عجیب وغریب دکھائی دیتا ہے اور میڈیا سے سمت پانے والی جاہل و بدعمل عوامی ہڑبونگ کے ’منتخب نمائندوں‘ کے سوا ان کو ’’اولی الامر‘‘ کا کوئی معنیٰ سجھائی نہیں دیتا۔
[13] اِس حوالہ سے امام ابن تیمیہؒ ایک نہایت اہم شرعی بنیاد کی جانب اصولی راہنمائی کرتے ہیں اور وہ یہ کہ: مسلمانوں کے جو اولی الامر ہوتے ہیں ان میں ’’ولایت‘‘ اور ’’وکالت‘‘ ہر دو معنیٰ بیک وقت پائے جاتے ہیں:
فإنَّ الخلقَ عِبادُ اللهِ، والولاة نُوَّابُ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ، وَهُمْ وُكَلَاءُ الْعِبَادِ على نفوسهم؛ بِمَنْزِلَةِ أَحَدِ الشَّرِيكَيْنِ مَعَ الْآخَرِ؛ فَفِيهِمْ مَعْنَى الْوِلَايَةِ وَالْوَكَالَةِ (السیاسۃ الشرعیۃ لابن تیمیۃ: ص 11)
کیونکہ خلق خدا اس کے بندے ہیں۔ جبکہ ’’ولاۃ الامور‘‘ اللہ کے بندوں پر اللہ کے نائب ہیں۔ (دوسری جانب) یہ بندوں کے وکیل ہیں بندوں کے نفوس پر۔ یوں ان کی حیثیت ایسی ہے جیسی ایک شریک کی دوسرے شریک کے ساتھ ہوتی ہے؛ چنانچہ ان میں بیک وقت ولایت کا معنیٰ بھی پایا جاتا ہے اور وکالت کا بھی۔
ولایت کا مطلب ہے ولی ہونا۔ جیسے باپ یا اس کی غیرموجودگی میں قریبی عزیز ایک نابالغ کے حق میں (یا شادی کے حوالہ سے بالغ عورت کے حق میں بھی) ولی ہے۔ اور اس کا حق خدا کی جانب سے مقرر ہے۔ ولی (سرپرست) کو رکھنے یا نہ رکھنے میں زیردست کے فیصلہ کو کوئی دخل نہیں شریعت کی جانب سے اس کو دیا ہوا اختیار اپنی جگہ سے نہیں ہلایا جاسکتا۔ جبکہ وکالت ایک طرح کی نمائندگی ہے۔ اِس ثانی الذکر پہلو سے؛ قوم کے وہ لوگ جو اپنے مقصدِ تخلیق نیز ’’جماعۃ المسلمین‘‘ کی غرض و غایت سے آگاہ ہیں اور ان کو یہ نظر حاصل ہے کہ ایسی بامقصد انسانی جمعیت کے ائمہ کون اور کیسے ہونے چاہئیں، کم از کم ان کو بطورِ موکل یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وکلاء (اولی الامر) کے تقرر یا معزولی کے معاملہ میں تصرف کا حق رکھیں۔ اس کی عملی صورتیں وقت کے علماء اور مدبرین یقیناً وضع کر سکتے ہیں۔ یہاں سے اس سوال کا جواب بھی مل سکتا ہے کہ ائمۂ حل و عقد کا تعین کیسے ہوگا۔ (مزید دیکھئے اِس تعلیق کے آخر میں ذیلی حاشیہ ’’سیاسی عمل میں عامۃ الناس کی شرکت‘‘)۔
[14] قرطبی اپنی تفسیر میں آل عمران کی آیت 159 کے تحت لکھتے ہیں:
قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَالشُّورَى مِنْ قَوَاعِدِ الشَّرِيعَةِ وَعَزَائِمِ الْأَحْكَامِ، مَنْ لَا يَسْتَشِيرُ أَهْلَ الْعِلْمِ وَالدِّينِ فَعَزْلُهُ وَاجِبٌ… … وَقَالَ ابْنُ خُوَيْزِ مَنْدَادُ: وَاجِبٌ عَلَى الْوُلَاةِ مُشَاوَرَةُ الْعُلَمَاءِ فِيمَا لَا يَعْلَمُونَ، وَفِيمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أُمُورِ الدِّينِ، وَوُجُوهِ الْجَيْشِ فيما يتعلق بالحرب، وجوه الناس فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِالْمَصَالِحِ، وَوُجُوهِ الْكُتَّابِ وَالْوُزَرَاءِ وَالْعُمَّالِ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِمَصَالِحِ الْبِلَادِ وَعِمَارَتِهَا.
ابن عطیہ کہتے ہیں: شوریٰ شریعت کی بنیادوں میں سے ہے۔ یہ دین کے بڑے احکام میں سے ایک ہے۔ جو عہدہ دار اہل علم و دین کو شریکِ مشورہ نہ رکھے گا اس کو برطرف کرنا واجب ہے… … ابن خویزمنداد کہتے ہیں: والیوں پر واجب ہے کہ علماء کو شریک مشورہ کریں ان امور میں جو ان کے اپنے علم میں نہیں ہیں نیز ان امورِ دین میں جو ان کےلیے موجبِ اشکال ہیں۔ فوج کے سرکردہ لوگوں کو مشورہ رکھیں ان امور میں جو جنگ سے متعلق ہیں۔ عام سرکردہ لوگوں کو شریک مشورہ رکھیں ان امور میں جو منفعتِ عامہ سے متعلق ہیں۔ دانشوروں، وزیروں اور صنعت کاروں کو ان امور میں جو ملک کے مصالح اور آبادیات سے متعلق ہیں۔
طبقات ابن سعد میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے والی ہوئے تو (باوجود اس کے کہ خود بھی فقیہِ مجتہد تھے) مدینہ کے دس چوٹی کے فقہاء کو طلب کیا (ابن سعد نے ان فقہاء کے نام بھی درج کئے ہیں) اور کہا کہ آپ حضرات کو طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں جو بھی فیصلہ کیا کروں آپ کی رائے سے کروں۔ (الطبقات الکبریٰ ج 5 ص 257) کئی ایک اہل علم نے عمر بن عبدالعزیز کے اِس عمل کو ’’اجتہادِ جماعی‘‘ کی مثالوں میں ذکر کیا ہے۔
[15] ’’شریعت‘‘ جس کا مظہر علماء وفقہاء ہیں اور ’’شوکت‘‘ جس کا مظہر اصحابِ قوت و سطوت ہیں۔ اسی کو امام ابن تیمیہ ’’کتاب‘‘ اور ’’حدید‘‘ کا اجتماع کہتے ہیں (دونوں سورۃ الحدید کی ایک ہی آیت میں مذکور ہیں)۔ فرماتے ہیں: کتابٌ یھدی وسیفٌ ینصر۔ یعنی کتاب: ہدایت و راہنمائی کےلیے اور تلوار: نصرت و تمکین کےلیے سے۔ ’’سیاسۃ شرعیۃ‘‘ اِنہی دو دھاروں کا سنگم ہے اور ’’خلافت‘‘ اِسی ’’علم‘‘ اور فولاد‘‘ کا میل۔
[16] دیکھئے اس موضوع پر شیخ عبد اللہ بن ابراہیم الطریقی﷿ کی تصنیف’’اھل العقد، صفاتھم ووظائفھم‘‘ ص 45 تا 48۔
[17] یا تو اصحابِ شریعت (با عمل علماء) ہی اصحابِ شوکت ہوں اور اصحابِ شوکت ہی اصحابِ شریعت، جوکہ آئیڈیل ہے (اور جوکہ صحابہؓ کے ہاں پایا گیا، ایک تحریکی عمل کی ابتداء میں عموماً ایسا ہو سکتا ہے)۔ یا پھر ایک ہی باڈی کے تحت ان دونوں کا اجتماع ہو، یوں اپنی مجموعی حیثیت میں یہ اصحابِ شریعت بھی ہوں اور اصحابِ شوکت بھی۔
