ڈاکٹر حاتم محمد الحاج
اردو استفادہ: ابراہیم مصطفی
سوال: یقین جانئے میری اس ای میل کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں، پر میں بہت عرصہ سے اس معاملے پر خاموش ہوں اور مسلم کمیونیٹی میں پائی جانی والی سطحیت اور کھا جانے والی خاموشی سے اب مجھے وحشت ہونے لگی ہے۔ مجھے فلسطین پر بے شمار لوگو ں کی پوسٹس دیکھنے کو ملتی ہیں، اور برائے کرم میری بات کو غلط نہ لیجئے گا، مجھے معلوم ہے کہ وہاں بہت ظلم ہو رہا ہے اور میں اس سے انکار نہیں کر رہی۔مگر مجھے ہر طرف، صرف ایک فلسطین کے ہی حق میں ریلیاں اور چندے اور دعاوں کی اپیلز دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ مفتی صاحب… ہمارے افریقی مسلمان بہن بھائی! اس پر کچھ !!؟؟ ڈارفور، صومالیہ ، أورومیا کا مسئلہ؟! اس پر کچھ!؟
جواب:
الحمد للہ وصلاۃ والسلام علی رسول اللہ
میری کوشش ہو گی کہ میں پوائنٹس میں، اس سوال کا جواب دوں کہ آخر فلسطین ہی کیوں؟
پہلی بات تو یہ کہ اسلام انسانوں کے ساتھ نسل اور وطن کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا روادار نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جس بہن نے یہ سوال کیا ہے ان پر بھی یہ بات واضح ہے، سو میں اس بات کو یہاں دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو اس کے لئے دلائل کے انبار لگانا کوئی معقول بات معلوم نہیں ہوتی۔
دوسری بات :جن امراض میں انسانیت بالعموم مبتلا ہے انہی کا سامنا مسلمانوں کو بھی ہے اور اس میں انواع و اقسام کی عصبیت بھی شامل ہے۔ البتہ اسلام نے مسلمانوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور اگر کچھ مسلمان اسلامی تعلیمات سے منہ موڑیں تو یہ باعث تعجب نہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ اسلام نے پنج وقتہ نماز کو فرض ٹھہرایا ہے لیکن اسکے باوجود پھر بھی آج بہت سے مسلمان بے نمازی ہیں۔ دیگر مذہبی گروہوں کے برعکس مسلمان آبادی بالعموم اس طرح کی عصبیت سے بڑی حد تک محفوظ ہے۔ تاریخ اس پر گواہ ہے اور دوست و دشمن یکساں اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ کلو کلکس کلئین ( Klu Kux Klan – KKK ) کا فنامنہ(phenomenon)اور اسی طرح کے دوسرے فینامنن جس پر انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی ، کبھی بھی مسلمان علاقوں میں نہیں دیکھے گئے۔
یہاں مجھے یہ بھی یاد دلا دینا چاہیے کہ غلامی کا مسئلہ، جس کو اسلام نے ہی حل کیا، بلاد اسلامیہ میں کسی مخصوص نسل تک محدود نہیں تھا۔ ہر نسل اور قوم کے غلام موجود تھے، بشمول فارسی اور رومی اور عرب بھی، جو کہ قبل از اسلام غلام بنا لئے گئے تھے۔ اسلام نے مزید کسی مسلمان کو غلام بنانے پر پابندی لگا دی اور غلامی کو، بلا امتیاز نسل، غیر مسلم جنگی قیدیوں تک محدود کر دیا ۔ اس کی بہت سی حکمتیں تھیں اور اگر آپ چاہیں تو ہم اس پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ ( چندوجوہات جیسے کہ ان کی اپنی جان کا تحفظ اور ان کے بھلے مستقبل کی فکر ، دشمنوں سے برابری کا سلوک، جو بدلے میں عرف عام میں ایسا ہی کرتے تھے۔ )
