روزہ… ایک ذکر
’’روزہ‘‘… ایک
ذکر ہے جو انسان لب ہلائے بغیر کرتا ہے اور پورا دن اس ’’ذکر‘‘ میں گزار دیتا ہے!
سبحان
اللہ! بھوک اور پیاس کا ایسا استعمال کسی دین اور کسی اخلاق فلسفہ نے نہ کرایا
ہوگا جیسا کہ شریعت اسلام نے کرایا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن
قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ بھوک، پیاس اور جنسی تسکین کی خواہش جس انداز سے ایک قدرتی عمل ہے
اور اس کی بابت انسان کو کسی کے ’یاد‘ کروانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ انسان کو آپ
اپنی طرف متوجہ کرتی اور آپ اپنی یاد دلاتی ہے، اس کے اسی قدرتی زور کو اسلام اپنے
رخ پر لے آتا ہے اور اس کی تمام تر شدت کو بہت خوبصورتی سے اپنے حق میں ا ستعمال
کرتا ہے:
جیسے
ہی انسان کی حیوانی خواہشات نے زور مارا ویسے ہی انسان کی روحانی قوت اور فکری
مزاحمت حرکت میں آگئی! جونہی جسم کی کسی جبلت نے اپنا قدرتی عمل کیا ویسے ہی دل ودماغ
نے ایک شعوری عمل کا
آغاز کردیا۔ جسم انسان کو اپنی وقتی
ضرورت بتائے گا اور انسان اس کو اپنی ابدی ضرورت اور اپنی بندگانہ حیثیت بتا کر خاموش کرائے
گا۔ نہ جسم اپنا کام کرنے اور اپنی خواہش بتانے سے رکے اور نہ قلب وذہن کو اپنے اس
شعور اور روحانی عمل سے فراغت ہو۔ یوں دن کی طویل ساعتیں انسان کے ملکوتی خصائص اس کے بہیمی خصائص پر پوری طرح حاوی رہتے
ہیں اور اسی کیفیت میں انسان صبح سے شام کر لیتا ہے …
تاآنکہ
افطار کا وقت آتا ہے۔ افطار وہ منفرد ’کھانا‘ ہے جو انسان اپنی مرضی سے موخر نہیں
کر سکتا۔ گویا اب یہ اس کی ضرورت نہیں! یہ بھی اس کو مالک ہی کا حکم ہے! یہ شخص جو
پورا دن صبر اور استقامت اور عفت اور وقار کا نمونہ بنا رہا، افطار کیلئے اس کی
رغبت اور عجلت بھی اب دیدنی ہے! پورے دن کے اس طویل تربیتی عمل کے بعد کم از کم اس
وقت یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کا کھانا اور پینا محض جسم کے مطالبہ کی تنفیذ نہ
ہو بلکہ اس بار یہ حکم اس کو اوپر سے ہی ملے…! کیوں!؟
تاکہ
واضح ہو کہ مسئلہ دراصل ’حکم‘ کا ہے …
تاکہ
واضح ہو کہ یہ ایک بھرپور انسان ہے اور کھانا اس نے کسی بے دلی یا بے رغبتی یا
دنیا بیزاری کے باعث نہیں چھوڑ رکھا تھا؛ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ اس کی رغبت ’دنیا‘
سے بڑی ہے اور وہ رغبت اب بھی کہیں نہیں گئی ہے …
تاکہ
واضح ہو کہ یہ کوئی ترکِ دُنیا کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ
کسبِ آخرت کا عمل تھا …
اور
تاکہ اس کو یا کسی اور کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ ’بھوک‘ میں خود اپنے اندر
کوئی خوبی ہے …
بھوکا
رہنا فی نفسہٖ کوئی بہادری نہیں۔ پیاسا رہنے کی خود اپنے آپ میں کوئی فضیلت نہیں۔
وہ اخلاقی فلسفے جو بھوک اور پیاس کی کچھ فی ذاتہٖ فضیلت بتاتے ہیں وہ دراصل فضیلت
کی کوئی بنیاد بھوک اور پیاس کے سوا اپنے پاس نہیں رکھتے۔ یہ مفلس ادیان ہیں۔ بھوک
کو فضیلت بخش دینے والی کوئی چیز ہے تو وہ رب العالمین کی بندگی ہے۔ اور جب فضیلت
کی اصل بنیاد یہ بندگی ہے تو پھر یہ جہاں بھی پائی جائے۔ یہ بھوک پر صادق آئے تو
بھوک عبادت اور کھانے پینے پر صادق آئے تو کھانا پینا عبادت!
سبحان
اللہ! ضرورت آدمی کی اپنی اور حکم خدا کا! تاکہ واضح ہو: مالک اپنے بندے کی ضرورت
سے غافل نہیں بلکہ بندے کی ضرورت کا اُس کو بندے سے بڑھ کر پاس ہے … اور جو آج
اپنے بندے کی ضرورت سے غافل نہیں وہ کل اپنے بندے کیلئے اپنے پاس کیا کچھ نہ رکھتا
ہوگا جب بندہ محض ایک دن کا روزہ نہیں بلکہ عبادت کی پوری زندگی گزار کر اس کے
روبرو ہوگا اور جس کو اُس نے نام ہی ’صلے کا دن‘ دیا ہے اور جو کہ ہمیشگی کا دن ہے!
یہی وجہ ہے کہ ’روزہ کھلنے‘ اور ’خدا سے ملنے‘ کا ایک ساتھ ذکر ہوتا ہے:
للصائم فرحتان:
فرحة عند فطرہ وفرحة عند لقاءربہ (صحیح بخاری: رقم
1945)
”روزہ
دار کے نصیب میں دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اس کی روزہ کھولنے کے وقت اور ایک خوشی
اپنے رب سے ملاقات کے وقت“۔
چنانچہ
افطار کی محض ’اجازت‘ نہیں بلکہ ’ہدایت‘ ہوتی ہے! تاکہ بندہ اپنی بندگی کو کسی ایک
ہی صورت میں محصور نہ سمجھ لے … اور تاکہ بندگی کا ایک خوبصورت مضمون محض اپنے ایک
پیرائے کی اوٹ میں نہ چلا جائے … اور تاکہ بندہ اپنے مالک کا صحیح تعارف بھی کر لے
جو صرف ’پابندیاں‘ نہیں لگاتا بلکہ فضل بھی کرتا ہے۔ بلکہ اس کی عائد کردہ
’پابندیاں‘ سب کی سب اس کے لامتناہی فضل کا ہی پیش خیمہ ہیں… اور تاکہ بندے پر
ایمان اور بندگی کا ایک اور لطیف معنی بھی واضح ہو اور وہ یہ کہ خدا کو پانا ’عمل‘
کے زور پرنہیں بلکہ خدا کے آگے عاجزی اور انکساری اختیار کرنے میں ہے اورمطلق اس
کے فضل اور رحمت کا سہارا چاہنے میں:
واعلموا اَنہ لن ینجوا اَحدمنکم بعملہ۔ قالوا: یا رسول اللّٰہ ولا اَنت!؟ قال: ولا اَنا الا اَن یتغمدنی اللّٰہ برحمة منہ وفضل
(صحیح مسلم رقم 5041)
”خوب
جان لو! تم میں سے کوئی بھی محض اپنے عمل سے پار نہ لگے گا“ صحابہ نے عرض کی: یا
رسول اللہ کیا آپ بھی؟ فرمایا: ہاں میں بھی۔ سوائے یہ کہ خدا ہی اپنی رحمت اور فضل
سے مجھ کو اپنی لپیٹ میں لے لے“۔
پس
روزہ عاجزی ہے اور ’بندگی‘ کی ایک منفرد یاد دہانی۔ سحری میں تاخیر اورافطار میں عجلت
روزہ کے اندر بندگی کا رنگ بھر دینے اور بندگی کی اس تصویر کو مکمل کردینے میں
بےحد اہمیت کی حامل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک ایک بات میں بندگی کے بے شمار مضامین
پنہاں ہیں۔
… وخیر الھدی ھدی محمد ﷺ
وشر الامور محدثاتھا …
(ہماری
تالیف ’’مضامین رمضان‘‘ سے ماخوذ)
تحریر
حامد کمال الدین