[18] بلکہ شیخ عبداللہ الطریقی کا کہنا ہے کہ ’’اہل حل وعقد‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے کم وبیش یہی مضمون ان مؤلفین کے ہاں پایا گیا: قرطبی، ابن جماعۃ، قلقشندی، شاہ ولی اللہ اور رشید رضا۔ نیز یہ کہ دورِ حاضر کے اکثر محققین کا میلان بھی اس طرف کو ہے۔
[19] سول و ملٹری بیوروکریسی کا ’پس پردہ‘ کردار ہر ہر جمہوری ملک میں بھی ’’عیاں‘‘ ہے؛ ملک کے استحکام یا عدم استحکام میں بھی ان کا ایک بڑا کردار ہے۔ ’خفیہ اسٹیبلشمنٹ‘ آج تقریباً ہر ملک کی اصطلاح ہے۔ لہٰذا کچھ مضائقہ نہیں کہ ہمارے علماء نے صراحت کے ساتھ ’’اہلِ شوکت‘‘ میں ان کا اعتبار کرلیا۔ اسلامی بیان حقیقتوں کو چھپانے کا فن نہیں حقیقتوں کو ضبط اور قاعدے میں لانے کا نام ہے۔
[20] خود شافعی فقہ ہی کی ایک کتاب ’’حاشیۃ الشروانی‘‘ (ج 9 ص 76) نووی کے اس کلام کی شرح میں کہتی ہے: (وَوُجُوهِ النَّاسِ) مِنْ عَطْفِ الْعَامِّ عَلَى الْخَاصِّ فَإِنَّ وُجُوهَ النَّاسِ عُظَمَاؤُهُمْ بِإِمَارَةٍ أَوْ عِلْمٍ أَوْ غَيْرِهِمَا یعنی یہ تیسرا لفظ وُجُوهِ النَّاسِ (نامور و مقبول شخصیات) اس سے پچھلے دونوں لفظوں الْعُلَمَاءِ وَالرُّؤَسَاءِ کے بعد عطف العام علی الخاص کے باب سے ہے؛ یعنی یا تو وہ بطورِ عالم سربرآوردہ ہوں یا بطورِ سردار وسربراہ، یا کسی اور اہم میدان میں سرکردہ ہوں۔
[21] ’’نمائندہ شخصیات‘‘ سے یہاں ہماری مراد ہے: وہ شخصیات جو خلیفہ کےلیے اپنے اپنے طبقے کی حمایت لے کر آنے کی ضمانت بنتی ہوں۔ مثلاً علماء ہیں تو وہ علماء برادری کی تائید لے کر آنے کی علامت ہوں۔ کمانڈر ہیں تو وہ افواج کی تائید کی علامت ہوں۔ تاجر ہیں تو تاجر برادری کی حمایت کا نشان ہوں۔ قبائلی عمائدین ہیں تو اپنی اپنی قوم کی اطاعت کو یقینی بنانے والے ہوں۔ وَقِس علیٰ ذلک۔
[22] بخاری کی شرح میں ابن حجر العسقلانی رقم طراز ہیں:
قَالَ الْخَطَّابِيُّ الْحَامِلُ لِلْقَائِلِ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ أَنَّ الْعَرَبَ لَمْ تَكُنْ تَعْرِفُ السِّيَادَةَ عَلَى قَوْمٍ إِلَّا لِمَنْ يَكُونُ مِنْهُمْ وَكَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَبْلُغُهُ حُكْمُ الْإِمَارَةِ فِي الْإِسْلَامِ وَاخْتِصَاصُ ذَلِكَ بِقُرَيْشٍ فَلَمَّا بَلَغَهُ أَمْسَكَ عَنْ قَوْلِهِ وَبَايَعَ هُوَ وَقَوْمُهُ أَبَا بَكْرٍ (فتح الباری ج 12 ص 150)
خطابی کہتے ہیں: ’’ایک امیر ہم میں سے، ایک امیر تم میں سے‘‘ کی بات کرنے والے (حباب المنذر، بدری صحابی) نے یہ بات اس لیے کردی کہ عرب اس چیز سے مانوس ہی نہیں تھے کہ کوئی باہر سے آکر ایک قوم پر حکومت کر رہا ہو۔ گویا اسلام میں امارت کا جو حکم ہے وہ اس کے علم میں نہیں تھا اور یہ کہ یہ منصب قریش کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہاں جب اُسے یہ بات پہنچ گئی تو وہ اپنی بات سے دستبردار ہوگیا؛ خود اُس نے بھی ابوبکر کی بیعت کرلی اور اس کی قوم نے بھی۔
[23] ابن حبان حضرت عمر کے اس بیان کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں: يُرِيدُ أَنَّ بَيْعَةَ أَبِي بَكْرٍ كَانَ ابْتِدَاؤُهَا مِنْ غَيْرِ مَلَأٍ وَالشَّيْءُ الَّذِي يَكُونُ عَنْ غَيْرِ مَلَأٍ يُقَالُ لَهُ الْفَلْتَةُ وَقَدْ يُتَوَقَّعُ فِيمَا لَا يَجْتَمِعُ عَلَيْهِ الْمَلَأُ الشَّرُّ فقَالَ وَقَى اللَّهُ شَرَّهَا يُرِيدُ الشَّرَّ الْمُتَوَقَّعَ فِي الْفَلَتَاتِ لَا أَنَّ بَيْعَةَ أَبِي بَكْرٍ كَانَ فِيهَا شر (دیکھئے صحیح حبان روایت نمبر 414 کے تحت ابن حبان کا کلام) ’’مراد ہے کہ (سقیفہ میں) ابوبکر کی بیعت سرکردہ اکٹھ کے بغیر ہوئی تھی۔ سرداروں کی غیرموجودگی میں طے پانی والی چیز کو ’’فلتۃ‘‘ (ناگہانی) کہا جائے گا۔ سرکردہ اکٹھ کے بغیر انجام پانے والی چیز کی بابت امکان ہوتا ہے کہ اس سے کوئی شر برآمد ہوجائے۔ حضرت عمرؓ کی مراد ہے ناگہانی فیصلوں سے پیدا ہونے والا ممکنہ شر، آپ کی یہ مراد نہیں کہ خود ابوبکرؓ کی بیعت میں کوئی شر تھا‘‘۔ ابن حجر عسقلانیؒ بخاری کی اس روایت کی شرح میں کہتے ہیں: وَقَالَ الدَّاوُدِيُّ مَعْنَى قَوْلِهِ كَانَتْ فَلْتَةً أَنَّهَا وَقَعَتْ مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مَعَ جَمِيعِ مَنْ كَانَ يَنْبَغِي أَنْ يُشَاوَرَ ’’داوٗدیؒ کہتے ہیں: اس کو ’’ناگہانی‘‘ کہنے سے مراد ہے: کہ یہ ان تمام لوگوں سے مشورہ کیے بغیر انجام پا گئی تھی جن سے مشورہ لینا ضروری تھا‘‘۔
