محمد قطب!
عبداللہ آدم
محمد قطب ، سید قطب کے بھائی اور ان سے دس بارہ برس چھوٹے ۔ 94 برس کی عمر پانے والے محمد قطب 4 اپریل 1919 کو اسیوط (مصر) میں پیدا ہوئے۔ 1940 میں قاہرہ یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ماسٹرز کیا اور بعد ازاں اساتذہ کے ایک تربیتی پروگرام کے تحت تربیت اور نفسیات پر ڈپلومہ مکمل کیا۔ محمد قطب 1954 میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے اور کچھ عرصے بعد رہائی عمل میں آئی ۔ 1965 میں دوبارہ اسیری آئی اور چھ سال جیل میں گزارے۔ رہائی کے بعد ستر کی دہائی کے اوائل میں وہ سعودی عرب منتقل ہو گئے اور آخر عمر تک مقیم رہے۔
“ایں ہمہ خانہ آفتاب است” کے مصداق محمد قطب نے اپنے بھائی کی طرح مغربی فکر کے تاروپود بکھیرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکی میدان میں بے نظیر کام کیا۔ اس ضمن میں خود ان کے بیان کے مطابق وہ اپنے بڑے بھائی سید قطب اور اپنے ماموں احمد حسين الموشي سے متاثر ہوئے جو خود شاعر و ادیب تھے اور صحافت و سیاست کے جانے پہچانے شہسوار تھے۔[1] یہی وجہ ہے کہ نفسیات و انسانیات جیسے پیچیدہ موضوعات تک پرمحمد قطب کے طرز تحریر میں دھیمے ادبی رنگ کے ساتھ زبان کی چاشنی پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان کے ماموں ادب سے وابستہ ہونے کے باعث عربی ادب کے عظیم عباس محمود العقاد کے قریبی دوست تھے۔ ماموں کے ساتھ بھانجوں کو بھی العقاد سے قربت رکھنے کا موقع ملا۔ اس پس منظر نے نہ صرف بھائیوں بلکہ بہنوں تک کو ادب کی چاٹ لگا دی۔ چاروں ادب کے شہسوار ہیں۔
سعودی عرب منتقل ہونے کے بعد استاذ محمد قطب مختلف سعودی جامعات سے منسلک رہے، جن میں جامعہ ام القریٰ سرفہرست ہے۔ اس دوران ان نگرانی میں بہت سا تحریکی اور علمی کام ہوا۔ رہے وہ خودتو ان کی 40 کے لگ بھگ تصنیفات کا کینوس تربیت و تزکیہ ، دعوت و تحریک اور مسلمانوں کے فکری مسائل سے لےکر جاہلیت جدیدہ اور اسلام و مغرب کی کشمکش کی مختلف جہات تک وسیع ہے۔ دل میں اتر جانے والے ادبی اسلوب کے ساتھ ساتھ محمد قطب بھی حسن البنا اور سید قطب کے نقش قدم پر اس طرح چلتے نظر آتے ہیں کہ موضوع خواہ کوئی ہو،تزکیہ اور دل کو قران کے نو ر سے منور کرنے کی ایک ایسی رو ساتھ ساتھ چلتی ہے جس میں حکایات اور پرتکلف طریقوں کو چھوڑ کر آیات قرآنیہ اور اسوہ نبوی سے دلوں کو غذا فراہم کرنے کا عنصر غالب ہے۔
ذاتی طور پر ہنوز میں ایمان کے حوالے سے استاذ کی کتاب ” لا إله إلا الله عقيدة وشريعة ومنهاج حياة” کو “سونگھنے” سے آگے نہیں بڑھ پایا ہوں، یہ کتاب زندگی کے ہر میدان کو لاالٰہ سے مربوط کر کے اتنی خوبصورتی سے دکھاتی ہے کہ بے اختیار اسی رنگ میں رنگنے کو جی بے تاب ہونے لگتا ہے۔
استاذ محمد قطب کے شاگردوں میں ڈاکٹرسفر الحوالی اور ڈاکٹرمحمد سعید القحطانی جیسی شخصیات بھی شامل ہیں، شیخ سفر الحوالی کا ڈاکٹریٹ کا مشہور مقالہ “ظاهرة الإرجاء في الفكر الإسلامي” (فکر اسلامی میں ارجاء کا فنامنا) استاذ قطب ہی کے زیر نگرانی لکھا گیا تھا۔
اسلامی تحریکوں کا یہ “بابا” ضعیف العمر ہو نے کے بعد مکہ میں ہی مقیم رہا اور مکہ ہی کی خاک میں آخر روپوش ہوگیا۔ رحمہ اللہ