تائب
ہونے کا مطلب: خدا کے ساتھ معاملات کی درستی
رمضان کے موقع پر ’’خدا کی جانب لوٹ آنے‘‘ کا احساس
تقریباً ہر صاحب ایمان میں جنم لیتا ہے۔ ایک نئے سرے سے ’’عبادت‘‘ کی طرف آنا، ایک
نئے سرے سے ’’جنت کی طلب‘‘ کرنا، ’’دوزخ سے چھٹکارا پانے‘‘ کےلیے سرگرم ہو اٹھناتقریباً
ہر مسلمان پر گزرنے والا ایک واقعہ ہے۔ یعنی
توبہ تائب ہونا۔ لیکن زیادہ لوگ توبہ کو ایک ’’کامل تبدیلی‘‘ کے معنیٰ میں نہیں
لیتے۔ ’’توبہ‘‘ کا لفظ ذہن میں آئے تو
زیادہ سے زیادہ یہاں چند گناہوں کا تصور آتا ہے۔ کسی کےلیے توبہ موسیقی
سننا چھوڑ دینا ہے، کسی کےلیے فلموں سے وقتی یا دائمی ناطہ توڑ لینا، یا ایسی ہی
چند باتیں! البتہ... ’’معصیت اور غفلت کی زندگی‘‘ سے یکسر دستبردار ہو کر کامل ’’عبادت اور انابت کی زندگی‘‘ اختیار کرنا
بہت کم لوگوں کی توجہ لیتا ہے۔ انسان کی ’’ترجیحات‘‘
کا بدل جانا، زندگی کے ’’اہداف‘‘ کا عین وہ جہت پا لینا جو شرائع کا مقصود ہے، ’’افکار‘‘
اور ’’خیالات‘‘ کے اندر ہی وہ عظیم الشان تبدیلیاں برپا ہونا جو ’’صبغۃ اللہ‘‘ کا براہِ راست تقاضا ہے، ’معاشرے کے پیداکردہ
انسان‘ کی بجائے ’’قرآن کا پیداکردہ انسان‘‘ بن جانے پر محنت شروع ہوجانا...
’’توبہ‘‘ کے تحت درج ہونے والی اشیاء نہیں مانی جاتیں!
اِس کے علاوہ... زندگی میں وقت
کس طرح ضائع ہوتا رہا اور ابھی تک ہورہا ہے، حق کے مقاصد کو قیام اور تمکین دلانے کےلیے اِس جیوَن کا کیا
مصرف رہا، اِس زبان کا کیا استعمال ہوا، اِن
قویٰ، اِن مواقع، اِن امکانات اور اِن وسائل کا جو آدمی کو حاصل ہیں کیا استعمال
ہوا، ڈھیروں وقت کس طرح فضولیات میں
گزرا حالانکہ یہ وقت اور صحت اور فراغت
باقاعدہ کسی مقصد کےلیے آدمی کو عطا ہوئی تھی، کس طرح یہ زندگی بیٹھکوں ، چوپالوں، ’فورمز‘ اور ’موبائلوں‘ پر انگلیاں چلاتے
بیت گئی اور ’’مقاصدِ حق‘‘ اِس شخص کا منہ دیکھتے رہ گئے، حتیٰ کہ اس کی ’مذہبی‘
سرگرمیاں کس طرح قیل و قال، کثرۃِ سؤال اور اِضاعتِ وقت ومال کا ذریعہ بنی رہیں... ’’توبہ‘‘ کے مضمون میں اِن اشیاء کا
کوئی گزر نہیں!
امام ابن تیمیہؒ
کہتے ہیں: سلف کے نزدیک لفظ ذنب (گناہ) کا اطلاق ’’ممنوعات کے ارتکاب‘‘ کی
بجائے ’’واجبات کے ترک‘‘ پر زیادہ رہا ہے۔ حضرات! ’’ذنوب‘‘ کی یہ جہت، جوکہ ابن
تیمیہؒ کے نزدیک اہم تر ہے، ہم پر واضح رہنا ازحد ضروری ہے۔ اِدھر ہمارا
یہ حال کہ ہم ’’گناہ‘‘ کہتے ہی صرف اُس چیز کو ہیں جو کسی ’’ممنوعہ کام‘‘ کے
ارتکاب ہوجانے سے واقع ہو! خدا کی جانب سے عائد ’’فرائض اور ذمہ داریوں‘‘ کا ترک ہمارے
ہاں ’’گناہ‘‘ کے تحت تقریباً درج نہیں ہوتا! ہم میں سے اکثر کے ہاں تو
’’فرائض‘‘ کا وہ پورا نقشہ ہی غائب ہےاور وہ
اِس معاملہ کو ’’گناہ‘‘ کے تحت لاتے ہی نہیں!!! ان کے خیال میں جب وہ شراب
نہیں پیتے، زنا نہیں کرتے، گندی فلمیں نہیں دیکھتے، گانے نہیں سنتے، غرض اس طرح کے
حرام کاموں میں ملوث نہیں، تو پھر ان کی زندگی میں گناہ کہاں ہیں؟! ان میں سے ایک تعداد تو ایسی ہے جو ’’گناہوں سے استغفار‘‘ بھی ’وظائف‘
میں سے محض ایک ’وظیفہ‘ سمجھ کر کرتی ہے؛ کیونکہ شریعت میں جگہ جگہ اِس کے ’فضائل‘ وارد ہوتے ہیں!!! البتہ ’’گناہ‘‘ کے حوالے
سے ان کی نگاہ اس طرف کو نہیں جاتی کہ
کیسےکیسے فرائض اور ذمہ داریاں جو حق تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد ہیں ان کی زندگی
میں معطل پڑے ہیں؛ اور جوکہ سلف کی اصطلاح میں ’’ذنوب‘‘ قرار پانے کے زیادہ
لائق ہے۔ اندازہ کرلیں، سلف جو فرائضِ حق کو ادا کرنے میں ہر دم مشغول رہتے، پھر
بھی وہ اِس سلسلہ میں اپنے قصوروں (ذنوب) پر ہر گھڑی استغفار کرتے کہ نجانے کہاں
کہاں وہ اپنے فرائض پر پورے نہ اتر پائے ہوں۔ اِدھر ’’فرائض‘‘ کا وہ پورا تصور ہی روپوش؛
اِن اشیاء کا ’’ذنوب‘‘ کے تحت کہیں ذکر ہی نہیں! بلکہ تصور تک نہیں!!! ’’گناہ‘‘
ہوگا ان کے خیال میں کوئی گانا سن کر، فلم دیکھ کر، عورتوں پر نظر ڈال کر یا اِس
طرح کے کسی ’غلط کام‘ کے نتیجے میں... نہ کہ ترکِ واجب کے نتیجے میں!!!
ابھی ’فرائض‘ کے اُس تعصب انگیز تصور کا تو ذکر ہی جانے دیجئے، جس کی رُو سے ’اتباعِ حق‘ کے
نام پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا، لڑائیاں کروانا، عداوتیں کھڑی کرنا، صدیوں تک نہ
تھمنے والی دشمنیاں جاری کروانا، فروعاتِ دین کے ایک ایک مسئلے پر جنگوں کا بازار
گرم کرنا، (’تراویح کی تعداد‘ ایسے ایک مسئلہ پر آپ نے دیکھا ہوگا یہاں پستول نکل
آتے ہیں اور طرفین کے مابین خون ہوجاتے ہیں) اِس جماعت کو اُس کے خلاف اور اُس کو
اِس کے خلاف بھڑکانا اور کدورتوں کو پختہ کروانا یہ سب یہاں کے ’مذہبی‘ انسان پر
عائد کر رکھی گئی ’شرعی ذمہ داریاں‘ ہیں!!!... چنانچہ گناہ اور فساد کی یہ فرقہ
وارانہ صورت جو مسلم وجود کو لخت لخت کرواتی اور نبیﷺ کی امت کو باہم دست وگریباں
کرواتی ہے، ایسے اعمال اور سرگرمیاں تو
’’گناہ‘‘ کیوں ہوں گی؛ یہ تو (اِس فرقہ وارنہ پیراڈائم میں) ’’فرائضِ شرعی‘‘ اور
’’خدمتِ دین‘‘ کا درجہ رکھیں گی! ’’گناہ‘‘
ہوگا: اِس ’فریضہ‘ میں کوتاہی کرنا! ’’گمراہی‘‘ ہوگی: اِس نام نہاد ’طریقِ حق‘ سے
منہ موڑنا!!! پس جو چیز ’فرض‘ ہے اُس سے تائب ہونے کا کیا سوال؟! ’’توبہ‘‘ تو
کروائی جائے گی اِس ’فریضہ‘ میں کوتاہی کرنے سے!!!
یعنی... مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
معاذاللہ، آدمی جتنا ’مذہبی‘ اُتناہی کینہ پرور اور فسادی!
غرض ’’توبہ‘‘ کا تصور درست ہونے کےلیے بھی دراصل ’’اسلام‘‘ کا تصور درست ہونا ضروری ہے۔ ’’عبادت‘‘ کا مفہوم درست ہونا،
’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا معنیٰ واضح ہونا، ’’زندگی کا مقصد‘‘ انسان پر آشکار ہونا،
’’رسولوں کی بعثت اور کتابوں کے نزول‘‘ کی غایت واضح ہونا... یہ سب ’’خدا کی جانب
لوٹ آنے‘‘ اور ’’خدا کی پسندیدہ راہ پر چڑھ آنے‘‘ کا مفہوم واضح کرنے کےلیے ضروری ہے! انسان کا
’’تائب ہونا‘‘یا ’’انابت‘‘ اختیار کرنا یا ’’استغفار‘‘ کرنا توحید کو جاننے اور مقاصدِ
حق کو پہچاننے کے ساتھ براہ راست متعلق ہے۔ چونکہ اصل جھول ایک بڑی تعداد کے ہاں
’’دین کے تصور‘‘ ہی کے اندر موجود ہے، لہٰذا ’’دین کی طرف آنا‘‘ اور ’’خدا کی طرف
لوٹنا‘‘ آج ایک نہایت سطحی و سرسری مفہوم اختیار کر گیا ہے (اور کسی کسی وقت تو
ایک منحرف مفہوم بھی)۔ ’’دین کی طرف آنے‘‘
اور ’’خدا کی طرف لوٹ آنے‘‘ کا مضمون یہاں
کسی کے ہاں درست بھی ہو تو اس میں کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی ملیں گی البتہ دین کی
بڑی بڑی باتیں (امہات الامور) الا ماشاء اللہ اس میں روپوش نظر آئیں گی۔
’’ذنوب‘‘ کا تصور _اکثروبیشتر_ ’ممنوعہ کاموں‘ تک ہی
محدود رہے گا۔
پھر اگر آپ دین کے ’منع کردہ‘ کاموں کو بھی لے لیں،
تو بھی... بداعتقادی، بدعات، گمراہ نظریات، باطل تصورات (جو ہمارے اِس ماحول میں
تعلیم و ابلاغ کے ذریعے ’سانسوں‘ کی طرح انسان کےاندر اترتے اور اس کو قرآنی
تصورات سے دور کرتے ہیں)، دین کی بابت شکوک و شبہات، ضعفِ یقین، اہل باطل کی جانب
میلان ایسی مہلک اشیاء اُن ’’گناہوں‘‘ میں بہت کم گنی جائیں گی جن سے پاک صاف ہونا
’’تائب ہونے‘‘ اور ’’خدا کی جانب لوٹ آنے‘‘ کا حصہ شمار ہوتا ہو!