[24] ابن حجر اِس کی شرح میں کہتے ہیں: قَالَ الْخَطَّابِيُّ: يُرِيدُ أَنَّ السَّابِقَ مِنْكُمُ الَّذِي لَا يُلْحَقُ فِي الْفَضْلِ لَا يَصِلُ إِلَى مَنْزِلَةِ أَبِي بَكْرٍ فَلَا يَطْمَعُ أَحَدٌ أَنْ يَقَعَ لَهُ مِثْلُ مَا وَقَعَ لِأَبِي بَكْرٍ مِنَ الْمُبَايَعَةِ لَهُ أَوَّلًا فِي الْمَلَإِ الْيَسِيرِ ثُمَّ اجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَيْهِ وَعَدَمِ اخْتِلَافِهِمْ عَلَيْهِ لِمَا تَحَقَّقُوا مِنِ اسْتِحْقَاقِهِ فَلَمْ يَحْتَاجُوا فِي أَمْرِهِ إِلَى نَظَرٍ وَلَا إِلَى مُشَاوَرَةٍ أُخْرَى وَلَيْسَ غَيْرُهُ فِي ذَلِكَ مِثْلَهُ ’’خطابیؒ کہتے ہیں: حضرت عمرؓ کی مراد ہے کہ تم میں کسی بڑے سے بڑے صاحبِ فضیلت میں بھی ابوبکرؓ والی بات نہیں؛ لہٰذا وہ یہ خواب نہ دیکھے کہ اس کے ساتھ بھی ابوبکرؓ والا معاملہ ہوجائے یعنی جیسے پہلے چند سرکردہ لوگوں میں آپؓ کی بیعت ہوگئی اور پھر سب لوگوں کا آپؓ پر اتفاق ہوگیا اور کسی کو آپؓ پر اختلاف ہی نہ ہوا؛ کیونکہ ابوبکرؓ کا استحقاق صحابہؓ کی خوب نظر میں تھا؛ لہٰذا وہ ابوبکرؓ کے معاملہ میں غور وخوض اور مزید کسی مشورے کے ضرورتمند نہ ہوئے۔ جبکہ کسی دوسرے شخص کی یہ حیثیت نہیں‘‘۔ اس کے بعد ابن حجر اپنی تقریر دیتے ہیں: وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى التَّحْذِيرِ مِنَ الْمُسَارَعَةِ إِلَى مِثْلِ ذَلِكَ حَيْثُ لَا يَكُونُ هُنَاكَ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ لِمَا اجْتَمَعَ فِيهِ مِنَ الصِّفَاتِ الْمَحْمُودَةِ مِنْ قِيَامِهِ فِي أَمْرِ اللَّهِ وَلِينِ جَانِبِهِ لِلْمُسْلِمِينَ وَحُسْنِ خُلُقِهِ وَمَعْرِفَتِهِ بِالسِّيَاسَةِ وَوَرَعِهِ التَّامِّ مِمَّنْ لَا يُوجَدُ فِيهِ مِثْلُ صِفَاتِهِ لَا يُؤْمَنُ مِنْ مُبَايَعَتِهِ عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ الِاخْتِلَافُ الَّذِي يَنْشَأُ عَنْهُ الشَّر ’’حضرت عمرؓ کے اس خطاب میں اشارہ ہے کہ ایسے امور میں جلدبازی سے متنبہ رہا جائے جہاں ابوبکر جیسی شخصیت نہ ہو کہ جس میں یہ صفاتِ حمیدہ مجتمع تھیں کہ اللہ کے حکم کو لے کر کھڑا ہونے میں بھی آپؓ کو امتیاز حاصل تھا، مسلمانوں پر شفقت اور نرمی میں بھی، حسنِ اخلاق میں بھی، سیاست کے اندر معرفتِ تامہ رکھنے میں بھی، اور کامل زہد و تقویٰ رکھنے میں بھی، بہ نسبت ایک ایسے شخص کے جس میں ابوبکرؓ ایسی صفات نہ پائی جائیں۔ ایسے شخص کی بیعت (مکمل) مشورہ کے بغیر انجام پا جائے تو وہاں آپ بےخوف نہیں ہوسکتے کہ کوئی ایسا اختلاف اٹھ کھڑا ہو جو فتنہ و شر کا موجب ہو‘‘۔
[25] ’’قتل‘‘ ظاہر ہے ایک نہایت سنگین اقدام ہے۔ احادیث میں بیان ہوا، ایک خلیفہ کی بیعت ہوجانے کے بعد کوئی دوسرا بیعت لینے اٹھے تو قتل کردیا جائے خواہ کوئی بھی ہو۔ حضرت عمرؓ اسی کو توسیع دیتے ہوئے اس شخص کےلیے بھی یہی تجویز کرتے ہیں جو خلیفہ کے تقرر کو مسلمانوں کی شوریٰ کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے۔ ظاہر ہے، عمر مسجد نبوی میں علمائے صحابہؓ کی موجودگی میں یہ خطبہ دے رہے ہیں (بخاری کی اسی روایت میں آگے چل کر عمر وہ اسباب بھی بتا رہے ہیں جو اِس ’’ناگہانی کارروائی‘‘ کا موجب ہوئے پھر اس کا وجہِ جواز بھی بتا رہے ہیں کہ ابوبکر تو امت میں اپنے مقام کے لحاظ سے ویسے ہی ایک استثنائی شخصیت ہیں)۔ یہاں؛ اسشخص کو اپنے نقطۂ نظر پر غور کرنا چاہئے جس کا خیال ہے کہ خلیفہ کے چناؤ سے متعلق اسلام نے کوئی واضح ہدایات ہی نہیں دی ہیں! خلیفہ کے تعین کے وقت ’’شوریٰ‘‘ کی یہ حیثیت صحابہؓ کے ہاں مسلّم ہےجس کو بائی پاس کرکے معاملے کو اچک لے جانے والا قتل تک کا مستوجب ہوسکتا ہے۔
[26] عبدالرحمن بن عوف نے اہلِ شوریٰ سے تو مشورہ کیا ہی، مدینہ کے عام لوگوں تک کی رائے جانی۔ بقول ابن کثیرؒ: حَتَّى خَلَصَ إِلَى النِّسَاءِ الْمُخَدَّرَاتِ فِي حِجَابِهِنَّ، وَحَتَّى سَأَلَ الْوِلْدَانَ فِي الْمَكَاتِبِ ’’یہاں تک کہ زنان خانوں میں خواتین کے پاس گئے۔ یہاں تک کہ سبق پڑھتے بچوں سے ان کی رائے پوچھتے رہے‘‘ (البدایۃ والنھایۃ ج 7 ص 164) جس سے معلوم ہوا مسلمانوں کے اصحابِ شوریٰ عوام الناس کی نبض پر نہایت خوب ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے فیصلوں اور اپنے اقدامات میں لوگوں کی پسند ناپسند کو بھی حتی الامکان سامنے رکھتے ہیں۔ بلاشبہ جماعۃ المسلمین کے ائمہ واہل حل و عقد ایسے ہی ہوتے ہیں۔
البتہ اس واقعے سے یہ ’قطعی دلیل‘ پکڑنا کہ یہ تو ’عام انتخابات‘ تھے اور یہ تو تھا ہی ’عوام کا فیصلہ‘ (جو نجانے ابوبکرؓ و عمرؓ کی بار کہاں چلا گیا تھا!) بلکہ ثابت ہوا عوام ہی اصل اتھارٹی ہیں اور یہ کلی اختیار عوام کا ہے کہ چاہیں تو کسی صِدیق کو اقتدار بخشیں اور چاہیں تو کسی روٹری کلب کی تلچھٹ کو؛ بس ہر کسی کو عوام کے سامنے لائن بنانی اور ’ووٹ‘ کےلیے دستِ سوال دراز کرنا ہے… تو ’جمہوری استدلالات‘ کا یہ پورا ٹُول باکس نکال لانے کےلیے ضروری ہے کہ پہلے مستشرقین کی تاسیس کردہ یونیورسٹیوں سے کوئی سو ایک سال آپ کو ’اینلائٹمنٹ‘ مل چکی ہو؛ جس سے آپ وہ ’نظر‘ پالیں جس کے بغیر عالم اسلام کے اپنے ’اندھیروں‘ میں آج تک وہ چیز کسی کو نظر نہیں آئی تھی! ورنہ کوئی تو وجہ ہو کہ امت کے بڑے بڑے عبقری فقہاء ان ’قیمتی استدلالات‘ کے بغیر دنیا سے جاتے رہے اور آج کا چھوٹے سے چھوٹا دانشور اٹھے تو وہ اسلام کے اِن ’حتمی وقطعی‘ مسائل پر روشنی ڈالے بغیر خاموش ہونے کا نام نہ لے!
مختصراً؛ یہ وہ اندازِ استدلال ہے جس سے کام لے کر کمیونزم سے متاثر شخص اسلام کے کسی ایک واقعے سے پورا کمیونزم ثابت کرسکتا ہے، سرمایہ داری سے متاثر انسان اسلام میں ’جگہ جگہ‘ سرمایہ داری کے ثبوت دکھا سکتا ہے اور جمہوریت پسند جمہوریت کے۔ اِس کو فضا کے اثرات کہئے جس کا تعلق خارج سے ہے! ’’رجحانات کی تاثیر‘‘ ایک نہایت ظالم چیز ہے اور اس کے مقابلے پر ’دلیل‘ ایک مظلوم ترین چیز!