تیسر ی بات : اس سے پہلے کہ میں اس بات کو چھیڑوں کہ’ آخر فلسطین ہی کیوں’ میں کچھ باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کے یہ مسئلہ اس شخص کے لئے شائد مختلف ہو جو امریکہ ہی میں پیدا ہوا اور پھر ادھر ہی پلا بڑھا ، بر عکس اس اکثریت کہ جو مسلم ممالک سے یہاں آکر آباد ہوئی ہے۔ بالفرض اگر ہم اپنے خیالات کا مکمل یا جزوئی اظہار کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو تب بھی ہم اپنے احساسات و جذبات کو آپ تک منتقل کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اگر کوئی یہیں کا پلا بڑھا مسلمان اس کے برعکس محسوس کرتا ہے تو اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہو سکتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے بہت لوگ یہی احساسات اپنےدل میں رکھتے ہیں۔ بہر حال یہ میرا اپنا مشاہدہ ہے نہ کہ کسی طویل بحث کی دعوت۔
صرف فلسطین ہی ہمارے جسم کا واحد حصہ نہیں جس سے آج خون رس رہا ہے۔ جب افغانستا ن نے مدد کی صدا لگائی تو ہزاروں لاکھوں مسلمان ، کیا عرب کیا غیر عرب، سب ہی دیوانہ وار اس عزیز ملک میں اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے پہنچے۔ اور یہی معاملہ چیچنیا ، بوسنیا اور بہت سے دیگر علاقوں کے ساتھ ہے۔ہو سکتا ہے کہ کچھ فلسطینی اور عرب صرف مسئلہ فلسطین تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھتے ہوں، اس کے علاوہ ان کو دوسرے محاذوں سے کوئی سروکار نہ ہو۔ یہ اس لئے بھی ممکن ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اچھے اورباعمل مسلمان نہ ہو ۔ ان کےنزدیک یہ ایک ‘قومی مسئلہ’ کی حیثیت رکھتا ہو۔ مگر اکثریت کا معاملہ ایسا ہرگز نہیں، خاص طور پر ‘صحوۃ الاسلامیۃ’ یعنی ‘اسلامی بیداری’ کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔
اب آئیے اس سوال پر کہ آخر فلسطین ہی کیوں؟
پہلی وجہ: بحیثیت مسلمان ہماری نگاہوں میں اس ارض مقدس کا مقام و مرتبہ
یہ زمین نبی ﷺ کےسفر اسریٰ کی منزل ہے۔ یہ وہ مقام ہے کے جہاں سے آپ ﷺ نے سفر معراج کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں ‘ارض مقدس’ کہا۔ وہ زمین ہے جہاں ہماری تیسری مقدس ترین مسجد موجود ہے۔
قابل احترام بہن، یہ عرب یا افریقی ہونے کا مسئلہ نہیں ! میں خودمصری ہوں۔صحرائے سینا ء جو کہ مصر کا حصہ ہے اور فلسطین سے رقبے میں تین گناہ بڑا ہے، وہ بھی اسی صیہونی دشمن کے زیر تسلط آیا، اور ہماری اکثریت ( مصری عوام نہ کہ مصر ی حکمران) کے نزدیک یہ مسئلہ کل بھی اور آج بھی فلسطین ہی کا مسئلہ ہے نہ کہ سیناء کا مسئلہ۔
سبتة اور مليلية دو مراکشی شہر ہیں جن پر سپین کا قبضہ ہے۔ آپ نے کبھی اپنی عرب سہیلیوں کو اس کا ذکر کرتے سنا ہے؟ میری بہن یہ دو عرب شہر ہیں ! اہل مراکش اس وقت اہل غزہ پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم اور بربریت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کر رہے ہیں۔ جبکہ سپین کے خلاف آپ کبھی ان کو اس طرح کھولتا ہوا نہیں پائیں گی!
عراق ایک دوسرا مقبوضہ عرب ملک ہے، اس کے بارے میں آپ اتنا نہیں سنیں گی جتنا آپ کو فلسطین کے بارے میں سننے کو ملتا ہے، اور اس کی مختلف وجوہات ہیں جن کا علم آپ کو ابھی آگے چل کر ہو جائے گا انشاء اللہ۔
اگر میرے آبائی وطن اسکندریہ( مصر) پر بم گرے ، تو میرے تن بدن میں آگ لگ جائے گی، مجھے اپنے اہل و عیال اور عزیز ،دوستوں کی فکر کھائے گی۔ لیکن یہ غم و غصہ اس غم و غصہ کا عشر عشیر بھی نہیں جو خدانخواستہ مکہ ، مدینہ کے ساتھ ایسا کچھ معاملہ ہونے صورت میں ہوتا۔ مکہ مدینہ پر حملہ میرے دین کےمقدس اور نمایا ں ترین شعائر پر حملہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود عرب، افریقی، ہندوستانی، پاکستانی، بنگلادیشی، ترک، انڈونیشی اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سب حاضرین میری طرح اپنے دل میں یہی جذبات رکھتے ہیں۔
دوسری وجہ: دشمنوں کے اس جرم کی سنگینی
یہ کوئی عام زمینی قبضہ ہرگزنہیں ، یہ ایک قوم کو اس کی زمین سے نکال باہر کرنے اور اس کی ایک قابض قوم کا وہاں لا بسانے کا ایسا جرم عظیم ہے کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایک مظلوم قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ایک دوسری قوم سے replace کرنے کا بےنظیر جرم۔ اس دنیا کے تمام یہودی اس مظلوم قوم سے بزور بندوق چھینی گئی زمین پر جو خوشی خوشی جا کر بس سکتے ہیں، پر اس زمین کے اصلی مالک جو آج بھی اپنے گھروں کی چابیاں واپسی کی آرزویں لگائے اپنے پاس سنبھالئے ہوئے ہیں ،واپس فلسطین نہیں جا سکتے۔
۱۹۴۸ میں چار سو بیس گھروں کو ملیا میٹ کیا گیا ، لوگوں کا قتل عام ہوا، اپنی جان بچانے کے لئے انہیں ملک بدری پر مجبور کیا گیا، صرف اس لیے کہ مشرقی یورپ اور دیگر ممالک کے یہود ان مظلومین کے گھروں، کھیت کھلیانوں پر قابض ہو جائیں۔ مسئلہ فلسطین کی یہ جہت اس کو ان تمام مقامات سے ممیز کرتی ہے جن کا اپنے ذکر کیا ہے۔
یقینا صومالیہ آج لہو لہان ہے، میں نے ہمیشہ اس پر آواز بلند کی ہے اور فی الوقت اس کی قیمت بھی ادا کررہا ہوں۔ مگر اس کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ ایتھوپیا ،صومالیہ کو بحثیت ملک ہی بدل ڈالے گا یا اس کی مسلم آبادی کو کسی دوسری قوم سے سرے سے ہی replace کر دے گا۔ جبکہ اس سے پہلے یہ مسئلہ اہل صومال کے مختلف گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کے باعث پیدا ہوا اور ہمارے دل اس پر خون کے آنسو روتے ہیں۔ لیکن اس کا اثر ہم پر ایک بیرونی حملہ آور جیسا نہیں ہو سکتا۔
علماء اور حٖفاظ کرام کی سرزمین، دارفور، ہم مسلمانوں کا اندر ونی مسئلہ ہے۔ باقی قوموں کی طرح، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، طبعی طور پر ہم کسی بیرونی حملے پر زیادہ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔
مزید برآں ، یہ عظیم قوم کہ جس کی اسلام کے لئے خدمات بے مثال ہیں اور جو ایک عظیم اسلامی ورثہ کی مالک ہے ،آج نہایت کٹھن اور دل سوزمصائب میں گھری ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود اس کا تعلق ایک قوم کو کسی دوسری قوم سے ریپلیس کرنے کا نہیں۔ اس کی جڑیں اس ملک کے اندر پائی جانے والی غربت، بد نظمی، گزشتہ حکومتوں کی کرپشن ، خانہ بدوش اور کسانوں کی وسائل کے حصول پر جنگ و جدل، اور طرفین کی کی گئی ناانصافیوں میں پنہاں ہے۔ جس کا فائدہ لینے میں، اس آگ کو مزید بڑھکانے اور شہ دینے میں ان تمام قوتوں کا ہاتھ ہے جو سوڈان کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔
اس طرح مسئلہ کشمیر اس امت کا ایک اور اہم محاذ ہے جو ہم مسلمانوں کو نہات عزیز ہے ۔ کشمیر کاز کو ہم اپنی، مبنی برحق جدوجہد سمجھتے ہیں اور اس میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں،ہم وہاں پرموجود اپنےبھائیوں کا کرب اور اذیت کو محسوس کرتے ہیں کہ جن پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں۱۸۰ ملین مسلمان بستے ہیں، اور وہاں پر ہمیشہ سے ایسے علما کی ایک تعداد موجود رہی کہ جن کی رائے میں مسلمانان ہند کو برصغیر میں اکٹھے ہی رہنا چاہیے۔ میں ان سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا، پر امید ہےآپ میرا پوائینٹ سمجھ رہی ہیں ۔
تیسری وجہ: دشمن کی نوعیت میں فرق
تحریک صیہونیت ابھی تک اتنی طاقت ور ہے کہ وہ اگر چاہے تو فلسطین کے چیلنج کو مزید بڑھاسکتی ہے۔ ان کی پشت پر سپرپاورز ہیں، جو ہم پر ڈھائے جانے والے سفاکانہ مظالم اورزیادتیوں کی تعید کرنے میں کبھی نہیں چوکتیں بلکہ الٹا ہمیشہ مظلومین کی ہی مذمت میں مستعد نظر آتی ہیں ۔ یہ لوگ نئے قوانین بنا رہے ہیں کہ جن سے انسانیت آج تک نا آشنا رہی۔ یعنی وہ لوگ کہ جن سے ان کے گھر بار چھن گئے، جن کے خاندان ذبح ہو گئے، جن کی زمینیں ہتھیا لی گئیں، جن کے گھر مسمار کر دیے گئے، ان کو لندن اور اس طرح دیگر شہروں میں پر امن احتجاجات کے علاوہ کسی اور چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ البتہ یہ یو این کو خطوط ارسال کر سکتے ہیں، یعنی وہ خطوط کہ جن کو اس مسئلے پر بات چیت کے لئے بلائی جانے والی کسی مزاحیہ میٹنگ سےقبل یا بعد ردی کی ٹوکری کی زینت بننا ہوتا ہے۔
جو قرار داد منظور ہونی ہے اس کے لیے لازم ہے کہ جنرل اسمبلی سے ہو کر آئے، جیسے ۱۹۴، جس کا مطلب ہے اگر اخلاقًا نہیں تو عملاً یہ بالکل بے معنی قرار دادیں ہیں۔ جب بھی سکیورٹی کونسل کوئی قرار داد منظور کرتی ہے جیسے ۲۴۲ یا ۳۳۸، اس کے لیے لازم ہے کے وہ chapter نمبر گیارہ یا بارہ سے آئے، یعنی ‘نا قابل تنفیذ ‘ قرار داد ! بارھواں chapter شائد ہمارے اور ہمارے جیسے کمزور ممالک کے لیے ہی مختص ہے۔
اہل غزہ کی بھوک سے ہونے والی اموات ، جس کا ذمہ دار اسرائیل ہےاور جس پر پچھلے دو سال سے اس ‘انسان دوست’ عالمی برادری کی خاموش حمایت حاصل ہے ، اورستم ظریفی یہ کہ اس ظلم میں میرے ملک کی حکومت (مصر) اور حتی کہ کچھ فلسطینیوں کی شراکت، یہ ایک اور مزید وجہ ہے کہ جس کے باعث ہم شدید کرب میں مبتلاء ہیں۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ یہ سب دیکھ کر ہم پر کیا گزرتی ہے؟ یہ شدید بے بسی اور نامردی … یہ سب ہماری مایوسیوں اور فرسٹریشنز کو بالکل مختلف جہت دیتی ہے۔
چوتھی وجہ: اس ٹریجڈی کی مدت
ایک بار پھر ، اس کی شروعات ۱۹۴۷ سے بہت پہلے کی ہیں، یعنی اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے ۔ اس کی بنیاد تب پڑی جب ۱۸۰۰ میں یورپین یہودی جوق در جوق یہاں کی مقامی آبادی کو ریپلیس کرنے کے لیے لائے گئے۔ بالفور ڈیکللریشن کے بعد معاملہ اور بھی تیز ہو گیا، جب اس وقت کے ‘گریٹ’ برٹن کے وزیر اعظم نے ارض فلسطین یہودیوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا۔ جیسے ہم اور ہماری یہ زمین برطانیہ کی ذاتی پراپرٹی ہو !!
یہودیوں کی اس نقل مکانی کے پورے عرصے میں ، جو کہ جنگ عظیم دوئم کے دوران بہت تیز رفتار اختیار کر گئی، برطانیہ نے، جو کہ خود اس وقت فلسطین پر قابض تھا، یہود کی خوب پشت پنائی کی۔ فلسطینیوں نے جب بھی اپنی قومی بربادی کے خلاف اپنے احساسات کا اظہار کرنا چاہا توان کا قتل عام کیا گیا۔ سابق برطانوی فارن سیکریٹیری، جاک سٹرا نے بھی برطانیہ کے ان شرم ناک جرائم کو تسلیم کیا۔
پانچویں وجہ: فلسطین کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات
وقت کا عنصر یہاں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی برادری کے کھوکھلے نعروں کے باوجود اسرائیل مسلسل غیر قانونی یہودی آبادیاںقائم کر رہا ہے۔ یعنی اس ناتواں جسم میں سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے اور اگر جسم کا مدافعتی نظام اب بھی حرکت میں نہ آیا تو خوف ناک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔ تقسیم کے وقت برطانوی منصوبے میں ہمیں ۴۵ فی صد کا رقبہ دیا گیا (جو کہ ہماری ہی زمین تھی )باوجود اس کے کہ آبادی یہود سے دگنی تھی۔ ۱۹۶۷ میں اسرائیل ۷۷ فی صد حصے پر قابض ہو گیا اور ہمیں ۲۳ فی صد پر قانع رہنے کا کہا گیا، اور آج ہم اس ۲۳ فی صد کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں !
جبکہ جارج بش نے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ہمیں ‘ نصیحت ‘ کرنی چاہی کہ اس قضیے کے حال کے لیے زمینی حقائق کو ضرور مد نظر رکھا جائے گا۔ یعنی اب اگر اس ۲۳فی صد پر بھی یہودی آبادیاں قائم ہو چکی ہیں تو اب وہ ایک حقیقت ہیں جس کو مسلمانوں کو تسلیم کرنا ہو گا، اب اس پورے ۲۳ فی صد کی بھی امید نہ لگائو۔
نہ تو ہم ان کی زیادتیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے اور نہ ہی ان کی مسلط کردہ ایسی شرائط کو ہم مظلوم بن کرتسلیم کریں گے۔
چھٹی وجہ: فلسطین کے خلاف سازش پوری امت کے خلاف سازش ہے
اگر آپ مسئلہ فلسطین کا مطالعہ کریں، اس گھناونی سازش میں شامل ان عا لمی و علاقائی کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں تو یہ بات آپ پر خود بخود واضح ہو جائے گی۔ اسلامی ممالک زمینی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہیں۔ امت کی اس ‘تسلسل عراضی ‘ کا خاتمہ دشمن کے اہم اہداف میں سے ہے۔ یہ ہدف فلسطین پر بالا دستی حاصل کر کے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اس امت کے مقدس مقامات تک کھلی رسائی پانا اور اس امت کے عین قلب میں صیہونی ریاست کا خنجر گھونپنا کوئی معمولی بات نہیں !
معاملہ صرف فلسطین کا تذکرہ کرنے اور مظاہروں تک محدود نہیں، گویا اس سب کی اپنی جگہ افادیت مسلمہ ہے، مگر مسئلہ فلسطین عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔
بغیر اپنے دشمن کو اس سب سے بری الذمہ قرار دیے، ہمیں آج اپنے اوپر خود غصہ آنا چاہیے ۔ یہ ہماری اجتماعی بے حسی اور کمزوری کا نتیجہ ہے۔ہمارے اجتماعی گناہ کا خمیازہ ہے ، یہ ہمارا اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہےکہ آج ہمیں اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ذلت و مسکنت ہم پر مسلط کر دی گی ہے اور ہر بھیڑیا ہم پر جھپٹنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اللہ کو یاد کریں؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں اور مل کراس امت کی بہتری کے لیے جدوجہد کریں؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی مساجد کو آباد کریں اور اللہ سے معافی مانگیں کہ ہم نے اس کے گھروں کو ویران کیے رکھا؟ا ٓج اہل غزہ آگ و خون کی بارش میں مساجد کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ گیارہ سے زائد مساجد کو نمازیوں سمیت شہید کر دیا گیا، پر اہل غزہ کی استقامت کو سلام کہ وہ اب بھی رکنے والوں میں سے نہیں۔
ہم سب نے بہت دیر کر دی، اب یہ وقت ہے کہ ہم اللہ کے آگے سر تسلیم خم کریں ، اس کے اوامر و نواہی کا علم حاصل کریں، اپنےقلوب کا تزکیہ کریں، اعمال صالحہ پر کار بند ہوں اور اس امت کو ان بیماریوں سے نجات دلائیں اور اس کو ایک بار پھر تندرست و توانا دیکھیں۔یہ امت مردہ نہیں اور نہ ہی اس کو موت آئے گی، یہ اس ذات باری تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے۔ موت توحقیقت میں ہمیں آتی ہے جب ہم اسکے ساتھ کیے گئے اپنے عہد کو نبھانے میں ناکام ہوتے ہیں۔
میں معذرت چاہتا ہوںمگر میں اس سے زیادہ اختصار سے کام نہیں لے سکتا تھا۔مجھے امید ہے کہ آپ میں سے جن خواتین و حضرات کے اس سے ملتے جلتے سوالات ہیں ان کے جوابات آپ کو میرے اس جواب سے مل گئے ہوں گے۔ واللہ اعلم
اصل مضمون: