روزہ.. ’’انسان‘‘ بننے کی مشق
(ہماری تالیف ’’مضامین رمضان‘‘ سے ماخوذ)
صاحبو! مالک کی بجائے اناج کی بندگی، رازق سے بے اعتنائی پر رزق کی طمع ، نعمت کا پاس اور منعم کی بے وقعتی… پست ہمتوں اور کم ظرفوں کاشیوہ رہاہے۔ روزہ جو اصل معبود کےلئے اختیار ی بھوک رکھ کر ہوتا ہے ، مالک کی خاطر پیاس سہہ کر رکھاجاتاہے، اسی ’’کم ظرفی‘‘ کے مذہب کا انکار ہے…
روزہ کیا ہے؟اس بات کا اعلان کہ دنیا میں خدائی روٹی کی نہیں، روٹی دینے والےکی ہے۔ ہر حال میں اپنا اس سے ایک ہی رشتہ ہے۔ یہ بندگی اور سپاس کا رشتہ ہے۔ بھائیو اس رشتے کو جانے بغیر… منعم کو پہچانے بغیر کھاتے چلے جانا ویسے کہاں کی انسانیت ہے!! اعلی ظرفی تو یہ ہے کہ کھانے سے زیادہ انسان کو کھلانے والے کی قدر ہو اور کمینگی یہ کہ آدمی کو بس کھانے سے غرض ہو!
پیٹ بھرے تو اس کو روٹی کا کمال جاننا کيسا گھٹیا پن ہے! اپنا سارا مبلغ علم روٹی پکانے اور اگانے کا فن سیکھنے تک محدود کرلینا روٹی کے مالک سے بے اعتنائی تو ہے ہی، مگر بھائیو! یہ انسان کی اپنی بھی توہین ہے۔ ’’روزہ‘‘ اِسی قدیمی ’پیٹ پوجا‘ مذہب کا اِبطال ہے۔
لوگ پہلے بھی یقینا ہنستے بستے اور کھاتے پیتے رہے ہونگے۔ مگر بندگی کا مطلب سمجھا کر انسانوں کی طرح کھانا… اور بندوں کی طرح نعمت کا حظ اٹھانا… ان کو محمد ﷺ ہی نے آکر سکھایا ہے۔ انسان کے کھانے اور چارے کا فرق بس اسی ہدایت کے دم قدم سے ہے!! دنیا کے طبیب تو آپ کو کھانے اور چار ے کا فرق صرف ’غذائیت‘ کے اعتبارسے بتا سکیں گے۔ کیلوریوں اور ویٹامینوں کی گنتی کرنا سکھا سکیں گے۔ مگر انسانوں کی طرح کھانا، کسی سوچے سمجھے مقصد کےلئے کھانا، بلکہ اعلیٰ مقصد کےلئے کسی وقت نہ بھی کھانا… اور بہر دوصورت بندگی کا اعتراف کرنا، بلکہ نہ کھانے کی صورت میں شکم سیروں سے بڑھ کر خدا کی تعریف کرنا، بھوکا اور پیاسا رہ کر اپنی بندگی اوراس کی کبریائی کا اور بھی شدت سے اعتراف کرنا… کوئی محمد ﷺ سے ہی سیکھ سکتا ہے!
انسان اور حیوان کا یہ فرق آپ کو سورہ محمد ہی سے معلوم ہوسکتا ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ( محمد:12)
خالق سے کفر کرنے والے بس کھاتے ہیں، چند روزہ زندگی کی موج کرنے میں لگے ہیں، یوں کھاتے ہیں جیسے جانور ،اور آگ ان کا گھر بننے والی ہے
بھائیواور بہنو! سچ تو یہ ہے کہ محمد ﷺ مبعوث نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں اپنی ہی پہچان نہ ہوتی۔ ہم بھی چوپایوں کی طرح رہتے ،کھانے کےلئے جیتے اور روٹی کےلئے مرتے۔ اللہ کا درودہو محمد ﷺ پر جوہمیں بلند قدریں سکھا گئے ۔ ہمیں اعلیٰ ظرفی کا مطلب بتا گئے۔ ہمیں جینے کا مقصد سمجھا گئے ۔بلکہ یو ں کہیئے، جو ہمیں انسان بنا گئے ۔سورہ بینہ پڑھ لیجئے محمدﷺ قرآن کا صحیفہ لے کرنہ آئے ہوتے تو دنیا مان کر دینے والی نہ تھی۔ انسان بن جانے پر تیار نہ تھی۔ پر یہ اللہ کی رحمت تھی کہ اس نے پاکیزہ صحیفے دے کر اپنا آخری رسول مبعوث فرمایا۔ ان صحیفوں میں روشنی بھر دی اورر سول کے ہاتھ یہ مشعل تھمادی جس سے زمین روشن ہوئی اور انسانیت کی کایا پلٹ گئی! جس ماہ اور جس رات انسانوں کو یہ روشنی ملی، اسے یادگار ہونا ہی چاہیے تھا! سو یہ ہدایت ملنے کاجشن ہے۔ آدمی کے انسان بن جانے کی تقریب ہے جس میں ہم اپنی انسانیت نکھار کر اور بندگی کو جلا دے کر شریک ہوتے اور عبادت کا خاص سلیقہ اختیار کرتے ہیں۔ بھائیو!! انسانیت میسر آجانے کا یہ شکر انہ کوئی زیادہ تونہیں! ہدایت کا یہ مول ہی کیا ہے!؟ مگر اللہ زیادہ طلب کرتا ہی کب ہے!
يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرہ 185)
اللہ کو تمہارے ساتھ نرمی ہی مطلوب ہے سختی نہیں۔(بندگی کی یہ ادائیں تم کو سکھا دیں گئیں تاکہ تم خوشی خوشی) روزوں کی تعداد پوری کرلو اور اللہ نے تمہیں بندگی کی جو راہ دکھائی اس پر تم اللہ کی کبریائی کااظہار اور اعتراف کرو اور شکر انہ ادا کرو