[أ] “لزومِ جماعت” کا ایک مفہوم: “اولی الامر” سے وابستگی
جیسا کہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے… ’’الجماعۃ‘‘ کے متعدد معانی اور اطلاقات میں سے ایک ’’اولی الامر‘‘ بھی ہے۔ پس جب ہم کہیں گے ’’جماعۃ المسلمین کو لازم پکڑو‘‘ تو اس کا ایک معنیٰ یہ ہوگا کہ ’’مسلمانوں کے اولی الامر کے پابند رہو‘‘۔ ’’الجماعۃ‘‘ کا یہ معنیٰ بیان کرتے ہوئے علامہ رشید رضا اپنے مشہور مقالہ ’’الخلافۃ‘‘ میں (ص 21 پر) لکھتے ہیں:
وَقد أَمر بِطَاعَة أولي الْأَمر – وهم الْجَمَاعَة – لَا وَليّ الْأَمر، وَذَلِكَ أَن ولي الْأَمر وَاحِد مِنْهُم، وَإِنَّمَا يطاع بتأييد جمَاعَة الْمُسلمين الَّذين بَايعُوهُ لَهُ وثقتهم بِهِ، وَيدل على هَذَا الْمَعْنى مَا ورد من الْأَحَادِيث الصَّحِيحَة فِي الْتِزَام الْجَمَاعَة وَكَون طَاعَة الْأَمِير تَابِعَة لطاعتهم واجتماع الْكَلِمَة بسلطتهم كَحَدِيث ابْن عَبَّاس فِي الصَّحِيحَيْنِ عَن النَّبِيﷺ قَالَ: ” من رأى من أميره شَيْئا فليصبر عَلَيْهِ فَإِن من فَارق الْجَمَاعَة شبْرًا فَمَاتَ مَاتَ ميتَة جَاهِلِيَّة ” وَلما أخبر النَّبِيﷺ حُذَيْفَة بن الْيَمَان بِمَا يكون فِي الْأمة من الْفِتَن فِي الحَدِيث الصَّحِيح الْمَشْهُور قَالَ: فَمَا تَأْمُرنِي إِن أدركني ذَلِك؟ قَالَﷺ: “تلْزم جمَاعَة الْمُسلمين” وإمامهم ” قَالَ قلت: فَإِن لم يكن لَهُم جمَاعَة وَلَا إِمَام؟ قَالَ “فاعتزل تِلْكَ الْفرق كلهَا”.
اللہ تعالیٰ نے ’’اولی الامر‘‘ کی اطاعت کا حکم دیا، جوکہ جماعت ہے نہ کہ (اکیلے) ’’ولی الامر‘‘ کی اطاعت کا۔ اس لیے کہ ’’ولی الامر‘‘ دراصل ’’اولی الامر‘‘ میں سے ہی ایک ہے۔ اُس (ایک شخص) کی اطاعت تو ہے ہی اس لیے کہ اس کی پشت پر جماعۃ المسلمین کی تائید ہے جس نے اس کی بیعت کروائی اور جس کا اُس کو اعتماد حاصل ہے۔ اِس معنیٰ پر احادیث میں وارد وہ نصوص دلالت کرتی ہیں جو لزومِ جماعت کے باب میں آئی ہیں اور جن کی رو سے امیر کی اطاعت اولی الامر کی اطاعت کے تابع ہے اور مسلمانوں کے کلمہ کا ایک ہونا ان کی اتھارٹی کے ساتھ متعلق ہے۔ مثلاً صحیحین میں ابن عباس سے مروی نبیﷺ کی حدیث کہ ’’جو آدمی اپنے امیر کے ہاں کوئی قابل اعتراض بات دیکھے اُسے چاہئے کہ اُسے برداشت کرے؛ اس لیے کہ جس شخص نے جماعت سے ایک بالشت برابر بھی مفارقت اختیار کی اور اس حالت میں اسے موت آئی تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘۔ نیز نبیﷺ کی وہ مشہور حدیث جس میں آپﷺ نے حذیفہ بن الیمان کو امت میں پیش آنے والے فتنوں کی خبر دی تھی اور جس میں حذیفہ نے دریافت کیا تھا کہ: اگر مجھے وہ زمانہ پیش آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑنا‘‘۔ حذیفہ نے عرض کی: اگر مسلمانوں کی جماعت اور امام نہ ہو؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’تو پھر ان سب ٹولوں سے الگ رہنا‘‘۔
علامہ رشید رضا کی ایک اور تقریر بھی اِس موضوع پر نہایت اہم ہے۔ فرماتے ہیں:
وَقد تقدم فِي التَّعْرِيف بالخلافة قَول الرَّازِيّ إِن الرِّئَاسَة الْعَامَّة هِيَ حق الْأمة الَّتِي لَهَا أَن تعزل الإِمَام (الْخَلِيفَة) إِذا رَأَتْ مُوجبا لعزله، وَقد فسر السعد معنى هَذِه الرِّئَاسَة لِئَلَّا تستشكل فَيُقَال إِذا كَانَت الرِّئَاسَة للْأمة فَمن المرءوس؟ فَقَالَ إِنَّه يُرِيد بالأمة أهل الْحل وَالْعقد أَي الَّذين يمثلون الْأمة بِمَا لَهُم فِيهَا من الزعامة والمكانة، ورئاستهم تكون على من عداهم أَو على جَمِيع أَفْرَاد الْأمة. . وَالثَّانِي هُوَ الصَّحِيح، وَيُؤَيّد هَذَا تَفْسِير الرَّازِيّ لأولى الْأَمر فِي قَوْله تَعَالَى يَا أَيهَا الَّذين آمنُوا أطِيعُوا الله وَأَطيعُوا الرَّسُول وأولي الْأَمر مِنْكُم فقد حقق أَن المُرَاد بأولي الْأَمر أهل الْحل وَالْعقد الَّذين يمثلون سلطة الْأمة. وَقد تَابعه على هَذَا النَّيْسَابُورِي وَاخْتَارَهُ الْأُسْتَاذ الإِمَام، ووضحناه فِي التَّفْسِير مستدلين عَلَيْهِ بقوله تَعَالَى وَإِذا جَاءَهُم أَمر من الْأَمْن أَو الْخَوْف أذاعوا بِهِ وَلَو ردُّوهُ إِلَى الرَّسُول وَإِلَى أولي الْأَمر مِنْهُم لعلمه الَّذين يستنبطونه مِنْهُم (الخلافۃ: ص 22)
پیچھے خلافت کی تعریف میں امام رازی کا یہ قول گزر چکا کہ اقتدارِ عام (حکمرانی) امت کا حق ہے اور وہی اس بات کی مجاز کہ اگر وہ ضرورت محسوس کرے تو امام (خلیفہ) کو معزول تک کردے۔ سعد الدین تفتازانی نے اِس حقِ اقتدار کی تفسیر بھی فرما دی ہے تاکہ یہ اشکال باقی نہ رہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ حکمرانی امت کی ہے (یعنی حاکم امت ہے) تو پھر یہاں محکوم کون ہے؟ تفتازانیؒ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ: امام رازیؒ (اِس سیاق میں) امت سے مراد لیتے ہیں ’’اہل حل و عقد‘‘ جوکہ امت کی نمائندگی کرتے ہیں اپنی اُس حیثیت کی بدولت جو ان کو امت کے مابین اپنی سرداری اور برتری کی صورت حاصل ہے۔ حکمرانی اِن (اہل حل و عقد) کی ہوگی اپنے ماسوا پر، یا پھر امت کے تمام افراد پر… جبکہ دوسرا قول صحیح ہے (یعنی اہل حل و عقد کی حکمرانی امت کے ہر فرد پر ہے)۔ سعد الدینؒ کی اِس توجیہ کی تائید امام رازیؒ کی اپنی ہی تفسیر سے ہوجاتی ہے جو وہ لفظِ ’’اولی الامر‘‘ کے تحت فرماتے ہیں بابت آیت (النساء 58 ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی، نیز اپنے میں سے اولی الامر کی‘‘)۔ یہاں رازی توثیق کرتے ہیں کہ ’’اولی الامر‘‘ سے مراد ہیں اہل حل و عقد جوکہ امت کی اتھارٹی کے نمائندہ ہیں۔ مفسر نیسابوری نے بھی اس کی تفسیر میں رازی کی متابعت کی اور یہی رائے ہمارے استاد (محمد عبدہ) نے اختیار کی ہے۔ ہم نے بھی اپنی تفسیر میں اسی کو واضح کیا ہے اور اس پر اس آیت سے استدلال کیا ہے (النساء: 83 ترجمہ: ’’جہاں کہیں انہیں امن یا خوف کا کوئی مسئلہ پیش آیا یہ اس کا چرچا کرنے چل دیے۔ حالانکہ اگر یہ اُس مسئلہ کو حوالے کردیتے رسول کے اور اپنے میں سے اولی الامر کے تو یقیناً وہ لوگ ہی اس کو سمجھتے جو بات کی تہہ میں اتر کر نتیجہ اخذ کرتے ہیں‘‘)۔
