"روزہ ڈھال ہے"…رمضان میں بردبار رہنا
تحریر: شیخ سلمان العودۃ
اردو استفادہ: مریم عزیز
Maryam.aziz@eeqaz.org
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:
"الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ" (صحیح البخاری رقم 1894)
روایت ابوہریرہ سے، کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے:
’’روزہ ایک ڈھال ہے اس لیے ( روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت والا برتاوَ۔ اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اس کے ساتھ گالی گلوچ کرے تو بس وہ اتنا کہے کہ: میں روزہ دار ہوں ، میں روزہ دار ہوں‘‘۔
اس رمضان میں جب ہم روزہ رکھیں ، ہماری کوشش کا محور یہ ہونا چاہیئے کہ ہماری عبادات کا رنگ ہمارے اچھے اخلاق میں ضرورجھلکے۔ بطور مسلمان ویسےبھی ہمیں ادب سے آراستہ، مہربان اور نرمی برتنے والا ہونا چاہیئے۔جو دوسروں کے احساسات کو ہمیشہ دھیان میں رکھنے والاہو۔ تاہم روزےجیسی پرمشقّت عبادت مزید احتیاط کی متقاضی ہے۔رمضان میں ہمیں اپنے رویہ اور نفس پرکچھ زیادہ ہی کنٹرول ہونا چاہیئے۔
درگزر کرنا، نرمی اور معافی کا معاملہ کرنا انسان کے بہترین اوصاف میں سے ہے، چاہے رمضان کے مبارک دن ہوں یا سال کے باقی مہینے۔ اور آج کل تواس کی ضرورت شدت سے ہے۔ دنیا کےان تمام مصائب و آلام کے درمیان، اپنی ذاتی زندگیوں کی الجھنوں کے بیچ اکثر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنا چاہیئے۔
حلم و درگزراصل میں غصّے یا مایوسی کی حالت میں خود پرقابو رکھنے کی اہلیت کا نام ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کے ہاتھوں پہنچےنقصان اور ایذاء کے جواب میں ہم خود کو بدلہ لینے سےروکے رکھیں۔ اگر غصّے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا "خون کھول اُٹھتا" ہے، تو بردباری اور عفو کا مطلب ہے کہ ہم لحظے کی اس گرمی میں عقل سلیم کا مظاہرہ کریں اور حالات کو قابو سے باہر نہ جانے دیں۔ کہ گرمی کا علاج تو 'ٹھنڈ رکھنے' میں ہے۔
حلم وبردباری ایک نہایت خوبصورت اورمتوازن رویہ ہے۔گو کہ اس میں غیض و غضب کا نام بھی نہیں مگر اس کا مطلب دوسروں کے قدموں تلے بچھ جانا بھی نہیں ہے۔ جو آدمی بردباری اختیارنہیں کرتا وہ ان دو بد حالتوں میں سے ایک میں مبتلا رہتا ہے۔ یا تو منقلب المزاج، یکدم غصیلا ہوجانے والا… یا پھر بےقدری میں مبتلا، رونے بسورنے والا۔
یہ واضح رہنانہایت اہم ہے کہ حقیقی نرم مزاجی کی کلی دراصل کردار کی مضبوطی سے پھوٹتی ہے، نہ کہ وہ 'صبر' جوضعف وناتوانی، عار وعجزکا نتیجہ ہے۔ علامہ اقبال کےاشعارشاید زیادہ سلیس طور پر یہ بات سمجھا دیتےہیں:
افسوس ، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
متوازن رویہ اسلامی عقیدے کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے۔ حلم وبردباری ایک ایسی بےمثال خاصیت ہے جو جذباتیت پر معقولیت کونہایت متعادل طریقےسے فتح دلاتی ہے۔ انسان ہونے کے ناطے قدرتی طور پر غصّہ ہماری فطرت میں شامل ہے۔ کبھی بھی غصّے میں نہ آنا ایک ابنارمل بات ہے۔ چنانچہ جوشخص اپنےغصّے کوحلم کی ماتحتی میں رکھے وہ غصّے کی حالت سے بےداغ، بلاملامت نکل آتا ہے۔
بلاشبہ کچھ لوگوں کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ غصّے کے بغیر بردباری کا مفہوم نامکمل ہے، کہ ایک شخص کو تبھی حلیم الطبع قرار دیا جاتا ہے جب لوگوں نے یہ دیکھ لیا ہو کہ وہ غصّےکی حالت میں کیسا برتاوَ اختیار کرتا ہے۔
ایک مسلمان کو اس کوشش میں رہنا چاہیے کہ وہ ہرایک کے سامنے یہ خصوصیت اختیار کرے۔ سب سے نفیس لوگ وہ ہوتے ہیں جو ادلے کا بدلہ لینے کی بدعادت سے دور رہتے ہیں۔ جو شخص جہالت کا جواب حسنِ اخلاق سے دیتا ہے وہ خود کو دوسرے پر برتر کردیتا ہے۔ اور ایسا حساب کتاب تو اخلاق کا جواب اخلاق سے دینے میں بھی نہیں ہےجو کہ محض طرفین کو برابری پر لاکھڑا کرتا ہے۔
اسی لئے یہ بہت اہم ہےکہ مسلمان ہر کس وناکس کے ساتھ بردباری اورحلم اختیار کرے۔ اگر اس کا دل ابھی اتنا پختہ نہیں کہ اس نرمی کو محسوس کرسکےتو کم از کم اس کو ظاہری طور پر ہی درگزر اختیار کرنے کوشش ضرورکرنی چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ عمدہ عادت دل کی بزرگی میں تبدیل ہوکر رہے گی۔ کردار کی دوسری صفات کی طرح یہ بھی ایک صفت ہے۔ یا تو قدرتی طور پر یہ کسی شخص کو حاصل ہوتی ہے،یا پھر وہ اسے سیکھتا ہے اور محنت کرکے اپنی ذات کا حصہ بنا لیتا ہے۔
رمضان ہمارے لیےایک آئیڈیل موقع ہے کہ ہم اس خوبی کو اپنانے میں محنت کریں۔ جس طرح ہم روزے کی بھوک پیاس میں کمال ضبطِ نفس سے کام لیتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ یہی کمال ضبطِ نفس ایذاء کے جواب میں اپنی زبان اور ہاتھ کے معاملے میں بھی رکھیں۔ بلاشبہ یوں ہمیں روزے کو ایک ڈھال کی طرح ہی استعمال کرنا چاہیے۔جو ہمیں نہ صرف بھوک پیاس بلکہ بُرے رویے کو بھی برداشت کرنا سکھائے۔
جو ہم سے اُلجھنے کی کوشش کرے ہمارا جواب اُسے یہ ہونا چاہیے: "میں روزے سے ہوں"۔ ہمیں اپنےساتھ ساتھ سامنے والے کو بھی یہ یاد دہانی کرنی چاہیے۔ شائد اسی لیے نبی اکرمﷺ ہمیں خصوصی طور پر دو بار یہ کہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