’’قطب ثانی‘‘ چل بسا!
عبداللہ آدم
پاک دل و پاکباز شیخ محمد قطب ہم سے رخصت ہوئے۔ ‘نرم دمِ گفتگو’ اور ‘گرم دم جستجو’ کے مصداق شیخ کی خصوصیات ان کے اسلوب نگارش میں بھی جھلکتی نظر آتی ہیں۔ حلم و تدبر، آہستہ روی، تحمل اور حقائق کو درجہ بدرجہ دل و دماغ دونوں کے دریچوں سے اتارتےچلے جانا… گویا ایک پھوار جو برس رہی ہویا مہک ،جو نہال کرتی جاتی ہو!
منہج قرآنی اورطبیعت انسانی،دونوں کی یکساںسمجھ بوجھ سے مالامال اس شیخ کی تحریریں اور کتابیں، معاشرتی علوم سے لیکر نفسیات تک اور فکر سے تاریخ تک ہر مشکل کا حل اور ہر معاملے کی گہرائی ناپنے نکلتے ہیں تو شاید ہی کوئی ورق آیات قرآنی سے استشہاد کیے بنا مل سکے! اس سے بھی اگلی چیز خود قرآنی اسلوب بیان کی پیروی ہے جو نہ تو محض جذباتیت کا مرقع ہے اور نہ خالص عقلی استدلال کا گرفتار،بلکہ عقل و وجدان دونوں کو ایک سا مخاطب اور متاثر کرنے کا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ شیخ اپنے ‘بڑے شیخ’ سید قطب کی روایات کا امین ہے جن میں سے ایک یہ قرآنی اسلوب کا اتباع بھی ہے۔چنانچہ ان’قطبین’ کی تحریریں جامع مانع قسم کی تعریفات اور معروف انداز میں ‘علمی بحث’ سے تقریبا خالی ہیں۔ یہاں نظریہ کا بیان اور اس کاعملی اطلاق آپس میں پیوست ہو کر سامنے آتے ہیں۔ دل اور دماغ کو بیک وقت اپیل کرنے کا یہ وہ طرزبیان ہے جو یہاں عوام اور خواص سب کو کفایت کر جائے اور ہر پیچیدہ گتھی اسی سادہ اور فطری انداز میں سلجھانے اور سمجھانے کا ملکہ … ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
پھر قرآن کا مرکز و محور، قرآن کا سارا سفر جس کی یاددہانی سے لبریز ہو،یعنی توحید رب العالمین،اسی لاالٰہ کو ہر ہر میدان میں مرکز نگاہ رکھنا،اسی کے لیے دعوت و جہاد کا علم بھی اور کی طرف حیات انسانی کے ہر ہر شعبے کی سمت درست کردینا۔دھیمی مسکراہٹ والے اس شیخ کے فکر کا لب لباب یہی ہے کہ فکر و نظر، ثقافت و تربیت اور فرد تا معاشرہ…سب کی تشنہ کامی کو توحید کے چشمہ صافی سے فیض یاب ہو کر ہی آسودگی ملے گی ورنہ انسان کی محرومیاں شمار سے باہر ہیں!
“اللہ نے لاالٰہ الا اللہ صرف زبان سے بولنے کو نازل نہیں کیا، یہ حیات انسانی کی حقیقی صورت گری کے لیے اترا ہے تاکہ اسے ان رفعتوں سے ہمکنار کر سکے جو انسان کے شایان شان ہیں اورجن کی وجہ سے یہ دوسری مخلوقات سے افضل قرار پایا ہے۔ تاکہ یہ مٹی میں گندھی حقیر خواہشات ہوں یا روح کی پراگندگی ،یا ہتھیار ڈلوا کر کےطاغوت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردینے والی نام نہاد “ضروریات”… سب سے اوپر کہیں اوپر اٹھتا چلا جائے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پربلندی کا سفر!! اور ایک ایسا معاشرے کی تشکیل جو اللہ کی چاہ رکھتا ہو اور زمین میں امت لاالٰہ الااللہ کھڑی ہو جائے!!”
“اور اس سب کچھ کی تکمیل کے لیے”زباں سے کہہ بھی دیا تو لاالٰہ تو کیا حاصل”! اس کی تکمیل توتبھی ممکن ہے جب زندگی کے تما م شعبے اس سے لبالب ہونے لگیں اور دل کی گہرائیاں اسے جذب کرتی چلی جائیں۔ روئیں روئیں میں چلتی زندہ نبض کی صورت”!
(لا إله إلا الله عقيدة وشريعة ومنهاج حياةآن لائن ورژن صفحہ 19)
سو ہر معاملہ توحید سے جڑا ملے گا اور ہر مسئلے کا حل یہیں سے نکلے گا۔ہر چیز کا سرا یہی ہے۔امت ہے تو لاالٰہ کی، جھگڑا ہے تو الا اللہ کا،دعوت و جہاد،عروج و زوال، احیائے دین اور قیام خلافت سب ایک توحید سے وابستہ ہیں، یہاں اصل موضوع ایک ہے ،اسے باندھا سو رنگ سے جاتا ہے!
“میں نے یہ صفحات اسی بات پر زور دینے کے لیے لکھے ہیں کہ کوئی بھی دوسرا موضوع نہیں ہے!اور ہر وہ موضوع جسے لوگ “دوسرا” سمجھتے ہیں،وہ درحقیقت لا الٰہ الا اللہ کے تقاضوں میں شامل ہوتا ہے۔”
(لا إله إلا الله عقيدة وشريعة ومنهاج حياة:ص 5)
یوں عقیدہ جمود سے نکل کر تحریک میں ڈھلتا ہے تو جاہلیت جدیدہ کی نقاب کشائی اور بیخ کنی ، فکر سے عملی مظاہر تک،یہ شیخ ‘لاالٰہ’کی ضربوں کا قائل نہیں معاشرے میں اس ‘لا’کی کاٹ کو بروئے کار لانے کا قائل ہے۔انسان پرستی(Humanism) کے جملہ مظاہر خواہ وہ سیکولرزم کی صورت میں ہوں یا جمہوریت اور سرمایہ داری کی شکل میں ، آزادی ،مساوات اور انسانی حقوق ایسی خوشنما اصطلاحات ہوں یا طواغیتِ عصر،شیخ کی تحریریں سب کا پردہ چاک کرتی ہیں۔”بیسویں صدی کی جاہلیت”،”انسان مادیت اور اسلام کے درمیان” اور “مغربی و اسلامی فکر کا معرکہ” انہی ضربات کے نام ہیں!
‘بڑے قطب’ کی طرح ‘قطبِ ثانی’ بھی محض فکری دنیا میں غلطاں و پیچاں اور “اگر یوں ہو جائے” کا اسیر محض نہیں ! حالات حاضرہ سے مثالیں اور تطبیقات، اور عملی زندگی کے تجربات کا بیان تحریر کو یکسر نظریاتی ہونے سے “محفوظ” رکھتا ہے ، نظریات کو عملی زندگی میں ڈھالنے کے سلسلے میں بھی محمد قطب کی کتابیں نفسیات انسانی کے بہترین ادراک سے مزین نظر آتی ہیں۔ معاشرتی علوم اور نفسیات کے میدانوں میں اسلامی تناظر کو پیش کرنے کے سلسلے میں شیخ کا شمار عالم اسلام کے پہلے پہلے لوگوں میں ہوتا ہے۔ان تحریروںمیں اسلامی شخصیت اور معاشرے کے اجزائے ترکیبی بھی شرح و بسط کے ساتھ بیان ہوتے ہیں۔ پھر فرد اور معاشرے پر اسلامی نقطہ نظر سے الگ بھی لکھا ہے،مثلا “فی النفس والمجتمع”،”دراسات فی النفس الانسانیہ”اور “التطور والثبات فی حیاۃ البشریۃ” وغیرہ۔
دعوت و تربیت کو لا الٰہ الا اللہ پر مرکوز رکھنا اور مقدار کو بُھلاکر معیار پر توجہ کی ضرورت محمد قطب کے دعوتی و تربیتی نظریات کا عنوان ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دعوت و تربیت کے ذیل میں امت میں عبادت طاغوت کو کچھ ریلیف دلاتے نظریات اور عبادت الٰہی سے غافل کرتے تصورات کی بیخ کنی بھی لازم ہے۔عالم اسلام کے لیے انحطاط سے نکلنے اور عزت و تمکین کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا یہ نسخہ “اپنے اسلامی مفہومات درست کیجئے” اور “دعوت کا منہج کیا ہو؟” میں خوب تفصیل کے ساتھ نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ محمد قطب جاہلیت جدیدہ کے علمی نظریے کے مقابل اس “اسلامی نظریہ علمی” کو مکمل تفصیل کے ساتھ سامنے لائے ہیں جس کی بنیاد سید قطب نے رکھی تھی۔اسی طرح تاریخ کے اسلامی تناظر پر بھی تصانیف موجود ہیں مثلا”حول التفسیر الاسلامی للتاریخ”وغیرہ۔خاص توحیدپر ،کہ آل قطب کی ساری زندگی قلم اور خون سے جس کی گواہی دیتے گزری،”فی آفاق التوحید” اور بالخصوص”رکائز الایمان” تو روانی اور آسان بیانی کا مرقع ہے۔اللہ ہمیں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق لمبی عمر اور نیک عمل پانے والے والے اس بزرگ کے انوارات سمیٹنے والا بنائے جو میدانِ فکر و نظر سے کارگہ ِعمل تک پھیلے ہوئے ہیں۔ آمین