علامہ رشید رضاؒ کی یہ تقریر ان تینوں ائمہ کے کلام کو نہایت خوب ربط دیتے ہوئے ملخص کردیتی ہے۔تاہم واضح رہے کہ رشید رضاؒ اپنی جلالتِ علمی کے علی الرغم دورِ حاضر کے مصنفین میں آتے ہیں؛ رازی، تفتازانی اور نیسابوری کے کلام کا خلاصہ کرنے کے دوران ’نمائندگی‘ کا لفظ رشید رضاؒ کا اپنا استعمال کردہ ہے؛ خود رازی، تفتازانی اور نیسابوری کے ہاں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا، بلکہ ہمارے علم کی حد تک ہمارے قدیم اسلامی مصادر سب کے سب لفظِ ’’نمائندگی‘‘ سے خالی ہیں۔
}رہ گیا متقدمین میں سے کسی کا امام کو امت کا ’’وکیل یا ’’نائب‘‘ قرار دینا (مثلاً دیکھئے البقرۃ آیت 30 مسئلہ 14 کے تحت قرطبیؒ کا قول فَإِنَّ الْإِمَامَ هُوَ وَكِيلُ الْأُمَّةِ وَنَائِبٌ عَنْهَا، یا ابن تیمیہؒ کے کلام میں ولایت اور وکالت کی بات جوکہ پیچھے گزر چکی)… تو اس کو ’’نمائندگی‘‘ کے رائج الوقت مفہوم سے کچھ علاقہ نہیں۔ ’’وکالت‘‘ یا ’’نیابت‘‘ کی بحثیں متقدمین کے ہاں والیوں کے تصرفات کی فقہی تکییف سے متعلق ہوتی ہیں؛ اس فقہی تکییف کے لحاظ سے ایک ’غیر منتخب‘ والی کے تصرفات بھی ’’نیابت‘‘ میں ہی آئیں گے؛ کیونکہ فقہ میں آدمی کے تصرفات یا تو اصالتاً (ذاتی حیثیت میں) ہوتے ہیں یا نیابتاً (کسی کی طرف سے)۔ پس یہاں نیابت اصالت کے مقابلے پر آتی ہے۔ ہاں آگے اِس نیابت کی متعدد صورتیں ہیں: کہیں یہ ’’ولی‘‘ کی صورت میں انجام پائے گی، کہیں ’’وکیل‘‘ کی صورت میں، تو کہیں ’’ناظر‘‘ یا ’’وصی‘‘ کی صورت میں۔ چنانچہ اِن فقہی مباحث کا سیاق ہی بالکل اور ہے؛ جبری وُلاۃ کے تصرفات بھی اس کے دائرہ سے باہر نہ ہوں گے، قطع نظر اس بحث سے کہ جبراً والی بننا ایک غلط اور قابلِ انکار عمل ہے{۔
[ب] عامی خواہ امیر کیوں نہ ہو، عالم کی اطاعت کا پابند ہے
ہمارے برصغیر میں الجھنیں کوئی ایک نہیں بےشمار ہیں جو اسلامی تبدیلی کا راستہ روک کر کھڑی ہیں۔ اِس بحث کا یہ محل نہیں، تاہم اِس جانب اشارہ کردینا ضروری ہے کہ ایک عامی کےلیے ’’عالم‘‘ کا واجبِ اتباع ہونا دین کی معلوم حقیقت ہے۔ بہت سی ہڑبونگ، شرعی مقاصد کی بہت سی بیخ کنی جو فی الوقت دیکھی جارہی ہے اِسی ایک حقیقت کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ ’’عامی کے مقابلے پر عالم کی شرعی حیثیت‘‘ جب تک مسلّم نہیں ٹھہرتی تب تک معاشرے پر شریعت کی رِٹ قائم ہونا ہمارے خیال میں ممکن نہیں (اِلا یہ کہ شریعت کے نام پر فوجداری کا کوئی موقع تلاش کیا جائے!)
جدید آندھیوں کے تباہ کن مضمرات کے پیش نظر، یہاں کے سنجیدہ طبقوں کی خدمت میں ہماری گزارش ہوگی کہ ’’عامی کےلیے شریعت کی مقررکردہ حدود‘‘ کو وقت کا اہم موضوع بنائیں…
ایک ’’عامی‘‘ کے حق میں ’دلیل‘ اِس وقت وہ جنگل ہے جس میں ہزاروں خونخوار بھیڑیے گھس آئے ہیں جو سود کے حق میں بھی ’دلیلوں‘ کا ایک طومار رکھتے ہیں، تعطیلِ جہاد پر بھی، ابطالِ خلافت پر بھی (بلکہ ابطالِ امت پر ہی)، عورت کے برہنہ سر پھرنے پر بھی، مرتد کی سزا کو غلط ٹھہرانے پر بھی، ہندو کو مشرک نہ ٹھہرانے پر بھی، بلکہ خود سنت کی تعریف پر ہی، بلکہ قرآن سے دلیلیں اخذ کرنے کے ’’اصول و مبادی‘‘ پر ہی۔ یہاں ہر ہر چیز کی تفسیرِ نو ہورہی ہے؛ اب چونکہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کی دو سو سال کی محنت کے نتیجے میں عقل کو کچھ مخصوص سانچوں میں ڈھال لیا گیا ہے اور رہی سہی کسر میڈیا پوری کرنے لگا ہے… لہٰذا ’دلیل‘ کو جب اِن نئے زاویوں سے دکھایا جاتا ہے تو وہ فوراً ’دل‘ کو لگتی ہے اور اس کے مقابلے پر ’مولوی‘ کی بات بےدلیل نظر آتی ہے خواہ وہ چودہ سو سال سے چلے آنے والے مسلمات پر مبنی کیوں نہ ہو، (’’مسلمات‘‘ جب ’دلیل‘ ہی کے خلاف دکھا دیے جائیں تو ان کو چھوڑنا تو پڑے گا!)۔ ایک عامی کے ہاتھ میں جب یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ ’دلیل‘ کیا کہتی ہے تو لامحالہ عالم کو عامی کی عدالت میں کھڑا ہونا پڑے گا جہاں عامی ’فیصلہ‘ کرے گا کہ عالم صحیح بات کہتا ہے یا غلط! حالانکہ ’’دلیل‘‘ اور ’’دلالت‘‘ کا تعین کرنے کےلیے جو بنیادی اوزار ہیں وہ صرف عالم کے پاس ہیں۔ اِس حقیقت کو نظرانداز کرنا ایسا ہی ہے جیسا ایک عامی کو ایک سرجن پر حَکَم judge بنا دینا، یا یہاں کے انجنیئریوں، قانون دانوں، معیشت دانوں، سائنسدانوں اور ریاضی دانوں پر یہ شرط عائد کرنا کہ وہ اپنے شعبے کی ہر ہر بات کو عامی سے پاس کروا کر دکھائیں… اِلّا یہ کہ ’’شریعت‘‘ کو آپ کوئی ایسا وسیع ومربوط علم ہی تسلیم نہ کریں جس کے بحر میں اترنے کےلیے کوئی علمی استعداد درکار ہو! ظاہر ہے ایک ایسا عامی جو عالم پر حَکَم ہو، علماء کو ’’مطاع‘‘ کے طور پر کس طرح لے سکتا ہے!
حق یہ ہے کہ اِس ’فتنۂ عوام‘ کو بےشمار جہتوں سے آج ہم پر مسلط کرایا جارہا ہے… اور ہزارہا جہت سے ’’شریعت‘‘ کا گھونٹ بھرا جارہا ہے۔
انبیاء کے بعد علماء ہی خدا اور اس کی مخلوق کے مابین حجت ہیں۔ شریعت کی دلالت کیا ہے اور کیا نہیں، یہ آپ کو علماء ہی بتائیں گے؛ عامی کو صرف ان کی اطاعت کرنی ہے۔ ہاں اطاعت کےلیے ’’فی المعروف‘‘ کی شرط ہے اور اس سے علماء بھی مستثنیٰ نہیں۔ تاہم ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ عامی ہر ہر مسئلے میں علماء کی دلیلیں چیک کرے گا کہ کہاں کہاں پر عالم صحیح ہے اور کہاں کہاں پر غلط! (عامی ’’ادلہ شرعیہ‘‘ کی تقریر و استنباط کے اوزار رکھتا تو ہم اس کو عامی ہی کیوں کہتے)! علماء کے حوالے سے ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ایک بہکا ہوا عالم معاشرے میں اگر کوئی ایسا فتویٰ دینے لگتا ہے جو ایک عامی تک کو معلوم ہے کہ اسلامی شریعت کےخلاف ہے اور امت کے اہل علم زمانۂ قدیم سے آج تک اس کو غلط کہتے آئے ہیں تو وہ اس بہکے ہوئے عالم کے پیچھے محض اس لیے نہ چلتا رہے کہ یہ بھی عالم ہے! مثال کے طور پر کوئی عالم آج سود کے حق میں دلیلیں دینے لگے، بےپردگی کو جائز کرے، ذرائع ابلاغ میں چلنے والے ناچ گانے اور بھانڈ کلچر کو اسلام کا لائسنس دے یا یہ نکتہ نکالے کہ ہندو کو مشرک کہنے یا اس کے ساتھ رشتہ بیاہ کو خلافِ شریعت کہنے پر شریعت میں کوئی دلیل نہیں… تو مسلم معاشرے کا ایک عامی سے عامی شخص ایسے مدعیِ علم کو کسی خاطر میں نہ لائے گا۔
چنانچہ یہ ’’فی المعروف‘‘ کی شرط ضرور لگائی جائے گی تاکہ معاملہ ایک ڈسپلن کا پابند رہے، باقی علماء کو واجبِ اطاعت ہی مانا جائے گا۔ اور یہ وہ تیسری اطاعت ہے جو سورہ نساء کی آیت 59 میں ذکر ہوئی؛ اور جس کی بابت مفسرین اور فقہائے سلف کی کثیر تعداد کا قول ہے کہ اس (اولی الامر) سے مراد ہے: علماء اور امراء؛ علماء اپنے دائرے میں اور امراء اپنے دائرے میں؛ مسلم معاشرے کےلیے دونوں مطاع ہیں۔ امیر اگر عالم نہیں تو خود اُس پر عالم کی اطاعت واجب ہے؛ جس طرح عالم اگر امیر نہیں تو اُس پر امیر کی اطاعت واجب ہے؛ یعنی دونوں اپنے اپنے میدان میں ایک دوسرے کےلیے واجبِ اطاعت ہیں۔ اِس ’’تیسری اطاعت‘‘ کا فی الوقت جو گھونٹ بھرا جا رہا ہے… خواہ وہ ’دلیل‘ کے نام پر علماء کو ان کے مقام سے محروم کرانے کی صورت میں ہو یا جمہوری ہڑبونگ پر کفایت کرتے ہوئے (یا اس کو نعمتِ غیرمترقبہ جانتے ہوئے!) شرعی اُمَراء کو غیرضروری ٹھہرانے کی صورت میں… وہ ہماری مسلم اجتماعیت (جماعۃ المسلمین) کے حق میں آخری حد تک تشویشناک ہے۔
[ج] سیاسی عمل میں عامۃ الناس کی شرکت:
اصل مقصد ایک مفہوم کو واضح کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں الجھنا۔ ’’امامت‘‘ اور ’نمائندگی‘ کا یہ اصل فرق نمایاں ہوجائے تو لفظی بحث میں پڑنا غیرضروری ہے۔
بلاشبہ امام ایک معنیٰ میں اپنی جماعت کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ نیز سرپرست (ولی) اپنے زیردست کی نمائندگی بھی کرتا ہے اور اس کے معاملات میں تصرف کے دوران اس کے بہترین مفاد کے تحفظ کا پابند ہوتا ہے۔ لہٰذا ’’نمائندگی‘‘ کا معنیٰ بھی ’’ائمۂ جماعت‘‘ کے اندر کلیتاً باطل نہیں۔ نیز سید القوم خادمھم؛ اور اپنی قوم کی خیرخواہی کےلیے بےچینی وبےآرامی سہنا راہنماؤں کی پہچان۔
اصل مقصد ’’نمائندگی‘‘ کے اُس مفہوم کا بطلان ہے جو آج ذہنوں پر چھایا ہوا ہے اور جس کا منبع ہیومن ازم کا وہ کیس ہے جو ’’روئے زمین پر انسان کی حیثیت‘‘ متعین کرتا ہے۔ ظاہر ہے ’’خدا‘‘، ’’انبیاء‘‘، ’’شرائع‘‘، ’’یوم آخرت‘‘ اور ’’عبدیت و جوابدہی‘‘ ایسے تصورات کے میدان میں آنے سے ’’انسان‘‘ کی بابت وہ پورا تصور بدل جاتا ہے جو ہیومن ازم نے لوگوں کے لاشعور میں بٹھا دیا ہے۔ لازم ہے کہ اس سے پھوٹنے والے تصورات بھی یکسر ٹھکرا دیے جائیں نہ کہ ان کو اسلام سے ’ہم آہنگ‘ کرنے کی کوشش میں اذہان کے اندر ایک خلط پیدا ہونے دیا جائے۔ پس نہایت ضروری ہے کہ یہاں ’’عوامی نمائندگی‘‘ کا وہ پینوراما panorama ملیامیٹ کروا دیا جائے جو اِن درآمد شدہ (foreign-inspired) تصورات سے تشکیل پا کر آج ہمارے دانشوروں کو اپنے اسلامی مصادر تک میں ’ہرطرف‘ دکھائی دینے لگا ہے… اور جو ہمارے بہت سے اسلامی تصورات کو آج ایک تفسیرِ نو کا ضرورتمند ٹھہرانے لگا ہے۔ اِس محدَث (invented) تصور سے، جو ’نمائندگی‘ کے زیرعنوان پرورش پا رہا ہے، قلوب کے اندر مطلوبہ بیزاری پیدا کرلی جائے تو لفظی تنگیوں میں پڑنا واقعتاً غیرضروری ہوجاتا ہے۔
چنانچہ
- ’انسان‘، ’عوام‘، ’ریاست‘، ’نمائندگی‘ وغیرہ ایسے الفاظ سے جڑے ہوئے یہ مشرکانہ تصورات اگر واضح ہوجاتے ہیں، اور مسلم معاشرہ اگر اِس پورے پیراڈائم سے براءت کرنے لگتا ہے،
- نیز ’’جماعت‘‘ کا وہ تصور بھی اگر ذہن نشین ہوجاتا ہے جو اسلامی عمران کی اساس ہے اور جوکہ انسانی اجتماع کا ایک الگ تھلگ تصور ہے،
- نیز یہ مبحث بھی اگر عقول میں جاگزیں ہوجاتا ہے کہ دوسراسر مختلف (بلکہ متصادم) نظاموں کے مابین بھی کچھ نہ کچھ مشابہت پائی جا سکتی ہے جس کا یہ مطلب بہرحال نہیں ہوتا کہ ان میں سے ایک کا پرزہ نکال کر دوسرے میں فٹ کرنے چل پڑو…
یہ کچھ بنیادی مطالب اگر ذہنوں میں راسخ ہوجاتے ہیں تو اپنے دور کے معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ’’عامۃ المسلمین‘‘ کے ’’ائمہ‘‘، یا ’’نقباء‘‘ یا ’’عرفاء‘‘ کو مقامی اور اقلیمی (علاقائی) اور ملی سطح پر سامنے لانے کا کوئی سا نظام یقیناً وضع کیا جاسکتا ہے۔
’’ائمہ‘‘ کا لفظ ہمارے لیے بڑی حد تک واضح ہے۔ ’’نقیب‘‘ اور ’’عریف‘‘ کے الفاظ بھی ہمارے شرعی مصادر ہی میں آتے ہیں:
نقیب:
سیرت کی کتب نیز مسند احمد (رقم 15798)، مستدرک (5100)، میں بیعتِ عقبہ کے ضمن میں آتا ہے: }وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَخْرِجُوا إِلَيَّ مِنْكُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا يَكُونُونَ عَلَى قَوْمِهِمْ»، فَأَخْرَجُوا مِنْهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا مِنْهُمْ تِسْعَةٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَثَلَاثَةٌ مِنَ الْأَوْسِ ’’نبیﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے میں سے بارہ نقیب نکال کر دو جو اپنی اپنی قوم پر(مقرر) ہوں۔تب انہوں نے اپنے میں سے بارہ نقیب نکالے، جن میں سے نو خزرج سے تھے اور تین اوس سے‘‘{۔ یہ خیال تو صحیح نہیں کہ اِن بارہ لوگوں کو شرکائے بیعت نے ’’اپنا‘‘ نمائندہ بنایا تھا، مصنف ابن ابی شیبہ (رقم 70101) ودیگر کتب میں اوس اور خزرج کے ایک ایک گوت clan کا نقیب مذکور ہے۔ (مثلاً ’’بنی عوف‘‘ کے نقیب عبادہ بن الصامتؓ، ’’بنی زُرَیق‘‘ کے رافع بن مالکؓ، ’’بنی ساعدہ‘‘ کے سعد بن عبادؓہ اور منذر بن عمروؓ، ’’بنی النجار‘‘ کے اسعد بن زرارہؓ، وغیرہ)۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں نقیب کی بجائے کفیل کا لفظ ہے۔ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اِن بارہ نُقباء یا کُفلاء کو مضمونِ بیعت (نبیﷺ کی نصرت اور تحفظ) کےسلسلہ میں اپنے اپنے قبیلے کا ذمہ اٹھانا تھا۔
عریف:
جس کا لغوی مطلب بنتا ہے: مہتمم یا نگران۔
بخاری اپنی صحیح میں ’’کتاب الأحکام‘‘ کے تحت ایک باب باندھتے ہیں: ’’باب العرفاء للناس‘‘۔ اور پھر اس کے تحت یہ حدیث لاتے ہیں: }أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ أَذِنَ لَهُمُ المُسْلِمُونَ فِي عِتْقِ سَبْيِ هَوَازِنَ: «إِنِّي لاَ أَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ» ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا ’’کہ جب لوگوں نے ہوازن کے غلام بنا لیے گئے لوگوں کو آزاد کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مجھ پر واضح نہیں تم میں سے کون رضامند ہوا اور کون نہیں۔ سب (اپنے پڑاؤ میں) واپس چلے جاؤ، یہاں کہ تک تمہارے عریف ہی ہمیں تمہاری رائے سے آگاہ کریں۔ تب لوگ واپس چلے گئے۔ ان کے عریفوں نے ان سے بات کی اور رسول اللہﷺ کے پاس پلٹ آئے اور آپؐ کو خبر دی کہ وہ دل سے راضی ہیں اور اجازت دیتے ہیں‘‘ (بخاری 7176){۔
عربی لغت میں دیکھیں تو ’’عریف‘‘ ایک تو فوجی درجہ ہے (سبی ھوازن کا یہ واقعہ بھی جہاد سے متعلق ہے) اور بعض عرب ملکوں کی افواج میں آج تک مستعمل ہے سرخسیؒ کہتے ہیں: ’’امام مالِ غنیمت کو عریفوں کے مابین تقسیم کرتا ہے آگے عریف اپنے اپنے ماتحت فوجیوں کے مابین‘‘ (المبسوط ج 10 ص 27)۔ ابن حجرؒ کہتے ہیں: وَسُمِّيَ الْعَرِّيفُ عَرِّيفًا لِأَنَّهُ يُعَرِّفُ الْإِمَامَ أَحْوَالَ الْعَسْكَرِ ’’عریف کو عریف اس لیے کہا گیا کہ وہ امام کو لشکر کے احوال سے باخبر رکھتا ہے‘‘ (فتح الباری ج 6 ص 601)۔ عظیم آبادیؒ کہتے ہیں: قِيلَ الْعَرِيفُ يَكُونُ عَلَى نَفِيرٍ وَالْمَنْكِبُ يَكُونُ عَلَى خَمْسَةِ عُرَفَاءَ وَنَحْوَهَا ثُمَّ الْأَمِيرُ فَوْقَ هَؤُلَاءِ ’’مذکور ہوا ہے: عریف کے نیچے ایک تعداد ہوتی۔ ہر پانچ عریفوں پر ایک منکب ہوتا، اور ان سب پر ایک کمانڈر‘‘ (عون المعبود ج 8 ص 108)۔ فقہ میں آتا ہے: وينصب صاحبَ الجيش، وهو ينصب [نقباء]، وكل نقيب ينصب [عُرفاء]، وكل عريفٍ يحيط بأسماء معروفين مخصوصين به، فالإمام يدعو عند حاجته صاحبَ الجيش، وصاحبُ الجيش يدعو النقباء، وكل نقيب يدعو عرفاء تحت رايته، وكل عريف يدعو مسمَّين تحت ضبطه وأمره، فيسهل الأمر في جمعهم وتفرقهم، وفضِّ الأعطية عليهم، وندب كل فريق إلى ناحية. وحسنٌ أن يكون لكل فريق علامة يعرفون بها في الحرب، فقد كان ذلك في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم ’’امام سپہ سالار مقرر کرے گا، سپہ سالار نقیبوں کو مقرر کرے گا، ہر نقیب (اپنے اپنے ماتحت) عریفوں کو مقرر کرے گا۔ ہر عریف اپنے اپنے حصہ میں آنے والے فوجیوں کے ناموں کا ریکارڈ رکھے گا۔ امام کو ضرورت پڑے گی تو سپہ سالا کو طلب کرے گا۔ سپہ سالار نقیبوں کو طلب کرے گا۔ نقیب اپنے پرچم تلے آنے والے عریفوں کو طلب کرے گا۔ ہر عریف اپنے ماتحت درج شدہ جوانوں کو طلب کرے گا۔ یوں ان کو جمع کرنا بھی آسان ہوگا اور پھیلانا بھی۔ نیز تنخواہیں دینا اور کسی مشن پر بھیجنا بھی۔ یہ بھی مستحسن ہے کہ ہر پلٹن کا کوئی الگ نشان ہو جس سے وہ جنگ میں پہچانے جائیں۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں یہی ہوتا تھا‘‘ (نھایۃ المطلب فی درایۃ المذھب ج 11 ص 528)۔
دوسرا، قبیلے یا محلے کے سرکردہ شخص کے معنیٰ میں۔ ’’عریف‘‘ کے تحت لسان العرب میں ابن الاثیر کا قول نقل ہوا ہے: هُوَ القَيِّم بأُمور الْقَبِيلَةِ أَو الْجَمَاعَةِ مِنَ النَّاسِ يَلي أُمورهم ويَتَعَرَّفُ الأَميرُ مِنْهُ أَحوالَهُم (ج 9 ص 238) ’’لوگوں میں سے ایک قبیلے یا جماعت کا نگران جسے ان کے امور سپرد ہوتے ہیں، اور امیر اُس کے ذریعے لوگوں کے احوال سے مطلع رہتا ہے‘‘۔ مناویؒ کہتے ہیں: العريف: الْقيم على قوم ليسوسهم ويحفظ أُمُورهم ’’عریف وہ شخص جو کچھ لوگوں پر مہتمم ہو، ان کو چلاتا (سیاست) اور ان کے امور کا نگران ہو‘‘(التیسیر بشرح الجامع الصغیر ج 1 ص 228)۔ القيم على قومه يسوسهم ويحفظ أمورهم ليعرف بها من فوقه عند الحاجة ’’جو اپنی قوم کا مہتمم ہو، ان کو چلاتا (سیاست) اور ان کے امور کی نگرانی کرتا ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنے سے اوپر والوں کو (معاملات سے) باخبر رکھے (فیض القدیر ج 2 ص 164)۔ (ولا بد للناس) في انتظام شملهم واجتماع كلمتهم (من العرفاء) ليتعرف الأمير من العريف حال من جعل فيما عليه من قبيلة أو أهل محلة ليرتب البعوث والأجناد ’’لوگوں کا شیرازہ مجتمع رکھنے اور ان کو متحد و مستحکم رکھنے کےلیے ضروری ہے کہ ان کے عرفاء ہوں۔ تاکہ امیر کےلیے ممکن رہے کہ وہ عریف سے اس کی ذمہ داری میں آنے والے قبیلے یا محلے کے لوگوں کے حالات سے واقف رہے، تاکہ وہ فوجی مہمات اور لشکروں میں لوگوں کی تشکیل کر سکے‘‘ (فیض القدیر ج 2 ص 376)۔ لأن الإمام لا يمكنه مباشرة جميع الأمور بنفسه فيحتاج إليه ’’کیونکہ امام کےلیے سب معاملات کو خود براہِ راست چلانا ممکن نہیں، لہٰذا وہ عریف کا ضرورتمند ہے‘‘ (فیض القدیر ج 6 ص 382)۔ امام بخاریؒ کے باندھے ہوئے باب اور اس کے تحت لائی ہوئی حدیث کے تحت بخاری کے شارح ابن بطال لکھتے ہیں: اتخاذ الإمام للعرفاء والنظار سنة؛ لأن الإمام لا يمكنه أن يباشر بنفسه جميع الأمور، فلابد من قوم يختارهم لعونه وكفايته بعض ذلك، ولهذا المعنى جعل الله عباده شعوبًا وقبائل ليتعارفوا فأراد تعالى ألا يكون الناس خلطًا واحدًا فيصعب نفاذ أمر السلطان ونهيه؛ لأن الأمر والنهى إذا توجه إلى الجماعة وقع الاتكال من بعضهم على بعض فوقع التضييع، وإذا توجه إلى عريف لم يسعه إلا القيام بمن معه. ’’امام کا لوگوں کو عریف اور ناظر مقرر کرنا سنت ہے۔ کیونکہ امام کےلیے ممکن نہیں کہ وہ سب امور کو خود ڈِیل کرے۔ لہٰذا کچھ لوگ ہونے چاہئیں جن کو وہ اپنی مدد کےلیے اختیار کرے تاکہ وہ اس کے بعض امور میں اسے کفایت کریں۔ یہی وہ بات ہے جس کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شاخیں اور قبیلے بنایا تاکہ ان کے مابین شناخت ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں چاہا کہ سب لوگ خلط ملط ہوں اور (تب) سلطان کے امر و نہی کا نفاذ بھی مشکل ہوجائے۔ کیونکہ امر و نہی کا رخ جب بڑے مجمعے کی طرف ہوگا تو لوگ چیزوں کو ایک دوسرے پر چھوڑنے لگیں گے اور اس سے معاملات کا ضیاع گا۔ ہاں جب اس کا رخ عریف کی طرف ہوگا تو پھر اسے اپنے ساتھ والوں کے ساتھ مل کر اس پر پورا اترنا ہی پڑے گا‘‘ (شرح البخاری لابن بطال ج 8 249)۔ مالکی فقیہ الباجی موطا کی شرح میں لکھتے ہیں: وَقَالَ عَلِيٌّ: إنَّ عُمَرَ دَوَّنَ الدَّوَاوِينَ وَجَعَلَ فِيهَا أَرْبَاعًا وَجَعَلَ عَلَيْهِمْ عُرَفَاءَ ’’علیؓ کہتے ہیں: عمرؓ نے مردم شماری میں لوگوں کی کھاتہ بندی کی اور ایک ایک کھاتے (وارڈ) پر ایک ایک عریف مقرر فرمایا‘‘ (المنتقیٰ ج 6 ص 3)۔ ابن شیبہ راوی ہیں: عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَمَّا وَلِيَ عُمَرُ الْخِلَافَةَ فَرَضَ الْفَرَائِضَ، وَدَوَّنَ الدَّوَاوِينَ، وَعَرَّفَ الْعُرَفَاءَ» قَالَ جَابِرٌ: فَعَرَّفَنِي عَلَى أَصْحَابِي ’’روایت جابرؓ سے، کہا: جب عمر نے خلافت سنبھالی تو وظائف مقرر کیے، کھاتے مرتب کیے اور عُرفاء مقرر کیے۔ جابر کہتے ہیں مجھے اپنے لوگوں پر عریف بنایا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ رقم 26722)۔ نوویؒ کہتے ہیں: ابوہریرہؓ اہل صفہ کے عریف تھے (المجموع شرح المہذب ج 1 ص 266)۔
فقہ کی کتب میں بھی یوں آتا ہے: عَرَّفَ الْإِمَامُ عَلَيْهِمُ العرفاء وضم إلى كل عريف قوما معينين أَثْبَتَ مَعَهُمُ اسْمَ عَرِّيفِهِمْ فِي الدِّيوَانِ وَيَكُونُوا عَدَدًا يَضْبُطُهُمُ الْعَرِّيفُ الْوَاحِدُ فِيمَا نُدِبَ لَهُ. ’’امام لوگوں پر عریف مقرر کرے گا، ہر عریف کی سپرداری میں لوگوں کی ایک تعداد کو رکھے گا اور مردم شماری کے کھاتوں میں ان کے ساتھ ان کے عریف کا نام درج کرے گا، اور وہ اتنی تعداد ہوگی جو ایک عریف کے ضبط میں آسکے ان معاملات میں جو اس کی تحویل میں دیے جاتے ہیں‘‘ (الحاوی الکبیر ج 14 ص 331)۔ (وَيُسْتَحَبُّ لِكُلِّ قَوْمٍ) مِنْ قَبِيلَةٍ أَوْ عَدَدٍ يَرَاهُ الْإِمَامُ (عَرِيفٌ) ’’یہ مستحب ہے کہ ہر قبیلہ کے کچھ لوگوں پر یا لوگوں کی ہر اُس تعداد پر جسے امام مناسب سمجھے، ایک عریف مقرر ہو‘‘ (اسنیٰ المطالب فی شرح روض الطالب ج 3 ص 89)۔ (وَيُعَرِّفُ عَلَيْهِمْ الْعُرَفَاءَ) ’’امام ان پر عریف مقرر کرے گا‘‘ (کشاف القناع عن متن الإقناع ج 3 ص 64)۔
جیساکہ عربی ادب سے ظاہر ہوتا ہے، عربوں میں اسلام سے پہلے بھی ’’عریف‘‘ کا تصور تھا۔ حتیٰ کہ حدیث میں آتا ہے کہ (اکثر) عریف جہنم میں جانے والے ہیں (لَابُدَّ مِنْ عَرِيفٍ، وَالْعَرِيفُ فِي النَّارِ ’’عریف ضروری بھی ہے، جبکہ عریف دوزخ میں جانے والا ہے‘‘ مصنف ابن أبی شیبۃ 26713، حسنہ الألبانی صحیح الجامع 7185)۔ مگر اسلام نے آکر جب تمدن کو وسعت دی، تو قبائلی اکائیوں کے ماسوا آبادیاتی اکائیوں کو بھی ’’عُرفاء‘‘ وغیرہ کے ذریعے ایک ڈسپلن دیا۔ غرض اسلام میں ابتداء سے ایسے ذمہ دار عناصر کا تصور رہا ہے جو مسلم ائمہ و امراء کے لیے لوگوں کے مابین نچلی ترین سطح پر جا کر رابطے اور اعتماد کا کام دیں۔ لوگوں کے حالات اور ضروریات کا علم ائمہ و امراء تک پہنچائیں اور ائمہ و امراء کے مطالب و ہدایات کو نیچے تک پہنچائیں۔ ’’عُرَفاء‘‘ کا کردار ہمیں انتظامی اور ملازم پیشہ کی نسبت سماجی اور رابطہ کار کے طور پر زیادہ نظر آتا ہے۔ نیز یہ ’’قبائلی سردار‘‘ سے بھی قدرے جدا ایک چیز ہے۔ کتب سے ظاہر ہے ان کا تعین امام کی طرف سے کیا جاتا تھا، جس طرح قاضیوں کا تعین بھی امام کی طرف سے ہی ہوتا تھا۔ وقت کے اہل حل وعقد اپنے باہمی صلاح مشورے سے اگر قضاۃ (قاضیوں) کے ادارہ کو والیوں کے اثرانداز ہونے سے تحفظ دلا سکتے ہیں تو اِس ادارہ کو بھی دلا سکتے ہیں۔ نماز میں لوگوں پر زبردستی کا امام کا بننے سے ممانعت ہے تو ان معاملات میں بھی لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے کی گنجائش نہ ہونی چاہئے۔ ’’امامت‘‘ دھونس اور زبردستی نہیں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: «ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ… (ابو داود 593، ومثلہ فی الترمذی عن أنس 358، صححہ الألبانی فی صحیح أبی داود 607) ’’عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت، کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے: تین آدمیوں کی نماز اللہ قبول نہیں کرتا: جو آدمی ایسے لوگوں کو نماز پڑھانے کےلیے آگے ہوجائے جو اسے ناپسند کرتے ہوں‘‘۔ (ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: امام احمد اور اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں: اگر ایک یا دو یا تین آدمی ناپسند کرتے ہوں تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی مسئلہ نہیں جب تک کہ نمازیوں کی اکثریت اُسے ناپسند نہ کرنے لگی ہو)
ظاہر ہے اس حدیث سے اگر امام مسجد کےحق میں ’’الیکشن‘‘ کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی درحالیکہ امام مسجد کی تعیناتی کرتے وقت لوگوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھ ہی لیا جاتا ہے اور لوگ آج تک بغیر ’’الیکشن‘‘ کے نماز پڑھتے ہیں… تو سماجی وسیاسی عمل میں ان کےلیے ایسے راہنماؤں کا چناؤ کرنے کی بھی کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے جنہیں لوگ ناپسند نہ کرتے ہوں۔ الیکشن کے نام پر لوگوں کے مابین ’رقابت‘ اور ’مقابلہ بازی‘ نیز ’پارٹی بازی‘ کا جو کلچر ڈیموکریسی نے دیا ہے، (اور جوکہ ’’الجماعۃ‘‘ کے معنیٰ سے متصادم ہے) اس سے بچتے ہوئے معاشرے کے پابندِ صوم صلاۃ طبقے کی پسند ناپسند جاننے کی جو بھی صورت وقت کے اہل علم وضع کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