إنا لله وإنا إليه راجعون
شیخ الصحوۃ انتقال فرما گئے
حامد کمال الدین
اُسے شیخ الصحوۃ کہا جاتا تھا۔ یعنی اسلامی بیداری کا استاد۔ یا تحریکوں کا پیر۔
اُسے ’’مجمع البحرین‘‘ سمجھا جاتا تھا… خاص اِس معنیٰ میں نہیں کہ بیک وقت وہ قدیم اور جدید میں مرجع تھا، اور یہ تو بلاشبہ اور بہت سی شخصیات پر صادق آتا ہے… بلکہ اِس خاص پہلو سے کہ وہ ’’تحریک‘‘ کو اٹھا کر ’’سلفیت‘‘ کے گڑھ میں لے گیا اور ’’سلفیت‘‘ کو کھینچ کر ’’تحریک‘‘ کے دھارے میں لے آیا۔ یہاں سے ’’تحریک‘‘ کو ایک اصالت originality میسر آئی اور عقیدہ و فقہ کے کلاسیکل مباحث سے جڑنا ملا… جبکہ عقیدہ کے کلاسیکل مباحث ’’تحریک‘‘ کی صورت کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر پھوٹ پڑے۔ دیکھتےدیکھتے وہ بہت سے ’فاصلے‘ سمٹ گئے جو ’’دین‘‘ اور ’’سماج‘‘ کے مابین پائے جارہے تھے؛ اور جن کے بل پر سیکولر اور لبرل طبقے اب تک معاشرے کو اُلّو بناتے رہے تھے؛ اور جن سے فائدہ لے کر جدت پسند اور ’ریفارمسٹ‘ یہاں اپنی چیزیں بیچتے رہے تھے! کیونکہ ایک محدث یا فقیہ یا ’’عقیدہ‘‘ کا روایتی عالم اپنے زمانے سے بہت کم جڑا ہوا تھا، جبکہ جدید علوم پر دسترس رکھنے والا ایک دین پسند سکالر عقیدہ اور فقہ کی کلاسیکل جہتوں سے بہت کم واقف تھا۔
اُسے اخوان کی فکر میں وہ موڑ سمجھا جاتا تھا جو ’’ڈیموکریسی‘‘ کو جملةً وتفصيلاً رد کرنے اور اس کے جملہ مشتقات و مصنوعات کو ’’جاہلیت‘‘ قرار دینے سے عبارت ہے۔ گو یہ موڑ اصل میں اُس کے بڑے بھائی نے مڑا تھا مگر شہادت پاجانے کے باعث وہ اِن مباحث کو نوجوانوں تک پوری طرح نہ پہنچا پایا تھا۔ بلکہ صرف ڈیموکریسی کی تکفیر نہیں؛ وہ سب فکری آتش فشاں جو جیل کی تاریک کوٹھڑیوں کے اندر اس کے بڑے بھائی سید قطب کے ذہنِ بلاخیز میں پھٹتے رہے تھے اور اسکا بہت سا لاوا ضائع ہوجانے کا ڈر تھا… اُن سب آتش فشانوں کو اُس کا قیدی بھائی یہ پورا عرصہ اپنے ذہن میں سمیٹتا رہا۔ آخر جب وہ سن اکہتر میں مصر کے اُن تاریک زندانوں سے نکل کر ارضِ حجاز میں آیا… تو دیکھنے والے شاید اُسے ایک لٹاپٹا انسان سمجھ رہے تھے جو ارضِ کنانہ سے ہجرت کرکے ام القریٰ کا باشندہ ہوگیا ہے۔ مگر کم ہی کسی کو معلوم ہوگا کہ یہ لٹاپٹا شخص کونسی دولت اٹھائے ’’بستیوں کی ماں‘‘ میں وارد ہوا ہے!
دیکھنے والے اُسے اُس راہب کی طرح دیکھتے تھے جو قصۂ اصحاب الاخدود کے کم سن ہیرو کو خاموشی کے ساتھ ایمان اور عقیدہ کے اسباق پڑھاتا رہا تھا۔ اُسے معلوم تھا، ارضِ کنانہ سے اپنی جان بچا کر… وہ ارضِ حجاز میں ’پاسپورٹ‘ کے ساتھ وارد ہوا ہے جس پر ہر تھوڑے عرصے بعد ’اِقامہ‘ کا ٹھپہ لگتا ہے۔ شاید اُسے معلوم تھا کہ پوری عمر اب اسی ’ٹھپے‘ پر رہنا ہوگا جس سے زیادہ ناقابل بھروسہ چیز دنیا میں ویسے کوئی نہیں؛ خصوصاً ملک فیصل کے رحلت فرما جانے کے بعد۔ اُسے معلوم تھا نہ یہاں نعرے لگانے ہیں۔ نہ جلوس نکالنے ہیں۔ نہ گلے تھکا کر اسلام کی خدمت کرنی ہے۔ نہ شور۔ نہ بڑھکیں۔ ایک خاموش کمرہ۔ ایک میز۔ ایک لیمپ۔ کاغذ کی وافر سپلائی۔ اور دماغ کا ساتھ دینے والا ایک قلم۔ سال بیتتے گئے؛ قلم چلتا گیا؛ اور آخر اس میز سے ایک سیلاب امڈ آیا!!! یہ تالیفات ’ٹھپے‘ کے دیس میں چھپنا بھی منع۔ دست نوشتہ مسودے پریس کی شکل دیکھنے کےلیے پہلے کسی اور ملک میں پہنچتے ہیں؛ اور تب جاکر لوگوں کو محمد قطب کی تصنیفات میسر آتی ہیں۔ ہاں مگر مراکش اور موریطانیا سے لےکر یمن اور عراق تک، نیز مغربی ممالک میں جہاں جہاں عربی پڑھنے والا ’’تحریک‘‘ سے وابستہ نوجوان ہےایسے ایک ایک نوجوان کی میز پر اُس کتاب کا ایک نسخہ پڑا ہوتا ہے! وہ ایک لیمپ جو مکہ میں العزیزیۃ کے محلے کے ایک خاموش گھر کے سٹدی روم میں رات گئے تک جلتا رہتا تھا وہی لیمپ بالآخر مراکش، موریطانیا، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، سوڈان، صومال، یمن، شام، عراق، بلاد خلیج اور دیگر بہت سے ممالک کے بہت سے خاموش کمروں میں جلنے لگتا ہے۔ بڑے عشروں تک وہ روشنی مکہ سے چل کر اسی طرح دنیا بھر کے ایک ایک کمرے میں پہنچتی رہی۔ یہاں تک کہ مشعل سے مشعل جلنے لگی۔
اِس کے علاوہ یہ ’’راہب‘‘ ارض حجاز کے نوخیز دماغوں میں براہِ راست روشنی کرتا رہا۔ اونچے گھرانوں کے چشم وچراغ ’’عقیدہ‘‘ اور ’’اسلامی ثقافت‘‘ کی ہائر اسٹڈیز میں اِس ’’راہب‘‘ کو اپنا سپروائزر بنانے کے خواب دیکھتے، اور کسی خاص قسمت والے کو یہ شرف میسر آتا کہ اُس کا مقالہ اِس خاموش، بردبار، پرہیبت، باوقار عالم کے زیرنگرانی لکھا جائے گا۔ یہ وہ نوجوان تھے جو سعودی سوسائٹی کی کریم سمجھے جاتے۔ اچھے قبیلوں کے۔ بڑے بڑے اچھے مشائخ سے فقہ، حدیث، عقیدہ اور تفسیر پڑھے ہوئے۔ ’’حلقات‘‘ میں دم مار کر بیٹھنے والے۔ عصری معارف کے حصول کی تگ و دو کرنے والے۔ محمد قطب اور ان جیسے کچھ دیگر اساتذہ ایسے نوجوانوں کےلیے غنیمت تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں پورا ایک دبستان جنم لے اٹھا۔ ’’عقیدہ‘‘ میں مفتی ابراہیم اور شیخ ابن باز ایسے ٹھیٹ مشائخ یا ان کے ہاں زانوئے تلمذ طے کرچکے مشائخ سے خصوصی علم اور رہنمائی لینا… اور پھر مودودیؒ، سید قطبؒ اور محمد قطبؒ وغیرہ کے دیے ہوئے خطوط پر جدید علوم وافکار کا مطالعہ… جن میں محمد قطب ان کو براہ راست راہنما اور ایک زندہ مرجع کی حیثیت میں میسر تھے۔ بہت سی گتھیاں ایک زندہ مرجع ہی سلجھا کر دیتا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ بہت سی گتھیاں ایسی ہیں جن کےلیے موقع پر ہی ابن بازؒ، ابن عثیمینؒ اور ابن جبرینؒ وغیرہ ایسے ٹھیٹ علوم کے اساتذہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ نوجوان ایلیٹ بیک وقت اِن دونوں محلوں میں آناجانا رکھتی ہے، دونوں طرف بیک وقت اشیاء کامراجعہ کرتی ہے۔ بلکہ اس لحاظ سے یہ پوری کھیپ ایک منفرد تحصیل کی مالک ہوجاتی ہے اور اپنے دونوں طرح کے اساتذہ پر ایک درجہ فوقیت پا جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے کلاسیکل علوم کے اساتذہ جدید میدانوں میں وہ نظر نہیں رکھتے۔ اس کے جدید علوم کے اساتذہ کلاسیکل چیزوں میں وہ قدمِ راسخ نہیں رکھتے۔ جبکہ یہ نوجوان اِن دونوں مدرسوں میں خوب دم مار کر پڑھتے ہیں اور یہاں سے ایک بالکل نیا مدرسہ جنم لےلیتا ہے: ’’ٹھیٹ سلفیت اپنے عصری لباس میں‘‘۔ کھڑے پانی میں یہ ارتعاش پیدا ہوا دراصل اِن دو دھاروں کی قربت سے؛ اور یہ سہرا بلاشبہ کئی ایک شخصیات کو جاتا ہے مگر ان میں سب سے نمایاں محمد قطبؒ ہی ہوسکتے ہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے، علم اور تحریک دونوں میدانوں کو ایک نیا ٹرینڈ ملا۔ دونوں طبقوں کے موضوعات بدلے۔ توجہ اور ترکیز کے محور بدلے۔ لہجے نئے تشکیل ہوئے۔ ایک نیا مدرسہ سامنے آتا چلا گیا۔ جامعات میں ایک کے بعد ایک کھیپ نکلی۔ جامعات میں آج سے چالیس سال پہلے کے تھیسس اور آج کے تھیسس؛ زمین آسمان کا فرق۔ کچھ ہی دیر بعد، یعنی ستر کی دہائی کے اواخر میں ’’جہادی عمل‘‘ پھوٹ پڑا، اس سے پہلے بلاشبہ ایک بروقت کام ہوچکا تھا۔ یہ علمی جہتیں میسر نہ آئی ہوتیں تو بلاشبہ ہمارا یہ جہاد رُل جاتا۔ (علم سے دور لوگ اب بھی جہاد کو رول ہی رہے ہیں، لیکن علم کے خواہشمندوں کو بلاشبہ اب بہت کچھ میسر ہے)۔اِس قافلہ کے روحِ رواں عبداللہ عزام تھے۔ عبداللہ عزام بذاتِ خود اس مدرسہ سے تھے جو ’’مجمع البحرین‘‘ کا سلسلہ مانا جاتا ہے؛ یعنی وہ اخوانی تحریک کا پانی بھی پی چکے تھے اور پھر سعودی جامعات کے اندر اچھاخاصا وقت بھی گزار آئے تھے۔ جس کے باعث انہیں کلاسیکل حوالوں سے بھی علم میں ایک گہرائی حاصل تھی اور تحریکی وتربیتی پس منظر میں بھی وہ ایک مستحکم بنیاد رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے، اِس مدرسہ کی علمی شمع جلانے والے اگر محمد قطب ہیں، جن سے آگے بےشمار علمی مشعلیں جلیں، تو اِس مدرسہ کی جہادی شمع جلانے والے عبداللہ عزام ہیں، جن سے عالم اسلام کے بےشمار خطوں میں جہادی مشعلیں جل اٹھیں۔ البتہ عبداللہ عزام کے میدان میں آنے سے پہلے وہ علمی بنیادیں اچھی خاصی پختہ ہوچکی تھیں جن کی طرح سعودی جامعات میں اس سے پہلے ڈال دی گئی تھی اور جن کا سہرا بجا طور پر ابن باز، البانی اور محمد قطب ایسے بزرگوں کو جاتا ہے۔
چنانچہ حماس کے بانی، شیخ احمد یاسین ایک موقع پر استاذ محمد قطب سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ محمد قطب کے علم اور راہنمائی کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: استاذ محمد قطب! ہم نے آپ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اور ان سے راہنمائی لے لے کر یہ قافلہ تشکیل دیا ہے۔ ہمارے نوجوان آپ کے علم کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ جبکہ محمد قطب، احمد یاسین کے جگائے ہوئے جہاد اور فدائیت کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں: بھائی ہم نے جو چیز خالی سیاہی سے لکھی، آپ لوگوں نے وہ چیز خون سے رقم کرڈالی!
’’علم‘‘ اور ’’جہاد‘‘ یوں بالآخر ایک دھارے میں ڈھل گئے!!!
یہ وجہ ہے کہ عالم عرب میں نہ صرف معاشرے کی سطح پر ’’تحریکی‘‘ عمل برپا کرنے والی جماعتیں، بلکہ صلیب و صیہون کے لشکروں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ’’جہادی‘‘ حلقے بھی ہمارے اِس ممدوح کو اپنا شیخ اور استاذ سمجھتے ہیں۔ اور ان دونوں سے پہلے؛ عقیدہ و فکراسلامی کے شعبوں سے منسلک اساتذہ ان کو اپنا شیخ مانتے ہیں۔ یعنی علمی حلقے بھی، تحریکی حلقے بھی، اور جہادی حلقے بھی… سب کےلیے وہ ایک بزرگ شخصیت ہیں۔ بہت سے ان سے راہنمائی لینے کےلیے رختِ سفر باندھتے رہے ہیں؛ اور اِس لحاظ سے وہ بیک وقت اسلام کے داعیوں اور سپاہیوں کےلیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔
محمد قطب اپنے علمی مشاغل کے باوجود معاصر جہاد (جس کو وہ افغانستان، فلسطین، بوسنیا وغیرہ ایسے محاذوں تک ہی محدود رکھتے ہیں) کے ساتھ شعوری طور پر ہمہ وقت وابستہ تھے۔ پہلی بار مجھے ان کو پاکستان میں دیکھنے کا موقع اُ س وقت ملا جب افغان جہاد ایک نہایت گھمبیر صورتحال سے دوچار ہوگیا تھا۔ روس کے افغانستان سے نکلتے ہی افغان مجاہد تنظیموں کے مابین ایک رسہ کشی شروع ہوگئی اور اختلافات کا ایک خوفناک سلسلہ سامنے آگیا تھا۔ مقامی طور پر موجود عرب شخصیات نے پوری کوشش کی کہ جہاد کے ثمرات سمیٹنے کے اس موقع پر کسی طرح یہ شیرازہ قائم رکھا جائے، مگر یہ سب مل کر بھی ان اختلافات اور تنازعات کو رفع دفع کرانے میں ناکام رہے۔ تب عرب مجاہدین نے فیصلہ کیا کہ عالم اسلام کی سب سے نامور، مخلص اور باثر شخصیات کو پشاور آنے کی دعوت دی جائے اور وہ اپنی وجاہت اور اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے افغان مجاہد قیادتوں کو قریب لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اِس موقع پر جن ممتاز شخصیات کو اِس بحران کو قابو میں لانے کےلیے پشاور لایا گیا ان میں سے ایک محمد قطب تھے، جنہوں نے اپنے پاکستان قیام کے اُن دنوں میں فارغ اوقات کے دوران متعدد علمی مجلسیں منقعد فرمائیں، جن سے ہمیں بھی استفادہ کا موقع ملا۔ غرض جہادی عمل کی پشت پناہی اور اس کی مدد و اعانت کے حوالہ سے محمد قطب کی حیثیت قابل ذکر ہے۔
بعد کی ملاقاتیں ان کے ساتھ اُسی مکہ کے العزیزیہ محلے میں رہیں۔ اصرار کرنے پر اپنی ایک کتاب بھی اپنے ہاتھ سے ’’اِھداء‘‘ لکھ کر مرحمت فرمائی۔ دعوتی عمل کے بارے میں نصیحت کی درخواست جب بھی کی، یہی فرمایا کہ یاد رکھنا: دعوت کا مضمون لاالٰہ الا اللہ سے کبھی اِدھراُدھر نہ ہو۔ پاکستان کے حوالہ سے ’’استاذ مودودی‘‘ کی جماعت کے بارے میں باربار پوچھتے۔ بلکہ زور دیتے کہ ’’استاذ‘‘ کی جماعت کےلیے جو خدمت اور محنت ہوسکے کی جائے ۔
ہم نے اُن کی کتاب ’’کیف ندعو الناس‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ان سے اس پر اہل پاکستان کے نام کوئی پیغام لکھنے کی درخواست کی، جو کتاب کے شروع میں دے دی جائے۔ جواب میں خاموشی سے اندازہ ہوا یہ کچھ پابندیوں کا حصہ ہے!
ان کے ساتھ ملاقاتوں میں محسوس ہوا، جہادِ فلسطین کے ساتھ دیوانگی کی حد تک پیار رکھتے ہیں۔ ’’یہود کے ساتھ معرکہ‘‘ ان کے خیال میں ہمیں محض کسی ایک محاذ پر نہیں بلکہ بےشمار محاذوں پر لڑنا ہوگا۔ علمی سطح پر یہود کے ساتھ معرکہ میں وہ خود بہت بڑا حصہ ڈال چکے، تاہم وہ اس کے اصل نتائج جہاد کے میدان میں دیکھنے کے متمنی تھے۔
سید قطب کی تحریرات کے کئی ایک مقام جو کچھ اِشکال پیش کرتے تھے؛ ان کو کھولنے میں محمد قطب سے نہایت خوب راہنمائی ملی۔ فرمانے لگے، نوجوان مجھ سے انہی چیزوں کی بابت بہت زیادہ پوچھتے ہیں اور میں ان کو یہی کہتا ہوں سید قطب فتوے لگانے والے آدمی نہیں تھے، اس سطح بینی کے ساتھ سید قطب کو پڑھوگے تو صحیح نتائج تک نہیں پہنچ پاؤ گے۔ اس سطح بینی کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ فکری مخمصے بہت تھوڑی دیر میں آسمان کو چھونے لگے اور تب اخوان میں بھی ایسے لوگ آگے بڑھے جن کو سید قطب کی فکر کا رد کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی، اور تب یہ معاملہ اور سے اور الجھتا چلا گیا۔ فرمانے لگے: جانتے ہو ’’دُعاةٌ لا قضاةٌ‘‘ سید قطب کا اپنا بولا ہوا جملہ ہے؟ (یہ حسن الھضیبی مرحوم مرشد الاخوان المسلمون کی اُس کتاب کا عنوان ہے جس میں انہوں نے سید قطب اور مودودی کی فکر کا رد کیا ہے!)۔ میں نے چونک کر پوچھا: ’’دُعاةٌ لا قضاةٌ‘‘؟ کہنے لگے: جی، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے۔ زینب الغزالی ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں اور وہ سید قطب سے کچھ علمی سوالات پوچھ رہی تھیں۔ زینب الغزالی کے سوالات میں وہی بات آ رہی تھی جو ہمارے نوجوان بھی اکثر سید قطب کے تحریریں پڑھنے کے دوران اٹھاتے ہیں۔ تب سید نے زینب کو کہا: ’’نحن دُعاةٌ لا قضاةٌ‘‘(بھئی ہم لوگوں کو دعوت دینے والے ہیں ان پر حکم لگانے والے نہیں)۔ غرض سید کا منہج لوگوں کو کافر ٹھہرانے کا نہیں ہے۔ یہ ان کو پڑھنے کا ایک نہایت سطح بیں طریقہ ہے۔ پوچھنے پر یہ بھی بتایا کہ ’’لماذا أعدمونی‘‘ کی نسبت سید قطب کی طرف درست نہیں۔ اس میں سید کے وہ بعض بیانات ضرور ہوں گے جو انہوں نے پھانسی کے مقدمہ کے تفتیشی افسران کو تحریری طور پر دیے۔ لیکن انٹیلی جنس کے لوگوں نے جریدہ ’’الشرق الاوسط‘‘ کو وہ سارا تحریری مواد دینے سے پہلے یقینی طور پر اس میں بہت سا زہر گھولا ہے، اور یہ بات کتاب کے مضمون سے بوجوہ عیاں ہے۔ انٹیلی جنس سے حاصل کردہ یہ تحریرات ’’الشرق الاوسط‘‘ میں چھپتی رہیں، بعد میں ان کو اکٹھا کرکے کسی نے کتابی شکل دے ڈالی، ہم اس کو سید قطب کی تالیف کے طور پر اون نہیں کرتے۔ (واضح رہے، تکفیر کی ’بنیادیں‘ کشید کرنے میں اِس کتاب کو بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے)۔
*****
یہ درست نہیں کہ محمد قطب سے صرف عالم عرب میں استفادہ ہوا ہے۔ مغرب کے اسلامی مراکز میں نوجوان محمد قطب کے انگریزی تراجم بہت شوق سے پڑھتے دیکھے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ وسط ایشیا میں محمد قطب کی کتابوں اور کیسٹوں کی مقبولیت نے ہمیں دنگ کردیا۔ یہ 1992 کا واقعہ ہے۔ ایک عرب صحافتی ادارے کے ساتھ وابستہ ہونے کے ناطے مجھے وسط ایشیا جانے کا موقع ملا۔ وادی فرغانہ کے صدر مقام اندی جان کی بابت ہمیں بتایا گیا کہ اسلامی بیداری میں یہ علاقہ اس پورے خطے میں سب سے آگے ہے۔ واقعتاً وہاں مدرسہ کے اساتذہ کی گاڑیوں میں ہم نے محمد قطب کے کیسٹ لگے ہوئے خود سنے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا ہمارے طلبہ و طالبات تو محمد قطب کی کتابوں اور کیسٹوں کے شیدائی ہیں۔ یہ ایک دینی مدرسہ تھا اور ہمیں حیرانی ہورہی تھی کہ یہ وسط ایشیائی ریاستیں ابھی ابھی کمیونسٹ تسلط سے آزاد ہوئی ہیں پھر بھی ان کے مدارس ہم سے کتنا آگے ہیں۔ اسلام کا ’’تحریکی عمل‘‘ جہاں جہاں پہنچا ہے محمد قطب کا تحریری و تقریری سرمایہ وہاں وہاں پہنچا ہے۔
*****
محمد قطب ایک عمومی سطح پر بزرگ مانے جانے کے باوجود بعض مناہج کے حاملین کے ہاں رد بھی ہوتے رہے ہیں۔ جن میں تین طبقے خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
ایک، وہ طبقے جو سلفی دنیا کو زمانے کی نئی حقیقتوں سے آشنا کرانے کے اِس پورے عمل کو سمجھ نہیں سکے اور وہ انہی موضوعات سے چمٹ رہنا مرغوب جانتے ہیں جو عالم اسلام میں آج سے ڈیڑھ دو سو سال پیشتر (استعمار اور استشراق کے آنے سے پہلے) ہماری ضرورت تھے۔ ان سے آگے بڑھنا گویا ان کے ہاں بجائےخود ایک بدعت ہے!
دوسرا، وہ طبقے جو محمد قطب کو ڈیموکریسی کی اس قدر شدید مخالفت کرتا دیکھ کر معاملے کو اپنے ’پرو۔ڈیموکریسی‘ مناہج کے حق میں ایک خطرہ دیکھنے لگتے ہیں۔ وجہ یہی کہ محمد قطب وقت کے جن دو فکری رجحانات کی تصحیح پر بہت زیادہ زور لگاتے رہے ہیں، ان میں سے ایک یہی رجحان ہے جو جمہوری عمل کو اپنے فکری پیراڈائم میں مسلسل جگہ دیتا چلا جا رہا ہے۔
تیسرا، وہ طبقے جو محمد قطب کو مسلم ملکوں میں ’’مسلح تبدیلی‘‘ کے حالیہ عمل پر شدید تنقید کرتا دیکھ کر، اپنے نوجوانوں کو محمد قطب کے افکار سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ دوسرا رجحان ہے جس کی تصحیح کےلیے محمد قطب نے بہت کچھ لکھا اور بولا ہے۔
*****
آپ کی تدفین مکہ مکرمہ کے ’’المعلاۃ‘‘ قبرستان میں ہوئی، جوکہ بذاتِ خود ایک شرف ہے۔ اللہ ہمارے اِس شیخ کو ہماری اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جزائے خیر دے جن کےلیے وہ بہت سی روشنی پیدا کر گئے۔ اللہ ان کی لغزشیں اور کوتاہیاں معاف فرمائے، ان کی حسنات قبول فرمائے اور جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین